مدارس کے فضلاء سے چند گذارشات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مدارس کے فضلاء سے چند گذارشات
مدارس کے تعلیمی سال کا اختتام ہے اور امتحانات بالکل قریب ہیں اس موقع پر فضلاء کرام کی خدمت میں چند گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔ امید ہے ان پر ضرور غور و فکر فرمائیں گےخوب محنت
اور لگن سے امتحانوں کی تیاری فرمائیں اللہ تعالی آپ کو دنیا و آخرت میں کامیابیوں سے ہم کنار فرمائے۔
1: عقائد ومسائل اہل السنۃ والجماعۃ پر کاربند رہیں اور انہیں صدق دل سے اختیار فرمائیں۔
اس وقت پوری دنیا میں عموما اور ہمارے برصغیر پاک وہند میں خصوصاً؛ اباحت پسندی ، آزاد خیالی ، فکری یورش ، مغربی افکار ،ذہنی کج روی ،لبرل ازم ، سیکولر ازم اور بے دینی کا زور ہے ایسے پُرآشوب دور میں جہاں عقائد میں خرابیاں پیدا کر دی گئی ہیں وہیں الحاد ورندقہ اور بدعت کا بھوت بھی منہ کھولے کئی سادہ لوح لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اس لیے طائفہ منصورہ اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد ونظریات اور مسائل پر سختی سے کاربند رہیں اور ان کو صدق دل سے اختیار کریں۔
2: مسنون اعمال کی پابندی کریں۔
سنت ایک ایسے نور کا نام ہے جس سے قلوب میں روشنی ، دماغ میں نورانیت، سوچ اور فکر کو جِلا ملتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بدعت کا ناسور سوچ اور فکر پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ دلوں میں تاریکیاں پیدا کرتا ہے اس لیے کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار کا نبوی اصول ہروقت آپ کے ذہن میں رہنا چاہیے۔
3: گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام فرمائیں۔
شَكَوْتُ إلَى وَكِيعٍ سُوءَ حِفْظِيْ
فَأرْشَدَنِي إلَى تَرْكِ المعَاصِيْ
وَأخْبَرَنِي بأَنَّ العِلْمَ نُورٌ

وَنُوْرُ اللهِ لَا يهدى لِعَاصِيْ

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نےاپنے استاد امام وکیع رحمہ اللہ سے اپنے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے گناہوں کو چھوڑنے کی نصیحت کی(اور فرمایا) علم اللہ کا نور ہےاور اللہ کا نور گناہ گار کو نہیں دیا جاتا. آپ نے اپنے اساتذہ سے یہ کئی بار سنا ہوگا اور کتابوں میں پڑھا بھی ہوگا کینہ، غیبت اور حسد وغیرہ شیطانی وار ہیں اس لیے ان روحانی بیماریوں سے ہروقت اپنے آپ کو بچائیں۔
4: مسلک وعقیدہ کے تحفظ واشاعت کی بھرپور محنت کریں۔
اس پر فتن دور میں جہاں اہل اسلام کو تہ تیغ کیا جارہا ہے وہاں اہل باطل ان کے عقائد پر بھی شب خون مار رہے ہیں اور دین اسلام کی تابناک اور مثل آفتاب روشن تصویر پر کفر و شرک اور فسق وفجور کی پرچھائیاں ڈال رہے ہیں۔ ایک ایسا ملغوبہ تیار کرنے میں مصروف عمل ہیں جو ماڈرن اسلام کی صورت میں پیش کیا جا سکے اس میں اسلام کی اساسیات کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ روح جہاد کو نکالنے میں مصروف ہیں اس لیے اسلام کی اصلیت اور حقیقت کو باقی رکھنے کے لیے اس کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ اہل باطل دین دشمن طبقے کا ایک گروہ اپنے آپ اسلامی لبادہ اوڑھے ضروریات دین کا تو انکار نہیں کرتا لیکن ضروریات اہل السنت والجماعت پر طبع آزمائی کر رہا ہے اور اجماعی اور اتفاقی نظریات کو اختلافی اور افتراقی بنانے کے در پے ہے۔ بڑے دشمن کی پہچان کے ساتھ ساتھ اس” خیر خواہ” دشمن اور آستین کے سانپ کو پہچانیے اور اس کے شر سے خود بھی بچیے اور اپنے معاشرے کو بھی بچائیے۔ تحفظ دین کے فریضے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کی اشاعت ، فروغ اور پرچار کی ذمہ داریوں سے خود کو کبھی بری الذمہ نہ سمجھیے بلکہ یہ دونوں آپ ہی کے مناصب ہیں۔
5: جس استاد سے ایک حرف بھی پڑھا ہو اس کا ادب واحترام کریں۔
الدین کلہ ادب۔ ادب وہ پہلا زینہ ہے جس کو عبور کیے بغیر آپ دین کا فیض عام نہیں کر سکتے۔ محض نقوش اور الفاظ کی شناخت کو ہرگز ہرگز علم نہ سمجھیں بلکہ علم اور اس میں پختگی ادب سےہی آتی ہے۔ اس لیے وقتا فوقتا ان کی خدمت میں حاضری دیتے رہا کریں اور ان کے پاس جاتے وقت حسب استطاعت اور حسب منشاء تحائف بھی لے جایا کریں اپنے کام کی کار گزاری ان کو سناتے رہیں اور ان سے مشاورت کو کبھی نظر انداز نہ کریں دین ودنیا کی بھلائیاں آپ کے قدم چومیں گی۔
6: اپنے ساتھ دروس میں شریک طلبہ کے ساتھ معاملات میں گزری رفاقت کا خیال رکھیں۔
اساتذہ کا ادب اور احترام ان کی علو شان کی وجہ سے ہوتا ہے انسان کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اپنے ہم عصر ساتھیوں خصوصا اپنے ہم سبق دوستوں کی دل میں جگہ ہو ان سے گاہے بگاہے رابطہ رکھیں اگر وہ کسی مشکل میں ہیں تو حتی الامکان ان کی داد رسی کریں او ر ان کو اپنے دکھ سکھ میں شریک رکھا کریں۔
7: اکابرو مشائخ پر مکمل اعتماد رکھیں اور اختلافی مسائل میں جمہور امت کا دامن نہ چھوڑیں۔ اکابر کے ساتھ کسی مسئلہ میں رائے کا اختلاف ہو تو اپنی رائے پر اکابر کی رائے کو ترجیح دیں۔
امام اہل السنت شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمدسرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے دار العلوم کراچی میں طلبا کو جو نصیحت فرمائی تھی، میں اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ، فرماتے ہیں:
میں نے تقریبا پچاس سال تک مختلف فکری واعتقادی اور فقہی واجتہادی مسائل پر تحقیق کی اور تحقیق کے دوران بعض علمی وفقہی ایسے مسائل بھی میرے سامنے آئے جن کے بارہ میں ذاتی تحقیق ومطالعہ کی بناء پر میری ذہنی رائے اکابر اہل السنت کی تحقیقی رائے سے مختلف رہی لیکن میں نے تقریری وتحریری طور پر کبھی پبلک کے سامنے اپنی ان ذہنی آراء کا اظہار نہیں کیا۔ اس لیے کہ خود کو اکابر و اسلاف کی علمی و تحقیقی سطح کے برابر لانے کا تصور بھی دل میں پیدا نہیں ہوا۔ ہمیشہ یہی سوچا کہ میری اس ذہنی رائے کے پیچھے تحقیق میں کوئی نہ کوئی کمی موجود ہے۔
اسی سوچ و فکر کے تحت ہمیشہ اپنے اکابر واسلاف کی تحقیقی آراء کو ہی اصح سمجھا، انہی کو دل و جان سے قابل قبول جانا اور انہی کی اتباع و پیروی کو اپنے لیے باعث ہدایت و نجات سمجھا۔ بلکہ ان میں سے بعض مسائل ایسے بھی تھے جن کے بارے میں طویل مدت کے بعد تحقیقی طور پر بھی مجھ پر یہ منکشف ہوگیا کہ اس مسئلہ میں بھی اکابر کی تحقیق و رائے ہی مدلل و محقق تھی۔ میں نے جن دلائل پر اپنی رائے قائم کی تھی وہ تو ریت کا گھروندا تھے۔
اس لیے میں اپنے عزیز علماء کرام اور طلبہ سے درخواست کرتا ہوں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اکابر و اسلاف کی اجماعی واتفاقی تحقیقات وتعلیمات سے کبھی انکار وانحراف نہ کرنا اور نہ ہی کبھی جمہور اہل السنت کا دامن چھوڑنا کیونکہ ہمارے علم وفن اور دیانت وامانت کی انتہا بھی ان کے علم و حکمت کی ابجد کو نہیں چھو سکتی انہی پر اعتماد میں ہماری نجات ہے اور انہی میں ہمارے لیے خیر وبرکت ہے۔
8: دینی مدارس میں علوم ِنبوت کے حصول کے بعد معمولاتِ نبوت کے حصول کے لیے خانقاہوں میں اہل اللہ کی صحبت میں کچھ وقت ضرور گزاریں۔
یعنی کسی اللہ والے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں اصلاحی تعلق قائم فرمائیں اورعلم حدیث میں جیسے آپ کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے اسی طرح کسی شیخ طریقت سے بیعت ہوکر روحانی سلاسل میں اپنی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مضبوط بنائیں۔ اس کے فوائد واثرات آپ اپنی عملی زندگی میں محسوس فرمائیں گے۔
9: اگر آپ محقق ، سکہ بند ، پختہ علم اور بالغ نظر عالم بننے کے خواہاں ہیں توتشدد کی بجائے تسدّد اور تعصب کی بجائے تصلّب والا مزاج بنائیں۔
10: اختلافی مسائل میں گفتگو کرتے ہوئے اعتدال کا خیال رکھیں۔
دلیل اور برہان کی زبان سے اہل باطل کے اوہام و وساوس کی تردید کریں اور فراست وبصیرت کو اپنا کر عملی میدان میں آئیں کسی بھی مسئلے میں راہ اعتدال کو نہ چھوڑیں کیونکہ ہمارے اکابر کا مزاج اعتدال پسندی والا رہا ہے اس کے فوائد ہیں کہ آج فرق باطلہ کے حاملین ہماری طرف کھچے چلے آرہے ہیں دوسروں کے بزرگوں کی پگڑیاں اچھالنا اہل علم وفضل کا شیوہ نہیں ہے۔
میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو علم ِنافع،عملِ صالح اور رزقِ واسع نصیب فرمائے،مسلکِ اہل السنۃ والجماعۃ کی نیک نامی کا ذریعہ بنائے اور آپ کی تمام مساعی کو شرفِ قبولیت عطاء فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم