فقہ کی اہمیت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
فقہ کی اہمیت
” اسلام“ اللہ تعا لیٰ کا وہ پسندیدہ دین ہے جسے تا قیا مت با قی رہنا ہے۔اس کے سرچشمہ ہدایت اوردستور یعنی قرآن مجید کی حفا ظت کا وعدہ اللہ تعا لیٰ نے خودفر ما یا ہے۔ ارشاد با ری ہے:
’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون’’
ہم ہی نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبا ن ہیں۔
اللہ تعا لیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی حیا ۃ طیبہ کے ہر ہر گو شے کی حفا ظت فر ما ئی اور اسے بہتر ین نمو نہ قرار دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاۃ طیبہ در اصل قر آ ن کریم کی تشریح وتو ضیح ہے جو آج بھی احا دیث کی کتا بو ں میں موجود ہے۔ دین اسلام جو در حقیقت دستور حیات اور طرز زند گی کا نا م ہے، کا مدار کتا ب وسنت پر ہے۔ قر آ ن کر یم جو منبع رشد وہدایت اور اسلامی فقہ کا ماخذ اول ہے، نے انسانی زند گی کے لیے بنیادی زریں اصو لوں کی نشا ندہی کر دی ہے اور اس کے اجما لی احکام کی تشریح سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے میسر آجاتی ہے اور ان دونوں (قرآن وسنت ) کی رو شنی میں مشابہ اور ہم مثل مسائل پر قیا س کر تے ہو ئے یا علت وحکمت کو پیش نظر رکھتے فقہاءکرا م رحمہم اللہ نے نئے ابھرنے والے مسائل کا حل پیش کیا ہے۔
مسائل کے استباط میں فقہی اختلاف کا ہو نا ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ مختلف فقہی مکا تب فکر وجود میں آئے۔ ان میں سے صرف چا ر کو عا لمگیر شہرت ومقبولیت حا صل ہو ئی اور اہل حق کے نزدیک چاروں فقہا ء کرا م (امام اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شا فعی ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) اہل السنت والجماعت میں داخل ہیں اور انہیں ادب واحترا م کی نگاہ سے دیکھنا ازحدضروری ہے۔ پھر ان چارو ں میں سے سید الفقہاء، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی شخصیت اور ان کی مرتب کردہ فقہ کو جو بے پناہ مقبو لیت حاصل ہو ئی وہ اہل نظر پر مخفی نہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے فقہ حنفی کا مدار قر آ نی دلا ئل ، احا دیث نبویہ اور صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ جا ت پر ہے۔ دوسری وجہ اس میں موجود کشش، جاذبیت اور معقولیت ہے۔ چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو جب کسی مسئلہ کا حل قر آ ن وسنت میں صرا حتاً نہ ملتا تو آپ ان اقوال صحا بہ رضی اللہ عنہم کی طرف رجوع فر ما تے جو اقرب الی القر آ ن والسنۃ ہو تے۔ اگر اقوال صحا بہ رضی اللہ عنہم میں بھی مسئلہ کا حل نہ ملتا تو خداداد صلا حیت کے بل بو تے پر اجتہاد فر ما تے تھے۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک شوریٰ قائم فر مائی تھی جو چا لیس صاحب علم وفضل شخصیات پر مشتمل تھی۔ جب کو ئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس کا حل قرآن وحدیث اور اقوال صحا بہ میں نہ ملتا تو اجتہاد فر ما کر مجلس شوریٰ کے سامنے بیا ن کرتے اور باوجود فقہی بصیرت ،مہارت تا مہ اور وسیع النظر ہو نے کے صا ف لفظو ں میں یہ اعلان فر ما تے:
’’ھذارای نعمان بن ثابت۔ یعنی نفسہ۔ وھو احسن ماقدرنا علیہ فمن جا ء باحسن منہ اولیٰ بالصوا ب’’۔
(حجۃ اللہ البا لغہ1/384)
یہ نعمان بن ثا بت (یعنی میری را ئے ہے )کی را ئے ہے اور ہمیں جہا ں تک قدرت حاصل ہو ئی اس میں یہ بہترین قول ہے اور جو کوئی اس سے بہتر قول پیش کر سکے تو وہ زیا دہ صحیح ہے۔
ایک ایک مسئلہ پر مہینہ بلکہ اس سے بھی زیادہ مدت تک بحث ومباحثہ جاری رہتا مجلس شوریٰ میں سے ہر ایک زیر بحث مسئلہ پر را ئے قائم کرتا۔ جب کسی رائے پر دلائل کھل کر سامنے آ جا تے، ایک جانب راجح ہو جاتی تو امام صا حب کے حکم سے قاضی ابو یو سف رحمہ اللہ اس مسئلہ کو زیب قر طا س فر ما لیتے اس طریقہ سے فقہ حنفی کی تدوین ہو ئی۔
فقہ کی تدوین کی ضرورت کیو ں پیش آئی؟ اس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ قرآن وسنت میں بہت سے مسائل واحکام کو وضاحت کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے جیسے توحید، رسالت ، اثبات قیا مت، حرمت شراب، تجا رت کی اجاز ت ،حرمت سود، حرمت خنزیر ،احکام طلاق اور احکام نکا ح وغیرہ۔
مگر بہت سارے ایسے مسائل جو زند گی کے مختلف گو شو ں سے متعلق تھےان کے با رے میں صرف اصول وقواعد کے ذکر کرنے پر اکتفا ء کیا گیا جو گردش زمانہ کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لیے مشعل راہ بن سکیں۔
مثال کے طور پر موجودہ زمانہ ہی کو دیکھ لیجئے کہ اس میں جدیدٹیکنالوجی مثلاًپرنٹ میڈیا،الیکٹرونک میڈیا کو بہت عروج حاصل ہو رہا ہے اور ہر آنے والادن گذشتہ دن کی بنسبت مزید ترقی کی جا نب گا مزن ہے۔ امت کو آئے روز نت نئے مسائل کا سامنا ہے، جن کا حل قر آ ن وسنت اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم میں وا ضح طور پر موجود نہیں۔
مثلاً شیئرز کی خرید وفروخت کا حکم ، الکحل ملی ہو ئی دوائیوں کا حکم ، بینکا ری کا مسئلہ، تکا فل کی شرعی حیثیت ،ٹیلفون اور انٹر نیٹ پر نکاح کا شرعی حکم ،زند ہ جا نورو ں کی تو ل کر خرید وفروخت کا حکم ، کمپنیوں کے ملٹی لیول مارکیٹنگ اور ان کا شرعی حکم ، فاریکس کے کا روبا ر اور اے ٹی ایم کا رڈز کی شرعی حیثیت وغیرہ وغیرہ۔
تو فقہا ء کرا م جنہیں اللہ تعا لیٰ نے فقاہت اور فہم وفراست کا غیر معمولی حصہ عطا ء فر ما یا اور جو قر آ نی آیت:
’’لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم۔۔ الآیۃ’’
(سورۃ نسا ء:83)
کا مصداق ہیں وہ ان نصوص اور اصول وقواعد کی رو شنی میں مسائل کا استنباط کر کے امت کے سامنے نمایاں فر ما دیتے ہیں، فقہ حنفی پر ہزاروں ،لا کھو ں نہیں بلکہ بلا مبا لغہ کروڑں انسان پھولوں پہ شہد کی مکھی کی طرح امنڈ پڑے اور ان مسائل کو اپنے لئے کا میا بی کا ذریعہ سمجھ کر قبول کر لیا۔
ایک با ت کا یہا ں ذکر کر نا منا سب ہے کہ فقہ قر آن وحدیث کے مقابل کوئی تیسرا علم نہیں بلکہ ان کی تو ضیح وتشریح کا نا م ہے۔ بعض لو گ یہ با ور کرا نے کی کوشش کرتے ہیں کہ فقہ پر عمل کر نے والے قر آ ن وسنت کے تا رک ہیں اور فقہ بدعت ہے۔
یہ لو گ در حقیقت مغا لطہ دیکر سادہ لوح مسلمانو ں کے دلو ں میں ائمہ مجتہدین اور فقہ کے خلاف نفر ت کا بیج بو تے ہیں اور یہ بات ارباب عقل و دا نش سے پوشیدہ نہیں کہ فقہ وفقہا ء سے نفرت گمرا ہی کا پہلا زینہ ہے ،ورنہ اجتہاد کا وجودتو خود عہد رسا لت میں بھی تھا جیساکہ حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اس پر شاہد ہے۔
عصر حاضر میں پائے جانے والے اختلافاف اور فرقہ پرستی کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ناقص العلم و العمل لوگ جو شائد اجتہاد کی ابجد سے بھی واقف نہ ہوں، کی” تحقیقات“ کی بجائےان فقہاء کی فقہ پر عمل کیا جائے جو صحیح معنوں میں قرآن و سنت کے صحیح عالم بھی تھے اور ان پر عامل بھی۔
ہمہ جہت شخصیت …………امام ابو حنیفہ ﷫
جامع المسانید اور تاریخ بغداد یہ تاریخی شہادت موجود ہے: ربیع بن یونس کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ؛ امیر المومنین ابو جعفر منصور کے پاس آئے اس وقت دربار میں امیر المومنین کی خدمت میں امام عیسیٰ بن موسیٰ بھی تشریف فرما تھے۔ عیسیٰ بن موسیٰ نے امیر المومنین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے امیر المومنین!ھذا عالم الدنیا الیوم۔ یہ اس وقت روئے زمین کے بہت بڑے عالم ہیں۔ امیر المومنین ابو جعفر منصور نے امام اعظم سے دریافت کیا: اے نعمان امام ابوحنیفہ کا پورا نام نعمان بن ثابت ہے آپ نے کن لوگوں کا علم حاصل کیا؟ امام اعظم رحمہ اللہ نے جواباً ارشاد فرمایا: میں نے فاروق اعظم ، علی المرتضیٰ ، عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کا علم حاصل کیا ہے۔یہ سن کر امیر المومنین ابو جعفر منصور نے بے ساختہ کہا:” اے ابو حنیفہ !آپ علم کی مضبوط چٹان پر کھڑے ہیں۔”
آج سے کئی صدیاں پیشتر امام عیسیٰ بن موسیٰ نے جس بات کی خبر دی تھی کہ ھذا عالم الدنیا الیوم۔ یہ اس وقت روئے زمین کے بہت بڑے عالم ہیں۔ آج تلک اس میں صداقت ٹپکتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ابو حنیفہ شخصیت و کردار کے خوبصورت ، جامع الصفات مجموعے کا نام ہے۔ ایک ایسے سرسبز و شاداب پہاڑ کی مانند جس کے چاروں اطراف سے صاف چشمے ابل رہے ہوں۔
ابو حنیفہ …………….علم کا نام ہے۔ ابو حنیفہ……………….عمل کا نام ہے۔
ابو حنیفہ………………ولایت کا نام ہے۔ ابو حنیفہ……………….تقویٰ کانام ہے۔
ابو حنیفہ………….خشیت الہٰی کا نام ہے۔ ابو حنیفہ………………للہیت کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………دینی تفقہ کا نام ہے۔ ابو حنیفہ………….قانون دانی کا نام ہے۔
ابو حنیفہ………آئین ساز ی کا نام ہے۔ ابو حنیفہ…….دستور ساز ی کا نام ہے۔
ابو حنیفہ………فراد سازی کا نام ہے۔ ابو حنیفہ…علم کلام کے موجد کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….علم فقہ کے مدون اول کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….علم حدیث سے استنباط کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….علم تفسیر میں پختگی کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….علم مناظرہ میں فتح کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….بشارت نبوی کا عملی مظہر کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….شاہوں کے دربار میں استغناء کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….تجارت کے میدان میں التاجر الصدوق کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….میدان کار زار میں استقامت کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….اہل باطل پر خدائی یلغار کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….اہل حق کے لیے نصرت و کامیابی کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….مفسرین کے عظیم استاد کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….محدثین کے جلیل القدر شیخ کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….فقہاء کے سرتاج کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….دینی سیاست کے اصولوں کا نام ہے۔
ابو حنیفہ……………….باہمی اخوت ، ہمدردی ، ایثار و بھائی چارگی کا نام ہے۔
الغرض! ابو حنیفہ ایک ایسی سوچ ، تدبر ،تفکر ،تفقہ اور زاویہ نگاہ کانام ہے جس میں عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کے ساتھ دنیا و دین کی بھلائی حاصل کی جاسکتی ہے