پڑوسیوں کے حقوق

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پڑوسیوں کے حقوق
اللہ تعالیٰ نے انسان کو معاشرتی زندگی بسر کرنے کے لیے پڑوسیوں کی نعمت سے نوازا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حقوق کی بہت اہمیت ذکر فرمائی ہے۔
جبریل کی آمد:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا زَالَ يُوْصِيْنِي جِبْرِيْلُ بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ۔
صحیح البخاری، باب الوصاۃ بالجار ، الرقم: 6014
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسیوں کے )حقوق) کے بارے میرے پاس جبریل امین اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث )حقدار(قرار دیا جائے گا ۔
فائدہ: حدیث مبارک سے اندازہ کیجیے کہ شریعت میں پڑوسی کی قدر ومنزلت اور اس کا احترام کس قدر ہے؟ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کر دیں تو ہمارا معاشرہ جنت کا نمونہ بن جائے ۔
پڑوسیوں کی عزت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ ۔
صحیح مسلم ، باب الحث علی اکرام الجار ، الرقم: 67
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ رب العزت اور قیامت کے دن )یعنی تمام ایمانیات کو صدق دل سے (تسلیم کرنے والا ہےاسے چاہیے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرے۔
فائدہ: حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ مومن کی شان یہی ہے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرنے اور ان کی عزت کی رکھوالی کرنے والا ہوتا ہے ۔
پڑوسیوں کی رعایت:
عَنْ أَبِي ذَرٍّرَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا وَتَعَاهَدْ جِيرَانَكَ۔
صحیح مسلم ، باب الوصیۃ بالجار والاحسان الیہ، الرقم: 4758
ترجمہ: حضرت ابو ذر غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر !جب شوربہ ) والا سالن( بناؤ توپڑوسیوں کو اس میں سے دینے کے لیے کچھ پانی بڑھا لو ۔
فائدہ: حدیث مبارک کا مقصد یہ ہے کہ پڑوسیوں کے حقوق ادا کرتے وقت معمولی چیزیں دینے میں بھی کوتاہی سے کام نہ لو بلکہ اگر سالن بنانا ہے تو اس کی کچھ مقدار اضافہ کر لو تاکہ پڑوسیوں کو بھیجا جا سکے۔
پڑوسیوں کی دیوار:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَمْنَعْ أَحَدُكُمْ جَارَهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَةً فِي جِدَارِهِ
صحیح مسلم ، باب غرز الخشب فی جدار الجار ، الرقم: 3019
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے پڑوسی کودیوار پر لکڑی وغیرہ گاڑنےیعنی اسے استعمال کرنے سے نہ روکے ۔
فائدہ: یہ تب ہے جب دیوار مضبوط ہو اور پڑوسی کے استعمال کرنے سے نقصان کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ اگر دیوار مضبوط نہ ہو یا پڑوسی کے استعمال سے نقصان کا اندیشہ ہے تو محبت کے ساتھ روکا جا سکتا ہے۔
پڑوسیوں کے دس بنیادی حقوق:
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَتَدْرِي مَا حَقُّ الْجَارِ؟ إِذَا اسْتَعَانَكَ أَعَنْتَهُ وَإِذَا اسْتَقْرَضَكَ أَقْرَضْتَهُ وَإِذَا افْتَقَرَ عُدْتَ عَلَيْهِ وَإِذَا مَرِضَ عُدْتَهُ وَإِذَا أَصَابَهُ خَيْرٌ هَنَّأْتَهُ وَإِذَا أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ عَزَّيْتَهُ وَإِذَا مَاتَ اتَّبَعْتَ جِنَازَتَهُ وَلَا تَسْتَطِيلُ عَلَيْهِ بِالْبِنَاءِ تَحْجُبُ عَنْهُ الرِّيحَ إِلَّا بِإِذْنِهِ وَلَا تُؤْذِيهِ بِقُتَارِ قِدْرِكَ إِلَّا أَنْ تَغْرِفَ لَهُ مِنْهَا وَإِنِ اشْتَرَيْتَ فَاكِهَةً فَاهْدِ لَهُ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَأَدْخِلْهَا سِرًّا وَلَا يَخْرُجُ بِهَا وَلَدُكَ لِيَغِيظَ بِهَا وَلَدَهُ۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب اکرام الجار، الرقم: 9113
ترجمہ: حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں پڑوسیوں کے حقوق کا پتہ ہے ؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا:
إِذَا اسْتَعَانَكَ أَعَنْتَهُ:
پڑوسیوں کا پہلا بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ آپ سے جانی یا مالی مدد مانگیں تو اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر ان کی مدد کریں۔
وَإِذَا اسْتَقْرَضَكَ أَقْرَضْتَهُ:
پڑوسیوں کا دوسرا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر ضرورت کے پیش نظر وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے ۔ یہاں بھی یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر پڑوسی ایسا ہو جو قرض لے کر واپس نہ کرتا ہو تو ایسے پڑوسی کو قرض دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے ہاں اگر پڑوسی معاملات کا اچھا ہو تو قرض دیا جائے ورنہ قرض کے بجائے جہاں تک ہو سکے تعاون کر دیا جائے۔
وَإِذَا افْتَقَرَ عُدْتَ عَلَيْهِ:
پڑوسیوں کا تیسرا بنیادی حق یہ ہے کہ جب فقر اور محتاجی کی حالت کو پہنچ جائے پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر اس کے فقر و تنگدستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔
وَإِذَا مَرِضَ عُدْتَهُ:
پڑوسیوں کا چوتھا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور بیمارپرسی کی جائے اور اس موقع پر بھی کچھ پھل فروٹ وغیرہ ساتھ لے جایا جائے یا کچھ رقم اسے دی جائے لیکن اس دینے کو ضروری نہ سمجھا جائے ہاں اس کی ضرورت کو سمجھا جائے۔
وَإِذَا أَصَابَهُ خَيْرٌ هَنَّأْتَهُ:
پڑوسیوں کا پانچواں بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آئے، مثلاً : ان کے ہاں اولاد ہونا ، امتحانوں میں پاس ہونا ، روزگار کا مل جانا ، شادی بیاہ وغیرہ تو ان کو مبارک باد دینا ۔ یہاں بھی یہ بات یاد رکھیں کہ اگر وہ پڑوسی خوشی کے موقع پر غیر شرعی یا غیر اخلاقی پروگرام کرتا ہے تو اس میں بالکل شرکت نہ کی جائے اور نہ ہی اس موقع پر مبارک باد دی جائے تاکہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو ۔
وَإِذَا أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ عَزَّيْتَهُ:
پڑوسیوں کا چھٹا بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی غمی کا موقع آئے مثلا فوتیدگی ہو جائے ، ان کے ہاں چوری ہو جائے ، ایکسیڈنٹ ہو جائے یا گھر میں کسی چیز کا نقصان ہو جائے وغیرہ تو ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا ۔
وَإِذَا مَاتَ اتَّبَعْتَ جِنَازَتَهُ:
پڑوسیوں کا ساتواں بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں فوتیدگی ہو جائے تو بشرط صحت عقائد اس کے جنازے میں شرکت کی جائے ہاں اگر فوت ہونے والے پڑوسی کے عقائد درست نہیں تو جنازے میں شرکت سے اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ جنازہ حکم شرعی ہے ، رسم نہیں۔
وَلَا تَسْتَطِيْلُ عَلَيْهِ بِالْبِنَاءِ :
پڑوسیوں کا آٹھواں بنیادی حق یہ ہے کہ اپنے گھر کی دیوار اس کی اجازت کے بغیر اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کے گھر کی ہوا رک جائے۔ یا اس صورت میں ہے جب عام آبادیوں میں گھر بنایا جائے اگر کسی مجبوری کی وجہ سے رہائشی یا دفاتر وغیرہ کے پلازے بنانا ناگزیر ہوں تو بھی اخلاقی طور پر پڑوسی سے اس کی اجازت لی جائے اور پڑوسی کو بھی اخلاقی طور پر اجازت دے دینا چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بے پردگی کے پیش نظر پڑوسیوں کو اطلاع کیے بغیر اپنے گھر کی چھت پر چڑھنا جائز نہیں ۔
وَلَا تُؤْذِيهِ بِقُتَارِ قِدْرِكَ :
پڑوسیوں کا نواں بنیادی حق یہ ہے کہ گھر میں کھانا تیار کرتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ کھانوں کی تیاری کے وقت پیدا ہونے والی خوشبو سے پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے یہ نہ ہو ایک گھر سے روزانہ قسماقسمی کھانوں کی خوشبوئیں مہکتی رہیں اور ساتھ والا پڑوسی بھوکا رہے ہاں اگر کھانا تیار کرنے کے بعد کچھ ان کو بھی اخلاقی طور پر بھیج دیا جائے، تب ٹھیک ہے ۔
وَإِنِ اشْتَرَيْتَ فَاكِهَةً فَاهْدِ لَهُ:
پڑوسیوں کا دسواں بنیادی حق یہ ہے کہ اگر آپ اپنے لیے پھل وغیرہ خریدیں تو ان میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی ہدیے کے طور پر بھیج دیں اور اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے یا آپ کےلیے ایسا کرنا فی الوقت ممکن نہیں تو پھر اپنے گھر میں پھل وغیرہ چپکے سے لائیں تاکہ پڑوسی دیکھ کر دکھ بھری آہیں نہ بھریں ۔ اور اپنے بچوں کو پھل دے کر باہر نہ بھیجیں کیونکہ اس کی وجہ سے پڑوسیوں اور ان کے بچوں کو رنج و ملال اور غربت کا احساس ہوگا ۔
پڑوسیوں کو تکلیف دینےکا انجام:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لاَ يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ.
صحیح مسلم ، باب من لا یامن جارہ بوائقہ، الرقم: 81
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسیوں کو تکلیف دینے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا ۔
حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے:اولا جنت میں داخل نہیں ہوگا ہاں پڑوسیوں کو دی گئی تکلیف والے جرم کی سزا بھگت کر یا پڑوسیوں کے معاف کرنے کی وجہ سےباالآخر جنت میں جائے گا۔ کافروں کی طرح ہمیشہ کےلیے جہنمی نہیں ہے ۔
لمحہ فکریہ!
مذکورہ بالا احادیث سے جہاں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسیوں کے اتنے حقوق ہیں تو خود اپنے گھر والوں کے کتنے حقوق ہوں گے ۔ جب پڑوسیوں کو تکلیف دینا ، ان کا دل دکھانا جائز نہیں تو خود اپنے گھر والوں سے بول چال چھوڑنا ، مارنا پیٹنا اور غیر اخلاقی برتاؤ کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ آج ہمارے معاشرے میں بہت سے خود کو دین دار کہلانے والوں کا اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ، اگر گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا جاتا ہے ہر جائز اور ناجائز خوشیاں دینا شروع کر دی جاتی ہیں ۔ اسلام وہ اعتدال والا دین ہے کہ یہاں خوشی بھی دینی ہے اور جائز خوشی دینی ہے ۔
اللہ کریم ہمیں پڑوسیوں کےحقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
جامعہ مدینۃ العلم، فیصل آباد
جمعرات ،25 جولائی ، 2019ء