تین نجات دینے والی چیزیں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تین نجات دینے والی چیزیں
اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شایان شان جزا عطا فرمائے جنہوں نے ہمارے لیے کامیابیوں کے راستے روشن کیے اور ہمیں ناکامیوں کے اندھیروں سے بچایا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ وَثَلَاثٌ مُهْلِكَاتٌ فَأَمَّا الْمُنْجِيَاتُ: فَتَقْوَى اللهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِوَالْقَوْلُ بِالْحَقِّ فِي الرِّضَا وَالسُّخْطِ وَالْقَصْدُ فِي الْغِنَى وَالْفَقْرِ وَأَمَّا الْمُهْلِكَاتِ: فَهَوًى مُتَّبِعٌ وَشُحٌّ مُطَاعٌ وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ وَهِيَ أَشَدُّهُنَّ
شعب الایمان للبیہقی ، فصل فی الطبع علی القلب ، الرقم: 6865
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جو نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں۔ نجات دینے والی چیزیں یہ ہیں : ہر حال )خلوت و جلوت( میں اللہ سے ڈرناخواہ اکیلے ہوں یا لوگوں کے ساتھ، ہر حال )خوشی و غمی( میں حق اور سچ بات کہنا، ہرحال )فراخ دستی و تنگ دستی(میں میانہ روی اختیار کرنا خواہ مال و دولت زیادہ ہو یا کم ہو ۔ اسی طرح ہلاک کرنے والی چیزیں یہ ہیں : نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا ، لالچ و طمع کے پیچھے لگنا اور خود پسندی میں مبتلا ہونا ۔ یہ آخری چیز پہلی دو کے مقابلے میں زیادہ ہلاک کرنے والی ہے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات دینے والی چیزوں کو بھی واضح فرما دیا اور ہلاک کرنے والی چیزوں کو بھی تاکہ پہلی چیزوں کو اپنا کر نجات حاصل کی جائے اور دوسری چیزوں سے خود کو بچایا جائے ۔
تقویٰ:
نجات دینے والی چیزوں میں سب سے بنیادی چیز تقویٰ ہے ۔ جس کا آسان اور مختصر مفہوم یہ ہے کہ اپنے آپ کو گناہوں کی باتوں اور گناہ کے کاموں سے بچانا اور اگر گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ اور استغفار کرنا۔
خفیہ تقویٰ:
جب بندہ خود کو اکیلا سمجھتا ہے تو گناہ کرنے پر ایک طرح کی جرات پیدا ہوتی ہے کہ مجھے تو کوئی دیکھ نہیں رہا ۔ میں چھپ کر گناہ کر رہا ہوں اس سے میری نیک نامی میں بھی فرق نہیں آئے گا اور گناہ والی لذت بھی پوری ہو جائے گی جبکہ اس کا ہر عمل اللہ کے حضور ظاہر ہے پوشیدہ نہیں کیونکہ وہ ذات سینوں میں چھپے خیالات تک سے بھی واقف ہے وہ تو دیکھتے وقت آنکھوں کی خیانت تک سے واقف ذات ہے کہ کون کس کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ اس لیے ظاہر اور پوشیدہ اس کے ہاں سب برابر ہے چونکہ خلوت میں انسان کے لیے گناہ کرنا اعلانیہ گناہ کرنے کے مقابلے میں آسان ہوتا ہے اور گناہ کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہلے ذکر فرما کر اس بات کی طرف نشاندہی فرمائی ہے کہ اپنی خلوت کو بھی پاک رکھو اس میں اللہ کا خوف تمہارے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے ۔
اعلانیہ تقویٰ:
اپنے دل کو خوف خدا کی نعمت سے مالا مال رکھنا ہی حقیقی تقویٰ ہے اور اس کی ضرورت ہر حال میں ہوتی ہے خواہ انسان جلوت میں ہو یعنی مخلوق خدا کے سامنے ہو ، لوگوں کے ساتھ ہو کسی مجلس محفل میں ہو ، دوست احباب کے ساتھ ہو ، یا لوگ اسے دیکھ رہے ہوں اس وقت بھی اسے کوئی ناجائز اور حرام کام اور بات نہیں کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر ترس فرمائے اور ہم سب کی گناہوں والے ماحول سے حفاظت فرمائے بعض لوگ جب اللہ کو ناراض کرتے ہوئے گناہ کرنے لگتے ہیں تومخلوق خدا کے سامنے بلکہ دوست احباب اور اہل و عیال کو ساتھ ملا کر کرتے ہیں۔ یہ آج کے دور کا ایک فیشن ہے جب کوئی گناہ کا کام کرنا ہو تو پارٹی کی صورت میں کیا جاتا ہے آپ بڑے بڑے گناہوں پر غور کر لیں اور دیکھیں کہ ان گناہوں کو لوگ اکیلے میں کم لوگوں کے سامنے زیادہ کرتے ہیں ۔ حدیث مبارک میں اس بات سے روکا جا رہا ہے کہ مخلوق خدا کے سامنے گناہ کا کام نہ کرو بلکہ اس سے خود کو بچاؤ ۔
اس کی وجہ سے بندہ لوگوں کو اپنے گناہوں پر گواہ بنا لیتا ہے اللہ رب العزت اس کے گناہوں پر پردہ ڈالتے ہیں لیکن یہ خود اللہ کی ستاری والی چادر کو اپنے سے اتار پھینکتا ہے۔ یہ پہلے پہل چھوٹے گناہوں سے شروع ہوتا ہے پھر ایک وقت وہ آتا ہے کہ جب وہ گناہ کبیرہ کرتے وقت بھی کسی سے عار اور شرم محسوس نہیں کرتا نتیجتاً اس میں گناہوں کی عادت پختہ ہو جاتی ہے اور بندہ عادی مجرم بن جاتا ہے ۔
سچی بات:
یعنی وہ حقیقتیں جن کے اظہار کا حکم یا ضرورت ہو ان کے بارے میں سچی بات منہ سے نکالنا ۔ معلوم ہوا کہ بعض باتیں دنیا میں حقیقت ہوتی ہیں لیکن کہی نہیں جاتیں کیونکہ اس کے ظاہر کرنے سے شریعت نے روکا ہے یا عقل ہی اچھا نہیں سمجھتی ۔
سچ میں نجات:
عَنْ عَبْدِ اللَهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِى إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِى إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ صِدِّيقًا وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِى إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِى إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا.
صحیح مسلم ، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ ، الرقم: 6803
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدق ایسا عمل ہے جو نیکی کی راہ پر چلاتا ہے اور نیکی والا راستہ سیدھا جنت جاتا ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ” صدیق“ بن جاتا ہے ۔ اور جھوٹ ایسا عمل ہے جو برائی کی راہ پر چلاتا ہے اور برائی والا راستہ سیدھا جہنم جاتا ہے اور بے شک جب کوئی آدمی جھوٹ کی عادت ڈال لیتا ہے وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے ۔
ہر حال میں سچ:
انسان کی زندگی خوشی اور غم سے مرکب ہے ، اس پر ہر وقت ان دو حالتوں میں کوئی نہ کوئی حالت طاری رہتی ہے نجات پانے والا انسان وہ ہے جو خوشی میں بھی اور غمی میں بھی سچ بات کہنے اور سننے کا عادی ہو اور جو بندہ خوشی کے موقع پر اپنے آپ میں اترانے لگے اللہ کے کرم کے بجائے اپنا ذاتی کمال سمجھے اور زبان سے بڑے بول بول دے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص عہدہ یا مال و دولت ہاتھ آنے پر زبان پر کنٹرول نہیں کرتا بلکہ خلاف حقیقت بات کہتا ہے تو وہ اپنے آپ پر کامیابی اور نجات کے راستے خود بند کرتا ہے حالانکہ یہی تو وہ وقت ہوتا ہے جب انسان سچ اور سچے لوگوں کا ساتھ دے ۔
بعض لوگ غم کی حالت میں سچ کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائے ذرا سی مصیبت آتی ہے تو لوگ حکم شریعت صبر کو چھوڑ کر بین کرنے لگ جاتے ہیں ، ہائے ہائے کرتے ہیں ، اس موقع پر اپنے لیے جھوٹ بولنے کو تقریباً جائز بلکہ ضروری قرار دیتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں موقعوں پر یہی تعلیم دی ہے کہ خوشی ملے یا غم آ گھیرے ، کسی سے راضی یا ناراض ہوتے وقت سچی بات کا ساتھ دیں یہی نجات کا راستہ ہے ۔
حق بات کا حقیقی معنیٰ:
بعض لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ حق بات اسے سمجھتے ہیں جس میں درشت اور طنز آمیز لہجہ ، الفاظ کی کرختگی، انداز میں بھدا پن مزید یہ کہ الفاظ کا غیر مناسب انتخاب کر کے بدتمیزی کے ساتھ گفتگو کی جائے یہ سراسر غلط ہے ۔
میانہ روی:
انسان کا کبھی تنگ دستی سے واسطہ پڑتا ہے اور کبھی اس کے مال و دولت میں اللہ فراخی عطا فرماتے ہیں ۔ دونوں طرح کے حالات میں کامیابی اور نجات کیسے ممکن ہے؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرحال )فراخ دستی و تنگ دستی(میں میانہ روی اختیار کرنا خواہ مال و دولت زیادہ ہو یا کم ہو باعث نجات ہے ۔
اسلام کی خوبی ہے اس میں اعتدال کی تعلیم ہےیہاں تک کہ نظام زندگی کو بہتر چلانے کے لیے بھی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ افراط و تفریط سے کام نہیں لینا چاہیے۔
مال اللہ کی نعمت ہے،اس کا تعلق عملی زندگی کے ساتھ ہے اگر وہ شریعت کے احکام کے مطابق ہے تو مال کی کثرت باعث رحمت ہے اور اگر عملی زندگی شریعت کے احکام کے خلاف ہے تو مال کی قلت بھی باعث عذاب ہے ۔
متقی کے مال دار ہونے میں حرج نہیں:
عَنْ رَجُل مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كُنَّا فِي مَجْلِسٍ فَطَلَعَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى رَأْسِهِ أَثَرُ مَاءٍ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ نَرَاكَ طَيِّبَ النَّفْسِ، قَالَ: أَجَلْ۔ قَالَ: ثُمَّ خَاضَ الْقَوْمُ فِي ذِكْرِ الْغِنَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنْ اتَّقَى، وَالصِّحَّةُ لِمَنْ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى، وَطِيبُ النَّفْسِ مِنَ النِّعَمِ .
مسند احمد ، الرقم: 23228
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک گیلا تھا )یعنی غسل کر کے تشریف لائے تھے( ہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ آپ بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جی ہاں )ایسا ہی ہے (صحابی فرماتے ہیں کہ پھر لوگ مال ودولت کے بارے میں گفتگو کرنے لگے )یعنی اس کی مذمت بیان کرنے لگے(تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوف خدا رکھنے والے شخص کے لیے مال و دولت بری چیز نہیں اور متقی آدمی کے لیے مال و دولت سے بڑھ کر صحت وتندرستی زیادہ اچھی چیز ہے اور دل کی خوشی )سکون و چین( بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
میانہ روی سمجھ داری کی علامت:
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُهُ فِي مَعِيشَتِهِ۔
مسند احمد ، الرقم: 21695
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی سمجھ داری اپنی معیشت میں میانہ روی قائم کرنا ہے ۔
میانہ روی کرنے والا محتاج نہیں :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ۔
مسند احمد ، الرقم: 4269
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ کبھی محتاج نہیں ہوتا جو خرچ کرنے میں میانہ روی کو ملحوظ رکھے۔
ہر حال میں میانہ روی:
عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْسَنَ الْقَصْدَ فِي الْغِنَى، وَأَحْسَنَ الْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ، وَأَحْسَنَ الْقَصْدَ فِي الْعِبَادَةِ
مسند بزار، الرقم: 2946
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال کی فراوانی کے وقت میانہ روی قائم کرنا، تنگدستی اور غربت کے وقت میانہ روی قائم کرنا اور عبادات میں میانہ روی قائم کرنا بہت ہی پسندیدہ بات ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں وہ تمام چیزیں اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو باعث نجات ہیں ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، کراچی
جمعرات ،14 نومبر ، 2019ء