تعارف متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
تعارف
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
تحریر : مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
الحمد للہ !بین الاقوامی سطح پر علمی و عملی میدان میں متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن کو اللہ کریم نے غیر معمولی مقبولیت و محبوبیت سے نوازا ہے، اولاً اشاعت وتحفظ دین کےلیے درکار تمام صلاحیتیں اپنے کرم سے عطا فرمائیں اور اس کے بعد ہر موڑ پر فراست ایمانی کی بدولت وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ان صلاحیتوں کے مناسب استعمال کا طریقہ بھی ودیعت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اہل علم طبقہ میں مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں بطور خاص عقائداسلامیہ اور فقہ حنفی کے تحفظ کے لیے مختصرعرصہ میں ان کی تجدیدی اور انقلابی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ قدرت نے آپ کو تحریکی، تربیتی، تعلیمی، تدریسی، تعمیری،تنظیمی،تحقیقی،تصنیفی، تقریری،تبلیغی اور تجدیدی ذوق جیسی لازوال نعمتوں سے خوب خوب نوازا ہے۔
اس ہمہ جہتی کے باوجود آپ سادگی اورتواضع کے پیکر ہیں۔آپ کی مسلکی محنت، عقائد ونظریات، اساسیاتِ اسلامیہ کا تحفظ، حرمتِ قرآن، سنت اور اس کی پاسداری، ختم ِنبوت، صحابہ و اہل بیت کرام رضوان علیہم اجمعین کا دفاع، فقہاء ملت خصوصاًحضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی پاسبانی، اکابرین امت خصوصاً علمائے دیوبند، علم و دیانت کی پہرے داری اور مسلک اھل السنۃ والجماعۃ کے فروغ، اشاعت اور نفاذ کی کوششیں آپ کی زندگی کا مقصد اور حرزِ جان ہیں۔ اس سلسلے میں قید وقفس کی صعوبتیں، ایام اسارت کی مشکلات، قاتلانہ حملے اوراہل باطل کے منفی پرو پیگنڈے سب کچھ برداشت کیا ہے۔
آپ زمانہ طالب علمی ہی سے نہایت بیدار مغز، ذہین، معاملہ فہم، باصلاحیت، ہونہار اور قائدانہ صلاحیتیوں کے مالک تھے ان صلاحیتیوں کی بدولت اپنے ہمعصر ساتھیوں میں امتیازی مقام رکھتے تھے۔ایک عرصہ سے علمی، عملی اور روحانی خدمات میں مگن ہیں۔ میں اپنی معلومات کی حد تک بجا طور پر یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ پچھلے 6 عشروں میں اسلامی تحریکات کے کسی بھی قائد نے اس قدر عوامی اجتماعات سے خطاب نہیں کیے ہوں گے جتنے اس عظیم انسان نے کیے۔
سفر کی صعوبتیں جھیل کر اور اغیار کے منفی پروپیگنڈے کو اپنے مضبوط اعصاب پر سہتے ہوئے بلامبالغہ ایک ایک دن میں مختلف مقامات پر چھ چھ علمی واصلاحی بیانات، افراد سازی، تحریکی کام کو مزیدمنظم اورمستحکم کرنا، وسائل کے لیے انتھک محنت، روزمرہ کے اپنے معمولات جس میں تہجداور دیگر نوافل )اشراق، چاشت اور اوابین(، تلاوت، ذکر اذکار، تصنیف و تالیف، تقریر و وعظ، دروس و اسباق وغیرہ کو سلیقہ مندی اور سنجیدگی کے ساتھ ادا کرنا۔ ہر علاقے میں وہاں کی ضرورتوں کے پیش نظرعلماء کی تعیناتی کرنا الغرض اپنی زندگی کا ہر لمحہ مصروف کار کردیا اس جہد مسلسل اور لگن کا نتیجہ ہے کہ آپ نے ایک مضبوط ٹیم تیار کی ہے جو مختلف دین کے شعبوں میں ہمہ تن مصروف عمل اور آپ کی دست بازو بنی ہوئی ہے اور آپ کے تلامذہ و فیض یافتگان کا ایک بہت بڑا طبقہ برصغیر اور بیرون ممالک میں موجود ہے جو آپ کے مشن کوسارے عالم میں پھیلانے کی تگ و دو میں پروانہ واربڑھ رہا ہے۔
اس اجمالی خاکے کے بعد زندگی کے چند گوشے پیش خدمت ہیں۔
ولادت:
-12 اپریل 1969ء کو سرگودھا کےنواحی علاقے چک نمبر 87جنوبی میں پیدا ہوئے۔
خاندانی پس منظر:
آپ کے والد ماجد کا نام حافظ شیر بہادر گھمن تھا، مرحوم انتہائی نیک طبیعت کے مالک تھے، عقائد و نظریات میں حد درجہ پختگی رکھتے تھے،آپ کے خاندان کی سیاسی و سماجی حیثیت بہت اچھی ہے، آپ کے دادا چوہدری فتح محمد گھمن اپنے علاقے کے رئیس اور نمبردار تھے۔ وہاں کے لوگوں کے مابین فیصلے فرماتے، انتظامی امور کو خود حل فرماتے۔ اس وقت جہاں آپ نے ادارہ مرکز اھل السنۃ والجماعۃ بنایا ہوا ہے یہ آپ کی وراثتی زمین ہے اور نمبر داری کا رقبہ کہلاتی ہے۔ آپ کل پانچ بھائی تھے جن میں چار ابھی حیات ہیں جبکہ سب سے بڑے بھائی محمد یوسف 1995ءمیں انتقال کرگئے تھے۔ نام یہ ہیں:محمد یوسف، محمد یونس، محمد الیاس، شعیب احمد اور خبیب احمد۔
ابتدائی زندگی :
آپ نے پرائمری تک اپنے گاؤ ں چک نمبر 87 جنوبی سرگودھا میں پڑھا۔ چک نمبر 88جنوبی سے مڈل کی فراغت کے بعدآپ نے اپنے والد حافظ شیر بہادر صاحب رحمہ اللہ سے حفظ قرآن کریم شروع کیا۔ سترہ پارے والدصاحب کے پاس پڑھے اور اس کے بعد گکھڑ منڈی جامع مسجد بوہڑ والی ضلع گوجرانوالہ میں امام اہل السنت شیخ الحدیث مولانامحمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے ہاں چلے گئے وہاں قاری محمد عبداللہ کشمیری صاحب کے پاس مکمل قرآن کریم حفظ کیا۔ امام اہل السنت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی خوب خدمت کی یہاں تک کہ کم عمری کے باعث آپ اُن کے گھر میں بھی آیا جایا کرتےتھے۔
تعلیم و تربیت :
درس نظامی کے ابتدائی درجات درجہ اولیٰ سے درجہ ثالثہ تک جامعہ بنوریہ سائٹ ایریاکراچی میں پڑھے اور درجہ رابعہ، خامسہ اور سادسہ جامعہ امدادیہ فیصل آباد میں۔ درجہ موقوف علیہ کے ابتدائی دو ماہ جامعہ خیر المدارس ملتان میں جبکہ باقی سال جامعہ علوم شرعیہ ساہیوال میں مکمل کیا۔ دورہ حدیث شریف کے لیے جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد تشریف لے گئے۔
معروف اساتذہ:
آپ کے مشہور اساتذہ میں صاحب فضل و کمال امام اہل السنت شیخ التفسیر و الحدیث مولانامحمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ، مولانا قاضی حمیداللہ جان رحمہ اللہ گوجرانوالہ،شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی گوجرانوالہ، شیخ الحدیث مولانا محمد قاسم جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور، شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد رحمہ اللہ جامعہ اسلامیہ مفتی محمد طیب مفتی محمد زاہد امدادیہ فیصل آباد، مولانا محمد اسلم شیخوپوری رحمہ اللہ کراچی، مولانا عبدالمجید رحمہ اللہ جامعہ بنوریہ کراچی، مولانا عبدالمجید انور جامعہ علوم شرعیہ ساہیوال، مولانا نذیر احمد جامعہ علوم شرعیہ ساہیوال، مولانا سید نذیر شاہ جامعہ فاروق اعظم فیصل آباد اور مولانا غلام یاسین صابر قاری محمد حنیف جالندھری جامعہ خیر المدارس ملتان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ابتدائی محنت :
آپ نے سب سے پہلے اپنے گاؤں کا انتخاب کیا اپنے گاؤں میں’’ صراط مستقیم کورس‘‘ شروع کیا۔اللہ رب العزت کو منظور یہی تھا کہ کام آگے بڑھے پھرامام اہل السنت حضرت مولانا شیخ سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ اور وکیل اہل السنت حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ کی مشاورت سے مدارس کے طلبہ کے لیے شعبان اور رمضان میں دورہ تفسیر کا اہتمام کیااور تفسیر قرآن پڑھانے کے لیے حضرت مولانا منیر احمد منور شیخ الحدیث جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا کا انتخاب کیا۔ اور اب کچھ عرصہ سے دورہ تفسیر کی بجائے دورہ تحقیق المسائل شروع کیا۔ جس میں اہم اسباق بذات خود جبکہ باقی اسباق آپ کے شاگرد پڑھاتے ہیں۔
پہلا دعوتی سفر:
1993ء میں آپ نے اپنا پہلا دعوتی سفر جنوبی افریقہ، کینیا، ملاوی اور زمبیاکا کیا اور زمیبامیں کچھ عرصہ تدریس کی جہاں آپ نے ہدایۃ النحو، کنزالدقائق، تفسیر جلالین اور ہدایہ شریف وغیرہ کے اسباق پڑھائے۔1993ء سے1996ء تک آپ کی ساری سرگرمیاں دعوتی رہیں۔
گرفتاریاں اور قیدوبند :
5اگست1996ء کو پہلی بارآپ کو بے گناہ گرفتار کیا گیا جس کی وجہ سے آپ نے دو سال تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔بعد میں آپ کو عدالت نے باعزت بری کیا۔1999ء میں دوبارہ گرفتار ہوئے تین سال قید کاٹ کر 2001ءمیں اس سے بھی باعزت طور پر بری ہوئے۔ آپ کی اسارت کا کل عرصہ تقریباً سات سال بنتاہے۔
سفر حج و عمرہ:
1994ء میں آپ نے فریضہ حج ادا فرمایا، اس کے علاوہ بیس سے زائد مرتبہ عمرہ کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ حرمین شریفین کے تقدس کے حوالے سے آپ کے جذبات قابل قدر ہیں۔ آپ کی عادت شریفہ یہ ہے کہ آپ جب بھی عمرہ کے لیے ارض حجاز تشریف لے جاتے ہیں تو پہلے مدینہ منورہ جاتے ہیں روضہ رسول پر حاضری کے بعد مکہ مکرمہ جا کر مناسک عمرہ ادا کرتے ہیں۔
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ کا قیام:
دسمبر 2002ء میں نے اپنی علمی تحریکی زندگی کا آغاز کیا۔اور ایک ادارہ مرکز اھل السنۃ والجماعۃ کے نام سے تشکیل دیا۔ جس کا مقصد پورے عالم میں قرآن، سنت اور فقہ کی اشاعت اور تحفظ ہے۔یہ علمی درس گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اور روحانی تربیت گاہ بھی ہے۔ بعد ازاں فار غ التحصیل علماء کرام کے لیے ایک سالہ تخصص فی التحقیق والدعوۃ کے نام مرکز اھل السنۃ والجماعۃ میں تخصص شروع کرایا۔ آپ نے اس طرز پر علماء کرام کی فکری تربیت کی جو وقت اور حالات کے عین مطابق زمانے کی شدید ضرورت تھی، جسے دس سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔
آپ کی سرپرستی میں پورے ملک میں علماء کرام کی ایسی کھیپ تیار ہو چکی ہے جو مثبت اندازاور شائستہ زبان میں عقائد و مسائل کی اشاعت و تحفظ کے مبارک فریضے کو بڑی جوانمردی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ریکارڈ کے مطابق ان علماء کی مجموعی تعداد 700 سے زائد ہے۔ ہر سال مدارس دینیہ کے سالانہ امتحانات کے بعد 12 دن کا شارٹ کورس دورہ تحقیق المسائل کے نام سے کراتے ہیں، ہرماہ تین دن تحقیق المسائل کورس کے نام سے سمر کورس، صراط مستقیم کورس اور دورہ تحقیق المسائل میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد اس میں شریک ہو چکے ہیں۔
خواتین کی دینی تربیت کا اہتمام:
آپ نے جیسے مردوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک ادارہ قائم فرمایا اسی طرح خواتین میں دینی شعور کی بیداری کے لیے بھی الگ سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں بچیوں کے لیے حفظ وناظرہ، چھ سالہ درسِ نظامی، دو سالہ فاضلہ کورس، میٹرک تک سکول کی تعلیم، سلائی کڑھائی، صراط مستقیم کورس اور دورہ تحقیق المسائل برائے طالبات کرایا جاتا ہے۔
عالمی تحریک کی بنیاد:
کچھ عرصہ پہلے تک اتحاد اھل السنۃ والجماعہ پاکستان میں آپ نے بطور ناظم اعلیٰ مسلکی کام کیا۔ بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر آپ نے اس جماعت سے باضابطہ استعفا دیا اور2 مارچ 2014 کو ”عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ“کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی، جس کے بانی اور امیر آپ خود ہی ہیں۔ اس کی بنیاد رکھتے وقت تک آپ کے پیش نظر یہ سوچ اور فکر تھی کہ عالمگیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ناتے ہمارا دینی منصب بھی”عالمی“ہے۔ ہم تمام بے دین اور دین بیزار گروہوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی نسبت اس طبقے کی طرف کرتے ہیں جس کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات یافتہ قرار دیا ہے یعنی ” اھل السنۃ والجماعۃ“ اور اس کے بھی باہمی اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر”اتحاد“کے داعی ہیں۔ اس لیے جماعت کا نام ”عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ“ تجویز کیا گیا ہے۔
جماعتی پالیسی:
آپ نے اس پلیٹ فارم پر جماعتی احباب و ذمہ داران کو جن پالیسوں کا پابند بنایا اس سے آپ کی قائدانہ سوچ وفکر اور صلاحیتوں کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ آپ نے جماعت کی جامع پالیسی کچھ یوں مرتب کی:
عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ ؛خا لصۃً علمی وتحقیقی کام کرے گی۔
عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ؛ غیر سیاسی و غیر عسکری طرز پر کام کرے گی۔
عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ؛ تشدد )گالی اور گولی (کی بجائے تسدد )قوت دلیل سے غلط عقائد و مسائل سے روکنا (اور تعصب )ضد و عناد(کی بجائے تصلب )دلائل کی بنیاد پر مسلک حقہ پرپختگی سے کاربند رہنے ( کاراستہ اختیار کرے گی۔
عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ؛ اہل حق کے افراد، جماعتوں اور اداروں کی مخالفت کی بجائے موافقت کرے گی۔
عالمی اتحاد اھل السنۃوالجماعۃ؛کے ذمہ داران و کارکنان اپنی جماعتی پالیسی پر اعتماد، دیگر پر تنقید سے اجتناب کریں گے۔
عالمی اتحاد اھل السنۃوالجماعۃ؛ سیاسی امور میں اکابرکے نقش قدم پر مواظبت کرے گی۔
عالمی اتحاد اھل السنۃوالجماعۃ ؛پاکستان کے آئین اور قانون کے دائرہ میں رہ کر کام کرے گی۔
عالمی اتحاد اھل السنۃوالجماعۃ؛ ہمہ وقت مناظرانہ کی بجائے واعظانہ طرز پر کام کرے گی۔
عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ ؛ ذاتیات کو زیر بحث لانے کی بجائے نظریات پر محنت کرے گی۔
عالمی اتحاد اھل السنۃوالجماعۃ؛کا ہر کارکن اپنی طرف سے امیر کے حکم پر جان و مال قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہے گا۔
آپ کے دست بازو بننے والے اس جماعت کے ذمہ داران و کارکنان پوری دنیا میں حسب استطاعت اپنی دینی و مسلکی فضا کو ہموار کرنے میں مسلسل مصروفِ عمل ہیں۔ اس محنت اور کاوش کی مختلف جہات ہیں:درس و تدریس،تعلیم وتعلم، وعظ ونصیحت، تصنیف و تالیف، سمر کورسز، بیعت و سلوک، اصلاح و ارشاد، قوتِ دلیل سے تقریر وبیان وغیرہ۔
تبلیغی اسفار :
چونکہ آپ ایک عالمی تحریک کے روح رواں اور بے باک لیڈر اور مدبر قائد ہیں،اس لیے وطن پاکستان میں کراچی تا چترال تمام چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کو آپ اپنے علوم سے فیض یاب کر رہے ہیں۔آپ نے اپنے کاز، مشن اور کام کا دائرہ محدود نہیں رکھا بلکہ پورے عالم کی فکر لے کر دیوانہ وارمسلسل مصروف عمل ہیں۔ دنیا کے اکثر خطوں میں اسلام کی ترجمانی کا فریضہ بڑی حکمت عملی جوانمردی اور دینی بصیرت سے انجام دے رہے ہیں۔عرب و عجم کے دور دراز ملکوں ملکوں گھومے ہیں اور آج بھی اس درد، فکر، کڑھن اور جذبہ کے ساتھ علم و عمل کا یہ شناور مستقل پابہ رکاب رہتا ہے۔ چنانچہ بیس سے زائد بیرونی ممالک [جن میں سعودی عرب، ترکی، عرب امارات، ساؤتھ افریقہ، زمبیا، کینیا، سوازی لینڈ، موزمبیق، ملاوی، یمن، افغانستان، برما، بحرین، ہانگ کانگ، ملائیشیا، سنگاپور، عمان، تھائی لینڈ وغیرہ شامل ہیں] کے باضابطہ آپ نے اسفار کیے ہیں۔
وطن دوستی کا مبارک جذبہ:
آپ ایک جہان دیدہ انسان ہیں۔ کئی ممالک میں اسلامی عقائد و نظریات کے سلسلے میں تشریف لے گئے۔ وہاں کے معروضی حالات کو دیکھا چنانچہ آپ خود فرمایا کرتے ہیں کہ میں نے کئی ممالک کا سفر کیا ہے لیکن پاکستان جیسا حسین و جمیل، آزاد و خود مختار ملک کہیں نہیں دیکھا۔ اہلیان پاکستان میں وطن دوستی کا جذبہ اجاگرکرنے کےلیےآپ استحکام پاکستان کےعنوان سے ہزاروں کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہیں اور اپنے مخصوص انداز میں دہشت گردی، فرقہ واریت، تخریب کاری، قتل و قتال، مذہبی و سیاسی منافرت اور جہالت و بدامنی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔
ہر سال یوم آزادی پاکستان 14 اگست کو اپنے ادارے مرکز اھل السنۃ والجماعۃ میں استحکام پاکستان سیمینارسے خطاب کرتے ہیں، پرچم کشائی اور استحکام پاکستان کے نام پر منظم ریلی نکالتے ہیں۔ افواج پاکستان کو ملک کا محافظ سمجھتے ہوئے ان کے پرجوش حامی ہیں، جب کبھی بھی وطن دشمنوں نے ملک میں کوئی فرقہ وارانہ فساد، عسکری دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائی کی تو آپ نے ایک محب وطن شہری ہونے کے ناتے اس کی بھرپور مذمت کی اور آئندہ کے لیے مستقل لائحہ عمل تیار کرنے کا عندیہ دیا ہے آپ کے یہ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جو اس بات کی کھلی شہادت ہیں کہ آپ وطن دوست انسان ہیں اور کسی صورت بھی وطن میں بدامنی گوارہ نہیں کر سکتے۔ بارہا ایسےبھی ہوا کہ جس علاقے میں آپ کا بیان ہو اگر وہاں کی مقامی انتظامیہ اس سے روک دے تو آپ الجھتے نہیں بلکہ اس پابندی کو وطن کے وسیع تر مفاد میں دل و جان سے قبول کر لیتے ہیں۔
رفاہی خدمات:
آپ کی زیر نگرانی ایک رفاہی ادارہ احناف ٹرسٹ رجسٹرڈ کے نام سے عوام الناس کی رفاہی خدمات میں مصروف عمل ہے،آفت زدہ علاقوں میں خلق خدا کی کثیر تعداد کو ٹرسٹ نے اپنی وسعت کے مطابق راشن، خیمے، لباس خوراک اور دیگر ضروریات مہیا کی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ آپ ذاتی طور پر غریب پروری، یتامیٰ ومساکین، مفلوک الحال لوگوں کی مالی اعانت کرتے ہیں ۔
تصنیفی خدمات :
آپ کے قلم سے اس وقت تک 36 کے قریب دینی، مسلکی، اصلاحی اور تحقیقی کتب نکل چکی ہیں جو عقائد اسلامیہ، قرآنی و نبوی تعلیمات، مسلک اھل السنۃ والجماعۃ، فقہ حنفی، حالات حاضرہ، اصلاح نفس، اصلاح معاشرہ و دیگر موضوعات پر اکابر علمائے دیوبند کی تشریحات، تعبیرات، ترجیحات ا ور تحقیقات کے عین مطابق ہیں۔ ان میں سے چند کتب یہ ہیں :عقائد اھل السنۃ والجماعۃ ، دروس القرآن، دروس الحدیث، نماز اھل السنۃ ، زبدۃ الشمائل، صراط مستقیم کورس، امہات المومنین،مجالس، مواعظ متکلم اسلام، رمضان المبارک فضائل و مسائل، فضائل اعمال اور اعتراضات کا علمی جائزہ اور قربانی کے فضائل و مسائل وغیرہ۔ اردو کے علاوہ عربی، انگریزی، فارسی، پشتو، گجراتی، ہندی، تامل وغیرہ کئی ایک زبانوں میں ترجمہ ہو کر آپ کی تصانیف دنیا بھر میں دین اور تحقیق و تعلیم سے وابستہ افراد کے پاس موجودہیں جو ان سے استفادہ کرتے ہیں۔
صحافتی خدمات:
جیسے آپ کی زباں میں قوت استدلال کا زور ہے ویسے ہی آپ کے قلم میں ادب کی حلاوت و چاشنی، تاریخ ، جغرافیہ اورحالات حاضرہ کا ادراک، مسائل کا سنجیدہ حل اور اصلاح معاشرہ کا غم پایا جاتا ہے۔ چنانچہ پاکستان، سعودی عرب اور انڈیا کے اخبارات و رسائل میں آپ کے ادارتی صفحات اور اسلامی ایڈیشن میں کالم اور مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے بعض اخبارات کے نام یہ ہیں:
روزنامہ اسلام، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ دنیا، روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ نئی بات، روزنامہ جہان پاکستان، روزنامہ پاکستان، روزنامہ اوصاف، روزنامہ جناح، روزنامہ انصاف، روزنامہ امن، روزنامہ آئین، روزنامہ اساس، روزنامہ الشرق، روزنامہ تاثیر، روزنامہ اذکار، روزنامہ آفتاب، روزنامہ خبریں، روزنامہ میزان عدل، روزنامہ مشرق، روزنامہ جرات، روزنامہ سماء، روزنامہ آج، روزنامہ بولتا پاکستان، روزنامہ خبریہ اور ہفت روزہ اخبار المدارس وغیرہ۔
انڈیا کے بعض اخبارات یہ ہیں:
روزنامہ متاع آخرت، روزنامہ انقلاب، روزنامہ ہمارا سماج، روزنامہ رابطہ ٹائمز،روزنامہ آج کا انقلاب، روزنامہ جدید بھارت اور روزنامہ دبنگ صحافت وغیرہ۔ سعودی عرب میں” اردو نیوز“ اخبار کے جمعہ ایڈیشن ”روشنی میگزین“ میں آپ کے متعدد مضامین شائع ہوئے ہیں۔
آپ کی زیر ادارت تین رسائل [سہ ماہی قافلہ حق، ماہنامہ فقیہ اور ماہنامہ بنات اہل السنت] شائع ہوتے رہےہیں۔ طویل عرصہ تک آپ نے ان کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ آپ کی ادبی، البیلی اور سادہ اردو میں کبھی کبھار استعارے، کنایے ، محاورات، ضرب الامثال، غیر فطری تہذیب پر مزاحمتی چوٹیں اور غیر اسلامی نظریات کے حاملین کے نقطہ نظر پرآپ کے قلم کی شوخی اور جولانی وقتا فوقتا تحریر میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ آپ کا طرز تحریر نہ تو بالکل پھیکا سا ہے اور نہ ہی اتنا مشکل کہ قارئین کو دِقَّت میں ڈالے۔ عمدہ اسلوب نگارش کی وجہ سے صحافتی دنیا میں بہت طویل سفر کیا ہے اور یہ سفر اب بھی بڑی تیزی سے طے کر رہے ہیں۔
مشائخ طریقت:
آپ کو تصوف سے سلاسلِ اربعہ میں متعدد شیوخ سے اجازت حاصل ہے۔ اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
حضرت اقدس حکیم شاہ محمد اختر رحمہ اللہ
حضرت اقدس سیدمحمد امین شاہ رحمہ اللہ
حضرت اقدس مولانا عبد الحفیظ مکی رحمہ اللہ
حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہ
حضرت پیر عزیز الرحمن ہزاروی مدظلہ
خانقاہ حنفیہ:
آپ فرمایا کرتے ہیں کہ محض علم بغیر ذکر اللہ کے انسان میں تکبر اور تعلی پیدا کرتا ہے اور ذکراللہ بغیر علم کے بسا اوقات انسان کو عجب اور خود پسندی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس لیے آپ نے جہاں علماء اور عوام دونوں کو علم و ذکر کا پابند بنانے کی کوشش کی تاکہ تکبر و تعلی اور عجب و خودپسندی کا شکار ہو کر دونوں طبقات محروم نہ ہو جائیں۔تعلق مع اللہ، اطاعت رسول، اتباع شریعت، احساس طریقت، اصلاح نفس، تزکیہ و تصفیہ باطن کے لیےاولاً عقائد اسلامیہ سے آگاہی اور غیر اسلامی نظریات و افکار سے حفاظت، اور اس کے بعد تذکیر وموعظت کے ذریعے اخلاقی و معاشرتی اقدار کو فروغ دینا، حسن سلوک اور اعلی اوصاف سےمعاشرے کو مزین کرنا جہاں وقت کا اہم تقاضا ہے وہاں عوام وخواص کی اولین ضرورت بھی ہے۔
اس میدان میں آپ کا بہت مضبوط سلسلہ ہے جو ”خانقاہ حنفیہ“ کے نام سے معروف ہے۔ تادم تحریر آپ نے اس بار خلافت سے 34 افراد کو اپنا خلیفہ مُجاز بیعت قرار دیا ہے۔ آپ کے خلفاء پاکستان، ہندوستان، جموں کشمیر، ملائیشیا، انگلینڈ ، عرب ممالک اورسوازی لینڈ میں جبکہ مریدین اطراف عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ خانقاہ حنفیہ کے نام سے دنیا کے کی ایک ممالک میں خانقاہیں موجود ہیں جو اپنے اپنے علاقے میں لوگوں کے اصلاح و ارشاد کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔
میڈیا کی ضرورت کا ادراک:
دور حاضر میں میڈیا ایک فکری ہتھیار ہے جو کہ بدقسمتی سے ان ہاتھوں میں ہے جو اسلام دشمن یا دین بیزار لوگ ہیں۔ اس لیے آپ نے اس ہتھیار کو دین کی اشاعت و تحفظ کے طور پر استعمال فرماتے ہوئے ایک شعبہ احناف میڈیا سروسز قائم فرمایا تاکہ اپنے پیغام کو چند سامعین کے محدود حلقے سے بڑھا کر ساری دنیا کے لوگوں تک پہنچایا جا سکے۔ احناف میڈیا سروسز کی آفیشل ویب سائٹ کا ایڈریس یہ ہے:
www.ahnafmedia.com
اس پر تلاوت قرآن، آڈیو ویڈیو نعتیں، آڈیو ویڈیو بیانات، رسائل و جرائد، کتب، آرٹیکلز، سوال و جواب اور دیگر بہت سا علمی، اصلاحی اور تحقیقی مواد دستیاب ہے جس سے دنیا بھر کے لوگ فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ٹی وی چینلز پر بھی اسلامی کلچر کے فروغ اور اصلاح عقائدو اعمال میں اپنا درد دل پیش کرتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے تقریبا ً تمام قابل ذکر پلیٹ فارمز پر آپ کے پیجز، چینلز اور آئی ڈیز بنی ہوئی ہیں جو دن رات دینی دعوت کا پیغام پھیلانے میں مصروف ہیں۔
آپ جہاں ایک طرف دینی اورتحقیقی جماعت کے زیرک قائد ہیں تو وہاں آپ کا اپنے اکابرسے نیازمندانہ رویہ موجودہ دور کے قائدین کی صف میں آپ کو ممتاز رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلک اھل السنۃ والجماعۃ کے تمام مشائخ، دینی اداروں، تحریکوں اور جماعتوں کے ذمہ دار سربراہان اور کارکنان آپ سے قلبی محبت رکھتے ہیں۔ آپ کی عالمی مسائل پر جہاں کڑی نظر رہتی ہے تو وہاں خانگی مسائل کو بھی کسی اور کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتے بلکہ احسن انداز میں تمام مسائل کو حل کرنے کی مومنانہ فراست آپ کے چہرے سے ٹپک رہی ہوتی ہے۔آج ہمارے ملک اور قوم کو ان جیسے علماء کی ضرورت ہے جو اسلام اور ملک دونوں کے پاسبان اور محافظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو، آپ کی جماعت، آپ کے ادارے اور ارادے کو اپنے کرم سے مزید قبولیت بخشے اور اس کا نفع عام فرمائے۔
آمین یا رب العلمین