اسلام میں نوجوانوں کے حقوق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">اسلام میں نوجوانوں کے حقوق

اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے تین مراحل ذکر فرمائے ہیں :
اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ ۢ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ ۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّ شَیْبَۃً یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ ہُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ۔
سورۃ الروم ، رقم الآیۃ: 54
ترجمہ: اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہاری پیدائش کی ابتداء کمزوری سے کی ، پھر کمزوری کے بعد طاقت )جوانی (عطا فرمائی ، پھر طاقت کے بعد )دوبارہ(کمزوری اور بڑھاپا طاری کر دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہی وہ ذات ہےجس کا علم اور قدرت )دونوں( کامل ہیں۔
جوانی ؛ اعتدال کا استعارہ:
انسان کی زندگی جن تین حصوں میں تقسیم ہے ان میں جوانی کا زمانہ درمیان میں آتا ہےجس سے اعتدال کا اشارہ ملتا ہےکیونکہ بچپن میں شعور نہیں ہوتا اور بڑھاپے میں قوت نہیں ہوتی جبکہ جوانی ان دونوں وصفوں کا حسین امتزاج ہوتی ہے ، شعور اور قوت مل کر ہی علم و عمل کی راہیں ہموار کرتی ہیں ۔
جسم اور شعور کی پختگی:
قرآن کریم نے نو جوانوں کےلیےایسے لفظ کا انتخاب فرمایا ہے جس میں عقل و شعور کی پختگی کے ساتھ جسم و جان کی مضبوطی کا معنیٰ بھی پایا جاتا ہے ۔
وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْا اِلَیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ۔
سورۃ النساء، رقم الآیۃ: 6
ترجمہ: اور یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اس کے بعد اگر تم یہ محسوس کرو کہ ان میں عقل و شعور کی پختگی آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کردو۔
فائدہ: اس آیت مبارکہ میں نوجوانی کو نکاح کی عمر اور عقل و شعور کی پختگی کا زمانہ کہا گیا ہے ۔
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ۔
سورۃ الانعام ، رقم الآیۃ: 152
ترجمہ: اور یتیم جب تک جوانی کی عمر کو نہ پہنچ جائیں اس وقت تک ان کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔
ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّکُمْ۔
سورۃ الحج ، رقم الآیۃ: 5
ترجمہ: تمہیں ایک بچے کی شکل میں باہر لاتے ہیں اس کے بعد )تمہیں پالتے ہیں ( تاکہ تم اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جاؤ۔
حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ۔
سورۃ الاحقاف ، رقم الآیۃ: 15
ترجمہ: یہاں تک کہ وہ اپنی بھر پور جوانی کی عمر کو پہنچ گیا ۔
فائدہ: ان آیات میں جوانی کو )جسم اور شعور کی (پختگی کا زمانہ کہا گیا ہے۔
جوانی کا زمانہ چونکہ ہر اعتبار سے اپنے اندر پختگی اور اعتدال رکھتا ہے جس سے نوجوانوں کو اس بات کی تعلیم ملتی ہے کہ وہ عقائد و نظریات میں پختگی جبکہ اعمال و معاملات میں اعتدال سے کام لیں۔
قوم و ملت کا سرمایہ:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کابڑا حصہ نوجوانوں کے نصیب میں آیا ہے کیونکہ ہر قوم کا سرمایہ نوجوان ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ کے حکم کے مطابق دین اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو جوان طبقے کو اس طرف بلایا اور نوجوانوں کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر لبیک کہا ۔
چند نوجوان صحابہ:
یوں تو تاریخ اسلامی میں بکثرت نام ایسے ملتے ہیں جنہوں نے اپنے زمانہ شباب میں اسلام قبول کیا جن میں چند ایک ذکر کیے جاتے ہیں۔
1: حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے سولہ سال کی خدمت میں اسلام قبول فرمایا، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کا ایک وفادار دوست ہوتا ہے اور میرا وفادار دوست زبیر ہے ۔
2: حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے سترہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا ،غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوب دفاع کیا ۔ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو” طلحۃ الخیر“ کے لقب سے نوازا۔
3: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نےسترہ سال کی عمر میں اسلام قبول فرمایا، تیر اندازی کے خوب ماہر تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے سعد !دشمن پر تیر برساؤ ۔ میرے ماں باپ آپ پر قرباں ہوں۔
4: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کا امیر بنایا تو ان کی عمر سترہ سال تھی جس پر منافقین نے طوفان بدتمیزی پیدا کیا ۔
5: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پچیس سال کی عمر میں اسلام قبول فرمایا، جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرنبی کا جنت میں ایک ساتھی ہوگا اور میرا جنت کا ساتھی عثمان ہوگا۔
6: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھبیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا ، یہ ایسے نوجوان تھے جن کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ! اسلام کی شان و شوکت کے لیے عمر کو اسلام کی دولت نصیب فرما۔
7: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تیس سال کی عمر میں اسلام قبول فرمایا۔
8: حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بتیس سال کی عمر میں قبول اسلام کے شرف سے مالا مال ہوئے۔
9: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اڑتیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا،آپ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی چیز ایسی اللہ نے میرے سینہ میں نہیں ڈالی جس کو میں نے ابو بکر کے سینہ میں نہ ڈال دیا ہو ۔
قیامت میں جوانی کا سوال:
جوانی …اتنا قیمتی زمانہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے” غنیمت“ قرار دیا ہے ، گناہوں سے حفاظت کی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، قیامت کے دن اس زمانے کی اہمیت کی وجہ سے اس کا سوال ہوگا کہ اسے کیسے خرچ کیا ؟اور جو بندہ اس زمانے میں اللہ کی عبادت کرتا ہے اللہ کریم قیامت والے سخت دن میں اسے” سایۂ رحمت“ نصیب فرمائیں گے ۔
جوانی کو غنیمت جانیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ: اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ۔
مستدرک علی الصحیحین ، الرقم: 7846
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو !نوجوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مال داری کو فقر وتنگدستی سے پہلے ،فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔
فائدہ: جوانی مستانی اور جوانی دیوانی کا نعرہ لگانے والے نوجوان حدیث مبارک میں غورفرمائیں کہ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جاننا کس لحاظ سے ہے؟ آیا موج مستی، فضول ، ناجائز ، واہیات اور حرام کاموں میں جوانی کو برباد کرنا اور آخرت میں عذاب سے دوچار ہونا یا پھر اس زمانے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کر کے اللہ کے انعام کا مستحق ہونا ۔
جوانی کو گناہوں سے بچائیں:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ عَلَى عَبْدِ اللهِ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَابًا لَا نَجِدُ شَيْئًا فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ۔
صحیح البخاری، باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم، الرقم: 5066
تر جمہ : حضرت عبدالرحمٰن بن یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں علقمہ اور اسود کے ہمراہ حضرت عبداللہ کے پاس ہوا ، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نوجوانوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا تو ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے نوجوانو ں کی جماعت ! تم میں سے جو شادی کر نے کی استطاعت رکھتا ہو تو وہ ضرور شادی کرلے ، اس سے بدنظری )جیسے کبیرہ گناہ( سےحفاظت ہوتی ہے اورشر مگاہ کی حفاظت ہو تی ہے اور جو شخص شادی کی قدرت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیو نکہ روزے اس کےلیے ڈھال کا کا م دیتے ہیں ۔
فائدہ: انسان جب جوان ہوتا ہے تو اس میں شہوت پیدا ہوتی ہے اگر اس کو جائز طریقے سے پورا نہ کیا جائے تو پھر بدنظری ،حرام تعلقات ، جنسی گناہ ، لواطت اور زنا وجود میں آتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عزت و آبرو ، حیا و تقدس ، پاکدامنی و شرافت اور خاندانی نظام کی چولہیں ہل جاتی ہیں۔ ان گناہوں کا زیادہ تر تعلق چونکہ جوانی کے زمانے کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے میں انسانی فطرت کے صحیح استعمال کا حکم دیا ہے ۔
قیامت میں سوال:
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی شان الحساب والقصاص، الرقم: 2340
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن کوئی بندہ اس وقت تک اپنا پاؤں نہیں اٹھا سکے گا جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے سوال نہ کر لیا جائے، اس کی عمر کے بارے میں کہ کہاں خرچ کی؟ اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں ختم کیا؟ اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا ؟اور کہاں خرچ کیا؟ اور علم کے بارے میں کہ اس پر کتنی حد تک عمل کیا؟
فائدہ: قیامت کے دن بطور خاص جوانی کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اگر جوانی کو گناہوں کے بجائے نیکیوں میں خرچ کیا ہوگا اور جوانی میں خوب اللہ کی عبادت کی ہو گی تو اللہ رب العزت ایسے نوجوان کو قیامت والے دن جب ہر طرف گرمی اور تپش ہوگی ایسے وقت میں سایہ نصیب فرمائیں گے ۔
عرش الہٰی کا سایہ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ َضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللهَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ
صحیح البخاری ، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ ، الرقم: 660
تر جمہ : حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :سات خوش نصیب ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اُس (قیامت کے ) دن )اپنی طرف سے ( سایہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہیں ہو گا: انصاف کرنے والا حکمران، ایسا نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ہو ، وہ آدمی جس کا دل مسجد میں ہی لگا رہتا ہو، وہ دو آدمی جو اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں محبت کریں، اسی کی خاطر ملیں اور اسی کی خاطر جدا ہوں، وہ آدمی جسے کوئی بڑے خاندان والی خوبصورت عورت گناہ کی طرف بلائے مگر وہ اس سے کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، وہ آدمی جو اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح صدقہ کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی اس کے صدقے کا علم نہیں ہوتا۔ )یعنی چھپا کر دے ( اور وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہوں۔
فائدہ: ہمیں کبھی تنہائی میں بیٹھ کر یہ سوچنا چاہیے اور بار بار سوچنا چاہیے کہ قیامت کے دن کی ہولناکی کس قدر ہوگی، اللہ کا جلال ، غیظ و غضب اور غصہ ہوگا ، تپش ، گرمی کی شدت اور ساری انسانیت کے سامنے ذلت و رسوائی ۔ اللہ معاف فرمائے۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اس شخص کو سایہ عطا فرمائیں گے جس نے اپنی جوانی کو اللہ کی عبادت میں گزارا ہوگا ۔
قابل رشک سچا نوجوان:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَحَبَّ الْخَلَائِقِ إِلَى اللَّهِ شَابٌّ حَدَثُ السِّنِّ جَمِيلٌ فِي صُورَةٍ حَسَنَةٍ جَعَلَ شَبَابَهُ وَجَمَالَهُ فِي عِبَادَةِ اللَّهِ فَذَاكَ الَّذِي يُبَاهِي بِهِ الرَّحْمَنُ مَلَائِكَتَهُ يَقُوْلُ: هَذَا عَبْدِي حَقًّا۔
الترغیب فی فضائل الاعمال لابن شاہین، باب فضل عبادۃ الشاب
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام مخلوق میں اللہ کے ہاں سب سے محبوب وہ نوجوان ہے جو صورت کے اعتبار سے بھی خوب صورت ہو ۔ اپنی جوانی اور خوب صورتی کو اللہ کی عبادت میں خرچ کرے ایسے نوجوان پر اللہ تعالیٰ ملائکہ کے سامنے فخر فرماتے ہیں اور انہیں فرماتے ہیں کہ یہ میرا سچا بندہ ہے ۔
فرشتہ سیرت نوجوان:
عَنْ يَزِيدَ بْنِ مَيْسَرَةَ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: أَيُّهَا الشَّابُّ التَّارِكُ شَهْوَتَهُ لِي الْمُبْتَذِلُ شَبَابَهُ مِنْ أَجْلِي، أَنْتَ عِنْدِي كَبَعْضِ مَلَائِكَتِي.
کتاب الزھد لابن مبارک، باب فخر الارض بعضہا علی بعض، نمبر346
ترجمہ: یزید بن میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے وہ نوجوان ! جو مجھے راضی کرنے کے لیے شہوت کو چھوڑتے ہو، اپنی جوانی کو میری اطاعت میں خرچ کرتے ہو ۔ میرے ہاں تیرا مقام ایسا ہے جیسے میرے بعض فرشتوں کا ۔
محمد بن قاسم اور محمد الفاتح :
جب ہم تاریخ اسلام میں مسلم نوجوان کے کارنامے دیکھتے ہیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہوتا ہے۔ محمد بن قاسم الثقفی رحمہ اللہ نے جب سندھ کو فتح کیا اوریہاں اسلام کی بہاریں لائے اس وقت وہ اسلامی لشکر کے کمانڈر تھے اور ان کی عمر سترہ سال تھی۔ اسی طرح محمد الفاتح رحمہ اللہ نے جب قسطنطنیہ )ترکی(کو فتح کرنے کے لیے فکر مند ہوئے اس وقت ان کی عمر انیس سال تھی اور اپنے والد کے بعد جب وہ والی بنائے گئے تو انہوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا اس وقت ان کی عمر تئیس سال تھی ۔
اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو اسلام اور اہل اسلام کی خدمت کے لیے قبول فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
جامعہ مدینۃ العلم ، فیصل آباد
جمعرات ، 31 جنوری ، 2019ء