پارہ نمبر:16

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر:16
حضرت ذوالقرنین کا قصہ:
﴿وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنۡ ذِی الۡقَرۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا ﴿ؕ۸۳﴾﴾
یہاں سے لے کر آیت نمبر 98 تک حضرت ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ مشرکین مکہ نے جو تین سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے تھے ان میں ایک سوال یہ تھا کہ اس شخص کے متعلق بتائیں جس نے مغرب سے مشرق تک کا سفر کیا۔
ذوالقرنین کے بارے میں یہ بات یقینی نہیں کہ وہ پیغمبر تھے یا نہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کو اقتدار اور وسائل عطا کررکھے تھے۔ انہوں نے تین سفر کیے۔ پہلا سفر مغرب تک کیا جہاں سورج ایک دلدل نماسیاہ چشمے میں ڈوب رہا تھا۔ یہ دنیاکا آخری کونہ تھا، اس کے بعد سمندر ہی سمندر تھا۔ دوسرا سفر مشرق تک کیا جہاں سے سورج طلوع ہورہا تھا۔ تیسرا سفر غالباً شمال کاتھا۔ وہاں کے لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے یاجوج ماجوج کی قتل وغارت گری اور خون خرابے کی شکایت کی اور درخواست کی کہ ان پہاڑوں کے درمیان دیوار بنادیں اور مال کی پیش کش کی۔ حضرت ذوالقرنین نے فرمایا تمہارے مال کی ضرورت نہیں، البتہ افرادی اور جسمانی طورپر میری مدد کرو۔ آپ نے لوہے کے تختوں اور پگھلے ہوئے سیسے سے مضبوط دیوار بنا دی جس سے وہ لوگ یاجوج ماجوج کے فساد سے محفوظ ہوگئے۔
قیامت کی ہولناکی:
﴿وَ تَرَکۡنَا بَعۡضَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ یَّمُوۡجُ فِیۡ بَعۡضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَجَمَعۡنٰہُمۡ جَمۡعًا ﴿ۙ۹۹﴾﴾
جب صور پھونکا جائے گا تو اس وقت قیامت کی ہولناکی کی وجہ سے لوگ بدحواسی کے عالم میں ایک دوسرے سے ٹکرارہے ہو ں گے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات:
﴿قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا ﴿۱۰۹﴾﴾
اللہ تعالیٰ کی قدرت، صفات اور کمالات غیر متناہی ہیں۔ اگر انہیں لکھااور شمار کیاجائے تو کئی سمندر خشک پڑجائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کمالات وصفات ختم نہیں ہو سکیں گے۔
بشریت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم:
﴿قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ﴿۱۱۰﴾٪﴾
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ یہ بات لوگوں کو بتا دیں کہ میں بھی بشر ہوں یعنی تمہاری طرح ایک انسان ہوں اور تم بھی بشر ہو۔ بس فرق یہ ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے اور تم پر وحی نہیں آتی۔
اللہ تعالیٰ سے ملاقات:
﴿ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿۱۱۰﴾٪﴾
اور خدا کی طرف سے وحی یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنے پر یقین رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرےاور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائے۔
اعمال کے قبول ہونے کی شرائط:
قبولیت اعمال کی بنیادی طور پر تین شرطیں ہیں:
1-عقیدہ ٹھیک ہو:
اگر عقیدہ ٹھیک نہیں ہے تو کتنا بھی اچھا کام کرے وہ کام خدا کے یہاں فائدہ مند نہیں۔ عقائد میں بنیادی عقیدہ ایمان ہے اب اگر کسی کے پاس ایمان کی عظیم الشان نعمت ہی نہیں تو وہ کتنا بھی اچھا کام کرے اس کو فائدہ نہیں ہونا۔
2- نیت ٹھیک ہو:
اگر نیت ہی درست نہیں ہے تو چاہے اب کتنا بھی اچھا کام کرے وہ قبول نہیں ہوگا۔
3-عمل سنت کے مطابق ہو:
اگر عمل سنت کے مطابق نہیں ہے تو پھر نیک کام بھی بیکار ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین)
سورۃ مریم
اس سورۃ میں حضرت مریم علیہا السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورۃ کانام بھی سورۃ مریم رکھ دیا گیا ہے۔
اس سورۃ کا مرکزی مضمو ن حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق صحیح عقائد کا بیان ہے۔ عیسائیوں کی تردید کی گئی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام حضرت مریم کےبطن سے پیدا ہوئے ہیں، نہ تو وہ تین میں سے تیسرے ہیں اور نہ ہی خدا کے بیٹے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر انبیاء علیہم السلام کا بھی تذکرہ کیا گیاہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا:
﴿ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا ﴿۳﴾﴾
حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے بالکل بڑھاپے میں آہستہ آہستہ دعا مانگی
﴿فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ﴾
مجھے بیٹا دے جومیرا اور آل یعقوب علیہ السلام کا وارث بنے۔ یہاں وراثت سے مراد دنیا کی وراثت نہیں بلکہ علومِ نبوت کی وراثت ہے جو کہ تمام انبیاءعلیہم السلام کی وراثت ہوا کرتی ہے۔ انبیاء کرام جو بھی تھوڑا بہت دنیوی مال و اسباب چھوڑ کر جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے، وراثت نہیں۔
قبولیت دعا:
﴿یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِۣ اسۡمُہٗ یَحۡیٰی ۙ لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا ﴿۷﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمالی اور ایسے بیٹے کی خوشخبری دی جس کا نام یحییٰ ہوگا اس سے پہلے اس نام کا کوئی اور شخص پیدا نہیں کیا۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اسباب کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوال کیا کہ میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا؟کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے سے سوکھ چکاہو ں۔ اللہ تعالیٰ نے بات سمجھائی کہ ہم بغیر اسباب کے بیٹا عطا فرمادیں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کی درخواست پر نشانی بتائی کہ تم ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود تین رات تک لوگوں سے بات نہیں کرسکو گے۔ پھر آگے حضرت یحیٰ علیہ السلام کے اوصاف کو بیان کیاگیا ہے کہ وہ دانا،پاکیزہ، نرم دل، متقی اور والدین کے خدمت گزار ہوں گے۔
حضرت مریم علیہاالسلام کا قصہ:
﴿وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مَرۡیَمَ ۘ اِذِ انۡتَبَذَتۡ مِنۡ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرۡقِیًّا ﴿ۙ۱۶﴾﴾
یہاں سے حضرت مریم علیہاالسلام کا قصہ اور عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کی تفصیل بیان کرکے عیسائیوں کی تردید کی جارہی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام؛ اللہ تعالیٰ کے بیٹے نہیں ہیں۔
حضرت مریم علیہا السلام کی عمر تیرہ سال یا پندرہ سال تھی، دونوں قول ملتے ہیں۔ حضرت جبر ائیل علیہ السلام خوبصورت مرد کی شکل میں آئے۔ فرشتہ جب بھی انسان کی شکل میں آتا ہے تو ہمیشہ خوبصورت مرد کی شکل میں آتا ہے۔ حضرت مریم نے ان کو دیکھا تو پردے کا اہتمام کیا۔ انہوں نے بتا یا کہ میں جبرائیل امین ہوں، اللہ کی طرف سے بچے کی بشارت لےکر آیا ہوں۔ حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری اس سے ان کو حمل ٹھہر گیا۔
ولادت کے دن جب قریب آئے تو ان کو بتایا گیا کہ فلاں جگہ پر تشریف لے جائیں، وہ ٹیلے کی طرف گئیں تو وہاں پر بغیر موسم کے اللہ نے کھجور پر پھل لگا دیا اور پانی کا چشمہ بھی جاری فرمادیا۔ بچہ کی ولادت کے بعدآپ وہیں پر کھجور کھاتیں اور چشمہ کا پانی پیتیں۔ چالیس دن تک یا جتنے دن نفاس کے تھے وہیں ٹھہری رہیں۔
اس کے بعدواپس اپنے خاندان میں آئیں تو خاندان والوں نے کہا: یہ بچہ کہاں سے آ گیا ہے؟ تمہارا تونکاح ہی نہیں ہوا۔ حضرت مریم کو حکم تھا کہ آپ اس بچے کی طرف اشارہ کریں، پھر عیسیٰ علیہ السلام نے صفائی دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اللہ رب العزت نبی بنائیں گے، مجھے کتاب دیں گے۔ اس طرح ان لوگوں کا سارا بہتان ختم ہو گیا۔ اس کی مکمل تفسیر کےلیے میری کتاب "دروس القرآن"دیکھیے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا گود میں گفتگو کرنا:
﴿قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللہِ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾ ﴾
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کتاب عطا فرمائیں گے، مجھے نبی بنائیں گے اور میں جہاں بھی ہوں گا اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے نماز کا، حکم دیا ہے زکوٰۃ کا، میں جب تک زندہ رہوں مجھے اپنی ماں کا فرمانبردار بنایا ہے اور مجھے سختی والا نہیں بنایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تبلیغ:
﴿وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ﴿۴۱﴾﴾
یہاں سے لے کر آگے کئی آیات تک مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کے فضائل وکمالات اور صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ جن میں سر فہرست امام الموحدین حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہت ہی عمدہ اورہمدردانہ انداز میں دلائل کے ساتھ اپنے والد کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف دعوت دی۔ والد نے بجائے دعوت کو قبول کرنے کے الٹا دھمکی دی کہ اگر تم اپنی دعوت سے بازنہ آئے تو تم پر پتھر برساؤں گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے والد سے کہا میں اپنے پروردگار سے آپ کی بخشش کی دعا کروں گا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم نہیں تھا جب معلوم ہوگیا کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہونا تو آپ نے دعا کرنا چھوڑدی۔
حضرت ادریس علیہ السلام کا تذکرہ:
﴿وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِدۡرِیۡسَ ۫ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ﴿٭ۙ۵۶﴾﴾
حضرت ادریس علیہ السلام کی بعض خصوصیات ہیں جو مفسرین حضرات نے ذکر کی ہیں۔ ان کے بارے میں ہےکہ آپ پہلے وہ شحص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھنا شروع کیا۔ آپ پہلے وہ شحص ہیں جنہوں نے کپڑا سی کر لباس پہنا۔ آپ سے پہلے لوگ جانوروں کے چمڑے کا لباس پہنتے تھے۔ آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلحہ بنایا اور کفار سے جہاد کیا۔ آپ پہلے شخص ہیں جو حساب کتاب میں ماہر تھے۔
نالائق جانشین کی بیماریاں:
﴿فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوۡفَ یَلۡقَوۡنَ غَیًّا ﴿ۙ۵۹﴾﴾
انبیاء علیہم السلام تو بڑے تھے ان کی اولاد بھی نیک تھی لیکن ایک وقت آیا کہ ان کے بعد نالائق قسم کے جانشین پیدا ہوئے، انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ نمازیں برباد کیں اور دوسرا کام؛ شہوات اور خواہشات میں مبتلا ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ جو نالائق قسم کے جانشین ہو تےہیں ان کی دو بیماریاں ہیں: نماز میں کوتاہی کرتے ہیں اور نا جائز خواہشات کو پورا کرتے ہیں۔
پل صراط سے گزرنا:
﴿وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا ﴿ۚ۷۱﴾ ﴾
اللہ کا وعدہ ہے کہ ہر بندے نے جہنم کے اوپر سے گزرنا ہے، میدان محشر اور جنت کے درمیا ن جہنم ہے، ہاں فرق اتنا ہو گا کہ صلحاء اور اللہ تعالیٰ کےمحبوب بندے جہنم کے اوپر سے ٹھنڈک محسوس کرتے ہوئے گزریں گے اور جہنم کی گر می انہیں محسوس تک نہیں ہوگی۔ اور جن گناہگاروں کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گاتووہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کےلیے جہنم میں گریں گے پھر سزا کے بعد جنت میں بھیج دیے جائیں گے۔ جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں ہوگاوہ دوزخ میں گرنے کے بعد وہیں پڑے رہیں گے۔ شاید نیک لوگوں کو جہنم کے اوپر سے گزارنے میں یہ حکمت ہو کہ دوزخ کی ہولناکی دیکھنے کے بعد جنت کی قدر وقیمت بڑھ جائے۔
اہلِ ایمان کے لیے محبوبیت عامہ:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا ﴿۹۶﴾﴾
جو آدمی ایمان لائے، عقیدہ اس کا ٹھیک ہو، اعمال سنت کے مطابق ہوں تو اللہ اس کے لیے محبت کی ہوائیں چلادیتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہےکہ جب اللہ کسی سے پیار کرتے ہیں تو جبرائیل امین علیہ السلام سے فرماتے ہیں کہ فلاں بندے سے مجھے بہت پیار ہے، جبرائیل فرشتوں سے کہتے ہیں کہ اللہ کو اس بندے سے بہت پیار ہے۔ فرشتے آگے اعلان کرتے ہیں۔ وہ اعلان چلتے چلتے زمین والوں تک آتا ہے۔ پھر اس نیک بندے سے زمین والے نیک لوگ پیار کرتے ہیں۔
سورۃ طہ
﴿طٰہٰ ۚ﴿۱﴾﴾
یہ حروف مقطعات ہیں، ان کے معانی سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔
مشقت کے بعد آسانی:
﴿مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾﴾
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ مکرمہ میں جب قرآن مجید کا نزول شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری پوری رات تہجد میں قرآن مجید کی تلاوت اتنی فرماتے کہ بسا اوقات مسلسل قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پر ورم آ جاتا۔ اس آیت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ اتنی زیادہ مشقت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا معمول تبدیل فرمالیا۔ رات کے کچھ حصے میں آرام فرماتےپھر بیدار ہوکر تہجدکی نماز پڑھتے۔
استواء علی العرش:
﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی ﴿۵﴾﴾
اھل السنۃ و الجماعۃ کا مسلک اور مذہب یہ ہے کہ یہ آیت متَشابہات میں سے ہے۔ یعنی اس کا معنی تو معلوم ہے لیکن مطلب اور مراد معلوم نہیں۔ استویٰ علی العرش کی مکمل اور مدلل بحث میری کتاب
"دروس القرآن"
میں اسی مقام پر اور میری مرتب کردہ فائل
"القواعد فی العقائد"
میں ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت کا ملنا:
﴿وَ ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ مُوۡسٰی ۘ﴿۹﴾﴾
یہاں سے لے کر آیت نمبر 98 تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تفصیلی قصہ بیان کیاجارہاہے۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے واپس تشریف لارہے تھے تو راستہ بھول گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دور سے ایک درخت کو جلتا ہوا دیکھا تو اپنے گھر والوں سے کہاکہ یہاں ٹھہرو، میں وہاں سے آگ لے کر آتا ہو ں۔ آپ جب اس درخت کے قریب پہنچے تو عجیب منظر دیکھا کہ اس درخت کی کوئی شاخ یا پتا جلتا نہیں ہے بلکہ آگ نے درخت کے حسن اور خوبصورتی کو مزید بڑھا دیا ہے۔
اسی دوران اس درخت سے موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ آواز آئی اے موسیٰ! میں تمہارا رب ہوں، اپنے جوتے اتار دو کیونکہ تم اس وقت طُویٰ کی مقدس وادی میں ہو۔ میں نے تمہیں نبوت دینے کے لیے منتخب کر لیا ہے اس لیے جو وحی تم پر بھیجی جا رہی ہے اسے غور سے سنو۔ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس لیے میری عبادت کرو اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو۔ آگے اللہ تعالیٰ نے جوموسیٰ علیہ السلام سے مکالمہ فرمایااور معجزہ عطاکیا اس کا ذکر ہے۔ آپ کی دعاؤں اور ان کی قبولیت کا بھی تذکرہ ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کی دعاؤں کا ذکر:
﴿قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ ﴿ۙ۲۵﴾﴾
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بغرض دعوت جانے کا حکم فرمایاتو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے چار چیزیں مانگیں:
اے اللہ! جو بات میں سمجھانا چاہتاہو ں میرے اوپر کھول دے تاکہ مجھے سمجھانے میں دقت نہ ہو۔ اے اللہ! مجھے اسباب عطافرمادے۔ اے اللہ! مجھے فصیح زبان عطا فرما دے، زبان کی لکنت ختم ہوجائے تاکہ میں بات کھل کر بتا سکوں۔ یا اللہ! میرے خاندان میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا معاون بنادے۔ اس کے ذریعے میری کمر مضبوط فرمادے، اس کو میرے کام میں شامل فرمادے۔ یہ ساری دعائیں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے بطورِ احسان اور تسلی؛ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بچپن کا واقعہ ذکر فرمایا کہ ہم نے ام موسیٰ کو حکم دیا کہ اسے صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ صندوق فرعون کے محل کے پاس پہنچا۔ پھر دودھ پلانے والے معاملے کی صورت میں موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ماں کے پاس پہنچوا دیا۔ اگلی آیات میں حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام کے فرعون کے پاس جانے کا ذکر ہے۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا:
﴿مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی﴿۵۵﴾﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے ضابطہ بیان فرمایا کہ مٹی سے تم کو پیدا کیا، مٹی میں لوٹائیں گے اور اسی مٹی سے اٹھائیں گے۔ بعض روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ جو انسان بھی پیدا ہوتاہے تو رحم مادر میں ایک تو باپ کا نطفہ ہوتاہے اور دوسراجس مٹی میں اس انسان نے دفن ہونا ہوتا ہے اس مٹی کا کچھ حصہ اللہ تعالیٰ فرشتے کے ذریعے ماں کے رحم میں ڈال دیتے ہیں۔ تو جس مٹی میں اس نے دفن ہونا ہوتا ہے وہ مٹی اس میں شامل ہوتی ہے۔ اب اس کی نوعیت کیا ہوتی ہے وہ تو اللہ ہی جانتے ہیں۔ اسی لیےکہتے ہیں کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"خُلِقْتُ أَنَا وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرَ مِنْ طِیْنَۃٍ وَاحِدَۃٍ․"
کہ مَیں، ابوبکر اور عمر ایک ہی مٹی سے بنے ہیں۔ )رضی اللہ عنہما( اس لیے دفن بھی ایک جگہ ہوئے اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی جگہ سے۔ اللہ تعالی ان سے راضی ہوجائے۔
﴿وَ لَقَدۡ اَرَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا کُلَّہَا فَکَذَّبَ وَ اَبٰی ﴿۵۶﴾﴾
یہاں سے لے کر آیت 98 تک حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام، فرعون اور بنی اسرائیل کا تفصیلی قصہ کا بیان ہے۔ قرآن کریم کے دیگر مختلف مقامات پر بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ کوبیان کیا گیا ہے۔
خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت:
﴿کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ مَا قَدۡ سَبَقَ ۚ وَ قَدۡ اٰتَیۡنٰکَ مِنۡ لَّدُنَّا ذِکۡرًا﴿ۖ۹۹﴾ ﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تفصیلی واقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ماضی میں جوحالات گزرے ہیں ان میں سے کچھ واقعات ہم تمہیں سناتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاباوجود اُمی ہونے کے بذریعہ وحی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اتنا تفصیلی قصہ بیان فرمانا دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اور نبی ہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم
عصمتِ آدم علیہ السلام:
﴿ فَاَکَلَا مِنۡہَا فَبَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ۫ وَ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی ﴿۱۲۱﴾۪ۖ﴾
گزشتہ آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہےکہ انہوں نے بھول کر اس درخت سے کھالیاتھا جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے دولفظ
"عَصٰۤی"
اور
"فَغَوٰی"
فرمائے ہیں جن سے بعض لوگوں کو غلطی لگی انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی عصمت کے خلاف بات کہہ دی۔ جبکہ اھل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام چھوٹے اور بڑے گناہوں سے معصوم ہیں، اللہ تعالی ان کی حفاظت فرماتےہیں۔
اب مذکورہ دونوں لفظوں کا معنی سمجھیں:
عَصٰۤی
کا ایک معنی ہے وہ کام کرنا جس کا ارادہ نہ ہو۔ آدمی بعض کام بلا ارادہ کر لیتا ہے، کرنا کچھ چاہتا ہے اور ہو کچھ جاتا ہے، اس کو بھی معصیت کہتے ہیں۔ یہاں یہی معنی مراد ہے۔ یعنی آدم علیہ السلام نے قصداً درخت سے نہیں کھایا تھا بلکہ بھول گئے تھے۔
فَغَوٰی
کا ایک معنی ہے کہ دنیاوی معاملات میں انسان کا مشقت میں پڑ جانا، راحت کا ختم ہوجانا، تکلیف میں آجانا۔ یہاں یہی مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنت میں جو عیش تھی وہ ختم ہوگئی اب مشقت پیدا ہوگئی۔
پانچوں نمازوں کے اوقات کا ثبوت:
﴿وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ وَ قَبۡلَ غُرُوۡبِہَا ۚ وَ مِنۡ اٰنَآیِٔ الَّیۡلِ فَسَبِّحۡ وَ اَطۡرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرۡضٰی ﴿۱۳۰﴾﴾
اس آیت میں پانچوں نمازوں کا ثبوت ملتا ہے۔
﴿قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ﴾
سے مراد نماز فجر ہے۔
﴿وَ قَبۡلَ غُرُوۡبِہَا﴾
سے ظہر اور عصر کی نماز مراد ہے۔
﴿وَ مِنۡ اٰنَآیِٔ الَّیۡلِ﴾
اس سے مغرب اور عشاء مراد ہیں۔
﴿وَ اَطۡرَافَ النَّہَارِ﴾
اس سے فجر اور مغرب کی تاکید مراد ہے۔
دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں:
﴿وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا﴾
یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے یہ بات ہمیں سمجھائی ہے کہ جو مال ہم نے ان کفار کو دیا ہے آپ کی نگاہ اس پر نہ اٹھے۔ یہ سب دنیا کا مال ہے، آزمائش کے لیے ہے، اللہ کا دیا ہوا رزق بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے، بس آپ خود بھی نماز پڑھیں اور گھر والوں کو بھی نماز کی ترغیب دیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ