پارہ نمبر:17

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پارہ نمبر:17
سورۃ الانبیاء
اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے سترہ انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا ہے اس لیے سورة کا نام بھی سورة الانبیاء رکھ دیاگیا۔
سورۃ الانبیاء مکی سورۃ ہے۔ مکی سورتوں میں زیادہ تر تین بنیادی عقائد توحید،رسالت اور آخرت کا ذکر ہے۔ اس سورۃ میں بھی ان مضامین کو بیان کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ دیگر سترہ انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ کرکے منکرین رسالت کو سمجھایاگیا ہے کہ جس طرح سابقہ انبیاء علیہم السلام انسان اور بشر تھے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بشر یعنی انسان ہی ہیں۔
نبی بشرہی ہوتاہے:
﴿ لَاہِیَۃً قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوَی ٭ۖ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ ہَلۡ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَ اَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۳﴾﴾
مشرک لوگ انبیا ء علیہم السلام کی دعوت کو رد کرتے اور بنیاد یہ بناتے کہ تم بشر ہو اور ہم بھی بشر ہیں، بشر نبی نہیں ہو سکتا۔ بشر کی تعریف یہ ہےکہ ذو عقل ہو اور محسوس ہو۔ محسوس ہو نے کا معنی کہ آپ اس کو ہاتھ لگانا چاہیں تو لگا سکیں، پکڑنا چاہیں تو پکڑ سکیں، دیکھنا چا ہیں تو دیکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ بشر ہی کو نبی منتخب کرتے تھے۔ جیسے آیت نمبر 7 میں ہے
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ﴾
ہم نے جب بھی کسی کو نبی بنایا تو مرد اور بشر ہی کو بنایا۔
تقلید کا ثبوت:
﴿فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۷﴾﴾
اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔ اس سے پتا چلا کہ آدمی دو قسم کے ہیں ؛ بعض وہ ہیں جن کےپاس علم ہے اور بعض وہ ہیں جن کے پاس علم نہیں ہے۔ جن کے پاس علم نہیں ہے وہ ان سے پوچھیں جن کے پاس علم ہے اور پوچھنا تبھی ہوتا ہے جب عمل کرنا ہو وگرنہ پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سے تقلید ثا بت ہوتی ہے کہ غیر اہلِ علم؛ اہلِ علم سے پوچھیں۔
توحید خداوندی پر نقلی دلیل:
﴿لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ﴿۲۲﴾﴾
اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ زمین وآسمان میں ایک خدا ہے، کئی خدا نہیں ہیں۔ تو یہاں تعدُّدِ اِلٰہ کی نفی کی ہے کہ اگر آسمان و زمین میں ایک سے زائد خدا ہو ں تو آسمان وزمین میں فساد ہو جائے یعنی یہ سب تباہ وبرباد ہوجائیں۔ چونکہ آسمان وزمین میں فساد نہیں ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ ایک سے زائد خدا بھی نہیں ہیں۔
وعدۂ موت:
﴿کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ﴿۳۵﴾﴾
اس آیت میں بالعموم ہر انسان کو موت سے ڈرایا گیا ہے کہ کسی بھی جاندار نے اس فانی دنیا میں باقی نہیں رہنا۔ بالخصوص مشرکین مکہ کو ڈرایا گیا ہے۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ ہم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی موت کے منتظر ہیں۔ ان کی مراد یہ تھی کہ جب ان پر موت آئے گی تو ہم خوشیاں منائیں گے۔ اس آیت میں انہیں ڈرایا گیا ہے کہ موت تو سب پر آنی ہے۔ ان مشرکین پر بھی آنی ہے تو پھر خوشی کس بات کی منانا چاہتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :ہم تمہیں اچھی اور بری حالتوں میں مبتلا کر کے آزماتے ہیں اور تمہیں ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔
فائدہ:
اھل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وقوع موت کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں،بلکہ خطبہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جو صحیح بخاری میں ہے، میں موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں لہذا اس آیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات فی القبر کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ اس آیت میں وقوع موت کی خبر دی ہے، وقوع موت کا ذکر نہیں ہے۔ حیات فی القبر دلائل شرعیہ سے ثابت ہے۔ حیات فی القبر کی نفی میں اس آیت کو پیش کرنا جہالت ہے۔ اللہ تعالیٰ فہم عطا فرمائیں۔
وزن اعمال:
﴿وَ نَضَعُ الۡمَوَازِیۡنَ الۡقِسۡطَ لِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَیۡئًا ﴿۴۷﴾﴾
قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائے گا جس کے ذریعے لوگوں کے تمام چھوٹے، بڑے، اچھے اور برے اعمال تولےجائیں گے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کوئی ایسی صورت بنا دیں گے جس سے اعمال کی حقیقت واضح ہوجائے گی۔ ہم ان باتوں پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ رُشۡدَہٗ مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۵۱﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کی اعلی قابلیت کی بنیادپر رشدوہدایت عطا فرمائی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم بت پرست تھی اور آپ علیہ السلام کے والد خود بت بنا کر فروخت کرتے تھے۔ قوم اپنا جشن منانے کےلیے میلے میں چلی گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام موقع پاکر بت خانہ میں گئے اور کلہاڑے سے سارے بتوں کو توڑ کر ختم کردیا۔ جو بڑا تھا اس کے کندھے پر کلہاڑا رکھ کر واپس تشریف لے آئے۔ جب قوم میلے سے واپس آئی تو دیکھا کہ بت ٹوٹے پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا ایک نوجوان سے سناتھا وہ ہمارے بتوں کا تذکرہ خیر نہیں کرتے تھے ان کا نام ابراہیم (علیہ السلام )ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سوال:
﴿قَالُوۡۤا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۲﴾ قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۳﴾﴾
انہوں نے پوچھا کہ اے ابراہیم! ہمارے بتوں کے ساتھ یہ معاملہ آپ نے کیا؟ فرمایا: نہیں، یہ حرکت ان کے اس بڑے سردار نے کی ہے، انہی بتوں سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں! تو انہوں نے کہا اے ابرا ہیم! آپ جانتے ہیں کہ یہ تو بات بھی نہیں کر سکتے، ان سے کیا پوچھیں؟
﴿بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ "یہ حرکت ان کے اس بڑے سردار نے کی ہے" بظاہر درست نہیں کیونکہ بڑے بت نے تو یہ کام نہیں کیا تھا بلکہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے خود انہیں توڑا تھا۔ اس کی بہترین توجیہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد ان کے عقیدے پر طنز کرنا تھاکہ تم لوگ دن رات یہی رٹ لگاتے ہو کہ سب کچھ یہی بت کرتے ہیں، یہی خدا ہیں، بگڑی بناتے ہیں، جس کو چاہیں تباہ کر دیتے ہیں تو اسی نے مارا ہے؛ پوچھ لو اسی بڑے سے۔ اب وہ لاجواب ہوگئے اور بتوں کا عجز ان پر ظاہر ہوگیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مراد بھی یہی تھی۔
حضرت داود اور سلیمان علیہما السلام کا اختلاف رائے:
﴿وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ اِذۡ یَحۡکُمٰنِ فِی الۡحَرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِیۡہِ غَنَمُ الۡقَوۡمِ ۚ وَ کُنَّا لِحُکۡمِہِمۡ شٰہِدِیۡنَ ﴿٭ۙ۷۸﴾﴾
دونوں باپ بیٹا اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔ ایک آدمی کی بکریاں دوسرے کے کھیت کو کھا گئیں۔ حضرت داود علیہ السلام نے فرمایا کھیت کی قیمت کا اندازہ لگاؤ کہ کتنی قیمت بنتی ہے؟معلوم ہوا کہ بکریوں کے برابرقیمت بنتی ہے، آپ نے فرمایااس کی بکریاں کھیت والے کو دے دو۔ جبکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: جس کی بکریاں ہیں وہ اس کے کھیت میں کام کرے اور کھیت والا بکریاں لے کر چَرائے اور بکریوں کا دودھ پیے۔ جس وقت بکریوں نے کھیت کھایا تھا جب دوبارہ اتنا ہو جائے تو بکریاں ؛بکریوں والے کو دےدو اور کھیت والا اپنا کھیت سنبھال لے۔
یہاں نص موجود نہیں تھی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف رائے ہوا۔ اللہ تعالیٰ نےکسی کی بھی تردید نہیں فرمائی بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس مسئلہ میں بنسبت حضرت داود علیہ السلام کے سمجھ زیادہ دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب غیر منصوص مسائل میں دو انبیاء علیہم السلام کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے تو جہاں نص نہ ہو وہاں امتیوں کے اجتہا د میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ جس طرح اجتہادی مسئلہ میں دو انبیاء ماجور ہیں اسی طرح ائمہ مجتہدین اور ان کے مقلدین بھی ماجور ہیں۔
حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ اَیُّوۡبَ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿ۚ۸۳﴾﴾
حضرت ایوب علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش آئی۔ ساز وسامان، گھر بار،آل واولاد سب ختم ہوگئے، خود بیماری میں مبتلا ہوئے۔ آپ علیہ السلام کی اہلیہ نیک خاتون تھیں آپ کی خدمت کرتی رہیں۔ پھر ایک وقت آیاآزمائش ختم ہوئی اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ دوبارہ عطا فرمادیا۔
حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ ذَاالنُّوۡنِ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۸۷﴾﴾
حضرت یونس علیہ السلام کی قوم شرک کیا کرتی تھی، آپ نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اگر تم باز نہیں آؤ گے تو تین دن بعد تم پر عذاب آئے گا۔ جب تین دن گزرے، آخری رات آئی تو حضرت یونس علیہ السلام بستی سے باہر چلے گئے کہ قوم پر عذاب آ رہا ہے۔ قوم پیچھے سے گڑگڑائی، معافیاں مانگیں․․․ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول کیا اور عذاب کوختم فرمادیا۔
حضرت یونس علیہ السلام کا بغیر حکم الٰہی اپنے اجتہاد کی بنا پر بستی سے چلے جانا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا تو آپ پر عتاب ہوا۔ آپ کشتی میں سوار ہوئے پھر مچھلی نے نگل لیا چند دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے اور یہ دعا مانگتے رہے
﴿لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۸۷﴾﴾
دعا قبول ہوئی اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے آپ کو باہر کنارے پر رکھ دیا۔ اس طرح کے واقعات انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے بالکل خلاف نہیں ہوتے کیوں کہ انبیاء علیہم السلام منجانب اللہ معصوم ہوتےہیں۔
غلط فہمی کا ازالہ:
﴿اِنَّکُمۡ وَ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ؕ اَنۡتُمۡ لَہَا وٰرِدُوۡنَ﴿۹۸﴾﴾
اس آیت میں ہے کہ مشرکین اور جن کی وہ عبادت کرتے ہیں یعنی تمام معبودان باطلہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی تھی کہ پھر حضرت عُزَیر اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی بھی لوگوں نے عبادت کی تھی تو کیاوہ بھی جہنم میں جائیں گے؟اگلی آیت
﴿ اِنَّ الَّذِیۡنَ سَبَقَتۡ لَہُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰۤی ۙ اُولٰٓئِکَ عَنۡہَا مُبۡعَدُوۡنَ﴾
میں اس کا جواب موجود ہے کہ جن کےبارے میں اچھا انجام مقدر مقرر ہوچکا ہے وہ (حضرت عزیر،حضرت عیسیٰ علیہما السلام ) اس جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔
رحمۃ للعلمین:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾﴾
اس آیت میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام عالمین کےلیے رحمت ہونابتایاگیا ہے۔ عالَم انسان، عالَم جن، عالَم جمادات؛ الغرض تمام عالَم اس میں داخل ہیں۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سورۃ الحج
اس سورۃ میں حج کے اعمال اور بنیادی ارکان بیان کیے گیے ہیں اس لیے اس کا نا م سورۃ الحج رکھ دیاگیا ہے۔
قیامت کی ہولناکی:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ۚ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱﴾﴾
قیامت کی ہولناکی کو بیان کیا گیا کہ وہ ایسا خوفناک منظرہوگاکہ اس دن دودھ پلانے والی عورت اپنے بچے کوبھول بیٹھے گی اور حمل والی عورت اپناحمل گرادے گی۔ لوگوں کی حالت ایسی ہوگی گویا کہ وہ نشے میں ہیں حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا عذاب بہت سخت ہوگا اس لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔
بعث بعد الموت:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّنَ الۡبَعۡثِ فَاِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ﴿۵﴾﴾
گزشتہ آیات میں قیامت کاذکر تھا اب بعث بعد الموت کابیان ہورہاہے۔ اللہ رب العزت نے قیامت کا ذکر فرمایا اور دوبارہ اٹھائے جانے پر بطور دلیل انسان کی تخلیق کو بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کیسے بنایا ہے کہ تمہاری غذا کا بنیادی عنصر مٹی ہے، مٹی سے پھر غذائیں نکلتی ہیں، انسان وہ غذائیں کھاتا ہے تو ان غذاؤں سے پھر نطفہ بنتا ہے، وہ باپ کی پیٹھ سے ہو کر ماں کے رحم میں جاتا ہے، اس کے بعد پھر خون بنتا ہے اور جم کر ایک لوتھڑے کی شکل اختیار کر جاتا ہے، پھر بوٹی بنتی ہے، پھر ان میں ہڈی آتی ہے۔ توان مراحل سے گزرکر بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ابتدائی تخلیق کی تو دوبارہ اسے بنانا کیا مشکل ہے؟
دنیوی فائدے کےلیے ایمان قبو ل کرنا:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ ۚ فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ﴿۱۱﴾﴾
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لےآئے تو بعض لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تاکہ دنیاوی فوائد مل سکیں مگر جب ان کی مراد پوری نہ ہوئی تو انہوں نے دین اسلام سے پیٹھ پھیر کر کفر اختیار کر لیا۔ تو اس آیت میں بتایاجارہا ہے کہ ان لوگوں نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی کھوئی اور یہ سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔
حاسدین کا غیظ و غضب میں جلنا:
﴿مَنۡ کَانَ یَظُنُّ اَنۡ لَّنۡ یَّنۡصُرَہُ اللہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ فَلۡیَمۡدُدۡ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآءِ ﴿۱۵﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اپنے نبی کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ وہ ایک رسی لے آسمان پر چڑھ جائے اور وہاں جا کر آنے والی وحی اور رابطے کو کاٹ ڈالے تاکہ نبوت کو ملنے والی اللہ کی مدد آنا ختم ہوجائے اور اگر یہ شخص ایسا نہیں کر سکتا تو پھر اپنے گلے میں رسی ڈال لے اور خودکشی کرکے مر جائے لیکن خدا کی مدد ختم نہیں ہو گی۔
کعبۃ اللہ کی تعمیر:
﴿وَ اِذۡ بَوَّاۡنَا لِاِبۡرٰہِیۡمَ مَکَانَ الۡبَیۡتِ اَنۡ لَّا تُشۡرِکۡ بِیۡ شَیۡئًا وَّ طَہِّرۡ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡقَآئِمِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ ﴿۲۶﴾﴾
بیت اللہ کی پہلی تعمیر جو حضرت آدم علیہ السلام نے فرمائی تھی وہ منہدم ہو گئی تھی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وہ جگہ بتا دی جہاں احاطہ کعبہ تھا کہ اس کو دوبارہ تعمیر فرمائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے بیت اللہ کی تعمیر فرمائی۔ پھر حکم ہوا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں اور دور کے راستوں سے ان سواریوں پر سوار ہو کر آئیں جو لمبے سفر کی وجہ سے دبلی پتلی ہو گئی ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مقام ابراہیم پر پتھر پر کھڑے ہوکرآواز لگائی کہ خانہ کعبہ بن گیا ہے، حج کرنے کےلیے آؤ۔
حج کے افعال، طریقہ کار،اور احکامات کی تفصیلات کےلیے میری کتاب "حج وعمرہ" ملاحظہ کیجئے!
ایام ِقربانی:
﴿وَ یَذۡکُرُوا اسۡمَ اللہِ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ﴿۫۲۸﴾ ﴾
قربانی یعنی جانور ذبح کرنے کے دن مخصوص و متعین ہیں اور وہ 10، 11 اور 12 ذوا لحجہ ہیں۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ
یعنی معلوم دنوں سے مراد یوم نحر یعنی دس ذوا لحجہ اوراس کے بعد دو دن ہیں یعنی گیارہ اور بارہ ذوا لحجہ۔ یوں قربانی کے کل دن تین بنتے ہیں۔
قربانی کا مقصد:
﴿لَنۡ یَّنَالَ اللہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ﴾
اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ کے ہاں تمہارا تقویٰ اور اخلاص پہنچتا ہے۔ ہم جو قربانی کرتے ہیں اس سے مقصود جانور کو ذبح کرنا ہے۔ جانور کا گوشت مقصود نہیں ہے۔ قربانی کرنے والا سارا گوشت خود کھا لے یا سارا تقسیم کردے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہاں البتہ خود کھانے کی صورت میں تقسیم کرنے کا ثواب نہیں ملے گا۔
قربانی کا مقصد اور منشائے خداوندی خون بہانا ہے تو قربانی کے جانور کے پیسے غرباء میں تقسیم کرنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہذااس سےان لوگوں کی تردید ہوجاتی ہے جو یہ کہتے ہیں جانور ذبح کرنے کے بجائے جانور کے پیسے غریبوں میں تقسیم کردیے جائیں تا کہ ان کو زیادہ فائدہ ہو اور ان کی ضرورت بھی پوری ہو۔ یہ خدائی نظام اور احکامِ شریعت میں سیدھی سیدھی مداخلت ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کی ایسی گمراہیوں سے حفاظت فرمائیں۔
پہلی مرتبہ جہاد کی اجازت:
﴿اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾﴾
یہ سب سے پہلی آیت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آنے کے بعد جہاد اور قتال کے بارے میں نازل ہوئی۔ مکہ مکرمہ میں مشرکینِ مکہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر حد سے زیادہ ظلم کیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم تھا کہ اپنے ہاتھ روک کر رکھیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد سب سے پہلی با ضابطہ جنگ جو کفر اور اسلام کے درمیان ہوئی وہ جنگ بدر ہے۔ مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور کفار کی تعداد ایک ہزار تھی۔ لیکن فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔
اسلامی ریاست کے اغراض ومقاصد:
﴿اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾﴾
گزشتہ آیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جہاد وقتال کی اجازت دی گئی تھی جس کے نتیجہ میں فتح ہوگی اور اللہ تعالیٰ انہیں اقتدار بخشیں گے۔ اب یہاں سے نظام حکومت میں کرنے کےبنیادی کام بتائے جارہے ہیں۔ اور وہ چار ہیں:

نماز کی پابندی کروانا۔

نظام زکوٰۃ قائم کرنا۔

نیکی کے کاموں کا حکم دینا ۔

گناہوں سے روکنا۔
تسلی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۚ فَیَنۡسَخُ اللہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ ﴿ۙ۵۲﴾﴾
اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جارہی ہے کہ منکرین کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پرجو شکوک وشبہات پیش کیے جاتے ہیں یہ صرف آپ کے ساتھ نہیں بلکہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوتا رہا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب کسی نبی یا کسی رسول پر وحی آتی اور وہ لوگوں کے سامنے بیان کرتا تو دوسری طرف شیطان کفار کے دل میں اس وحی کے بارے میں شبہات پیدا کر دیتا جس کی وجہ سے وہ ایمان نہ لاتے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان شکوک وشبہات کو ختم فرما دیتے ہیں تو جو لوگ ضد پر نہیں ہوتے وہ ایمان لے آتے ہیں۔
معبودانِ باطلہ کی بے بسی کی مثال:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ﴿۷۳﴾﴾
یہاں معبودان باطلہ کی بے بسی اور ان کے باطل ہو نے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا جارہا ہے کہ مشرکین جن جھوٹے اور پتھر کے بنائے ہوئے بتو ں کی پوجاکرتے ہیں اگر یہ سارے معبود مل کر بھی ایک مکھی کو پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ مکھی کو پیدا کرنا تو دور کی بات ہے اگر مکھی ان سے کوئی چیز اچک کر لے جائے تو سارے مل کر وہ چیز واپس بھی نہیں لے سکتے۔
دین میں حرج نہیں:
﴿ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ﴿٪۷۸﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام میں حرج نہیں رکھا، دین میں بہت آسانی ہے۔ لیکن آسانی کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ جہاں تھوڑی سی سختی آئے وہاں شریعت کا حکم ہی بدل دیا جائے۔ دین میں حرج نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا حکم اپنے بندے کو نہیں دیتے جس پر عمل کرنا بندے کے بس میں نہ ہو۔ مشقت پر ہی تو اجر ملتا ہے۔
امت محمدیہ کی فضیلت:
﴿لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللہِ ﴿٪۷۸﴾﴾
جب قیامت کے دن سابقہ انبیاء علیہم السلام اپنی امتوں پر گواہی دیں گے کہ ہم نے انہیں احکامات پہنچا دیے تھے تو وہ امتیں انکار کردیں گی۔ اس وقت امت محمدیہ گواہی دے گی کہ ان انبیاء علیہم السلام نے احکام پہنچادیے تھے۔ اس طرح امت محمدیہ کی فضیلت ظاہر ہو گی۔ اب اس فضیلت کا تقاضا یہ ہے کہ: ہم نمازقائم کریں، زکوۃ ادا کریں، ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے دین کو مضبوطی سے پکڑیں اور اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کریں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ