اسلام میں بچوں کے حقوق

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اسلام میں بچوں کے حقوق
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رحمت عطا فرمائی اس کا حصہ بچوں نے بھی پایا بلکہ”چھوٹے“ ہونے کےباوجود ”بڑا“ حصہ پایا۔ اگرچہ موضوع طویل ہے لیکن انتہائی اختصار و جامعیت سے چند باتیں لکھی جا رہی ہیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ بچوں کے بارے میں قرآن و سنت سےہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے ؟
روزی دینا اللہ کے ذمہ ہے:
اسلام نے کبھی بھی بھوک و افلاس کے خوف سے بچوں کی پیدائش پر سختی نہیں کی ، بلکہ قرآن کریم میں ایسا کرنے والوں کی پرزور طریقے سے حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور انسان کو تسلی دی ہے کہ ان کے روزی کے اسباب ضرور اپنائے لیکن روزی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نےاحسان کرتے ہوئے ان کی اور ہماری روزی کا ذمہ خود لیا ہے ۔ اور اللہ رب العزت جس بات کو احساناً اپنے ذمہ لے لیں تو اس میں پریشان اور مایوس نہیں ہونا چاہیے:
وَ لَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا۔
سورۃ الاسراء ، رقم الآیۃ: 31
ترجمہ: اور تم اپنی اولادکو بھوک کے خوف سے مار مت ڈالو ہم انہیں بھی اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں ۔ یقیناً ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔
فائدہ: اس لیے فکر مند ہونا بچوں کی پیدائش سے آبادی بڑھ گئی تو ہم ان کو کھلائیں گے اور پلائیں گے کہاں سے؟ لہٰذا اسے قابو کیا جائے ! یہ فکر اسلامی تعلیمات سے میل نہیں کھاتی۔
بچوں کی فطرت کا اسلامی ہونا:
بچوں کی پیدائش کے بعد اب ان کی مذہبی تربیت کرنا بنیادی حقوق میں سے ہے اور بچے اس کو جلد قبول کرتے ہیں بشرطیکہ انہیں تربیت کا ماحول دیا جائے ۔ وجہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش فطرت کے مطابق ہوئی ہوتی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ۔
صحیح البخاری، باب ماقیل فی اولاد المشرکین، الرقم: 1385
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرت )اسلام(پر پیدا ہوتا ہے اس کے بعد اس کے والدین اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی )وغیرہ(بنا دیتے ہیں۔
فائدہ: بچوں کی فطرت اور جبلت میں اسلام موجود ہوتا ہے اگر ان کو اسلامی احکامات و آداب سے روشناس کرایا جائے تو وہ اسے جلد قبول کر لیتے ہیں ۔
کان میں اذان و اقامت کہنا:
عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُودٌ، فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَى، وَأَقَامَ فِي أُذُنِهِ الْيُسْرَى، لَمْ يَضُرَّهُ أُمُّ الصِّبْيَانِ۔
عمل الیوم واللیلۃ ، باب ما یعمل بالولد اذا ولد، الرقم: 623
ترجمہ: نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں کلمات اذان اور بائیں کان میں کلمات اقامت کہےاس کی وجہ سے ام الصبیان )یہ ایک بیماری کا نام ہے جس میں بچہ سوکھ کر کانٹا ہو جاتا ہے (نہیں لگے گی ۔
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ۔
جامع الترمذی ، باب الاذان فی اذن المولود، الرقم: 1436
ترجمہ: حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھا کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی پیدائش ہوئی تو آپ نے حسن کے کان میں نماز والی آذان دی۔
گھٹی دینا:
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ فَيُبَرِّكُ عَلَيْهِمْ وَيُحَنِّكُهُمْ۔
صحیح مسلم، باب صب الماء علی البول اذا اصاب الثوب، الرقم: 588
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھوٹے بچوں کو لایا جاتا آپ ان کو برکت کی دعا دیتے اور انہیں گھٹی دیتے تھے۔
پیدائش کے ساتویں دن:
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِتَسْمِيَةِ الْمَوْلُودِ يَوْمَ سَابِعِهِ وَوَضْعِ الْأَذَى عَنْهُ وَالْعَقِّ۔
جامع الترمذی ، باب ماجاء فی تعجیل اسم المولود، الرقم: 2758
ترجمہ: حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے )بچے کی پیدائش کے (ساتویں دن اس بچے کا نام رکھنے، اس سے تکلیف دہ چیزوں )بال ، ناخن ، ختنے کی چمڑی وغیرہ(کو دور کرنے اور عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔
اچھا نام رکھنا:
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ۔
سنن ابی داؤد باب فی تغییر الاسماء، الرقم: 4297
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں قیامت والے دن تمہارے اپنے اور تمہارے باپوں کے ناموں سے پکارا جائے گا اس لیے تم اچھے نام رکھو۔
محمد نام رکھنا:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، يَقُولُ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَسَمَّوْا بِاسْمِي ، وَلاَ تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي.
صحیح مسلم ، باب تسموا باسمی ولاتکنوا بکنیتی ، الرقم: 5648
ترجمہ: حضرت محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے نام والا نام رکھو لیکن میری کنیت پر اپنی کنیت نہ رکھو ۔
نوٹ: مطلب ہے کہ تم اپنا اور اپنے بچوں کا نام محمد رکھو لیکن میری کنیت ابوالقاسم جیسی کنیت ابوالقاسم نہ رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک اس دنیا میں زندہ تھے اس وقت تک ابوالقاسم کنیت رکھنا منع تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب یہ کنیت رکھی جا سکتی ہے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں اس کا ذکر ہے۔
ابوالقاسم کنیت رکھنا:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ وُلِدَ لِي بَعْدَكَ أُسَمِّيهِ مُحَمَّدًا وَأُكَنِّيهِ بِكُنْيَتِكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَكَانَتْ رُخْصَةً لِي۔
جامع الترمذی ،باب ماجاء فی کراھیۃ الجمع ،الرقم: 2770
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی : یارسول اللہ !اگر آپ کے بعد میرے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو کیا میں اس کانام محمد اور اس کی کنیت) ابوالقاسم(رکھ سکتاہوں؟ اس بارے آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں )رکھ سکتے ہو( حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کی یہ بات بطور اجازت کے ہے۔
انبیاء کرام والے نام رکھنا:
عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجُشَمِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ وَأَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ وَأَصْدَقُهَا حَارِثٌ وَهَمَّامٌ وَأَقْبَحُهَا حَرْبٌ وَمُرَّةُ۔
سنن ابی داؤد باب فی تغییر الاسماء، الرقم: 4299
ترجمہ: حضرت ابووہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبیوں والے نام رکھو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں اور ان میں زیادہ سچے نام حارث اور ہمام ہیں اور برے نام حرب اور مرہ ہیں ۔
اللہ کے پسندیدہ نام:
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ۔
جامع الترمذی ، باب مایستحب من الاسماء، الرقم: 2759
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل کے ہاں سب سے محبوب اور پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔
نوٹ: ان کے علاوہ بھی احادیث مبارکہ میں اور نام مذکور ہیں جو اچھے ہیں۔
ناپسندیدہ نام:
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَنْهَيَنَّ أَنْ يُسَمَّى رَافِعٌ وَبَرَكَةُ وَيَسَارٌ.
جامع الترمذی ، باب مایکرہ من الاسماء ، الرقم: 2761
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں بہت تاکید سے رافع ، برکۃ اور یسار)جیسے (نام رکھنا سے روکتا ہوں ۔
نوٹ: اس کے علاوہ بھی کئی نام ہیں جنہیں ناپسندیدہ کہا گیا ہے ۔
نام کی تبدیلی:
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيَّرَ اسْمَ عَاصِيَةَ وَقَالَ أَنْتِ جَمِيلَةُ۔
جامع الترمذی باب ماجاء فی تغییر الاسماء، الرقم: 2764
ترجمہ: حضرت ا بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصیہ نام بدل دیا تھا اور اور اس خاتون سے کہا کہ تو )تیرا نام(جمیلہ ہے۔
نوٹ: اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکئی نام تبدیل فرمائے۔
فائدہ: نام اچھا ہو، انبیاء کرام، صحابہ ،صحابیات اور نیک لوگوں والا نام ہو ۔ فلمی ایکٹرز، گلوکاروں اور فنکاروں کے نام پر نام رکھنا فیشن تو ضرور ہے لیکن درست نہیں۔ نام کی اپنی تاثیر ہوتی ہے اس لیے اچھے نام والے میں برکات ہوں گی اور جس کا نام اچھا نہیں ہوگا اس میں برکات بھی نہیں ہوں گی ۔ اس لیے نام رکھتے وقت اپنے قریبی علماء کرام سے مشورہ کر لینا چاہیے اور ان سے پوچھ کر نام رکھنا چاہیے ۔ خود نام رکھ کر اس کے معنیٰ علماء کرام سے پوچھنا نامناسب بات ہے۔
نامناسب فرمائش:
ہمارے ہاں یہ فرمائش کی جاتی ہے کہ ایسا نام بتاؤ کہ وہ نام پہلے پوری برادری میں کسی اور کا نہ ہو۔ ایسی فرمائش کرنا اور اس پر اصرار کرنا درست نہیں۔
بھاری نام :
اچھے ناموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں نام وزنی اور بھاری ہے بچہ اس کو اٹھا نہیں سکے گا ۔ یا یہ نام رکھنے کی وجہ سے بچہ بیمار رہتا ہے ۔ یہ سراسر غلط بات ہے اچھے نام بالخصوص انبیاء کرام اور صحابہ کرام والے ناموں میں برکت ہوتی ہے جس کی برکات بچے میں بھی منتقل ہوتی ہیں۔ ان ناموں کو وزنی کہنا غلط ہے اور ان کی وجہ سے بچوں کو بیمار بتلانا بھی انتہائی غلط بات ہے ۔
سر مونڈنا اور زعفران لگانا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِى بُرَيْدَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ كُنَّا فِى الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا وُلِدَ لأَحَدِنَا غُلاَمٌ ذَبَحَ شَاةً وَلَطَخَ رَأْسَهُ بِدَمِهَا فَلَمَّا جَاءَ اللَّهُ بِالإِسْلاَمِ كُنَّا نَذْبَحُ شَاةً وَنَحْلِقُ رَأْسَهُ وَنَلْطَخُهُ بِزَعْفَرَانٍ.
سنن ابی داؤد، باب فی العقیقۃ، الرقم: 2845
ترجمہ: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب ہم میں سے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو وہ ایک بکری ذبح کرتا اور اس بکری کے خون کو بچے کے سر پر مَلتا اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی دولت سے نوازا تو ہم ایک بکری ذبح کرتے اور بچے کے سر کو مونڈاتے ہیں اور اس پر زعفران مَل دیتے ہیں۔
بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنا:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ عَقَّ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَسَنِ بِشَاةٍ وَقَالَ يَا فَاطِمَةُ احْلِقِي رَأْسَهُ وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِهِ ۔
جامع الترمذی ، باب العقیقۃ بشاۃ ، الرقم: 1439
ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کی طرف سے ایک بکری کا عقیقہ کیا اور فرمایا: اے فاطمہ اس کے سر کو مونڈو اور اس کے بالوں کی مقدار کے برابر چاندی صدقہ کرو۔
دودھ پلانا:
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ۔
سورۃ البقرۃ ، رقم الآیۃ: 233
ترجمہ: اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں یہ ( دودھ پلانے والا حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔
جب بولنا شروع کرے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: افْتَحُوا عَلَى صِبْيَانِكُمْ أَوَّلَ كَلِمَةٍ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ۔
شعب الایمان للبیہقی، الرقم: 8282
ترجمہ: حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچوں کو سب سے پہلے کلمہ )لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ( سکھلاؤ۔
کھانے کے آداب:
عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ رَحِمَہُ اللہُ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ:كُنْتُ غُلاَمًا فِي حِجْرِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ يَدِي تَطِيشُ فِي الصَّحْفَةِ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا غُلاَمُ سَمِّ اللهَ وَكُلْ بيَمِينِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ۔
صحیح البخاری،باب التسمیۃ علی الطعام والاکل بالیمین ، الرقم: 5376
ترجمہ: حضرت وہب بن کیسان ر حمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے عمر بن ابی سلمہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرتربیت تھا )ایک دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا (اور میرا ہاتھ سالن والے برتن میں گھوم رہا تھا )جیسا کہ عام طور پر بچوں کی عادت ہوتی ہے اپنے سامنے سے بھی کھاتے ہیں اور دوسروں کے سامنے سے بھی چیزیں اٹھا لیتے ہیں (تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بچے!بسم اللہ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔
فائدہ: اس حدیث مبارک میں تین باتیں سکھائی جا رہی ہیں کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی چاہیے، دائیں ہاتھ سے کھانا چاہیے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہیے۔
درختوں سے پھل توڑنا:
عَنْ عَمِّ أَبِي رَافِعِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:كُنْتُ أَرْمِي نَخْلاً لِلأَنْصَارِ وَأَنَا غُلاَمٌ فَأَتَوْا بِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا غُلاَمُ لِمَ تَرْمِي النَّخْلَ؟ قُلْتُ: آكُلُ قَالَ : فَلاَ تَرْمِ النَّخْلَ وَكُلْ مِمَّا يَسْقُطُ فِي أَسَافِلِهَا ثُمُّ مَسَحَ رَأْسِي وَقَالَ : اللَّهُمَّ أَشْبِعْ بَطْنَهُ.
المعجم الکبیر للطبرانی، الرقم: 4459
ترجمہ: ابو رافع بن عمرو الغفاری رضی اللہ عنہ کے چچا سے مروی ہے کہ جب میں بچہ تھا ان دنوں میں انصار کی کھجور توڑ رہا تھا مجھےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے بچے !تم )بغیر اجازت(کیوں کھجور توڑ رہے تھے ؟ تو میں نے کہا کہ اپنے کھانے کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ )کسی کی کھجور(مت توڑو۔ ہاں جو نیچے گری ہوئی ہیں ان کو کھا لو ۔ پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے یہ دعا دی : اے اللہ اس کے پیٹ کو سیر کر دے۔
نماز کی عادت اور حکم:
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرُوا أَوْلاَدَكُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِى الْمَضَاجِعِ .
سنن ابی داؤد ،متی یومر الغلام بالصلاۃ، الرقم: 495
ترجمہ: حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اولاد سات سال کی ہو جائے تو ان کو نماز پڑھنے کا کہو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں) پھر بھی نماز نہ پڑھیں( تو ان کو مارو اور ان کے بستر بھی الگ الگ کردو۔
چند بنیادی عقائد:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ.
جامع الترمذی ، باب منہ، الرقم: 2440
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے بچے! میں تجھے چند باتیں سکھلاتا ہوں: اللہ کے دین کے احکام کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا ۔ اللہ کے احکام کی حفاظت کر تو اسے اپنا مددگار پائے گا جب تو مانگے تو اللہ ہی سے مانگ اور جب تجھے مدد کی ضرورت ہو تو اللہ سے مانگ اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے کہ اگر سارے لوگ مل کر تجھے نفع دینا چاہیں تو وہ تجھے نہیں دے سکتے جتنا اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ اکٹھے ہوجائیں اور تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر جتنا اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے ، تقدیر لکھنی والی قلموں کو اٹھا لیا گیا اور صحائف خشک ہوچکے ہیں۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ بچوں کوشروع ہی سے صحیح عقائد و اعمال کی تعلیم دینی چاہیے اور حسن معاشرت بھی سکھلانی چاہیے۔
نرمی کرنے کا حکم:
أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَبَّلَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَعِنْدَهُ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ جَالِسًا فَقَالَ الْأَقْرَعُ إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ۔
صحیح البخاری، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ ، الرقم: 5997
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی کو بوسہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے تو وہ یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ میرے دس بچے ہیں میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی بوسہ نہیں دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔
تادیبی مار پیٹ:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلِّقُوا السَّوْطَ حَيْثُ يَرَاهُ أَهْلُ الْبَيْتِ فَإِنَّهُ لَهُمْ أَدَبٌ۔
المعجم الکبیر للطبرانی، الرقم: 10671
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:گھر میں کوڑا اس طرح لٹکاؤ کہ گھر والے اسے دیکھتے رہیں یہ ان کو ادب سکھلانے کے لیے ہے) کہ سرزنش بھی ہو سکتی ہے(
اولاد میں برابری:
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ فِي الْعَطِيَّةِ۔
صحیح البخاری، باب الھبۃ للولد
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ چیزیں دینے میں اپنی اولاد میں برابری کا معاملہ کرو۔
بددعا نہ دیں:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَلاَ تَدْعُوا عَلَى أَوْلاَدِكُمْ وَلاَ تَدْعُوا عَلَى خَدَمِكُمْ وَلاَ تَدْعُوا عَلَى أَمْوَالِكُمْ لاَ تُوَافِقُوا مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى سَاعَةَ نَيْلٍ فِيهَا عَطَاءٌ فَيَسْتَجِيبَ لَكُمْ۔
سنن ابی داؤد، باب النھی عن ان یدعوالانسان علی اھلہ ، الرقم: 1534
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آپ پر بددعا نہ کرو ، نہ اپنی اولاد کو بددعا دو اور نہ ہی اپنے خدمت کرنے والوں کو بددعا دو اور نہ اپنے مالوں پر بددعا کرو بعض اوقات اللہ کی طرف سے قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے تو وہ بددعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔
فائدہ: بعض لوگ جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے بات بات پر بچوں کو بددعائیں دیتی ہیں۔ انہیں اس حدیث مبارک سے سبق لینا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کوبلکہ ہماری نسلوں کو ایک اچھا مسلمان اور ایک اچھا شہری بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ ، سرگودھا
جمعرات ، 7فروری ، 2019ء