بری مجالس، جھوٹی گواہی سے اجتناب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بری مجالس، جھوٹی گواہی سے اجتناب
اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی نویں صفت یہ ذکر فرمائی ہے :
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 72
ترجمہ: ” اور وہ )عباد الرحمٰن ( غلط کام میں شریک نہیں ہوتے “
اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف میں ایک وصف ”بری مجالس سے دوری اور جھوٹی گواہی سے اجتناب “ ہے یعنی وہ صرف پاکیزہ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔ بے حیائی، ناچ گانا، محفل موسیقی، محفل قوالی، سالگرہ کی مجالس، شراب و کباب کی مجالس، غیر مسلموں کے تہوار الغرض کسی بھی ناجائز اور ناحق کام کی مجلس میں شریک نہیں ہوتے اور اس سے مراد یہ بھی ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔
بے حیائی سے رکنے کا حکم:
إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
سورۃ النحل، آیت نمبر 90
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی انصاف، احسان اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتے ہیں اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے روکتے ہیں اللہ تعالیٰ تمہیں )اس لیے (نصیحت کرتے ہیں تاکہ تم اس نصیحت سے فائدہ حاصل کرو۔
دردناک عذاب کی وعید :
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔
سورۃ النور، آیت نمبر 19
ترجمہ: بے شک ایسے لوگ جو ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اللہ کو علم ہے اور تم نہیں جانتے۔
محفل موسیقی :
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بُعِثْتُ رَحْمَةً وَهَدًى لِلْعَالَمِينَ، لِمَحْقِ الْأَوْثَانِ، وَالْمَعَازِفِ وَالْمَزَامِيرِ، وَأَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ
المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7852
ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے دونوں جہانوں کے لیے باعث رحمت اور ذریعہ ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے بت پرستی، کھیل تماشے کے آلات، موسیقی کے آلات اور جاہلیت کی رسومات کو مٹانے کے لیے بھیجا ہے۔
محفل قوالی:
قوالیوں میں طبلہ، سرنگی اور دیگر آلات موسیقی ہوتے ہیں جو کہ شریعت میں حرام ہیں۔ دوسری اس سے بھی بڑی قباحت قوالی میں ذکر کردہ وہ الفاظ ہوتے ہیں جو اکثر کفریہ شرکیہ اور قبر پرستی اور توہم پرستی کی ترغیب پر مشتمل ہوتے ہیں، سننے والے انہی کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں۔ مذکورہ خرابیوں کی وجہ سےشرعاً قوالی سننا ناجائز اور حرام ہے بلکہ گانا سننے سے بھی بڑا گناہ ہے کیونکہ لوگ گانے کو گناہ سمجھ کر سنتے ہیں جبکہ قوالی کو ثواب کی نیت سے سنتے ہیں۔یہ بھی گناہ کی مجلس ہوتی ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ جو قرآن محبت سے نہیں پڑھتے وہ قوالیوں کے دلدادہ ہو جاتے ہیں۔
لمحہ فکریہ!
جس نبی کی محبت کا ہم دم بھرتے ہیں، جس کی شفاعت کے امید رکھتے ہیں، جس کے ہاتھوں جام کوثر پینے کی تمنا رکھتے ہیں اور جنت میں جس کے پڑوس کی آرزو کرتے ہیں وہ نبی تو ان آلات کو توڑنے کے لیے بھیجے گئے اور آج ہم ان چیزوں کو ”روح کی غذا“ کا نام کر دے کر بے دھڑک اس گناہ کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی تعلیم دی تھی؟
سالگرہ:
ہمارے لوگ اپنے بچوں کی سالگرہ کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں، اس میں شک نہیں کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے اس پرخوش ہونا چاہیے لیکن خوشی کا مطلب یہ نہیں کہ غیر مسلموں جیسی بود و باش، طرز زندگی اور انہی کی تہذیب کو اپنایا جائے جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں انہی میں سے ایک رسم سالگرہ ہے۔ یہ غیر مسلم اقوام کی نقالی اور مشابہت ہے جس کی اسلامی تعلیمات میں سختی کے ساتھ ممانعت موجود ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
سنن ابی داؤد، باب فی لبس الشھرۃ، حدیث نمبر 4033
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔
محفل شراب و کباب:
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَجْلِسْ عَلَى مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْهَا الْخَمْرُ
السنن الکبریٰ للنسائی، باب النھی عن الجلوس علی مائدۃ یدار علیھا الخمر، حدیث نمبر 6708
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: جو بندہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو وہ ایسی مجلس محفل میں بالکل شریک نہ ہو جہاں شراب نوشی کی جاتی ہو۔
غیر مسلموں کے تہوار :
عَنْ أَبِي عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:لَا تَعَلَّمُوا رَطَانَةَ الْأعَاجِمِ، وَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ فِي كَنَائِسِهِمْ يَوْمَ عِيدِهِمْ، فَإِنَّ السَّخْطَةَ تَنْزِلُ عَلَيْهِمْ
مصنف عبدالرزاق، باب الصلاۃ فی البِیعۃ، حدیث نمبر 1609
ترجمہ: حضرت ابو عطاء بن دینار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:عجمیوں کی زبان)جو اپنے ساتھ غیر اسلامی تہذیب لائے (مت سیکھو اور مشرکوں کے معبد خانوں میں ان کے تہوار کے دن مت جاؤ، کیونکہ ان پر اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے۔
فائدہ: عجمیوں کی زبان سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دین دشمنوں کی زبان۔ اور اس کی ممانعت بھی اس وقت ہے جب اس میں دین کے ضائع ہونے کا خدشہ ہو اور اگر دینی یا دنیوی نفع مقصود ہو تو پھر جائز بلکہ مستحب اور بہتر ہے۔
جھوٹی گواہی:
وَلَا یَاْبَ الشُّھَدَاءُ اذَا مَا دُعُوا
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر282
ترجمہ: جب گواہی مانگی جائے تو وہ انکار نہ کریں۔
لاَ تَکْتُمُوا الشَّہَادَةَ وَمَنْ یَکْتُمْہَا فَانَّہ آثِمٌ قَلْبُہ
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر283
ترجمہ: گواہی کومت چھپاؤ اور جس نے گواہی کو چھپا یا تو یقیناً اس کا دل گناہ گار ہے۔
یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰی أنْفُسِکُمْ أوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأقْرَبِیْنَ۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 135
ترجمہ: اے ایمان والو!تم انصاف قائم کرنے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بنو۔اگرچہ )وہ گواہی (خود اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے خلاف کیوں نہ ہو۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ؟ ثَلاَثًا، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: اَلإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ۔ وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ - أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ، قَالَ: فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا: لَيْتَهُ سَكَتَ
صحیح بخاری، باب ماقیل فی شھادۃ الزور، حدیث نمبر 2654
ترجمہ: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کیوں نہیں یا رسول اللہ! ضرور فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ کے ساتھ شریک کرنا، والدین کی نا فرمانی کرنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک سےاٹھ کر بیٹھ گئے؛ حالانکہ آپ پہلے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے اور فرمایا اچھی طرح سنو!جھوٹی بات )یعنی جھوٹی گواہی دینا(۔ اس آخری جملہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر دہراتے رہے؛ یہاں تک کہ ہم لوگوں کو خیال ہوا کاش آپ خاموش ہوجاتے!