حالات کب بہتر ہوں گے؟

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حالات کب بہتر ہوں گے؟
حالات کب بہتر ہوں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینے کے لیے ہر شخص اپنے خیالات کااظہار کرتا ہے۔کسی کی سوچ یہ ہے کہ سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر لینے سے ہم مشکلات کے گرداب سے نکل سکتے ہیں۔ کوئی عصری علوم و فنون میں ترقی کو اس کا مداوا سمجھتے ہیں۔
بعض کی رائے کے مطابق سیاست میں شراکت داری ، بین الاقوامی تعلقات سے اس گتھی کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ جبکہ کچھ مفکرین عسکری قوت اور ایٹمی طاقت کے بل بوتے یہ معرکہ سر کرنا چاہتے ہیں۔ چند افراد ایسے بھی ہیں جن کے عقل کا مقتضاء کثرت زر ہے۔ مال و دولت کی قلت کو تنزلی کا پہلا زینہ گردانتے ہیں۔یوں سمجھیے کہ تمام لوگ بالخصوص مسلم بزبان حال یوں کہہ رہے کہ اقوام عالم میں آگے بڑھنے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو گا؟
اس کی عقدہ کشائی میں سیاست دان ، سائنس دان ، مبصرین ، تجزیہ نگار ، دانشور، حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھنے والے اسکالرز ، تاجر برادری اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی آراء باہم جدا ہیں۔ان کے گورکھ دھندے نے معاملے کو مزید الجھا کر رکھ دیا ہے اور ان کے افکار کی یلغار سے معاشرے میں بڑی بڑی تبدیلیوں نے انگڑائیاں لی ہیں۔دولت کے بے تحاشا حصول اور استعمال نے اخلاقی قدروں کو رونڈ ڈالا ہے۔ باہمی رشتوں میں دراڑیں ڈالی ہیں۔ قوت وطاقت نے جبر و جور کے طوفان مچائے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات نے حق خود ارادیت کو سلب کیا ہے۔ محض عصری علوم و فنون نے انسانی تہذیب اور تربیت سے جداگانہ رخ اختیارکرلیا ہے۔سائنسی ایجادات سے متاثرین لوگ خدائی قدرت کو بھول بیٹھے ہیں۔
ہم حقیقی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکے۔ امن نہیں مل سکا۔سکون کے لیے ہم آج تک بلک رہے ہیں۔شاید منزل کے متعین کرنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ جی ہاں !ہم غلط خطوط پر زندگی کی راہیں تراشتے رہے ہیں۔ خالق کے بجائے ناسمجھ مخلوق سے رہنمائی لیتے رہے ہیں۔ نتیجہ آج تک ہم مصائب و مشکلات کی چکی میں برابر پِس رہے ہیں اور ناکامی کی دلدل میں ہنوز دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں۔
چونکہ حضرت انسان نہایت چالاک بھی واقع ہوا ہے اس لیے اپنی نامرادیوں کا وبال بجائے اپنے اوپر لینے کے دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ بالخصوص جو بات آج زبان زد عام ہے کہ سارا کچھ حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔حکمران ظالم ہیں ، جابر ہیں ، کرپٹ ہیں ، معاشی قاتل ہیں،اقتصادی بربادی کے ذمہ دار ہیں ،اقتدار کے نشے میں مست ہاتھی ہیں ،عدم استحکام کے مجرم ہیں ، غربت کی دہلیز پر ہمیں گھسیٹنے والے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔
بالکل بجا ہے۔ یہ باتیں فرضی نہیں واقعاتی حقائق ہیں۔ لیکن معاف کرنا یہ سب ہمارے مسائل تو ہیں،ان کا حل نہیں۔ محض حکمرانوں کو کوسنا ، سارے حالات کا صرف انہی کو ذمہ دار قرار دینا عقل و انصاف سے غداری کے مترادف ہے۔ہمیں خود کو بھی بدلنا ہو گا۔ اپنے مہربان رب کے دربار میں جھکنا ہوگا۔چنانچہ حدیث قدسی ہے:
اﷲ پاک کا ارشاد ہے: میں اﷲ ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، میں بادشاہوں کا مالک ہوں بلکہ بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے قبضہ میں ہیں جب بندے میری فرماں برداری کرتے ہیں تو میں بادشاہوں کے دلوں کوان کی طرف رحمت وشفقت کرنے کے لیے پھیر دیتا ہوں اور میرے بندے جب میری نافرمانی پر اترآتے ہیں تو میں ان کی طرف بادشاہوں کے دلوں کو غصہ اور انتقام کے لیے متوجہ کردیتا ہوں، پس وہ ان کو سخت عذاب اور تکالیف میں مبتلا کر دیتے ہیں اس لیے خود کو بادشاہوں پر بددعاء میں مشغول نہ کرو بلکہ خود کو ذکر، عجز تضرع میں مشغول رکھو تاکہ میں تمہارے بادشاہوں کے مظالم سے تم کو محفوظ رکھوں۔
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اﷲ فرماتے تھے: حجاج بن یوسف خدا کی طرف سے ایک آزمائش تھا جو بندوں پر گناہوں کے موافق آیا۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ فرمایا کرتے تھے: جب تمہارا ظالم بادشاہ کے ساتھ واسطہ پڑجائے اور اس کے سبب سے تمہارے دین میں نقصان پیدا ہو تو اس نقصان کا کثرت استغفار کے ساتھ تدارک کرو اپنے لئے اور اس ظالم بادشاہ کے لئے۔
عبدالملک بن مروان نے کہا تھا:لوگو! تم چاہتے ہو کہ ہم تمہارے ساتھ ابوبکر وعمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی سیرت اختیار کریں لیکن تم اپنی سیرت ان کی رعیت کی سیرت و خصلت کی طرح نہیں بناتے تم ان کی رعیت کی طرح ہوجاؤ ہم بھی تمہارے ساتھ ابو بکر و عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہما سا معاملہ کریں گے۔
خدائی تعلیمات ، نبوی معمولات اور اسلاف کی تشریحات و واقعات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے مسائل کا حل اطاعت خداوندی ، اتباع نبوی اور اسلاف کے مشن پر چلنے میں ہے۔ جب تک اس میں کمی رہے گی حالات کبھی بھی نہیں سدھریں گے جب ہم من حیث القوم اپنے اس مرض کی تشخیص و علاج کی طرف توجہ کریں گے جو بزبان رحمت کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم خدائی قانون میں صراحت سے مذکورہے یعنی اﷲ کریم کی طرف رجوع ، اس کا ذکر ، تضرع ، دعائیں اور واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃکہ ترقی و حفاظت کے تمام جائز اسباب کو اختیار کرنا تب ہم سب کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا اور تب حالات بہتر ہوں گے۔