پارہ نمبر:21

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر:21
مبلغ دو چیزوں کا اہتمام کرے:
﴿اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللہِ اَکۡبَرُ﴾
دین کی دعوت دینے والے داعی اور واعظ کو دو چیزو ں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ قرآن کریم کی تلاوت اور نماز کا اہتمام۔ صرف نماز پڑھنا کافی نہیں ہے بلکہ نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ نماز انسان کو فحش اور منکر سے روک دیتی ہے۔ ”منکر“ ایسے گناہ کو کہتے ہیں جس کے حرام ہونے پر دلیل شرعی ہو، اور ”فحشاء“ اس گناہ کو کہتے ہیں جس کو ہر عقل مند شخص برا اور نامناسب سمجھے۔ بسا اوقات بندہ نماز پڑھتا ہے اور پھر بھی گناہ نہیں چھوڑتا۔ اس آیت کا معنی یہ نہیں ہے کہ نماز بندے سے اس کے گناہ چھڑوا دیتی ہے۔ اس کامعنی یہ ہے کہ نماز گناہوں سے روکتی ہے۔ روکنا اور ہے، چھڑوانا اور ہے۔ نماز پورے آداب کے ساتھ ہو تو پھر گناہوں سے روکتی ہے۔
ہجرت کا حکم:
﴿یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾﴾
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے دین پر چلنا دشوار تھا تو پہلے انہیں صبر واستقامت کی تعلیم دی گئی۔ یہاں فرمایا کہ اگر ایک جگہ رہتے ہوئے دین پر عمل اور اللہ تعالیٰ کی عبادت مشکل ہو تو ہجرت کرکے کسی ایسے علاقے کی طرف چلے جائیں جہاں دین پر چلناآسا ن ہو، اللہ تعالیٰ کی زمین بہت وسیع ہے۔
ہجرت کرنےپر شبہ کا ازالہ:
﴿وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ دَآبَّۃٍ لَّا تَحۡمِلُ رِزۡقَہَااَللہُ یَرۡزُقُہَا وَ اِیَّاکُمۡ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۶۰﴾﴾
اس آیت میں ایک شبہ کا ازالہ بھی کردیا کہ ہجرت کے وقت کسی کے ذہن میں آسکتا ہے کہ یہاں تو روزگار کی ترتیب بنی ہوئی ہے جب دوسرے علاقے میں ہجرت کرکے جائیں گے، وہاں روزگارکی ترتیب کیسے بنے گی؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بہت سے جانور ہیں کوئی بھی اپنا رزق ساتھ اٹھا کر نہیں چلتا بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں رزق دیتا ہے۔ تو کیا وہ لوگ جواللہ تعالیٰ کی اطاعت اورمرضی کےلیے اپنا وطن چھوڑیں گے، اللہ تعالیٰ انہیں رزق نہیں دیں گے؟
مشرکین کی مصیبت کے وقت پکار:
﴿فَاِذَا رَکِبُوۡا فِی الۡفُلۡکِ دَعَوُا اللہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ اِذَا ہُمۡ یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۶۵﴾﴾
مشرکین جب کشتی میں سوار ہوتے اور پھنس جاتے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کو پکارتے اور اخلاص کے ساتھ پکارتے۔ مشرک بھی سمجھتے تھے کہ اس مشکل سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی نہیں نکال سکتا۔ چونکہ یہ دعا اخلاص سے ہوتی تھی اس لیے اللہ تعالی ان کو نجات عطا فرما دیتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مؤمن ہو جاتے تھے بلکہ اس گھڑی میں ا ن کا عقیدہ یہ ہوتا تھا کہ اس مشکل سے خدا کے علاوہ ہمیں کوئی نہیں نکال سکتا۔ اللہ تعالیٰ بچالیتے یہ پھر شرک شروع کر دیتے۔ ان کی اس بری عادت اور اس احسان فراموشی کو یہاں ذکر کرکے ان پر رد کیا گیا ہے۔
مشکلات سے ہارنا نہیں چاہیے:
﴿وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ﴾
جو شخص ہمارے دین کے راستے میں مشقت برداشت کرے اور محنت کرے، ہم اس کے لیے اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔ یہ آیت دین پر چلنے والوں کےلیے بڑی خوشخبری ہے کہ جب انسان ہمت نہ ہارے بلکہ مسلسل کوشش ومحنت میں لگا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات دور فرما کر راستے کھول دیتے ہیں اور منزل مقصود تک پہنچادیتے ہیں۔
سُبُل؛ سبیل کی جمع ہے، اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک راستہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ تو دین کو ایک خاص ہیئت یا مخصوص محنت میں محدود کرنا بہت بڑا ظلم ہوگا۔ اس لیے میں یہ بات اکثر سمجھایا کرتا ہوں کہ مجموعۂ نبوت نے تین کام کیے ہیں: اشاعت دین، دفاع دین اور نفاذ دین۔ اور اس کام کے لیے چار طریقے اختیار فرمائے ہیں:تقریر، تحریر، مناظرہ اور جہاد۔
سورۃ الروم
اس سورۃ کے آغاز میں ایرانیوں کے مقابلے میں رومیوں کی فتح کی پیشین گوئی کی گئی جو سات سال بعد پوری ہوئی، اسی مناسبت سے اس کا نام سورۃ الروم ہے۔ سورۃ روم مکی ہے دیگر مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی دین اسلام کے بنیادی عقائد توحید،رسالت اور قیامت کو دلائل سے ثابت کیاگیاہے۔
شروع سورۃ میں ایک عظیم پیشین گوئی کی گئی ہے جس میں دو خوشخبریوں کا ذکر تھا۔ ایک یہ کہ کچھ سالوں بعد اہل روم [جو اہل کتاب عیسائی تھے] کو ایرانیوں [جو آتش پرست تھے] پر فتح نصیب ہوگی۔ اسی دن مسلمانوں (اہل قرآن) کو مشرکین پر فتح کی صورت میں خوشی نصیب ہوگی۔
اہل روم کےلیے فتح کی پیشین گوئی :
﴿الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ غُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ﴿۲﴾ فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ ۙ﴿۳﴾﴾
ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ دنیامیں دو سپر پاورز آمنے سامنے تھیں: ایک روم دوسری ایران۔ روم کے ہر بادشاہ کو قیصر کہاجاتاتھا۔ ایران کے ہر بادشاہ کو کسریٰ کہاجاتاتھا۔ رومی اہل کتاب عیسائی تھے اور ایرانی آتش پرست مجوس تھے۔ ایران مسلسل روم کو شکست دیتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ ادھر مکہ میں بت پرست مشرکین کی ہمدردیاں ایرانیوں کے ساتھ تھیں جب وہ کسی شہر کو فتح کرتے تو مکہ کے مشرکین؛ مسلمانوں کو چڑاتے کہ دیکھوہمارے ایرانی بھائی مسلسل اہل روم کے مقابلے میں فتح حاصل کررہے ہیں۔
اس وقت یہ سورت نازل ہوئی جس میں دو پیشین گوئیاں کی گئیں۔ پہلی یہ کہ چند سالوں میں اہل روم اہل ایران پر غالب آجائیں گے۔ اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ مسلمانو ں کی مدد فرمائیں گے اور مسلمان بھی اس سے خوش ہوجائیں گے۔ اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کااس وقت بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ اسی وجہ سے مشرکین کے سردار ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سوسو اونٹوں کی شرط لگا لی تھی کہ اگرآئندہ نو سالوں میں اہل روم غالب آگئے تو میں سو اونٹ دوں گا وگرنہ ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ )دیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس شرط کو قبول فرمالیا اس وقت تک اس طرح دوطرفہ شرط کی حرمت نہیں آئی تھی۔
اس سورۃ کے نزول کے سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس پیشن گوئی کو پورا فرمایا۔ قیصر روم ہرقل نے کسری ایران پر پلٹ کر حملہ کیا جس میں قیصر کو فتح ہوئی۔ یہ وہی سال ہے جس میں غزوہ بدر ہوا تھا۔ یوں دونوں پیشین گوئیاں پوری ہوئیں۔ ابی بن خلف مرچکا تھا اس کے بیٹوں نے شرط کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ دیے۔ اُس وقت دوطرفہ شرط کی حرمت آچکی تھی اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ ان اونٹوں کو صدقہ کردیں۔
پنج وقتہ نمازوں کا ثبوت:
﴿فَسُبۡحٰنَ اللہِ حِیۡنَ تُمۡسُوۡنَ وَ حِیۡنَ تُصۡبِحُوۡنَ ﴿۱۷﴾ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ عَشِیًّا وَّ حِیۡنَ تُظۡہِرُوۡنَ ﴿۱۸﴾﴾
اس آیت سے پانچ نمازوں کا اشارہ نکلتاہے۔
﴿حِیۡنَ تُمۡسُوۡنَ﴾
میں مغرب اور عشاء دونوں شامل ہیں،
﴿حِیۡنَ تُصۡبِحُوۡنَ﴾
میں فجر کی نماز ہے،
﴿عَشِیًّا﴾
میں عصر کی نمازہے اور
﴿حِیۡنَ تُظۡہِرُوۡنَ﴾
میں ظہر کی نماز ہے۔
قدرت باری تعالیٰ کی نشانیاں:
﴿وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا ﴿۲۱﴾﴾
اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں بیان فرمائی ہیں:انسان کو مٹی سے پیدا فرمایا۔ مرد کی راحت کےلیے بیوی پیدا فرمائی۔ آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش۔ زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا۔ رات اور دن کا ایک ایک حصہ نیند کےلیے۔ بجلی کی چمک سے ڈر اور امید دونوں ہوتی ہیں۔ آسمان وزمین اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم ہیں۔ آخر میں بعث بعد الموت کو بیان فرمایاکہ ابتدا میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا مرنے کے بعد دوبارہ بھی اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرے گا۔
انسانی اعمال کا اثر:
﴿ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ بِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ لِیُذِیۡقَہُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۴۱﴾﴾
انسانوں نے جو اعمال کیے اورجو اپنے ہاتھوں کمایا اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلتا ہے۔ اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی تکلیف، مصیبت یاطوفان آتا ہے اس کی وجہ انسانی اعمال ہیں۔ ذہن میں اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء پر جو تکلیفیں آتی ہیں کیا ان کا سبب بھی ان کے اعمال ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ضرروی نہیں کہ مصیبت ہر حال میں انسانی اعمال کی وجہ سےآئے، مصیبت کے آنے کا سبب کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ مصیبت یا تکلیف انسانی اعمال کے بجائے کسی اور سبب سے بھی آ سکتی ہے اور آیت اس کی نفی بھی نہیں کررہی۔ بغیر گناہ کے کسی کو کوئی مصیبت یا تکلیف پیش آجائے جیسے انبیاء واولیاء کو جو مصیبتیں اور تکلیفیں پیش آتی ہیں، یہ ان کی آزمائش ہوتی ہے اوراسی آزمائش کے ذریعے ان کے درجات کو بلند کیا جاتاہے۔
سورۃ لقمان
اس سورۃ میں چونکہ حضرت لقمان حکیم کی نصائح کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو فرمائی تھیں،اسی لیے اس سورۃ کا نام بھی انہی کے نام "لقمان"پر رکھا گیاہے۔
قرآن کریم کی اشاعت کا راستہ روکنا:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ ﴿۶﴾﴾
نضر بن حارث ایک مشرک تھا اور تجارت کے لیے مختلف ملکوں کا سفر کیا کرتا تھا وہاں سے پرانے بادشاہوں کے قصوں اور کہانیوں پر مشتمل کتابیں یا گانا گانے والی کنیز خرید کر لاتا۔ اہلِ مکہ کو جمع کرکے کہتاکہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں پرانے وقت کی کہانیاں، عاد اور ثمود کے قصے سناتے ہیں تو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ مزیدار کہانیاں سناتا ہوں۔ مقصد یہ تھا کہ لوگ قرآن کریم نہ سنیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا سے غافل کرنے والی باتوں کو خرید لیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو خدا کے راستے سے بھٹکا دیں اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ایسے لوگوں کےلیے درد ناک عذاب ہے۔
حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرْ لِلہِ ﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کا ذکر فرمایاکہ انہیں حکمت عطا کی گئی تھی۔ وہ توحید پرست تھے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنانے کو ظلم ِعظیم قرار دیتے تھے۔ حضرت لقمان نبی نہیں تھے،بلکہ ایک نیک اور برگزیدہ آدمی تھے۔
حضرت لقما ن نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحتیں فرمائیں: بیٹا! شرک نہ کرنا، شرک بہت بڑا گناہ ہے۔ اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ اسے حاضر کر دے گی،اس لیے اللہ تعالیٰ کے علم کا قائل رہنا۔ نماز کی پابندی کرنا۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ لوگوں کےساتھ ترش روئی سے پیش نہ آنا۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلنا۔ میانہ روی کے ساتھ چلنا۔ اپنی آواز کو پست رکھنا۔
پانچ چیزوں کا علم:
﴿اِنَّ اللہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ ۚ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفۡسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ﴿٪۳۴﴾﴾
یہاں پانچ چیزوں کاذکر اس لیے فرمایاکہ عام طور پر لوگ انہی پانچ چیزوں کے بارے میں بات کرتےہیں، نجومیوں سے انہی کے بارے میں پوچھتے ہیں،اندازے انہی کے بارے میں لگاتے ہیں۔ وہ پانچ چیزیں یہ ہیں:
قیامت کا علم۔ بارش کب ہو گی،ماداؤں کے پیٹ میں کیاہے،انسان کیا کمائے گا اور انسان کہاں مرے گا۔ مذکورہ پانچوں چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ان کے علم کو
”مفاتح الغیب“
یعنی غیب کی پانچ کنجیا ں بھی کہاجاتاہے۔
سورۃ السجدہ
ا س سورت میں آیتِ سجدہ اور سجدہ کا ذکر ہے اسی وجہ سے اس کا نام سورۃ سجدہ رکھا گیا ہے۔ اس سورۃ میں دین اسلام کے بنیادی ارکان توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات کیا گیاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں اس سورۃ کی تلاوت فرمایاکرتے تھے۔
آسمان وزمین کی تخلیق:
﴿اَللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ﴾
اللہ تعالیٰ نےآسمان، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیداکیا۔ چھ دنوں سے مراد چھ دنوں کی مقدار ہے کیونکہ اس وقت تو دن رات ہوتے ہی نہیں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوئے۔ یہ متشابہاتمیں سےہے اور استواء علی العرش کا معنی ہم نہیں جانتے بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔
استویٰ علی العرش پر مدلل بحث کے لیے میری مرتب کردہ فائل
"القواعد فی العقائد"
کا مطالعہ فرمائیں۔
ملاقات کا ہونا یا کتاب کا ملنا:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَلَا تَکُنۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآئِہٖ ﴿ۚ۲۳﴾﴾
اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تورات دی ہے اور آپ کو قرآن کریم دیا ہے
﴿فَلَا تَکُنۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآئِہٖ﴾
یہ قرآن ہماری طرف سے ہے اس قرآن میں آپ نے شک نہیں کرنا! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے قرآن ہونے میں کوئی شک نہیں تھا لیکن بسا اوقات اس پر مزید پختہ رہنے کے لیے اللہ پاک ایسی بات ارشاد فرماتے ہیں۔
ایک معنی مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تورات دی اور آپ کی موسیٰ علیہ السلام سے اس دنیا میں ملاقات ہو گی اس ملاقات میں آپ شک نہ کرنا، یقین رکھنا کہ آپ کی ملاقات موسیٰ علیہ السلام ہی سے ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موسیٰ علیہ السلام سے یہ ملاقات معراج کی رات آسمانوں پر ہوئی ہے۔
مقتدا کے لیے دو شرطیں:
﴿وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ﴿۲۴﴾﴾
اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت کا مقتدا اور امام الہدیٰ بناتے ہیں اس کے لیے دو شرطیں ہیں: کمالِ علمی۔ کمال ِعملی۔
﴿لَمَّا صَبَرُوۡا﴾
یہ کمال ِعملی ہے۔ صبر کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ طاعات پر بھی صبر کرنا، گناہوں سے رکنے پر بھی صبر کرنا اور مشقت آئے تو برداشت کرنا۔ کمال عملی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا؟
﴿وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ﴾
آیات پر یقین رکھنا۔ یقین وہی کرے گا جس کے پاس علم اور فہم ہو، یہ کمالِ علمی ہے۔
سورۃ الاحزاب
اس سورۃ میں غزوہ احزاب کا ذکر ہے۔ اسی وجہ سے اس کانام الاحزاب رکھا گیا ہے۔ یہ سورۃ مدنی دور میں نازل ہوئی اس میں چند اہم چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ متبنیٰ یعنی لے پالک بیٹے کے احکام،غزوہ احزاب، غزوہ بنی قریظہ، ازواج مطہرات، ختم نبوت،پردہ کے احکام وغیرہ۔
تین غلط باتوں کی تردید:
﴿مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ﴿۴﴾ ﴾
عرب میں تین باتیں بہت مشہور تھیں:
ایک بات یہ تھی کہ جو سمجھ دار آدمی ہوتا اور بات کی تہہ تک پہنچتا تو لوگ اس کے بارے میں کہتے کہ اس کے دو دل ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے دو دل پیدا نہیں فرمائے۔ دوسری یہ تھی کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو "تم میرے لیے ایسی ہو جیسے میری ماں کی پشت" کہہ دیتا تو وہ اپنی بیوی کو ماں کی طرح حرام سمجھتے۔ تیسری یہ تھی کہ جب کوئی شخص کسی کو اپنا منہ بولابیٹا بنا لیتا تو وہ اسے ایسے سمجھتے تھے جیسے حقیقی بیٹا ہو، میراث میں شریک کرتے، اس کی بیوی سے اس کی طلاق یا وفات کے بعد نکاح کوحرام سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان تینوں کی تردید فرمائی۔
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم جان سے عزیز:
﴿اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مؤمنین کو ان کی اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ومحبوب ہیں اور ازواج مطہرات مؤمنوں کی مائیں ہیں۔ اس کے باوجود بھی مسلمانوں کی وراثت کامال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہرات میں تقسیم نہیں ہوتا بلکہ مؤمنین کے اپنے قریبی رشتے داروں میں تقسیم ہوتا ہے۔ تو پھر متبنیٰ کو کیسے وراثت مل سکتی ہے!
غزوہ خندق کا واقعہ:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا ۚ﴿۹﴾﴾
یہاں سے لے کر آیت نمبر 27تک غزوہ احزاب کا مختلف پہلوؤں سے تذکرہ چل رہا ہے۔ مشرکین مکہ نے احد وبدر میں ناکامی کے بعد عرب کے مختلف قبائل کو مسلمانوں کے خلاف جمع کرکے بارہ سے پندرہ ہزار کا لشکر تیار کیا اور مدینہ منورہ پر حملے کی نیت سے نکلے۔ ادھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع مل گئی آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق مدینہ منورہ کے باہر خندق کھودی گئی۔ مشرکین نے تقریباً ایک ماہ تک محاصرہ کیا ۔بالآخر خدائی مدد سے تیزآندھی چلی جس سے مشرکین بھاگ گئے۔ مدینہ سے یہود بنی قریظہ نے عہد شکنی کی تو غزوہ خندق سے فارغ ہونے کے بعد مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا۔ پھر حضرت سعدرضی اللہ عنہ کے فیصلہ کے مطابق ان کے مردوں کو قتل کیا گیا اور ان کے نابالغ بچوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈیاں بنایا گیا۔ درمیان میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کا بھی ذکر فرمایا ہے جنہوں نے حیلے بہانے کرکے غزوہ میں شریک ہونے سے عذر پیش کیاتھا۔
ازواج مطہرات کا ذکر:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا ﴿۲۸﴾﴾
اس آیت کو "آیتِ تخییر "بھی کہتے ہیں۔ ازواج مطہرات نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ خندق اورجنگ بنی قریظہ کی فتوحات کے بعد نفقہ بڑھانے کا ایک جائز مطالبہ کیاتھا۔ لیکن یہ ازواج مطہرات کی شان کے لائق نہیں تھا۔ اس لیے ان آیات کو نازل کرکے ازواج مطہرات کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں اور اپنی اس سوچ کو بد لیں۔ اور اگر دنیا کی زیب وزینت کو اختیار کرنا چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ لیکن قربان جائیے اپنی ماؤں پر کہ انہوں نے پہلی صورت اختیار کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں، اور ان شاءاللہ آخرت میں بھی ساتھ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی روحانی ماؤں کی قدراور ان کی ناموس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ