قربانی فضائل و مسائل

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قربانی فضائل و مسائل
اللہ تعالیٰ کے ہاں عید الاضحیٰ کے دن سب سے زیادہ محبوب عمل قربانی کا ہے۔ قربانی کے دن قریب آ رہے ہیں اس لیے مختصر طور پر اس کے متعلقہ چند مسائل ذکر کیے جاتے ہیں۔
نصاب اور صاحب نصاب:
قربانی کرنا ہر صاحب نصاب پر واجب ہے۔ اور نصاب کی تفصیل یہ ہے: جن جن چیزوں پر صدقۃ الفطر واجب ہوتا ہے انہی پر قربانی واجب ہوتی ہے لہٰذا جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں یا بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے مردوعورت پر قربانی کرنا واجب ہے۔
جانور:
قربانی کے لیے بھیڑ، بکری، گائے، بھینس، اونٹ(نر، مادہ) ذبح کیے جا سکتے ہیں جبکہ بھینس باجماع امت گائے کی قسم ہے۔ لہٰذا اس کی قربانی بھی کی جا سکتی ہے۔
ناجائز اعضاء:
قربانی کے جانور کے یہ سات اعضاء کھانا جائز نہیں: خون، مادہ جانور کی شرمگاہ، خصیتین، غدود، نر جانور کی پیشاب گاہ، مثانہ اور پِتَّہ۔
جانور کی عمر:
قربانی کے جانوروں میں بھیڑ، بکری ایک سال کی، گائے بھینس دو سال کی، اور اونٹ پانچ سال کا ہو۔
شرکاء کی تعداد:
قربانی کا جانور اگر اونٹ، گائے یا بھینس ہو تو اس میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔ اگر جانور بکری یا بھیڑ ہو تو وہ صرف ایک آدمی کی طرف سے کفایت کرتی ہے۔
ایام قربانی:
قربانی کے تین دن ہیں 10،11،12 ذوالحجہ۔
جانور سے متعلق چند مسائل:
1: خصی جانور کی قربانی کرنا جائز بلکہ افضل ہے۔
2: اگر جانور کے اکثر دانٹ ٹوٹے ہوئے ہوں کہ چارہ بھی نہ کھا سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں، ہاں اگر چارہ کا سکتا ہو تو قربانی جائز ہے۔
3: جس جانور کے پیدائشی طور پر ایک یا دو کان نہ ہوں یا کان کا تیسرا حصہ یا اس سے زائد حصہ کٹا یا چیرا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں، ہاں اگر تیسرے سے کم کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔
4: جانور کی دم اگر تہائی سے کم کٹی ہوئی ہو تو قربانی جائز ہے اگر تہائی یا اس سے زائدکٹی ہوئی ہو تو قربانی جائز نہیں ہے۔
5: گائے یا بھینس وغیرہ کا ایک تھن خراب اور باقی تین ٹھیک ہوں تو قربانی جائز ہے اور اگر دو تھن خراب ہوں تو قربانی جائز نہیں۔ اسی طرح بکری وغیرہ کا ایک تھن خراب ہو تو قربانی جائز نہیں۔
6: جانور اگر اندھا ہو یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی یا اس سے زائد روشنی نہ ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں ہاں اگر روشنی تہائی سے کم رہ جاتی ہے تو قربانی جائز ہے۔
قصاب اور ذبح کرنے والا:
ذبح کرنے والے کےلیے ضروری ہے کہ مسلمان ہو، لہذا غیر مسلم کا ذبیحہ حرام ہے۔
عقیقے کا حصہ:
اگر کوئی آدمی عقیقہ کی نیت سے قربانی کے جانور میں اپنا حصہ رکھ لے تو یہ جائز ہے۔
یہاں ہم نے چند مسائل لکھ دیے ہیں تفصیل قریبی علماء کرام سے معلوم کر لی جائیں۔
نوٹ: مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا میں ہر سال کی طرح اس سال بھی اجتماعی قربانی کا انتظام کیا گیا ہے۔ گائے فی حصہ 10000 ہے سرگودھا شہر اور مضافات میں گوشت گھر پہنچانے کا انتظام بھی موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کےلیے تمام نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، فیصل آباد
جمعرات، 9 اگست، 2018ء