تعلیم دینی اور دنیاوی؟

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تعلیم………دینی اور دنیاوی؟
اسلام اپنی جامعیت کے باعث ادیانِ عالم میں نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے، یہ محض چند ارکان کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ ایک منظم اور آئینی دستور العمل کا نام ہے،جس میں طبقہ ہائے انسانی کے ہر فرد کے متعلق جدا جدا احکام موجود ہیں۔ رب لم یزل نے ابدی اور غیر متبدل ضابطۂِ حیات میں حضرت انسان کو اس طرف غور و فکر کی مختلف پیراؤں میں دعوت فکر دی ہے۔ سب سے پہلی بنیادی دعوت جو خَلاّق دو جہاں نے دی وہ حصولِ علم کی دعوت ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اقراء باسم ربک الذی خلق
حصولِ علم کو بھی یوں مطلق العنان نہیں چھوڑا بلکہ اپنی خالقیت و ربوبیت سے منسلک کیا تاکہ عقلِ انسانی محض مادیّت پرستی کو سب کچھ نہ سمجھ لے اس کے لاشعور میں میری خالقیت و ربوبیت پیوست ہو کر رہ جائے وہ مادیّت کی چکا چوند اور محیر العقول ایجادات میں اپنے خالق کی بے مثال کاری گری کو بھی نہ بھولے۔
خلق الانسان من علق
آپ تھوڑی دیر کے لیے عقل کے دریچوں کو شعور کی ضو بخش کر دیکھیں کہ جس شخصیت کے لیے آسمانوں کو بلندیاں دی گئی ، زمین کی بساط بچھائی گئی ،سمندروں کو طغیانی، صحراؤں کو وسعتیں عطا کی گئیں ،انس وجن کی تخلیق ہوئی اور دیگر مخلوقات کو وجود دیا گیا ، فرش تا عرش جس کی نبوت و رسالت کے زمزے گائے گئے یعنی وجہ تخلیق کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام تک انبیاء و رسل کو جن کے طفیل نبوت ورسالت کے اعزازات سے نوازا گیا ، جس کو قوم ، قبیلہ ، برادری ، خاندان اور علاقے کی حدود وقیود سے ماوراء ہو کر ساری کائنات کے لیے اسوۂ حسنہ بنایا گیا۔ اس کی اساسی اور بنیادی ترتیب کِس انداز میں کی جا رہی ہے
اقراء وربک الاکرم۔
وحی کے آفاقی علم کے مشعل کو اپنے دست رحمت میں مضبوطی سے تھامیے اور زمانے بھر کے پر ظلمت اور تاریک افکار و خیالات اور اقدار کو ختم کر ڈالیے۔ رسالت کی 23 سالہ محنت کا ثمرہ حجۃ الوداع کے موقع پر ظاہر ہوا جب آپ کی نطقِ نبوت کے یہ موتی جھڑ رہے تھے کہ
الاکل شئی من امر الجاہلیۃ تحت قدمی موضوع۔
صحیح مسلم، رقم الحدیث 1218
اللہ کریم نے مسلم قوم کو ایسا مضبوط منشورِ زندگی عطا کیا ہے جو بعد از زندگی بھی کار آمد اور ذریعہ نجات ہے۔
لیکن مسلماں کہاں کھو گیا ہے؟
اس نے انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص نظام کو اپنانے کی کوشش تو کی لیکن خالقِ دو جہاں کے کامل نظام کو سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ جب تک مسلمان؛ قرآنی علوم سے شناسائی و آگاہی حاصل نہیں کرے گا اس وقت تک زمانے کی زمامِ قیادت و سیادت اس کے ہاتھ نہیں آسکتی ، جب تک پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کوحرز ِجان نہیں بنائے گا اس وقت تک ذلت و رسوائی اس کا مقدر رہے گی۔ اس لیے ہمیں اپنے اصل مقصد ….وحی کی تعلیم … کی طرف آنا ہوگا۔ الحمد للہ ! وطن عزیز میں نئے اسلامی تعلیمی سال کا آغاز ہو چکا ہے مدارس اور مکاتب کی طرف متلاشیانِ حق کھنچے چلے آتے ہیں، لوگوں کے حوصلہ شکن نشتر سہتے ہوئے چلے آتے ہیں۔ گنوار ، دقیانوس ، جاہل ، قدامت پسند، شدت پسند ، محدود سوچ کے حامل ، جاہل ملا، دہشت گرد جیسے القابات سنتے ہوئے بھی چلے آتےہیں، زمانے کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ، دور جدید اور اس کی ضروریات سے غافل۔ جیسی فضول خرافات اور آوازے ان پر کسے جارہے ہیں یہ پھر بھی انہی رستوں پرمسلسل چلے آتےہیں جہاں ان کے لیے قادرِ مطلق کی رضا ، معرفت اور خوشنودی موجود ہے۔
متلاشیانِ حق کا یہ گروہ اپنے اہداف کا تعین کر کے آیا ہے ، یہ کشتیاں جلا کے آیا ہے ، یہ دنیا سے منہ موڑ کے آیا ہے ، یہ غلامی اور کاسۂ لیسی والی زندگی کو خیر باد کہہ کر آیا ہے۔ یہ مرد و زن کی مخلوط اور بے حجابانہ طرز تعلیم سے گریزاں ہے۔ یہ عزت ، وقار ، انس ، مودت ، محبت ، مواخات ، ہمدردی ، ایثار ، وفاداری ، جاں نثاری کا خوگر ہے جو یقیناً اس کودینی مکتب اور جامعات کی چار دیواری میں میسر ہے۔
یہ معاملہ صرف مَردوں کا ہی نہیں بلکہ میری عفت مآب بہنیں اور بیٹیاں بھی یہ عزم مصمم کر چکی ہیں کہ وہ بھی اپنے پیارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے خود کو بہرہ ور کریں گی۔ انہوں نے بھی اپنے بھائیوں کی طرح دینی مدارس کا رخ کیا ہے۔
یہ بھی زمانے کی تلخیاں سہہ سہہ کر بے خود ہو چکی ہیں، اس زمانے نے تو اس کو اپنی بوالہوسی کا شکار بنایا ، عزت و عفت کی اوج ثریا سے قعر ذلت میں پٹخ مارا ، حجاب و نقاب اور پردہ جیسے اصلی زیور چھین کر زمانے نے اس سے بہت برا سلوک کیا۔
وراثتوں سے محروم کیا ، وَنی جیسی ظلم کی چکیوں نے ان کی ہڈیاں بھی پیس ڈالیں ، چند ٹکوں کے عوض عصمت دری کے واقعات نے عورت کی ناموس کو شرمسار کیا۔ لاشک ! جب کوئی خاتون تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتی ہے تو اس کے اثرات اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ پورے خاندان پر مرتب ہوتے ہیں۔
باقی رہا دنیاوی اور انگریزی تعلیم کے بارے میں ہمارا نظریہ؛ سو وہ کوئی نیا نہیں بلکہ ہم شروع سے یہی کہتے چلے آرہے ہیں کہ ہم دنیاوی و عصری اور انگریزی تعلیم کے ہرگز مخالف نہیں بلکہ اس کے اثرات بد سے ہمیں تحفظات ہیں۔
سرخیل دیوبند،تحریکات آزادی ہند کے بانی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ نے 29 اکتوبر 1920ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ نیشنل یونی ورسٹی علی گڑھ کے اجلاس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ
”آپ میں سے جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے اکابر سلف نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان کے سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا فتوی نہیں دیا ہاں یہ بے شک ہے کہا گیا کہ اگر انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا ہے کہ
لوگ نصرانیت کے رنگ میں رنگے جائیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب اور مذہب والوں کا مذاق اڑائیں یا حکومت وقتیہ کی پرستش کرنے لگیں
تو ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا ہی اچھا ہے اب ازراہ ہوش آپ ہی انصاف کیجیے کہ یہ تعلیم سے روکنا تھا یا اس کے اثر بد سے۔”
اس لیے ہم انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں بلکہ اس سے پیدا ہونے والے نظریاتی افکار اور اقدار جوسراسر غیر اسلامی اور غیر انسانی ہیں ان سے دور رہنا چاہتے ہیں ہماری اپنی پہچان ہے ہماری مسلم قوم کا طغرہ امتیاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی ہے گوروں کی نقالی نہیں۔