باہمی تنازعات کا سدباب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
باہمی تنازعات کا سدباب
آئے روز اخبارات جس چیز کی” نوید“ سناتے ہیں، کلیجہ اسے پڑھ کر کانپ اٹھتا ہے۔ حال ہی ایک اخبار پر یہ خبر پڑھنے کو ملی:” تنخواہ مانگنے پر زمیندار کا باپ بیٹے پر تشدد، والد دم توڑ گیا“ اور اس سے چند روز پہلے یہ خبر لرزہ جان ثابت ہوئی:
” گھریلو جھگڑا: ماں نے دو کمسن بچوں کو قتل کر کے خود سوزی کر لی۔“
ہم ایک اسلامی معاشرہ کے فرد ہیں، اسلامی تعلیمات سے اپنے آپ کو بہرہ ور جانتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اسلام جس برداشت، معافی اور سلامتی کی تعلیم دیتا ہے ہم اس سے بے بہرہ ہوتے جا رہے ہیں؟ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
حقیقت میں وہ شخص مسلمان کہلانے کا مستحق ہی نہیں جس کے ہاتھ سے دوسرے کی جان و مال اور زبان سے عزت و آبرو محفوظ نہ ہو۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے بڑھ کر ان آفتوں کی نشاندہی فرما کر ان سے بچنے کی تاکید بھی فرمائی جو باہمی لڑائی جھگڑوں کا سبب بنتی ہیں۔ چنانچہ حدیث نبوی ہے: مومن طعنہ دینے والا نہیں ہوتا، لعنت کرنے والا نہیں ہوتا، فحش کلامی کرنے ولا نہیں ہوتا اور بد کاری کرنے والا نہیں ہوتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے کی اصل روح کو معاشرے میں اجاگر کیا جائے، تعلیمات اسلامیہ کو اپنی زندگیوں میں لایا جائے، برداشت کا مادہ پیدا کیا جائے، باہم محبت، بھائی چارہ، حسنِ سلوک، ملنساری، خندہ پیشانی جیسی صفات کو عام کیا جائے تو یقیناً معاشرے کے اس فساد پر کافی حد تک قابو پایا جا سکے گا اور ہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ کہلائے گا۔
طنز کی چبھن
جب کبھی لادین لابیوں اور غیرمسلم معاشرے میں اسلام دشمن نظریےکی کونپل نمودار ہوتی ہے اغیار تو اغیار رہے کچھ نادان مسلمان دانشوربھی اس کی آبیاری میں کرنے لگ جاتے ہیں۔ دورِ حاضر میں بین الاقوامی سطح پر مسلم قوم کی ترقی کا گراف بہت نیچے ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اور کیا بتلائی جا رہی ہے؟
سائنسی ترقی کے منطقی اسباب اس کے آغاز، عروج اور انجام پر غور و فکر اور اس کی جہات کا تعین کرنے کی بجائے بد قسمتی سے اس کا ذمہ دار اسلام کے آفاقی قوانین کو ٹھہرایا جارہا ہے کہ اسلام مرد وعورت کو برابری اور مساوات کی راہ سے پر چلنے سے منع کرتا ہے جس کی وجہ سے ہم شاہراہ ترقی پر سست روی کا شکار ہیں اگر مرد کے شانہ بشانہ عورت بھی چل پڑے تو ہم بھی معاشرے کی دوڑ میں آگے نکل سکتے ہیں۔ دیگرممالک بالخصوص یورپ میں مرد و زن کی آزادانہ” آزادی“ ہی ترقی کا اصل دارومدار ہے۔ اسی کے بل بوتے وہ ستاروں پر کمندیں ڈال چکے ہیں اورمسلم قوم بسم اللہ کے گنبد میں ابھی تک قید ہے۔
عالمی حالات پر نظر رکھنے والےارباب علم وفضل اور اصحاب حل و عقد بخوبی جانتے ہیں کہ اگر مرد وعورت کی بے لگام برابری ان کا بے محابا اختلاط ہی ترقی کا ذریعہ ہے تو دنیا میں بسنے والی مخلوط قومیں انسانی پابندیوں کے آزاد، تہذیب اور اخلاق سے کوسوں دور خصوصاً افریقہ کے تاریک برِاعظم میں یہ”ذرائع“ گوروں سے کہیں بڑھ کرہیں لیکن وہ ترقی کی بجائے تنزلی اور خط ذلت کے نیچے زندگی بسر کررہےہیں اس لیے یہ کہنا سراسر جھوٹ ہے۔
اس جھوٹ کو پروان چڑھانے کےلیے مغرب نے کئی تانے بانے بُنے۔ عورت کے حسن لطافت، نزاکت اور اس کی فطرت کو برابر ومساوات کی دلدل میں دھکیلا۔ گھر جیسے پرامن ماحول سے نکالا، کندھے سے کندھا ملاکر چلنے کا دلفریب نعرہ دے کردفاتر، شاپنگ سینٹرز، تشہیری ایجنسیوں، فضائی کمپنیوں اور پبلک مقامات پر لاکر مردوں کی دل بستگی کا ذریعہ بنایا۔
اسلام نے عورت کو جو تقدس ، عزت، احترام اور نازک لمس اور بے ضررجذبات کا حامل بنایا تھا اس کو یکسر ختم کر کے معاشی ذمہ داریوں کا بار بھی صنف نازک کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیا اور مرد الگ تھلگ بیٹھ گیا۔
میری ذہنی کیفیت اتھل پتھل سی ہوجاتی ہے جب سوچتا ہوں کہ مخالفین اسلام اور نام نہاد مسلمان بھی اسلام کے کے ضمن میں عورت کے حقوق پر بات کرتے ہیں تو ان کی با توں میں طنزکی چبھن ہوتی ہےوہ اسلامی قوانین اور اس کی آفاقیت کو دقیانوسیت سے تعبیر کرتے ہیں العیاذ باللہ اسلام کو ایک فرسودہ نظام زندگی تصور کرتے ہیں اور اس کے پاکیزہ صفت مزاج کو غیر فطری اور غیر ضروری قرار دیتے ہیں اسلام کے احکامات کو آج بھی اگرعصر حاضر کے تقاضوں کے ضمن میں غور سے دیکھا جائے تو اسلام عورت کو وہ مقام بخشتا ہے کہ جس کی مثال اقوام ِعالم کی قوانین میں کہیں نہیں ملتی۔
اس لیے اہل اسلام سے بالخصوص عرض کرتا ہوں کہ مغرب اور مغربیت زدہ لوگوں کے ورغلانے پراسلامی احکامات کے نقائص مت نکالیں۔ ہاں!کسی بھی اسلامی حکم کی مصلحت،حکمت کی تحقیق کرنی ہوتو اہل بصیرت علماء سے استفسار کرلیناچاہیے۔