پارہ نمبر:19

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پارہ نمبر:19
متکبرین کی تمنا:
﴿وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ نَرٰی رَبَّنَا ؕ لَقَدِ اسۡتَکۡبَرُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ وَ عَتَوۡ عُتُوًّا کَبِیۡرًا ﴿۲۱﴾﴾
جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ اپنے تکبر کی وجہ سے اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھتے ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بات ماننے کےلیے تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں یا تو فرشتہ آسمان سے نازل ہو وہ آکر ہمیں سمجھائے یا اللہ تعالیٰ بذات خود ہماری رہنمائی فرمائے۔ ابھی تو انہیں فرشتے دیکھنے کی چاہت ہے اگلی آیت میں ہے کہ جس دن ان کو فرشتے نظر آگئے اس دن ان مجرموں کےلیے کوئی خوشی کا موقع نہیں ہوگا۔ یعنی فرشتے انہیں اس وقت دکھائے جائیں گے جب وہ انہیں جہنم میں ڈالنے کےلیے آئیں گے۔ اس وقت یہ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگیں گے۔
مشرک کی حسرت وندامت:
﴿وَیَوۡمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیۡہِ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا ﴿۲۷﴾ یٰوَیۡلَتٰی لَیۡتَنِیۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیۡلًا ﴿۲۸﴾ ﴾
کل قیامت کے دن عذاب کو دیکھ کر کافر اپنی انگلیوں کو کاٹتے ہوئے انتہائی حسر ت اور ندامت سے کہے گا اے کاش! میں فلاں (ابی بن خلف)کو اپنا دوست نہ بناتا بلکہ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا راستہ اپنا لیتا۔
واقعہ یہ ہے کہ عقبہ بن ابی معیط نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت دینے پر اسلام قبول کرلیا۔ اس کے دوست ابی بن خلف کو پتہ چلا تو اس نے کہا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دین کو چھوڑ دے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر یہ دونوں غزوہ بدر میں مارے گئے۔ عقبہ جب آخرت کا عذاب دیکھے گا تو اس وقت اسے یہ حسرت ہوگی کہ کاش میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم والے راستے کو اپنا لیتا۔ اپنے دوست کی بات ماننے پر ندامت ہو گی۔
شکوہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم:
﴿وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾﴾
قیامت کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی شکایت کریں گے کہ اے میرے پروردگار! میری قوم نے قرآن کریم کو چھوڑدیا تھا۔ یہاں قوم سے مراد تو کافر قوم ہے لیکن مسلمانوں کوبھی اس بات کوملحوظ رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم کو پڑھیں، سمجھیں، عمل کریں اور آگے پہنچائیں۔ ہماری کوتاہی کی وجہ سےکہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت دن اللہ تعالیٰ کے سامنے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری بھی شکایت کریں۔
قدرتِ باری تعالیٰ:
﴿اَلَمۡ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَیۡفَ مَدَّ الظِّلَّ ۚ وَ لَوۡ شَآءَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا ﴿۴۵﴾﴾
اللہ رب العزت نے اپنی قدرت بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سائے کو کیسے پھیلا دیتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو سائے کو ایک ہی جگہ ٹھہرا کر رکھتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورج کو اس پر دلیل بنا دیا ہے۔ جب سورج نکلتا ہے تو سایہ مغرب کی طرف ہوتا ہے۔ جب سورج زوال کے وقت اوپر آتا ہے تو سایہ سمٹ جاتا ہے۔ جب سورج مغرب کی طرف جاتا ہے تو سایہ مشرق کی طرف جاتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں پھر ہم آہستہ آہستہ اس سائے کو اپنی طرف سمیٹتے رہتے ہیں۔ جب شام ہوتی ہے توسایہ ختم ہو جاتا ہے۔
دینی امور پر اجرت لینا:
﴿ قُلۡ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اَنۡ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا﴿۵۷﴾ ﴾
اے پیغمبر! آپ فرما دیجیے کہ میں تمہیں دین کی بات بتاتا ہوں لیکن اس پر میں تم سے اجر نہیں مانگتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجرت علی تعلیم الدین جائز ہے یا نہیں؟ اگر کوئی دین کا کام ہی اجرت لینے کےلیے کرتا ہے تو یہ جائز نہیں۔ اگر اجرت لینے کےلیے دین کا کام نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے کرتا ہے اور ضرورت کے تحت اجرت بھی ملتی ہے تو یہ جائز ہے۔ باقی اس آیت میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ میں تم سے اجر نہیں مانگتا یہ کفار کو خطاب ہے۔ مؤمنین کو نہیں، ایمان والے اور خصوصاً ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا مال خرچ فرماتے تھے۔
عباد الرحمٰن کی صفات:
﴿وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا ﴿۶۳﴾﴾
یہاں سے کچھ آیات تک عباد الرحمٰن کے بارہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں کہ عباد الرحمٰن کون ہوتے ہیں اور امت مسلمہ کو اس سے سبق ملتا ہے کہ عباد الرحمٰن بنیں اور ان اوصاف اپنانے کی کوشش کریں۔ ان کے اوصاف یہ ہیں:
زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔ جب جاہل ان سے بات کریں تو وہ ان کو سلام کہہ دیتے ہیں۔ رات سجدے اور قیام کی حالت میں گزارتے ہیں یعنی تہجد کا اہتمام کرتے ہیں۔ جہنم کے عذاب سے بچنے کی دعا مانگتے ہیں۔ میانہ روی کرتے ہیں، نہ فضول خرچی کرتےہیں اور نہ ہی بخل سے کام لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ ناحق کسی کو قتل نہیں کرتے۔ زنا نہیں کرتے۔ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ گناہ کی جگہ سے گزر جاتے ہیں، وہاں کھڑے نہیں ہوتے۔ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ دعا مانگتے ہیں کہ اےاللہ! ہمارے اہل وعیال کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بنا اور ہمیں متقین کا امام بنا۔ ان اوصاف کی مزید تفصیل میری کتاب اللہ کے بندے میں ملاحظہ فرمائیں۔
عباد الرحمن کے اوصاف اپنانے کا نتیجہ:
﴿اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا﴿ۙ۷۵﴾ ﴾
عبادالرحمن کے اوصاف کے بعد ان کےلیے نتیجہ بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت کے بالا خانے دیں گے، وہاں ان کا استقبال دعاؤں اور سلام کے ساتھ کیا جائے گا۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گےاور یہ رہنے کی بہتر ین جگہ ہے۔
سورۃ الشعراء
اس سورت کے آخر میں شعراء کا ذکر ہے اس لیے سورت کا نام بھی "الشعراء" رکھ دیا گیاہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کڑھن:
﴿لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی بے حد فکر تھی کہ لوگ کلمہ پڑھیں، دین پر آئیں اور جنت میں جائیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کڑھتے بھی بہت تھے، محنت بھی فرماتے تھے، لوگوں کی باتیں برداشت بھی فرماتے تھے تو اللہ رب العزت نے یہ بات سمجھائی کہ اگر یہ لوگ آپ کی بات نہ مانیں تو کیا آپ کڑھ کڑھ کر اپنے آپ کو ختم کرلیں گے؟
فائدہ:
سا بقہ امتوں نے اپنے اپنے نبی سے منہ مانگے اور فرمائشی معجزات طلب کیے تھے ان کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ معجزات انہیں دکھائے گئے لیکن انہوں نے پھر بھی نہ مانا اور اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ جب کوئی قوم منہ مانگی فرمائش پوری ہونے کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو اسے نشان عبرت بنادیتے ہیں۔
یہاں تذکیر بایام اللہ کےضمن میں سابقہ امتوں؛ قوم موسیٰ،قوم نوح،قوم ھود،قوم صالح،قوم لوط ۱ورقوم شعیب [علیہم السلام] کے واقعات بیان کرکے مشرکین مکہ کو سمجھایا جارہا ہے کہ تمہارے پاس جو دلائل آچکے ہیں ان میں غوروفکر کرکے ایمان لے آؤ۔ مزید فرمائشی معجزات کا مطالبہ نہ کروتاکہ تم سابقہ امتوں کی طرح ہلاکت سے بچ جاؤ۔
موسیٰ علیہ السلام کو تبلیغ کا حکم:
﴿وَ اِذۡ نَادٰی رَبُّکَ مُوۡسٰۤی اَنِ ائۡتِ الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۰﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون کی قوم کے پاس جاکر انہیں دعوت دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے اللہ! میں ڈر محسوس کرتا ہوں کہ وہ کہیں مجھے جھٹلا نہ دیں۔ اور مجھ سے ایک ایسا کام(قبطی کا قتل) ہوا تھا کہ جس کو یہ لوگ گناہ سمجھتےہیں لہذا آپ میرے ساتھ میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت دےدیں تاکہ کوئی میری تائید کرنے والا ہو، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کر کے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھیج دیا۔ آگے کئی آیات تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تفصیلی واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۶۹﴾ اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿۷۰﴾﴾
جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی اور یہ کہا کہ تم کس کی پوجا کرتے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم بتوں کی پوجاکرتے ہیں۔ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے کہا جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا یہ بت تمہاری باتیں سن سکتے ہیں؟ کیا یہ تمہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ جب ان سے کوئی اور جواب نہ بن پڑا توانہوں نے کہا کہ ہمارے باپ دادا ایسا کرتے تھے تو ہم بھی یہی کریں گے۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا یہ سب ہمارے دشمن ہیں سوائے اللہ کی ذات کے۔ دشمن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی وجہ سے بندے جہنم میں جائیں گے۔
قلبِ اطہر پر وحی کا نزول:
﴿ وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۹۲﴾ؕ نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ ﴾
نزول وحی کے مقام کو بیان کیا جارہا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےقلب اطہر پر وحی لاتے تھے۔ نبی اور امتی میں فرق ہے؛ جب امتی سوجائے تو اس کا دل اور آنکھ دونوں سو جاتے ہیں اور جب پیغمبر سو جائے تو نبی کی آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے جیساکہ صحیح بخاری میں ہے۔ وحی دل مبارک پر آتی ہے اس لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بیدارہوں اور جبرائیل علیہ السلام آئیں تب بھی وحی ہے، پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سوجائیں اور خواب دیکھیں تب بھی وحی ہے۔
مشرکین مکہ کی تردید:
﴿وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الۡغَاوٗنَ ﴿۲۲۴﴾ؕ اَلَمۡ تَرَ اَنَّہُمۡ فِیۡ کُلِّ وَادٍ یَّہِیۡمُوۡنَ﴿۲۲۵﴾ۙ﴾
مشرکین کہتے تھے کہ (معاذاللہ ) محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) شاعر ہیں اور قرآن کریم شاعری کی کتاب ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شعراء کی مذمت بیان فرمائی ہے کہ شعراء کے پیچھے گمراہ لوگ چلتے ہیں اور اکثر شاعر ہر قسم کی خیالی وادی میں بھٹکتے رہتے ہیں اور ایسی بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں۔ یعنی شاعری ایک تخیلاتی چیز ہے جس کا بسا اوقات حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ البتہ اہل ایمان اور عمل صالح والے وہ شعراء جو اشعار میں خلاف شرع بات نہ کریں بلکہ دین ومذہب کی بات کریں اس سے مستثنی ہیں۔ جیسے شاعرِ رسول صلی ا للہ علیہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
سورۃ النمل
سورۃ النمل کی آیت نمبر 18 میں حضرت سلیمان علیہ السلام کےواقعہ میں چیونٹی کا ذکر ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورۃ کا نام "النمل "رکھاگیا ہے۔
اس سورۃ میں بھی اسلام کے بنیادی عقائد توحید ورسالت اور قیامت کو بیان بیان کیا گیا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت اور دولت کاذکر ہے۔ ملکہ بلقیس کا قصہ بھی ذکر کیا گیاہے۔ تذکیر بایام اللہ کے ضمن میں مختصراً سابقہ امتوں کے واقعات کو بھی بیان کیا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کاقصہ:
﴿اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِاَہۡلِہٖۤ اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا ؕ سَاٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِخَبَرٍ اَوۡ اٰتِیۡکُمۡ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّکُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ ﴿۷﴾﴾
موسیٰ علیہ السلام مدین سے واپس تشریف لارہے تھے آپ کے گھر والے بھی ساتھ تھے۔ سردی تھی اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آگ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ قریب میں آگ نہیں تھی۔ دور کوہ طور پر انہیں آگ جلتی ہوئی محسوس ہوئی جو حقیقت میں نور تھا۔ وہاں گئے تا کہ آگ لے آؤں یا راستہ معلوم کروں۔ وہاں پہنچ کر آپ نے یہ آواز سنی کہ اے موسیٰ! میں اللہ ہوں، غالب ہوں اور حکمت والا ہوں۔ اسی مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت بھی عطا فرمائی۔ معجزات اور نشانیاں بھی عطا فرمائیں اور فرعون اور اس کی قوم کی طرف جانے کا حکم دیا۔
نبی کی وراثت:
﴿وَوَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ ﴿۱۶﴾﴾
یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کو والد محترم حضرت داود علیہ السلام کی طرف سے وراثت ملنے کا بیان ہے۔ اس وراثت سے مراد وراثت مالی نہیں بلکہ وراثت علمی ہے۔ یعنی نبوت اور سلطنت میں وہ اپنے والد محترم کے وارث اور جانشین بنے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کا ایک بیٹا تو نہیں تھا بلکہ انیس بیٹے تھے لیکن وارث صرف ایک بیٹا حضرت سلیمان بنا۔ تو اگر یہ وراثت مالی ہوتی تو ایک بیٹے کو نہیں بلکہ تمام بیٹوں کو مساوات کے ساتھ ملتی کیو نکہ مساوات کے بغیر تقسیم پیغمبر کی شان کے لائق نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ہےکہ " ہم نبیوں کا گروہ ہیں، ہمارے مال میں کوئی وارث نہیں ہوتا، جو مال نبی چھوڑ کر جائے وہ امت کے لیے صدقہ بن جاتاہے "۔
پرندوں کی بولیوں کا علم:
﴿قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ وَ اُوۡتِیۡنَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡفَضۡلُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۶﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو سلطنت میں جہاں دیگر کئی چیزیں عطافرمائی تھیں وہاں پرندوں اور جانوروں کی بولیوں کا علم بھی دیا تھا۔ پرندوں کایہاں ذکر ہے اگلی آیت میں چیونٹی کا ذکر ہے۔
چیونٹی کا واقعہ:
﴿وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ وَ الطَّیۡرِ فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ﴿۱۷﴾﴾
یہاں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بادشاہت سلیما ن علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی وہ صرف انسانوں پر نہیں تھی بلکہ جنات، جانوروں اور پرندوں پر بھی تھی۔ اسی وجہ سے جب حضرت سلیمان علیہ السلام کالشکر جاتاتو اس میں تعداد کثیر ہوجاتی۔ نظم وضبط کو برقرار رکھنے کےلیے کافی انتظام واہتمام کرنا پڑتا تھا۔
پھراگلی آیت میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور آپ کے لشکر کا چیونٹیوں کی وادی سے گزرنے کاواقعہ ہے جس میں ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو بلوں میں جانے کا حکم دیا کہ کہیں سلیمان علیہ السلام اور ان کا لشکر بے خبری میں تمہیں روند نہ ڈالیں۔
پرندوں کی حاضری:
﴿وَ تَفَقَّدَ الطَّیۡرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَی الۡہُدۡہُدَ اَمۡ کَانَ مِنَ الۡغَآئِبِیۡنَ ﴿۲۰﴾﴾
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ پرندوں کی حاضری لی تو ہدہد پرندہ غائب تھا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر ہدہد نے میرے سامنے کوئی واضح عذر پیش نہ کیاتو میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا۔
﴿فَمَکَثَ غَیۡرَ بَعِیۡدٍ فَقَالَ اَحَطۡتُّ بِمَا لَمۡ تُحِطۡ بِہٖ وَ جِئۡتُکَ مِنۡ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیۡنٍ ﴿۲۲﴾﴾
کچھ دیر بعدہدہد حاضر ہوگیا اور اس نے ملک سباء کے متعلق بتایا کہ وہاں ایک عورت ہے جو لوگوں پر حکمرانی کررہی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کی پوجا پاٹ کررہے ہیں اور اس عورت کا ایک شاندار تخت بھی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط:
﴿اِذۡہَبۡ بِّکِتٰبِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقِہۡ اِلَیۡہِمۡ ثُمَّ تَوَلَّ عَنۡہُمۡ فَانۡظُرۡ مَا ذَا یَرۡجِعُوۡنَ﴿۲۸﴾﴾
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد سے کہا ابھی پتہ چل جاتا ہے کہ تم سچ کہہ رہے یا جھوٹ۔ سلیمان علیہ السلام نے اسے خط لکھ دیا کہ یہ خط پہنچا کر دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ خط کا مضمون یہ تھا:
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والاہے۔ میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرواور میرے پاس تابع دار بن کر چلے آؤ۔
ملکہ بلقیس کاواقعہ:
﴿قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اِنِّیۡۤ اُلۡقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیۡمٌ ﴿۲۹﴾﴾
ملکہ بلقیس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ میرے سامنے ایک باوقار خط ڈالا گیا ہے۔ یہ خط سلیمان (علیہ السلام ) کی طرف سے آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کیا گیا ہے؛ مجھے فیصلہ کن مشورہ دو۔ انہوں نے کہا کہ ہم طاقت ور ہیں اور ڈٹ کر لڑنے والے لوگ ہیں باقی آپ دیکھ لیں، آپ کیا حکم دیتی ہیں۔
پھر آگے ذکر ہے کہ ملکہ بلقیس نے تحائف اور ہدایا بھیج کر جانچنا چاہا لیکن سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا تم میری مدد مال کے ذریعہ کرنا چاہتے ہو؟ واپس چلے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں دیا ہے اس سے کہیں زیادہ بہتر مجھے دیا ہے۔ ہم ایسا لشکر لے کر آئیں گے جس کے مقابلے کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ پھر سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کے آنے سے پہلے اپنے وزیر آصف بن برخیا سے یا بذات خود اس کا تخت منگوا لیا اور اس میں کچھ تبدیلی بھی کروادی۔ ملکہ بلقیس مطیع وفرمانبردار ہو کر آگئیں اور کہنے لگیں کہ اے میرے پرور دگار حقیقت یہ ہے کہ میں نے اب تک اپنی جان پر ظلم کیا تھا اور اب میں نے سلیمان (علیہ السلام)کے ساتھ رب تعالیٰ کی فرمانبردار ی قبول کرلی ہے۔
توحید پر انتہائی بلیغ خطبہ:
﴿قُلِ الۡحَمۡدُ لِلہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیۡنَ اصۡطَفٰی ؕ آٰللہُ خَیۡرٌ اَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿ؕ۵۹﴾﴾
گزشتہ آیات میں سابقہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات وقصص کو بیان کیا گیا ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام کا مشترکہ اور متفقہ موقف اور مشن اللہ تعالیٰ کی توحید کو بیان کرناتھا۔ اب پارے کے آخر میں خطبہ کے آداب ( اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور منتخب بندوں پر سلام)بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی گئی ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہیں یا وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہوں نے شریک بنا رکھا ہے؟
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ