تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم … حصہ دوم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم … حصہ دوم
اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی راہنمائی کے لیے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا پھر ان پر ایمان لانے کا حکم دیا اور ان سے محبت، اطاعت اور تعظیم کو لازم قرار دیا۔
امت میں سب سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اور اس کے بعد درجہ بدرجہ تمام اہل ایمان نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی ہے۔ تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دائرہ بہت وسیع ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہرہر چیز کو عظمت کی نگاہ سے دیکھنا اور قدر کرنا شامل ہے۔
عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا قَالَا … إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَيْنَيْهِ قَالَ: فَوَاللہ ِ، مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَي قَوْمِ، وَاللہِ، لَقَدْ وَفَدْتُّ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلَی قَيْصَرَ وَکِسْرَی وَالنَّجَاشِيِّ، وَاللہِ، إِنْ رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا. وَاللہِ، إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَ إِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَه۔
صحیح بخاری، باب الشروط فی الجهاد والمصالحۃ مع أهل الحرب، حدیث نمبر2732
ترجمہ: حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ عروہ بن مسعود )کفار کی طرف سے وکیل بن کر آ ئے تو) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جائزہ لیتے رہے کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لعاب دہن زمین پر ڈالنا چاہتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اس کو فورا ً پورا کیا جاتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کےلئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے لگتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی آوازوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انتہائی آہستہ رکھتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔
اس کے بعد عروہ بن مسعود جب واپس اپنے ساتھیوں کی طرف گئے اور ان سے کہنے لگے: اے قوم! اﷲ ربّ العزت کی قسم! میں (بڑے بڑے) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں۔
لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد) صلی اللہ علیہ وسلم( کے صحابہ ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ لعاب دہن زمین پر ڈالنا چاہتے ہیں تو ان کا لعاب دہن کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ ان کے وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کی سعادت حاصل کرنے لیے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے وہ ان کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو آہستہ رکھتے ہیں، اور انتہاء درجہ تعظیم کے وجہ سے وہ ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللهِ أَنَا أَعْلَمُ لَكَ عِلْمَهُ فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ مُنَكِّسًا رَأْسَهُ فَقَالَ مَا شَأْنُكَ فَقَالَ شَرٌّ كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ مُوسَى بْنُ أَنَسٍ فَرَجَعَ الْمَرَّةَ الْآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ فَقَالَ اذْهَبْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَلَكِنْ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ
صحیح بخاری، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، حدیث نمبر 3613
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مجلس میں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو حاضر نہ پایا )تو ان کے بارے میں دریافت فرمایا(ایک صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں معلوم کر کے آتا ہوں۔ چنانچہ وہ صحابی حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں )پریشانی کے عالم میں (سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ آنے والے صحابی نے حضرت ثابت سے پوچھا: خیر تو ہے؟ تو حضرت ثابت رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ بہت پریشان کن صورتحال ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے مقابلے میں میری آواز بلند ہوتی تھی، سارے نیک اعمال بے کار ہو گئے ہیں اور میں جہنمی قرار دیا گیا ہوں۔ وہ صحابی اس بات کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے کہ معاملہ اس طرح ہے۔ حضرت موسیٰ بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ صحابی دوبارہ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بڑی خوشخبری لے کر گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے فرمایا کہ تم حضرت ثابت کے پاس جاؤ اور جا کر میرا یہ پیغام انہیں دو کہ وہ جہنمی نہیں بلکہ جنتی ہیں۔
فائدہ: حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ جلیل القدر انصاری صحابی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترجمان خطیب تھے۔ آپ کی گفتگو فصاحت وبلاغت سے پر ہوتی تھی، آنے والے وفود سے بات چیت فرمایا کرتے تھے چونکہ قدرتی طور پر آواز قدرے بلند تھی جب سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات مبارکہ نازل ہوئیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم سکھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو!اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو ورنہ تمہارے اعمال بے کار ہو جائیں گے۔
تو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اس کی وجہ سے بہت پریشان ہوئے اور ادب کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی حاضر نہ ہوئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا شمار بھی انہیں لوگوں میں نہ ہو۔ اور آیت کے نازل ہونے سے پہلے چونکہ مجلس نبوی میں حاضر ہوتے رہتے تھے اسی بات کو سوچ سوچ کر پریشان ہو گئے۔ مذکورہ واقعہ کا پس منظر یہی ہے۔
خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کا معرکہ لڑا گیا، تو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تیاری کی، اپنا کفن تیار کرایا اور اسی کفن کو پہن کر جنگ میں شریک ہوئے بے جگری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے۔ رضی اللہ عنہ
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کی قدرتی طور پر آواز بلند ہو اور وہ نبی کی مجلس میں بات کر لے تو یہ تعظیم کے خلاف نہیں۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عام انسانوں جیسا طرز گفتگو اختیار کرنا منع ہے۔
عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ أَبِي رَزِينٍ قَالَ: قِيلَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَيُّمَا أَكْبَرُ أَنْتَ أَمِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ:هُوَ أَكْبَرُ مِنِّي وَأَنَا وُلِدْتُ قَبْلَهُ۔
المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر 5398
ترجمہ: حضرت مغیرہ بن ابی رزین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا (حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ مجھ سے بڑے ہیں اور میں ان سے پہلے پیدا ہوا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا جیسے آپ کی دنیوی حیات مبارکہ میں ضروری تھا، وفات کے بعد بھی لازم ہے۔ اس پر دو احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ اِذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ فَجِئْتُهُ بِهِمَا قَالَ مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا قَالَا مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ قَالَ لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
صحیح بخاری، باب رفع الصوت فی المساجد، حدیث نمبر 470
ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں کھڑا تھا کہ کسی شخص نے مجھے کنکری ماری، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جاؤ اور ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لے آؤ۔ میں انہیں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُن سے پوچھا: تم کن لوگوں میں سے ہو؟ (یعنی کس قبیلے سے تمہارا تعلق ہے؟) انہوں نے کہا: ہم اہل طائف میں سے ہیں۔اس پرحضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم اہل مدینہ میں سے ہوتے تو میں تمہیں سزادیتا اس لئے کہ تم مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی آوازیں بلند کررہے ہو۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ كُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي دُفِنَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي فَأَضَعُ ثَوْبِي فَأَقُولُ إِنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ فَوَاللَّهِ مَا دَخَلْتُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَةٌ عَلَيَّ ثِيَابِي حَيَاءً مِنْ عُمَرَ۔
مسند احمد، حدیث نمبر25536
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ میرے گھر کے جس کمرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے والد(حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ) کی قبریں تھیں میں وہاں اپنے سرپر دوپٹہ نہ ہونے کی حالت میں بھی چلی جاتی تھی کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ یہاں صرف میرے شوہر اور میرے والد ہی تو ہیں، لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی وہاں تدفین ہوئی تو بخدا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حیا کی وجہ سے میں جب بھی اس کمرے میں گئی تو اپنی چادر اچھی طرح لپیٹ کر ہی گئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہمارا ایمان ہے، آپ کی شان و عظمت بیان کرنی چاہیے اور ضرور کرنی چاہیے لیکن اس سے بھی زیادہ آپ کی تعلیمات پر عمل کر کے تعظیم کو بجا لانا چاہیے۔ اللہ کریم ہمیں اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی المعظم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
جامعہ مدینۃ العلم، فیصل آباد
جمعرات، 29 نومبر، 2018ء