تبلیغی جماعت کاتجدیدی کارنامہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تبلیغی جماعت کاتجدیدی کارنامہ
مسلمان ہونے کے ناتے ہم سب کی ایک فکر ہونی چاہیے کہ لوگ جہنم کے عذاب سے بچ کر جنت میں جانے والے بن جائیں اس کے لیے ایک ہی راستہ ہے جسے” سنت” کہتے ہیں۔ محبت واطاعت رسول کی بدولت توحید ملتی بھی ہے ، قائم بھی رہتی ہے
اور کار آمد توحید بھی صرف یہی کہلاتی ہے۔
اسلام کے ابدی قوانین کے نزول کے بعد اس کو تاقیامت باقی رکھنے کے لیے” شعبہ تبلیغ“ کو وجود عمل میں لایا گیا۔ ادوار کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مختلف صورتیں سامنے آتی رہیں۔ تذکیر وموعظت پندو نصائح، درس وتدریس، تعلیم وتعلم درسگاہ ، خانقاہ، مدارس ومساجدمیں تسلسل سے چلتا رہا ہے۔
خیرالقرون گزرا ، صحابہؓ و تا بعین جیسی شخصیات دنیا سے رخصت ہوتی چلی گئیں، فقہاء، علماء، محدثین، مفسرین، اولیاء اورنیک لوگ بھی دھیرے دھیرے جانے لگے۔ اہل اسلام پر جان لیوا مصائب، آزمائش اور امتحانات شکلیں بدل بدل کر آنے لگے۔ تاریخ کے ورق گردانی کرنے سے حاصل مطالعہ یہ ملتا ہے کہ غیر مسلم اقوام پہلے خونِ مسلم کی پیاسی تھی،اہل ایمان کو تہ تیغ کر کے اپنی” فتح“ کے جھنڈے گاڑ دیتی تھی۔ لیکن پھر وقت نے انگڑائی لی خونِ مسلم کے ساتھ ساتھ ان کے ایمان واسلام کو بھی ختم کرنے کے درپے ہوگئیں۔
ان کی طویل محنت کے نتیجے میں اہل اسلام کے قلوب سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نبیادی نقطہ مٹ کر کفر کا دھبہ لگنا شروع ہو گیا ، دنیا کی محبت اور لالچ نے اہل اسلام کو نام نہاد مسلمان بنا دیا تھا۔یہ درست ہے کہ ابھی تک در سگاہ میں دینی احکامات کے سبق پڑھائے جا رہے تھے۔ خانقاہ میں تزکیہ نفوس کی محنت ماند نہیں پڑی تھی لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں ان کی جمعیت میں کمی نظر آرہی تھی۔
اس وقت اہل اللہ کی نظرفراست اور بصیرت قلبی اس خدشے کو محسوس کر رہی تھی کہ اگر معاملہ یونہی رہا تو مذہب اسلام چند دنوں کا مہمان بن جائے گا۔ انفرادی طور پر اس بارے میں پُرخلوص محنتیں بھی کی گئیں لیکن جو فوائداجتماعیت سے حاصل ہوتے ، ظاہر ہے وہ نہیں مل سکتے تھے۔ انفرادی کوشش کا جذبہ اٹھتا پھر حالات کے ستم اسے ٹھنڈا کر دیتے۔
کہتے ہیں بعض ا نسانوں سے اللہ تاریخی اور عالمی کام لیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تکمیلِ دین کا، صحابہ و اہل بیت سے تنفیذِ دین کا ، فقہاء بالخصوص امام اعظم سے ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ سے تدوینِ دین اور اس پچھلی صدی میں اللہ کریم نے علماء دیوبند سے تطہیرِ دین کا خوب خوب کام لیا۔
انہی میں سے ایک شخص جس کی زبان میں فصاحت و بلاغت کی قوت بھی نہ تھی ، جس کی گفتگو میں الفاظ سحر انگیزی، جوشِ خطابت بھی نہ تھا ، معقولی اور فلسفیانہ ذہن بھی نہ رکھتا تھا،حالات کے مارے لوگوں کو لڑنے مارنے کے گُر بھی نہیں سکھلا سکتاتھا لیکن اس کے سینے میں ایسا دل تھا جو ان باتوں پرکڑھتا تھا، وہ لوگوں کی بے راہ روی پر خون کے آنسو روتا تھا۔ اس کے اسی قلبی اضطراب میں رحمتِ حق جلوہ گر ہوئی، اس کے دل پر القاء ہو ا، امت مرحومہ کے ایمان وعمل کو بچانے کے لیے ایک اس طرز کی جماعت تشکیل دو جن کی نیتیں حبِ جاہ اور خواہشات نفسانی سے پاک ہوں،گویا خانقاہی ماحول کا لب لباب ان میں ہو۔ دین کو اپنی اور سارے عالم کی ضرورت سمجھ کر سیکھیں اورسکھائیں گویا درسگاہ کا ماحول بھی ان کو میسر ہو۔ ایک دوسرے کے ایمان وعمل کی تجدید کرتے رہیں۔
جو خدا” کو“ نہیں مانتا اس تک ربِ واحد کی واحدانیت پہنچائیں،جو خدا” کی“ نہیں مانتا اس بھولے ہوئے شخص کو عہد الست یاد کرائیں۔ جو رسول اللہ” کو“ نہیں مانتا اس کو ختم نبوت ورسالت کا عقیدہ دیں اور جو رسول اللہ” کی“ نہیں مانتا اسے” طرزِ زندگی محمد رسول اللہ” سے روشناس کرائیں۔
گلی گلی ، بام بام؛ دین کو عام کریں، عبادات،معاملات،معاشرت، رہن سہن، اخلاقیات یوں کہیے کہ کامیاب زندگی گزارنے کا لائحہ عمل پوری انسانیت تک پہنچائیں پھراس راستے میں آزمائش ، تکالیف، مصائب وآلام، منفی پروپیگنڈے ، دل برداشتہ رویّے آئیں تو ان پر جذباتی پن کا مظاہرہ کرنے کی بجائے” توا صی بالصبر“ کی عملی تصویر بن جائیں۔
الحمد للہ! وہی کچھ ہوا جو خدا کے اس ولی کے دل پر القاء ہوا تھا۔ شروع میں چند غریب، آزاد منش، مسکین طبعیت لوگ اٹھے ان کے اخلاص کی برکت سے اللہ نے سارے عالم کو اسلام کے وجود سے روشناس کرایا۔ لوگ کفر، ارتداد کو چھوڑ کر اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہوئے۔ الحاد ،زندقہ،بدعات ورسومات کو چھوڑ کر” سنت رسول“سے اپنی کامیابیاں حاصل کرنے لگے۔ گویا اس جماعت کا یہ خاموش انقلاب تھا کہ انسانیت کفر سے پلٹ کراسلام لے آئی، اہل اسلام نے نام نہاد مسلمان سے سچے اور سُچے مسلمان کاروپ دھار لیا۔
اس محنت کے ثمرات جب ظاہر ہونا شروع ہوئے تو بعض اہل اللہ کی زبان پر کلمہ تشکر کے ساتھ بے ساختہ یہ بھی نکلا: ”الیاس نے یاس کو آس سے بدل دیا۔” یہ وہی مولانا محمد الیاس دہلوی رحمہ اللہ ہیں جن کے قلب اطہر پر اس کام کا القاء ہوا تھا۔
مولانامحمد الیاس دہلوی کے حالات زندگی پر مشتمل تمام کتب کو پڑھ ڈالیے۔ بالآخر آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے جو حدیث پاک میں ان الفاظ سے ملتا ہے: اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام لوگ ہلاکت میں مبتلا ہونے والے سوائے اہل علم کے۔ تمام اہل علم ہلاکت میں مبتلا ہونے والے ہیں سوائے اہل عمل کے ، تمام اہل عمل ہلاکت میں مبتلاہونے والے ہیں سوائے اہل اخلاص کے اور مقام اخلاص بہت نازک ہے۔
بالیقین کہا جاسکتا ہے کہ بانی تبلیغی جماعت مسنداخلاص پر جلوہ آرا تھے۔ انہی کے اخلاص کی بدولت ساری دنیا میں دین بیداری کے نام پر ایک معتدل ہل چل ہے۔ چنانچہ اپنے ملفوظات میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
“ ہمارا کام دین کا بنیادی کام ہے اور ہماری تحریک درحقیقت ایمان کی تحریک ہے … ہمارے نزدیک امت کی اول ضرورت یہی ہے کہ ان کے قلوب میں پہلے صحیح ایمان کی روشنی پہنچ جائے۔”
بنیادی بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ کسی چیز کو اپنی ضرورت سمجھیں۔ پھر اس کے بعد اس کے حصول کا طریقہ سمجھیں اور جب خود سمجھیں تو اب دوسروں کو بھی سکھلائیں۔ تبلیغی جماعت کی پہلی کوشش دین کی محبت پیدا کرنا ہے اس کے بعد ان کو اس پر چلنے کا طریقہ بتانا ہے اور پھر لوگوں کو اس پر چلنے کی فکر بھی دینی ہے۔
رائے ونڈ،پاکستان میں اسی عزم کی تجدید کی جارہی ہے لاکھوں مسلمان آسائشوں کو خیر باد کہہ کر ایک فکر ، ایک درد……امت مسلمہ کا درد …… لینے کے لیے بیٹھے ہیں۔ اے اللہ! ان کی فکر ، ہمدردی، اخلاص اور محنت کو دیکھ کر ساری دنیا کے انسانوں کے ہدایت کے فیصلے فرما دے۔ ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد!
آئیے عزم کیجیے!
انسان کے اس دنیا میں آنے کا مقصد اپنے خالق کی عبادت کرنا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
میں نے جنات اور انسانوں کو اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔
خداوند قدوس کے اوامر کی تعمیل اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچنا اس کی کامیابی و کامرانی کے ضامن ہیں۔’’عالمی تبلیغی اجتماع رائیونڈ‘‘ اصلاحِ امت اور دین اسلام کو پورے عالم میں پھیلانے کی ایک عالمی محنت کے جذبہ سے منعقد ہوا اور بحمد اللہ تعالیٰ خیر و عافیت سے اختتام پذیر ہوا۔ اہل علم حضرات کے اصلاحی و فکر انگیز خطابات یقیناً ان بھولے بسرے لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں جو راہِ ہدایت سے بہت دور جا چکے ہیں۔اس اجتماع میں مسلمانوں نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی۔ ملک و بیرونِ ملک سے آنے والے حضرات کی ایک ہی فکر تھی:’’اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک طریقے ہماری زندگی میں کیسے آئیں گے؟
ان کی یہ عالمی فکر اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ اگر آج ہم قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلاف کی طرزِ زندگی پر عمل پیرا ہو جائیں تو یقیناً بدامنی، الحاد و بدعت، گمراہی و ضلالت کی جگہ امن و امان، سنت مبارکہ اور ہدایت کے سر چشمے پھوٹیں گے۔اس سے ہمیں یہ فکر ملتی ہے کہ عالم کا نظام اس وقت ٹھیک ہو گا جب انسان حقیقی معنوں میں طاعت باری اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے جذبہ سے سرشار ہو گا۔ آئیے!عزم کیجیے، کہ خود بھی بدلیں اور اپنے ماحول کو بھی بدلنے کی کوشش کریں، نورِ ہدیت سے جہاں اپنی زندگی روشن کریں وہاں دوسروں کی حیات سے بھی تاریکی دور کریں۔