پارہ نمبر:20

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پارہ نمبر:20
قدرتِ باری تعالیٰ کے دلائل سے مشرکین کی تردید:
﴿اَمَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنۡۢبَتۡنَا بِہٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَہۡجَۃٍ﴾
اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کے دلائل بیان کرکے مشرکین کی تردید فرما رہے ہیں کیونکہ مشرکین کہتے اور مانتے تھے کہ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے مگر انتظام کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ دوسرے معبودوں کو سونپا ہوا ہے۔ لہذا ان معبودوں کی بھی عبادت کرنی چاہیے۔
آسمان وزمین کو اللہ تعالیٰ نے بنایا،کائنات میں مختلف قسم کی رنگ رنگیلیاں یعنی سرسبز باغات، متحرک زمین پر مضبوط پہاڑوں کو گاڑنا،خوشخبری لانے والی ہواؤں کو بھیجنا، دو سمندروں کے درمیان پردہ حائل کرنا، بے قرار آدمی کی پکار پر اس کی تکلیف کو دورکرنا، ابتداءً پیدا کرکے موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنا، آسمان وزمین سے روزی دینا، یہ سب کچھ خداتعالیٰ کرتے ہیں تو عبادت کے لائق اور مستحق بھی وہی ہیں۔
تسلی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم:
﴿اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ﴾
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل دعوت سے کفار نہ مانتے تو آپ غمزدہ ہوتے تھے۔ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو تسلی دی ہے کہ اے پیغمبر! ان کو سنانا آپ کے ذمے ہے، آپ سنا سکتے ہیں لیکن منوانا آپ کے بس میں نہیں ہے، اس لیے ان کےنہ ماننے پر آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوا کریں۔ جس طرح قبر پر آپ کسی مردے کو سنا دیں اور وہ بات قبول نہ کرے اسی طرح اگر یہ بات سنیں اور قبول نہ کریں تو یہ مُردوں کی طرح ہیں، یہ قلباً مردہ ہیں۔ اس آیت میں زندہ کفار کو مردوں اور بہروں کے ساتھ عدم انتفاع میں تشبیہ دی ہے۔ لہذا اس آیت سے عدم سماع موتیٰ کا کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے۔
علامت قیامت؛ دابۃ الارض کا نکلنا:
﴿وَ اِذَا وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ اَخۡرَجۡنَا لَہُمۡ دَآبَّۃً مِّنَ الۡاَرۡضِ تُکَلِّمُہُمۡ ۙ اَنَّ النَّاسَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوۡقِنُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾﴾
اورجب ہماری بات پوری ہونے کا وقت ان لوگوں کے پاس آ پہنچے گا یعنی قیامت قریب ہو گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرے گا۔ آخری علامات قیامت میں سے ایک علامت یہ ہے اللہ تعالیٰ ایک عجیب الخلقت جانور کو زمین سے پیدا فرمائیں گے جو لوگوں سے بات کرے گا۔
سورۃ القصص
اس سورۃ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا بیان ہے اور آپ کی رسالت پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں۔ سورۃ کے آغاز سے لے کر آیت نمبر 43تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ:
﴿نَتۡلُوۡا عَلَیۡکَ مِنۡ نَّبَاِ مُوۡسٰی وَ فِرۡعَوۡنَ بِالۡحَقِّ لِقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۳﴾ ﴾
یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بالکل ابتدائی حالات وواقعات بیان ہورہے ہیں۔ فرعون کو کسی نجومی نے کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تمہاری سلطنت کے لیے خطرہ ہوگا۔ اسی لیے فرعون نے بچوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔
ام ِموسیٰ کی طرف پیغامِ خداوندی:
﴿وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ وَ لَا تَخَافِیۡ وَ لَا تَحۡزَنِیۡ ﴿۷﴾﴾
اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں ڈالا کہ جب تمہارا بچہ پیدا ہو جائے تو اسے دودھ پلاتی رہنا، جب کوئی خطرہ محسوس ہو تو اس بچے کو دریا میں ڈال دینا اور ڈرنا مت، نہ ہی غمگین ہونا۔ ہم اس بچے کو تمہارے پاس ضرور بالضرور پہنچائیں گے اور اسے رسول بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تسلی دی موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو کہ آپ کا بچہ آپ کی گود میں پلے گا، اس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، یہ قتل نہیں ہو گا۔
چنانچہ والدہ نے صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا صندوق بہتاہوا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا فرعون کے لوگوں نے اسے اٹھا کر فرعون کے پاس پہنچا دیا۔ فرعون کی بیوی آسیہ نے اسے آمادہ کرلیا کہ اسے ہم اپنا بیٹا بنا کر پالتے ہیں۔
پھر آگے پورا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کا مسئلہ پیش آیا تو آپ نے کسی بھی عورت کا دودھ نہ پیا۔ اخت موسیٰ کی تجویز کے مطابق ام موسیٰ کو دودھ پلانے کےلیے لایا گیا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی ماں کا دودھ قبول فرمالیا۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کو اپنی والدہ کے پاس لوٹا دیا گیا۔
قبطی کا قتل:
﴿ وَ دَخَلَ الۡمَدِیۡنَۃَ عَلٰی حِیۡنِ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ اَہۡلِہَا فَوَجَدَ فِیۡہَا رَجُلَیۡنِ یَقۡتَتِلٰنِ ٭۫ ہٰذَا مِنۡ شِیۡعَتِہٖ وَ ہٰذَا مِنۡ عَدُوِّہٖ ﴿۱۵﴾ ﴾
ایک قبطی اور اسرائیلی کا جھگڑا ہورہا تھا تو اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام سے مدد طلب کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسرائیلی کو قبطی کے ظلم سے بچانے کےلیے قبطی کو ایک مکہ مارا وہ تاب نہ لا سکا اور مرگیا۔ دوسرے دن وہ کسی اور سے لڑرہا تھا، اس نے پھر موسیٰ علیہ السلام کو مدد کےلیے بلایا تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم ہی شریر لگتے ہو۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے ان کی مدد کےلیے انہیں پکڑنا چاہا تو الٹا اس نے کہا اے موسیٰ کیا تم مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہو جیسے کل تم نے ایک آدمی کو قتل کردیا تھا؟
خیر خواہ کی آمد:
﴿وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡعٰی ۫ قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ الۡمَلَاَ یَاۡتَمِرُوۡنَ بِکَ لِیَقۡتُلُوۡکَ فَاخۡرُجۡ اِنِّیۡ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۲۰﴾ ﴾
ایک شخص شہر کے دوردراز علاقے سے دوڑتا ہو ا موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں آیا کہ اے موسیٰ! سردار لوگ آپ کے قتل کے متعلق مشورہ کررہے ہیں۔ کہیں وہ آپ کو قتل نہ کردیں، میں آپ کا خیر خواہ ہوں، لہذا آپ یہاں سے کہیں اور چلے جائیں۔
مدین کی طرف روانگی:
﴿وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسۡقُوۡنَ ۬۫ وَ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمُ امۡرَاَتَیۡنِ تَذُوۡدٰنِ ﴿۲۳﴾﴾
اس خیر خواہ کے کہنے پر آپ علیہ السلام مدین؛ جو کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی بستی تھی ؛کی طرف چل پڑے اور فرمایا: امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھے راستے پر ڈال دے گا۔
جب وہ مدین کے کنویں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ لوگ اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور دوعورتیں ہیں جنہوں نے اپنے جانوروں کو روکا ہوا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا۔ انہوں نے جاکر گھر اپنے والد حضرت شعیب علیہ السلام کو پوراواقعہ سنایا۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوت:
﴿فَجَآءَتۡہُ اِحۡدٰىہُمَا تَمۡشِیۡ عَلَی اسۡتِحۡیَآءٍ ﴿۲۵﴾﴾
حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی کے کہنے پر موسیٰ علیہ السلام کو اپنے پاس بلوا لیا اور تسلی دی کہ آپ خوف نہ کریں کیونکہ آپ ظالم لوگوں سے بچ آئے ہیں۔ ایک بیٹی نے درخواست کی کہ اباجان! آپ انہیں اجرت پر رکھ لیں۔ کیونکہ بہترین اجیر وہ ہے جو طاقت ور بھی ہو اور امانت دار بھی ہو۔ وہ یہ دونوں صفات حضرت موسیٰ علیہ السلام میں دیکھ چکی تھیں۔
معاہدہ اور نکاح کی پیش کش:
﴿قَالَ اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُنۡکِحَکَ اِحۡدَی ابۡنَتَیَّ ہٰتَیۡنِ ﴿۲۷﴾﴾
حضرت شعیب علیہ السلام نے از خود پیش کش کی کہ میں ان دولڑکیوں میں سے ایک سے آپ کا نکاح کردوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس کام کریں۔ اور اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کا معاملہ ہے، ہماری طرف سے آپ کو مجبور نہ کیا جائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے دونوں باتوں (نکاح، معاہدہ اجرت ) کو قبول کر لیا اور فرمایا کہ دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پوری کروں، مجھ پر کوئی زبردستی نہیں۔
ہمارے معاشرے میں لڑکے والے لڑکی والوں سے جاکر رشتہ مانگتے ہیں اور اس چیز کو معاشرے میں لوگ عیب بھی نہیں سمجھتے۔ لیکن اگر کہیں کوئی لڑکی والا خود لڑکے والوں سے اپنی لڑکی دینے کی بات کرے تو لوگ معاشرے میں اسے عیب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ شریعت کی رو سے دوسری صورت اختیار کرنے میں بھی کوئی عیب نہیں۔ بلکہ اگر کبھی نیک اور دین دار لڑکا مل جائے تو لڑکی والوں کےلیے ایسے لڑکے کو اپنا دامادبنانے کےلیے پہل کرنا مستحسن ہے۔ جیسا کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی کے نکاح کی موسیٰ علیہ السلام سے بات کی۔
موسیٰ علیہ السلام کی مصر واپسی اور عطائے نبوت:
﴿فَلَمَّا قَضٰی مُوۡسَی الۡاَجَلَ وَ سَارَ بِاَہۡلِہٖۤ اٰنَسَ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ نَارًا قَالَ لِاَہۡلِہِ امۡکُثُوۡۤا اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِخَبَرٍ ﴿۲۹﴾﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے بیوی کو ہمراہ لے کر مصرواپس روانہ ہوئے۔ رات سرد اور اندھیری تھی اور موسیٰ علیہ السلام کی بیوی امید سے تھیں۔ ان کو درد زہ شروع ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس چقماق تھا کہ پتھر کو پتھر پر مارتے تو آگ نکلتی لیکن کوشش کے باوجود اس سے آگ نہ نکلی۔ آپ نے دور سے دیکھا کہ ایک جگہ آگ ہے تو بیوی کو بتا کر آگ لینے کےلیے چلے گئے۔ جب وہاں پہنچے تو وہ آگ نہیں بلکہ تجلئ الہٰی تھی، جس سے درخت چمک رہا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اے موسیٰ! میں تمہارا رب ہوں، آپ اپنے جوتے اتار دیں کیونکہ آپ اس وقت طوی کی مقدس وادی میں ہیں۔ پھراسی مقام پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اور معجزات بھی عطا فرمائے۔ حکم دیا کہ فرعون کے پاس جائیے تو آپ نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے اپنا معاون بنوایا۔
خاتم الانبیاء کی نبوت پر دلائل:
﴿وَ مَا کُنۡتَ بِجَانِبِ الۡغَرۡبِیِّ اِذۡ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسَی الۡاَمۡرَ وَ مَا کُنۡتَ مِنَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾ ﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام کاتفصیلی واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرمارہے ہیں اور جس مقا م پر یہ واقعات (کوہ طور کے مغربی جانب توراۃ کا دیا جانا،موسیٰ علیہ السلام کا عرصہ درازتک مدین میں رہنا،مدین سے واپسی پر نبوت کا ملنا)پیش آئے ہیں وہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہیں تھے۔ لیکن آپ پھر بھی من وعن تفصیل کے ساتھ بیان فرمارہے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو وحی الہی کے ذریعے بتائے گئے ہیں اور یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔
دوہرااجر:
﴿اُولٰٓئِکَ یُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿۵۴﴾﴾
اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو پہلے اپنے نبیوں اور ان کی کتابوں پر ایمان لائے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر ایمان لائے؛ ان اہل کتاب کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے کہ ان کو دوہرا اجر ملے گا۔ کیونکہ اپنا مذہب (دین موسوی،دین عیسوی)چھوڑ کر دوسرا مذہب (اسلام)اختیار کرنے اور پھر اپنے لوگوں کی تکلیف دہ باتیں سن کر صبر کرنے پر اللہ تعالیٰ دوہرااجر عطا فرمائیں گے۔
مختار کل صرف اللہ تعالیٰ ہیں :
﴿اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۵۶﴾﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کاآخری وقت تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافی کوشش کی کہ وہ کلمہ پڑھ کر ہدایت پاجائیں حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے چچا! میرے کان میں کلمہ پڑھ لو قیامت کے دن آپ کے ایمان کی گواہی دوں گا۔ لیکن ہدایت ان کے مقدر میں نہیں تھی اور ہدایت دینے کا اختیار بھی صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے میرے محبوب! آپ جس کو ہدایت دینا چاہیں نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اسے ہدایت عطا فرماتا ہے اور اللہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
قارون کاقصہ اور انجام:
﴿اِنَّ قَارُوۡنَ کَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰی فَبَغٰی عَلَیۡہِمۡ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنَ الۡکُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوۡٓاُ بِالۡعُصۡبَۃِ اُولِی الۡقُوَّۃِ ﴿۷۶﴾﴾
قارون بنی اسرائیل کا ایک شخص تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کے چچا کا بیٹا تھا۔ اس کے پاس مال اتنا زیادہ تھا کہ اس کے خزانے کی چابیاں اونٹ اٹھاتے تھے۔ یہ فرعون کا خاص آدمی تھا اور بنی اسرائیل پر فرعون کی طرف سے نگران مقرر تھا۔ جب بنی اسرائیل فرعون کے تسلط سے نکل آئے تھے تو یہ بھی بنی اسرائیل کے ساتھ آیا تھا۔ اسے اپنے سامان اور مال و جائیداد پر بہت ناز تھا۔ یہ اونٹوں پر مال لاد کر نکلتا اور فخر وتکبر کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے اپنے فن سے مال کمایا ہے۔ پھر ایک وقت آیا کہ اللہ تعالیٰ نے قارون کو اس کے مال سمیت زمین میں دھنسا دیا۔
وعدہ خداوندی:
﴿اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَنۡ جَآءَ بِالۡہُدٰی وَ مَنۡ ہُوَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۸۵﴾﴾
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرما کر چلے، جب مقام
جُحْفَۃ
پر پہنچے جو مدینہ کے راستے کی مشہور منزل رابغ کے قریب ہے، اس وقت مکہ مکرمہ کے راستے پر نظر پڑی تو بیت اللہ اور وطن یاد آیا۔ اسی وقت جبرائیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی! جس اللہ تعالیٰ نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے وہ اللہ آپ کو مکہ دوبارہ لائے گا۔
اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے اور وعدہ فرمایاکہ ایک وقت آئے گا کہ آپ مکۃ المکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہو ں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ آٹھ ہجری میں فاتح بن کر اپنے آبائی وطن مکۃ المکرمہ میں داخل ہوئے اور یوں وعدہ خداوندی پورا ہوا۔
سورۃ العنکبوت
اس سورۃ میں مکڑی کاذکر کرکے مشرکین کو مکڑی کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جیسے وہ کمزور گھر بناکر اس پر بھروسہ کرتی ہے اسی طرح مشرکین بھی غیر اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اس سورۃ کانام "عنکبوت"رکھا گیاہے۔
یہ سورۃ مکی ہے، دیگر مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی توحید، رسالت اور قیامت کے دلائل بیان کیے گئے ہیں۔ سابقہ اقوام کے واقعات ذکرکرکے اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہےکہ اہل ایمان پر پہلے آزمائشیں آتی ہیں، پھر آسا نیاں آتی ہیں۔ والدین کی اطاعت وفرمانبرداری کے لیے معتدل اصول بیان کیا گیا ہے۔ اگر مؤمنین پر کسی جگہ میں دین پر چلنا اور عمل کرنا مشکل ہوجائے توہجرت کرکے اس علاقے کو چھوڑنے کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع ہے۔
مؤمنین پر آزمائش:
﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾ ﴾
یہ وہ زمانہ تھا جب کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم وستم کیاجاتاتھا۔ بعض اوقات مسلمان پریشان ہوجاتے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے مدد کی دعا فرمائیں۔ یہاں مؤمنین کو تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جنت تمہارے لیے تیار فرما رکھی ہے وہ اتنی سستی نہیں کہ تکلیفوں کے بغیر حاصل ہوجائے، لہذا تکلیفیں آئیں گی لیکن وہ عارضی ہیں، بہت جلد ختم بھی ہوجائیں گی لہذا تسلی رکھو، صبر سے کام لو۔ انہی آزمائشوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سچوں اور جھوٹوں کے درمیان امتیاز فرمائیں گے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم:
﴿وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ حُسۡنًا وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ لِتُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ فَلَا تُطِعۡہُمَا ﴿۸﴾ ﴾
دین اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایسا بھی ہوا کہ اولاد اسلام لے آتی لیکن والدین کفر پر بضد رہتے اور اپنی اولاد کو واپس کفر اختیار کرنے پر مجبور کرتے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک معتدل اور بر حق اصول عطا فرمایا کہ والدین کافر بھی ہوں تب بھی ان کی اطاعت وفرمانبردار ی اور ان سے حسن سلوک کرنا چاہیے۔ لیکن اگر وہ کفر کا حکم دیں یا ایسا کوئی حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہوتو اس میں والدین کی اطاعت نہ کرنا واجب اور ضروری ہے۔
آخرت میں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا:
﴿وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَ لۡنَحۡمِلۡ خَطٰیٰکُمۡ وَ مَا ہُمۡ بِحٰمِلِیۡنَ مِنۡ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۲﴾ ﴾
بعض کفار ایسے تھے جو اہل ایمان سے کہتے کہ تم ایمان چھوڑ کر واپس کفر اختیار کرلو، اگرقیامت کے دن مواخذہ ہوا توہم تمہارا بوجھ اٹھالیں گے۔ اس آیت میں کفار کی اس لغو اور فضول پیش کش کی بھر پور تردید کی گئی ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان اپنے گناہوں کا بوجھ خود اٹھائے گا، کوئی کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَلَبِثَ فِیۡہِمۡ اَلۡفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمۡسِیۡنَ عَامًا ؕ فَاَخَذَہُمُ الطُّوۡفَانُ وَ ہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ﴿۱۴﴾ ﴾
یہاں سے کئی آیات تک چند ایک سابقہ انبیاء (نوح،ابراہیم، اسحاق لوط اور شعیب )علیہم السلام کے واقعات بیان کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تسلی دی گئی ہے کہ سابقہ امتوں کو بھی پہلے آزمائش کا سامنا کرنا پڑا پھر بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان آزمائشوں کوختم کرکے اہل ایمان کو فتح اور غلبہ عطا فرما دیا۔
سابقہ امتوں کا انجام :
﴿فَکَذَّبُوۡہُ فَاَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ ﴿۫۳۷﴾﴾
یہاں سے اللہ تعالیٰ ان سابقہ امتوں کا انجام ذکر فرمارہے ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ برباد کردیا۔ ان میں قوم ثمود،قوم عاد، قارون، قوم نوح، قوم لوط، اور قوم شعیب داخل ہیں۔ تذکیر بایام اللہ کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کفار ومشرکین کو تنبیہ فرمارہے ہیں کہ اگر تم بھی اپنی حرکتوں سے بازنہ آئے تو انہی والا انجام ہوگا۔
مشرک کی مثال:
﴿مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوۡلِیَآءَ کَمَثَلِ الۡعَنۡکَبُوۡتِۚ اِتَّخَذَتۡ بَیۡتًا ؕ وَ اِنَّ اَوۡہَنَ الۡبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ﴿۴۱﴾ ﴾
مشرک کی مثال دی کہ جس طرح مکڑی جالا تن کر اس پر بھروسہ کرلیتی ہے اسی طرح مشرک بھی حقیقی خداوند قدوس کو چھوڑ کر دیگر معبودان باطلہ کو اپنا رکھوالا بنا لیتاہے۔ جس طرح مکڑی کا جالاانتہائی کمزور ہوتا ہے اسی طرح معبودان باطلہ بھی بے بس اورلاچار ہوتے ہیں اور کفار کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ