تین ہلاک کرنے والی چیزیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تین ہلاک کرنے والی چیزیں
اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے نجات دینے والی چیزیں سمجھائیں اسی طرح ہلاک کرنے والی چیزیں بھی واضح فرما دیں کہ اگر کسی مسلمان میں یہ سب بری عادتیں ہوں یا ان میں سے کوئی ایک ہو تو وہ انسان کو ہلاک کر دیتی ہے جن برے اور قبیح اعمال کی ہلاکت خیزیاں دنیا میں بھی ظاہر ہوتی ہیں اور آخرت میں تو ہلاکت ہے ہی ۔ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَأَمَّا الْمُهْلِكَاتِ: فَهَوًى مُتَّبِعٌ وَشُحٌّ مُطَاعٌ وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ وَهِيَ أَشَدُّهُنَّ۔
شعب الایمان للبیہقی ، فصل فی الطبع علی القلب ، الرقم: 6865
ترجمہ: ہلاک کرنے والی چیزیں یہ ہیں : خواہشاتِ نفس کی پیروی ، لالچ و طمع کے پیچھے لگنا اور خود پسندی میں مبتلا ہونا ۔ یہ آخری چیز پہلی دو کے مقابلے میں زیادہ ہلاک کرنے والی ہے ۔
خواہشاتِ نفس:
جو کام خلاف شریعت ہیں ان کو پسند کرنا شہوت یا خواہشاتِ نفس کہلاتا ہے ۔ ان میں سب سے بڑا درجہ کفر و شرک کا ہے کیونکہ کفر و شرک خلاف شریعت ہے اور جو بندہ اپنے لیے کفر و شرک کو پسند کرتا ہے وہ اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی میں لگا ہوا ہے یہ وہ درجہ ہے جو انسان کو اسلام سے دور کر دیتا ہے ۔ اور اس کا کم درجہ یہ ہے کہ بندہ شریعت کی کامل اتباع سے دور ہو جاتا ہے ۔
خواہشاتِ نفس کی اقسام:
خواہشاتِ نفس میں سےایک کو بدعت کہتے ہیں جس کا تعلق عقائد اور علم سے ہے جبکہ دوسری کو معصیت کہتے ہیں جس کا تعلق اعمال سے ہے ۔ ان میں سے ہر ایک انسان کو صراطِ مستقیم سے دور کر دیتی ہے ۔
خواہشاتِ نفس سے دور رہنے کا حکم:
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خواہشاتِ نفس کی خاصیت بتلاتے ہوئے اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے:
وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ۔
سورۃ ص ، رقم الآیۃ: 26
ترجمہ: اور خواہشاتِ نفس کی پیروی نہ کریں کیونکہ یہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے بے راہ کر دے گی ۔
خواہشاتِ نفس اور دنیاوی امور:
خواہشاتِ نفس کا نقصان دہ اور مہلک ہونا ساری دنیا کو تسلیم ہے یہاں تک کہ وہ لوگ جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں وہ بھی بعض لوگوں کو بعض کاموں سے روکتا ہے، مثلاً: کسی ملک کا حاکم ہےبھلے وہ کافر بھی کیوں نہ ہو وہ بھی اپنے ملک میں لوگوں کو من مانیاں کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اپنے ملکی قوانین کا پابند بناتا ہے بعض کاموں سے روکتا ہے ظاہر ہے کہ وہ جن کاموں سے قانوناً روکتا ہے وہ وہی کام ہیں جنہیں لوگ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ حاکم اسے ملک کےلیے نقصان دہ سمجھتا ہے اور اس سے روک دیتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ دنیاوی معاملات میں بھی خواہشاتِ نفس ایسی چیز ہے جس سے رکنا ہی ضروری ہے ورنہ تو چور ، ڈاکو ، ظالم سب اپنی من مانیاں کرتے پھریں حالانکہ اس کی کوئی بھی عقل مند انسان کھلی چھٹی نہیں دے سکتا ۔
خواہشاتِ نفس علم الہٰی کی روشنی میں:
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کی ذات احکم الحاکمین ہے زمین و آسمان سب اس کے مملوک ہیں اور اس کی ملکیت میں شامل ہیں ۔ اس کائنات کا بھی اس ذات نے ایک نظام بنایا ہے اس کے علم میں ہے کہ فلاں فلاں چیز لوگوں کے عقائد و اعمال کے لیے اور نظام سلطنت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اس لیے اس ذات نے ان سے دور رہنے کا حکم دے دیا۔ اب جو شخص اللہ کے حکم پر اپنے نفس کی خواہشات کو ترجیح دیتا ہے تو یقیناً یہ کام ہلاکت والا ہے ۔
تمام گناہوں کا سبب:
بلکہ اگر مزید غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ نافرمانی ، معصیت ، گناہ ، برے اعمال کا سبب ہی خواہشاتِ نفس ہے،مثلاً: نماز کا وقت ہو گیا اذان ہو چکی لیکن ایک شخص اللہ کے حکم کے مقابلے میں اپنے نفس کی خواہشات میں لگا ہوا ہے یا تو سویا رہتا ہے ، یا باتوں میں مصروف رہتا ہے ، کاروبار میں ، دوست احباب کی محفل میں ، موبائل دیکھنے یا کسی کھیل کود وغیرہ میں مصروف رہتا ہے ۔ اب دو چیزیں تھی ایک اللہ کا حکم اور ایک اپنے نفس کی خواہش ۔ ان دو میں سے جو شخص اللہ کے حکم کو ترجیح دیتا ہے اس کے لیے نجات ہے اور جو شخص خواہشاتِ نفس کو ترجیح دیتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے ۔
عبادات میں سستی کا سبب:
اسی طرح دیگر عبادات روزہ ، زکوٰۃ ، حج ، جہاد وغیرہ ہیں ان کو ادا نہ کرنا یا ادا کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرنا درحقیقت خواہشاتِ نفس کی وجہ سے ہے ۔ کسی عبادت کو بالکل چھوڑ دینا یا عبادت کی آداب کی رعایت رکھے بغیر بے توجہی سے ادا کرنا خواہشاتِ نفس ہی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔
خواہش پرستوں سے دور رہیں:
اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام )شریعت) کے اتباع کو لازمی قرار دیتے ہوئے خواہشاتِ نفس سے روک دیا ہےبلکہ ایسے لوگ جو خواہشات نفس کے پیرو کار ہیں ان کی پیروی سے بھی روک دیا ہے:
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ۔
سورۃ الجاثیہ ، رقم الآیۃ: 18
ترجمہ: ہم نے آپ کو شریعت دی ہے آپ اسی شریعت کی پیروی کیجیے اور ان جاہلوں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔
ایمان کی حقیقت :
اتنی سی ہے کہ خواہشاتِ نفس کو شریعت کا تابع بنا دیا جائے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ۔
کتاب السنۃ لابن ابی عاصم الشیبانی ، الرقم: 15
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی خواہشاتِ نفس کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کر دے ۔
جنت کس کا ٹھکانہ ہے؟
اس لیے ہر معاملے میں انتہائی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ کام خلاف شریعت تو نہیں جس کو بندہ کر رہا ہے اگر ایسا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو باعث ہلاکت قرار دیا ہے اور جو شخص خواہشاتِ نفس پر مکمل قابو پا لیتا ہے ،اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے ڈرتے ہوئے اپنی خواہش پر شریعت کے حکم کو ترجیح دیتا ہے تو ایسے شخص کے لیے خالق دوجہاں کا فیصلہ ہے :
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى۔
سورۃ النازعات ، رقم الآیۃ: 41،40
ترجمہ: جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونے سے ڈرتا ہے اور اپنے آپ کو خواہشاتِ نفس سے روک لیتا ہے تو یقیناً اس کا جنت ہی ٹھکانہ ہے ۔
خواہشاتِ نفس کا علاج:
خود کو سمجھائیں کہ میں نفس کی خواہشات کا بندہ نہیں ہوں بلکہ اللہ کا بندہ ہوں اس لیے مجھے اپنے رب کے احکام پر عمل کرنا ہوگا کہ اسی میں میری نجات ہے اور مجھے نفس کی تمام ناجائز خواہشات سے رکنا ہوگا کیونکہ اس میں میری ہلاکت ہے ۔
حرص و طمع:
انسان کی چوبیس گھنٹے کی ایک ہی فکر ہو کہ میرا مال کس طرح بڑھ سکتا ہے اور ہر وقت اسی میں ہی مگن رہے، اسے حرص و طمع کہتے ہیں ۔اگر انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد جائز طریقے سے مال کمانے کی تگ و دو کرتا ہے تو یہ شریعت میں قابل مذمت نہیں ۔
تمام آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں:
أَمْ لِلْإِنْسَانِ مَا تَمَنّٰى۔
سورۃ النجم ، رقم الآیۃ: 24
ترجمہ: بھلا انسان کی ہر آرزو پوری ہو سکتی ہے؟ )اس طرح کے سوال کا جواب نفی کی صورت میں ہوتا ہے یعنی کبھی بھی ہر آرزو پوری نہیں ہو سکتی (۔
چشم تنگ دنیا دار را:
عَنْ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى ثَالِثًا وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ۔
صحیح البخاری، باب ما یتقی من فتنۃ المال، الرقم: 6436
ترجمہ: حضرت عطاء تابعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سناتے ہوئے سنا : اگر کسی انسان کے پاس مال و دولت کی دو وادیاں ہوں تو وہ مال و دولت کی تیسری وادی کا بھی طلبگار ہو گااور ابن آدم کا پیٹ )قبر کی( مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔
گفت چشم تنگ دنیا دار را
یا قناعت پر کند یا خاک گور
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَتَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ.
صحیح مسلم ، باب کراہۃ الحرص علی الدنیا ، الرقم: 2459
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان خود بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو چیزیں جوان ہی رہتی ہیں پہلی چیز مال کو مزید بڑھانے کی حرص اور دوسری زیادہ عرصہ جینے کی حرص ۔
حرص کا علاج:
قرآن کریم میں مذکور اللہ رب العزت کا اٹل فیصلہ ذہن میں رکھیں کہ ہر ہر آرزو کسی انسان کی بھی پوری نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے زیادہ آرزوئیں نہ کریں اور بالخصوص ایسی آرزوئیں جو مقصد حیات اللہ کی طاعات و عبادات کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہوں ان کو بالکلیہ چھوڑ دیں اور آخرت کا استحضار رکھیں کہ اصل تو آخرت ہے دنیا فانی ہے اور اس کی چیزیں بھی فانی ہیں ۔
خودپسندی:
انسان اپنے کسی کمال کے کم یا ختم ہونے کے خوف سے بے خوف ہو کر اس پر اترائے یہ اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس میں انسان کی توجہ ذات باری تعالیٰ سے ہٹ کر اپنے اوپر جم جاتی ہے۔اور علم، عمل، حسن وجمال، دولت و شہرت وغیرہ کو اللہ کی عطا کے بجائے اپنا ذاتی کمال سمجھتا ہے ۔اسی سے تکبر جنم لیتا ہے ۔
عام گناہ اور خودپسندی:
عام گناہ گار اپنے گناہ گار ہونے کو جانتا ہے اس لیے وہ اللہ سے معافی کی امید رکھتا ہے اس کے برخلاف خودپسندی میں مبتلا آدمی اپنے علم و عمل پر غرور کرتا ہے اس لیے اس سے توبہ کی امید بعید ہے ۔ عُجب والا گناہ بندے کی توجہ اللہ سے ہٹا دیتا ہے جبکہ عام گناہ بندے کو اللہ کی طرف متوجہ کردیتا ہے،خودپسندی کا نتیجہ تکبر ہے ۔ بعض اسلاف سے جو یہ منقول ہے کہ بندہ جب عام گناہ کرتا ہے تو اس کے عذاب کے خوف کی وجہ سےتوبہ کرکے جنت کا مستحق بن جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ نیکی کرتا ہے لیکن یہ نیکی اسے جہنم لے جاتی ہے کیونکہ وہ نیکیوں پر تکبر کرتا ہے اور اس کی وجہ سے خودپسندی اور ریا کا شکار ہوتا ہے ۔
خود پسندی کا علاج:
انسان اپنے مادہ تخلیق پر غور کرے ۔
أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ۔
سورۃ یٰس، رقم الآیۃ: 77
ترجمہ: کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ ہم نے اس کی تخلیق نطفہ )منی کے ناپاک قطرے( سے کی ہے ۔ پھر وہ کھلم کھلا جھگڑالو بن گیا۔
فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ۔
سورۃ الطارق ، رقم الآیۃ: 5 تا 7
ترجمہ: انسان کو غور کرنا چاہیے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ اسے ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا جو کمر اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔
پاکبازی کے دعوے نہ کریں:
لَا تُزَكُّوْا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ۔
سورۃ النجم ، رقم الآیۃ: 32
ترجمہ: اپنی پاکبازی کے دعوے نہ کرتے پھرو اللہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ درحقیقت متقی کون ہے؟
پاکباز ضرور بنیں لیکن اپنے نفس کی نگرانی سے غافل مت ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خودپسندی کو باقی دو ہلاک کرنے والی روحانی بیماریوں کی بنسبت زیادہ سخت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہلاکت سے محفوظ فرما کر نجات نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
جامعہ دارالعلوم رحیمیہ،ملتان
جمعرات ،21نومبر ، 2019ء