سورۃ العنکبوت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ العنکبوت
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾﴾
اہلِ ایمان کے لیے آزمائش لازمی ہے:
﴿الٓـمّٓ﴾ پر کئی بار بات ہو چکی ہے کہ اس کا معنی اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾﴾
کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ انہیں صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ”ہم ایمان لائے“ اور انہیں آزمایا نہ جائے!
جو شخص دین کا کام کرے اور اس پر مشقت اور مشکل پیش آئے یہ بالکل برحق ہے اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن آدمی دین کا کام کرے اور اس پر مشکل نہ آئے تو اس پر تعجب کرنا چاہیے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾﴾
البلد90: 4
کہ ہم نے بندے کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ اگر کوئی بندہ آپ سے کہے کہ اللہ کا شکر ہے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے تو اس پر تعجب کرنا چاہیے کہ تکلیف کیو ں نہیں ہے اور اگر کوئی بندہ کہے کہ مجھے تکلیف ہے تو یہ تعجب کی بات نہیں۔ حدیث پاک میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَشَدُّ النَّاسِ بَلَاءً : اَلْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الصَّالِحُوْنَ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ.
المعجم الکبیر للطبرانی: ج10 ص280 رقم الحدیث 20096
دنیا میں سب سے زیادہ سختی اور آزمائش انبیاء پر آتی ہے، پھر نیک صالح لوگوں پر، پھر جو ان کے زیادہ قریب ہواس پر آتی ہے۔
مصیبت آئے تو حق کا ساتھ نہ چھوڑیں!
ہمارے ہاں اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اس کو بہت بڑی سمجھداری سمجھتے ہیں کہ دین کا کام کیا ہے اور کوئی مشکل نہیں آئی۔ اس کے لیے عقائد تبدیل کر کے بتاتے ہیں، مسائل غلط بتاتے ہیں، غلط مسائل کی تائید کرتے ہیں تاکہ جیل سے بچ جائیں، مصیبت سے بچ جائیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ تھوڑے دنوں کے لیے تو بچ جائیں گے لیکن موت کے بعد پھر جیل ہے، کچھ دنوں کے لیے تو بچ جائیں گے لیکن موت کے بعد پھر عذاب ہے، جان تو چھوٹ نہیں سکتی، تو بجائے اس کے کہ آدمی قیامت کا بڑا عذاب لے یہ بہتر ہے کہ دنیا کی تھوڑی سی مشقت لے اور آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔
ہمارے ہاں جو بندہ کام کرے اور اس قسم کے مراحل سے گزرے تو لوگ اس کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس قسم کے مراحل میں مشکلات نہ آئیں تو لوگ اس کے ساتھ چلتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ جس امام کے ہم مقلد ہیں امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ؛ حضرت امام صاحب نے زندگی کے آخری چار سال جیل میں گزارے ہیں، ایک دو دن نہیں زندگی کے آخری چار سال! جب امام صاحب نے کام شروع کیا تھا تو اس وقت جیل میں جاتے تو بندہ کہہ سکتا تھا کہ سفارش کوئی نہیں تھی، پیسہ کوئی نہیں تھا، چھڑانے والا کوئی نہیں تھا، تعلقات نہیں تھے لیکن حضرت امام صاحب کی زندگی کے آخری چار سال جیل میں ہیں، کتنا بڑا شخص ہے! کتنے بڑے تعلقات ہیں! اللہ نے وسائل کتنے دیے تھے! لیکن پھر بھی قید میں رہے۔
اموی خاندان کے آخری خلیفہ نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ بات کی کہ آپ قاضی القضاۃ؛ چیف جسٹس بنیں، امام صاحب نے انکار فرمایا۔ انکار کی دلیل جوبھی دی لیکن انکار کی بنیاد یہ تھی کہ میں ان کی غلط باتوں کی تائید نہیں کروں گا۔ اگر تائید نہیں کروں گا تو پھر جھگڑا ہوگا اور اگر تائید کروں گا تو نتیجہ جہنم ہو گا اور یہ جہنم میں نہیں لے سکتا۔ حضرت امام صاحب نے انکار کر دیا۔ اس وقت کوفہ کا گورنر تھا یزید بن ہبیرہ اس کے ذریعے امام صاحب کو روزانہ دس کوڑے لگوائے جاتے، ایک سو بیس کوڑے امام صاحب کو لگے ہیں۔
اموی خاندان کے بعد خلیفہ ابوجعفر منصور نے بھی پیش کش کی تو امام صاحب نے قبول نہیں فرمائی۔ پھر اس نے بھی تیس کوڑے لگوائے تو حضرت امام صاحب نے ایک سو پچاس کوڑے کھائے ہیں۔ اب چونکہ امام صاحب کو جیل تو پہلے آچکی تھی، اب اگر آپ کو جیل سے رہا کرتے تو امام صاحب کے کئی متوسلین تھے، شاگرد تھے، دنیا میں ایک حلقہ تھا، اگر امام صاحب کوئی جملہ فرما دیں تو حکومت کے لیے مسئلہ نہ پیدا ہو تو خلیفہ نے یہی مناسب سمجھا کہ امام صاحب زندہ جیل سے باہر نہ نکلیں، جنازہ جیل سے نکلے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو بالآخر زہر دینے کا فیصلہ ہوا۔
جیل کا ایک ملازم جو چھوٹے درجے کا تھا اس نے امام صاحب سے عرض کیا کہ میں چھوٹا آدمی ہوں، میں کچھ کر نہیں سکتا لیکن آپ کو اطلاع دے رہا ہوں کہ آپ کو زہر پلا دیا جائے گا، آپ جو کر سکتے ہیں کرلیں۔ امام صاحب کے پاس جیل والے دودھ کا پیالہ لائے اور پیش کیا۔ امام صاحب نے پینے سے انکار کیا، فرمایا ”إِنِّیْ لَأَعْلَمُ مَا فِیْہِ“ میں جانتا ہو ں اس میں کیا ہے؟ بتادیا تھا نا کہ زہر ہے تو نہیں پیا۔ امام صاحب نے کہا کہ میں اس کو پیوں گا تو خودکشی ہوگی اور خودکشی کرنا جائز نہیں، اپنی مرضی سے میں نہیں پی سکتا۔ پھر امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو زمین پر لٹایا گیا اور ان کے منہ میں پیالہ انڈیلا گیا، کچھ منہ میں چلا گیا اور کچھ ڈاڑھی پر لگ گیا۔
امام صاحب اٹھے اور دورکعات نماز کی نیت باندھ لی۔ جب سجدے میں گئے تو روح پرواز کر گئی، لیکن امام صاحب نے غلط مسئلہ بیان نہیں کیا۔ میں اس لیے گزارش کرتا ہوں اور میں بار بار عرض کرتا ہوں کہ غلط مسئلہ کبھی نہ بتانا، آپ جیل یامشقت کے ڈر سے صحیح مسئلہ نہیں بتاسکتے تو خاموش ہو جائیں لیکن غلط مسئلہ کبھی نہیں بتانا۔ اصل تو آدمی کے لیے عزیمت ہے کہ مسئلہ بیان کرنا چاہیے، زندگی میں کچھ احوال آتے ہیں تو انہیں برداشت کرنا چاہیے۔
مشقت آنا قابلِ تعجب نہیں:
﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾﴾
لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان بھی لائیں، جنت بھی ملے اور پھر امتحان بھی نہ ہو یہ کیسے ہوسکتاہے؟ امتحانات تو زندگی کا حصہ ہیں۔ اس سے بندے کو متاثر نہیں ہونا چاہیے اور بندے کو بزدلی کا شکار بھی نہیں ہوناچاہیے بلکہ تسلسل سے اپنےکام میں لگے رہنا چاہیے۔ میں اکثر یہ بات آپ کی خدمت میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارا ہر اٹھنے والا قدم قبر کی طرف جا رہا ہے، ہر قدم موت کی طرف ہے، آج مرجائیں کل مر جائیں جانا تو ہے ہی، مشقت میں ہوں یا راحت میں ہوں دنیا تو چھوڑ کر جانی ہے، اس لیے مسائل میں کبھی انسان غلطی نہ کرے۔
خیر میں یہ بات سمجھا رہا تھا کہ دین کے کام پر مشقت آنا یہ تعجب کی بات نہیں ہے اور مشقت نہ آنا یہ تعجب کی بات ہے! ہمارے ہاں بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے جیل نہیں جانا، اس کے لیے خود کو بدلنا پڑے، نظریات بدلنےپڑیں، پالیسیاں بدلنی پڑیں، کچھ بھی ہوجائے بس جیل نہیں جانا! یہ جو خوف ہے اس کو اتارنا بہت ضروری ہے! بھائی جیل چلے بھی گئے تو کیا ہوگا؟ جیل بھری پڑی ہے ڈاکؤوں، چوروں، زانیوں اور شرابیوں سے، اگر دو اہل علم چلے جائیں گے تو کون سی قیامت آن پڑے گی؟ اس سے کیا ہوتا ہے! کچھ بھی نہیں ہوتا!
اور میں پرسوں یہاں اساتذہ سے کہہ رہاتھا کہ ہمیں ایجنسی والے اٹھائیں اور سڑک پر لٹائیں تو کہتے ہیں کہ ہماری تذلیل ہوگئی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو لٹا کر زہر کا پیالہ دیا جا رہا ہے لیکن انہوں نے تو نہیں کہا کہ میری تذلیل ہوگئی، وہ تو اس کو اپنی عزت سمجھتے تھے، اس لیے دین کے معاملے میں کوئی مشقت آ جائے تو اللہ کے لیے برداشت کریں اور ڈریں اور دوڑیں مت!
”اللہ جاننا چاہتے ہیں“ پر شبہ کا جواب:
﴿وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳﴾﴾
اللہ رب العزت نے تسلی دی ہے کہ یہ معاملہ صرف تمہارے ساتھ نہیں بلکہ تم سے پہلے لوگو ں کے ساتھ بھی تھا، ہم نے ہر کسی کا امتحان لیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ سچے کون ہیں اور کاذب کون ہیں۔ بظاہر شبہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت امتحان لیتے ہیں تو بندے کا پتا چلتاہے اور نہیں لیتے تو پتا نہیں چلتا، ﴿فَلَیَعۡلَمَنَّ اللہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ﴾ اللہ جاننا چاہتا ہے کہ سچا کون ہے اور اللہ جاننا چاہتا ہے کہ جھوٹا کون ہے۔ حالانکہ اللہ کو تو پہلے سے پتا ہے، پھر اللہ امتحان کے ذریعے کیوں معلوم کر رہے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں سب چیزیں ہیں لیکن لوگوں کو نہیں پتا کہ ان میں صادق کون ہیں اور کاذب کون ہیں؟ تو اللہ رب العزت فرماتےہیں کہ ہم ایسا امتحان لیتے ہیں کہ جس سے سب کو پتا چل جائے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے؟ یعنی ہم ظاہر ی طور پر سچے اور جھوٹے کو الگ الگ کرتے ہیں تاکہ تمہارے علم کے اند ر بھی یہ بات آجائے۔ اس لیے تفسیر جلالین والے ایسے موقع پر ایسے لفظ کہہ دیتے ہیں
”فَلَیَعْلَمَنَّ أَیْ عِلْمَ ظُہُوْرٍ“
یعنی ایسی بات کہ جو سب کے سامنے آجائے۔
اصطلاحاتِ شرع میں تبدیلی نہ کرو!
﴿وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ حُسۡنًا ؕ وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ لِتُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ فَلَا تُطِعۡہُمَا﴾
ہم نے انسان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے، اگر والدین تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ جس کے متعلق تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو اس معاملے میں والدین کی بات مت مانو!
مزجِ انسانی:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللہِ فَاِذَاۤ اُوۡذِیَ فِی اللہِ جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللہِ ؕ وَ لَئِنۡ جَآءَ نَصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمۡ﴾
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور جب ان کو اللہ کے راستے میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لوگوں کی طرف سے ملنے والی تکلیف کو ایسے سمجھنے لگتے ہیں جیسے ان پر اللہ کا عذاب آ چکا ہو! اور اگر ان مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے کوئی مدد ملے تو یہ منافق قسم کے لوگ کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ تھے۔
اللہ رب ا لعزت بعض منافق مزاج کے لوگوں کی عادت کو بیان فرما رہے ہیں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ زبان سے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، ہم مومن ہیں لیکن جب ان پر کوئی تکلیف آئے تو یوں چِلا تے ہیں جیسے ان پر خدا کاعذاب آگیاہو اور جب اہل ایمان کو راحت ملے تو پھر کہتے ہیں ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ منافقین کا کام ہے کہ راحت میں ساتھ دینا اور مشکل میں دوڑ جانا، اس کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر سمجھایا ہے۔
ایک مقام پر ہے:
﴿یُنَادُوۡنَہُمۡ اَلَمۡ نَکُنۡ مَّعَکُمۡ﴾
الحدید27: 14
کہ منافق لوگ جب مومنین کو راحت میں دیکھیں گے تو پکاریں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟! لہذا اپنی کامیابی اور راحت میں ہمیں بھی شریک کر لو اور اپنے نور سے ہمیں بھی مستفید ہونے دو!
قرآن کریم میں ہے: ﴿قَالُوۡا لَوۡ نَعۡلَمُ قِتَالًا لَّا تَّبَعۡنٰکُمۡ﴾
آل عمران3: 167
منافقین نے کہا کہ اگرہم غزوہ احد کو جہاد سمجھتے تو ہم آپ کا ساتھ ضرور دیتے، یہ کون سا جہاد ہے؟یہ تو خود کشی ہے! اور کبھی کہتے:
﴿لَوۡ اَطَاعُوۡنَا مَا قُتِلُوۡا﴾
کہ یہ صحابہ اگر ہماری بات مان لیتے تو جہاد میں شہید نہ ہوتے بلکہ بچ جاتے۔ اللہ فرماتے ہیں :
﴿فَادۡرَءُوۡا عَنۡ اَنۡفُسِکُمُ الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴾
آل عمران3: 168
کہ اے پیغمبر آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم سچے ہو تو تم اپنی ذات سے موت ہٹاکر دکھاؤ! موت سے کوئی بندہ بچ نہیں سکتا تو پھر یہ تاویلیں کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہے۔
گناہ کا بوجھ کون اٹھائے گا؟ (ایک تعارض کا حل)
﴿وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَ لۡنَحۡمِلۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِحٰمِلِیۡنَ مِنۡ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۲﴾﴾
جب پیغمبر علیہ السلام دعوت دیتے اور لوگ ان کی دعوت کو قبول کرتے تو کفار ان کو نبی کی دعوت سے روکتے تھے۔ لوگ کہتے کہ اگر ہم پیغمبر کی دعوت قبول نہیں کریں گے تو نبی تو فرما رہے ہیں کہ عذاب ہو گا، جہنم میں جائیں گے تو ہمارا کیا بنے گا؟ کفار کہتے کہ تم فکر نہ کرو! تمہارے بوجھ ہم اٹھائیں گے، جہنم کا عذاب ہمارے ذمہ ہے، بس تم انکار کرو۔
یہاں دو آیتوں میں بظاہر تعارض اور ٹکراؤ ہے۔ اس طرح کہ یہاں آیت سے جوبات سمجھ میں آ رہی ہے وہ یہ ہے
﴿وَ مَا ہُمۡ بِحٰمِلِیۡنَ مِنۡ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ﴾
کہ کافر لوگ مومنین کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے لیکن اگلی آیت میں ہے :
﴿وَ لَیَحۡمِلُنَّ اَثۡقَالَہُمۡ وَ اَثۡقَالًا مَّعَ اَثۡقَالِہِمۡ﴾
کہ یہ لوگ اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ اور لوگوں کے گناہوں کے بوجھ کو بھی اٹھائیں گے۔ تو بظاہر ان دو آیتوں میں تعارض ہے، لیکن حقیقت میں تعارض نہیں ہے اس لیے کہ پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ مومنین سے کہتے تھے کہ تم ہماری بات مانو اور ہم تمہارا بوجھ اس طرح اٹھائیں گے کہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی، سب مشقت ہمارے ذمے ہے اور دوسری آیت کامعنی یہ ہے کہ جو آدمی گناہ کرتاہے اپنے گناہ کو وہ بھی اٹھائے گا اور جس کی وجہ سے وہ گناہ کرتا ہے وہ شخص بھی اس کے گناہ کا بوجھ اٹھائے گا۔ اب دونوں میں تعارض ختم ہوگیا۔
حدیث پاک میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جوشخص کوئی نیک کام ایسا شروع کرتاہے کہ جس پر لوگ عمل کرتے ہیں تو اس نیک عمل کا اجر بھی اس کو ملے گا اور جو لوگ نیک عمل کریں گے ان سب کا اجر بھی اس کو ملے گا اور اگر کوئی شخص گنا ہ کا ایسا کام کرتاہے کہ جس کی وجہ سے لوگ گنا ہ کرتے ہیں تو ان کے گناہوں کا وبال قیامت کے دن اس کو بھی ہوگا۔
صحیح مسلم، رقم: 1017
حقوق العباد کی پامالی سے بچیں!
میں طلبہ سے اکثر یہ بات عرض کرتا ہوں کہ گناہ سے تو ہمیشہ بچنا چاہیے لیکن کچھ گناہ ایسے ہیں کہ وہ تو کبھی نہ کریں! ایک تو حقوق العباد کی پامالی․․․ یہ کبھی نہ کریں اور یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ کسی کا جوتا چوری کرنا یہ حق العبد ہے اور بعض ایسے گناہ جن کو شاید ہم گناہ نہیں سمجھتے۔ مثلاً پانی کی ٹینکی ہے اس پر گلاس رکھے ہوئے ہیں، میں نے پانی پی لیا اور گلاس اٹھا کر لے گیا تو یہ جومیں نے گلاس اٹھایا ہے یہ حق العبد پر ڈاکہ مارا ہے، اس میں سب طلبہ کا حق تھا اور میں نے لیا ہے، قیامت کے دن مجھے ان سب کو اس گلاس کا جواب دینا پڑے گا۔ اب بتاؤ! میں قیامت کے دن کہاں سے دوں گا؟ ہم سمجھتے نہیں ہیں کہ ہم نے کتنا بڑاجرم کیا ہے؟
میں یہ اس لیے عرض کرتا ہوں کہ ہم طلبہ اگر اس چیز کا خیال نہیں کریں گے تو لوگ کیسے خیال کریں گے؟ ایک تو ایسا حق کبھی نہ کھائیں جس کے ساتھ حق العبد کا تعلق ہو۔ دوسرا ایسا گناہ کبھی نہ کریں جو گنا ہ متعدی ہو! ایک گناہ لازمی ہے جو انسان کی ذات تک ہے، اس کا کسی اور سے تعلق نہیں مثلاً خدا نہ کرے کوئی بندہ حرام کھا لیتا ہے تو اس کا تعلق اس کی ذات کے ساتھ ہے، کسی نے زنا کیا اس کا تعلق اس کی ذات کے ساتھ ہے لیکن ایک گنا ہ ایسا ہے جو دوسرے گناہ کا عادی بناتاہے، مثلاً خود فلم دیکھتا تھا تو یہ بھی جرم تھا، اب اس نے دوستی لگائی اور ایک دوست کو فلم پر لگادیا۔ اب یہ تو توبہ کر لے گا لیکن جس کو فلم پر لگایا ہے اس کی فلمیں کس کے کھاتے میں جائیں گی؟! یہ متعدی گناہ کبھی نہ کریں۔ ہم بھی اگر نہیں بدلیں گے تو بتاؤ دنیا میں کون سی جگہ ہے جہاں تبدیلی آئے؟ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)
افضل ہونے کی بنیاد علم ہے:
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَلَبِثَ فِیۡہِمۡ اَلۡفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمۡسِیۡنَ عَامًا ؕ فَاَخَذَہُمُ الطُّوۡفَانُ وَ ہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ﴿۱۴﴾﴾
قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو دعوت دی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد تئیس سال اپنی قوم کو دعوت دی ہے۔اب دیکھو! ساڑھے نوسوسال کا زمانہ بہت بڑاہے اور نوح علیہ السلام کی دعوت میں مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی مشکلات سے بھری پڑی ہے لیکن مدنی زندگی میں غزوات کی مشکلات بھی ہیں اور ریاست، مرکز، صحابہ کرام اور اپنے متعلقین اور معتقدین کی وجہ سے راحت بھی ہے لیکن نوح علیہ السلام کے ساتھ ایسا نہیں ہو ا۔
اس صورتحال کے پیش نظر ایک اشکال ہے کہ نو ح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سال کی محنت اور مشقت کا تقاضا یہ ہے کہ نوح علیہ السلام مقام اور مرتبہ میں افضل ہونے چاہییں کیونکہ مشقت بہت ہے۔ قرآن کریم اور شریعت کی رو سے ہمارے ہاں افضل اور ادنیٰ کا مدار تو دین کی مشقت اوردین کی محنت ہے اور جو شخص دین کا کام زیادہ کرتا ہے اس کا اجر بھی زیادہ ہے اور جو کم کرتاہے اس کا اجر بھی کم ہے اور جس کا اجر زیادہ ہے تو اللہ کے ہاں افضل بھی وہی ہو گا۔ تو بظاہر حضرت نوح علیہ السلام کو افضل ہوناچاہیے!
لیکن یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ یہ اشکال اس وقت ہے کہ
نمبر 1: جب انسان یہ نہیں سمجھتا کہ نبوت کا اصل منصب کیاہے۔
نمبر 2: جب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ نبوت کی خاصیت کیاہے اور نبوت کے حوالے سے اس بات کو جب تک آدمی نہیں سمجھتا کہ نبوت کا کمال کیاہے۔
کمالِ علمی اصل کمال ہے:
یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو کسی چیز کا کمال ہوتاہے وہ کمال تب ہوتاہے جب وہ دوسرے میں نہ ہو۔ اگر وہ بات دوسرے میں بھی ہو تو اس بندے کا کمال نہیں رہتا۔ تو کمالِ نبوت؛ عمل نہیں ہے بلکہ کمال نبوت؛ علم ہے۔ لہٰذا جس پیغمبر کا علم جتنا زیادہ ہو گا اسی قدر یہ پیغمبر دوسرے پیغمبروں سے اعلیٰ اور افضل ہو گا۔ تو چونکہ کمالا تِ نبوت میں سے کمال اصلی؛ علم ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو علم ہے یہ تمام انبیاء علیہم السلام سے اعلیٰ ہے۔ ایک تو قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اِذۡ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ﴾
آل عمران 3: 81
جب اللہ نے اپنے پیغمبروں سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی تصدیق بھی کرو گے!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تصدیق فرمائیں گے ان علوم کی جو انبیاء علیہم السلام کے پاس ہیں اور آدمی تصدیق تب ہی کرتا ہے جب اس کا علم ہو، اگر علم نہ ہو تو تصدیق کیسےکرے گا؟! تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر تورات کے مصدق ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ تورات کے عالم بھی ہیں، اگر آپ انجیل کی تصدیق فرماتے ہیں تو اس کا معنی کہ آپ کے پاس انجیل کا علم بھی ہے، زبور کی تصدیق فرماتے ہیں تو زبور کا علم بھی ہے۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس تورات کا علم ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس انجیل کا علم ہے، حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس زبور کا علم ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان تینوں کا علم ہے اور ساتھ قرآن کریم کا علم بھی ہے۔ تو چونکہ آپ کا علم سب سے اعلیٰ ہے اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بھی سب سے اعلی ہے۔یہ بات سمجھ میں آئی؟ (جی ہاں۔ سامعین)
اسی طرح یہ بات بھی دیکھ لیں کہ امت میں ایک ہے علم اور ایک ہے عمل، علم ایسا جس پر عمل ہو لیکن عمل فرائض کی حد تک ہو، واجبات کی حد تک ہو۔ امت میں اگر کوئی شخص صاحبِ علم ہو اور فرائض، واجبات اور سنن مؤکدہ کو بجا لاتا ہو اور حرام اور مکروہات سے بچتا ہو اور نوافل اس کے نامہ اعمال میں نہ ہوں اور اس کے مد مقابل ایک امتی ہو جس کے نامۂ اعمال میں فر ائض، واجبات، سنن مؤکدہ، غیر مؤکدہ اور نوافل اتنے زیادہ ہوں کہ جس کا عالم کے نامۂ اعمال میں تصور بھی نہ ہوسکتاہو تو پھر بھی وہ عالم اس عابد سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک فیکٹری میں کام کرنے والے ہزار مزدور ہوتے ہیں اور اس فیکٹری میں کام کرنے والا ایک انجنئیر ہوتاہے، مزدور آٹھ گھنٹے دھوپ میں مشقت اٹھاتا ہے اور اس کی تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہو گی اور یہ انجنئیر ائیر کنڈیشن میں بیٹھتا ہے اور روزانہ ایک گھنٹا دیتا ہے لیکن اس کی تنخواہ پندرہ لاکھ روپے ہو گی۔ایک شخص کہتا ہے کہ یہ اے سی میں بیٹھتا ہے، ایک گھنٹا دیتاہے، صرف کاغذ دیکھتا ہے اور چلا جاتا ہے لیکن اس کی تنخواہ پندرہ لاکھ روپے ہے اور ایک مزدور صبح سے لے کر شام تک مشقت اور گرمی میں اینٹیں اٹھاتاہے اور اس کی تنخواہ صرف پندرہ ہزار روپے ہے! ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ یہ جو مزدور ہے یہ عامل ہے اور یہ انجینئر جو ہے یہ عالم ہے۔
جو نسبت عامل اور عالم کے درمیان ہوتی ہے یہی نسبت شریعت میں بھی ملحوظ ہوتی ہے عالم اور عابد میں۔ انبیاء علیہم السلام کا جو اصل کمال ہے وہ ہے علم، جس نبی میں علم زیادہ ہوگا وہ نبی دوسرے سے اعلیٰ ہوگا۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم تمام انبیاء علیہم السلام سے اعلیٰ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بھی سب سے اعلیٰ ہے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اولین و آخرین سب کا علم دیاگیا ہے۔
المہند علی المفند ص 78
اس کی مثال ایسے سمجھو جیسے ایک دماغ ہے اور ایک آنکھ ہے۔ آنکھ تب دیکھتی ہے جب دماغ کام کرتاہو، دماغ کام نہ کرے تو آنکھ کام نہیں کرتی، کان تب سنتا ہے جب دماغ کام کرے، دماغ کام نہ کرے تو کان کام نہیں کرتا۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ایک دماغ کی ہے اور باقی انبیاء علیہم السلام کی مثال کان، ناک کی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال مجموعۂ نبوت میں دماغ کی طرح ہے، اب جودماغ اور آنکھ کا فرق ہے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کاہے۔ اب دیکھو! آنکھ آٹھ گھنٹے دیکھ رہی ہے، کان دس گھنٹے سن رہاہے لیکن کسی سے پوچھو کہ مقام دماغ کا زیادہ ہے یا کان اور آنکھ کا؟ ہر بندہ کہے گا کہ دماغ کا! تو اگر کسی نبی کی عملی محنت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بھی ہو تب بھی اس کامقام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم والا نہیں ہوسکتا۔
یہ جو گفتگو میں کر رہا ہوں یہ ساری گفتگو قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ حضرت نانوتوی کے عجیب علوم تھے۔ اللہ پاک ہم سب کو ان کے علوم پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔ (آمین)
سجدہ نبوی؛ سجود امت سے افضل ہے:
اور اسی سے یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں کہ ہمارا جو یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر کا ایک سجدہ ہو تو امت کے اربوں سجدوں سے اعلیٰ ہے، نبی کا ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنا یہ امت کے اربوں سبحان اللہ کہنے سے اعلیٰ ہے، پیغمبر بظاہر عمل کم ہونے کے باوجود امت سے آگے نکل جاتاہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ کے ہاں جو عبادت کا وزن اور اجر ہوتاہے وہ عبادت کی کمیت کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ عبادت کی کیفیت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔اگر اخلاص کم ہو اور سو بار پہلا کلمہ پڑھیں اور اخلاص زیادہ ہو اور ایک بار پڑھیں تو ایک بار اخلاص کے ساتھ پڑھا جانے والا کلمہ سو بار بغیر اخلاص کے ساتھ پڑھے جانے والے کلمے سے آگے نکل جاتاہے، اگر اخلاص ہو اور تعداد کم ہو پھر بھی آگے نکل جائے گا۔
کسی عمل میں اخلاص کا زیادہ ہونا، کسی عمل میں خشوع کا زیادہ ہونا اس کی بنیاد ہوتی ہے تواضع پر۔ جو بندہ جس قدر زیادہ متواضع ہوتا ہے اسی قدر اس کی عبادات میں خشوع بھی زیادہ ہوتا ہے، اور تواضع کی بنیاد ہمیشہ معرفت پر ہوتی ہے، جس قدر بندہ کسی کو پہچانتاہے تو اسی قدر بندہ تواضع اختیار کرتاہے اور معرفت کی بنیاد ہوتی ہے علم ، جس قدر جس بندے کی معلومات ہوتی ہیں اسی قدر اس بندے کو معرفت ہوتی ہے۔ اب دیکھو! اعمال کے وزن کی بنیاد کیفیت اور کیفیت کی بنیاد تواضع او رتواضع کی بنیاد معرفت اور معرفت کی بنیاد علم ہے۔
آپ نے کئی بار دیکھا ہوگا کہ ہم کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں، بیان ختم ہوگیا، مصافحہ کرناہے، اب بعض آتے ہیں مصافحہ بھی کرتے ہیں اور ہاتھ بھی چوم رہے ہوتے ہیں، بعض آتے ہیں مصافحہ کرتے ہیں اور ہاتھ نہیں چومتے اور بعض بچے ایسے آتے ہیں کہ مصافحہ کریں گے اور مجھے نہیں بلکہ مجمع کو دیکھتے ہوئے کرتے ہیں، کیونکہ وہ روٹین وائز مصافحہ کر رہے ہیں، ان کے دل میں عظمت نہیں ہے، جب عظمت نہیں ہوگی تو تواضع بھی نہیں ہو گی۔
تو کیفیت کی بنیاد ہوتی ہے عظمت اور عظمت کی بنیاد تواضع اور تواضع کی بنیاد معرفت ہے۔ آپ کسی بندے کے سامنے متواضع تب ہوں گے جب اس کو پہچانتے تو ہوں نا کہ بندہ کون ہے؟ آپ سڑک سے گزریں، ایک سفیدریش بزرگ کھڑے ہیں، آپ سلام کرکے گزرجاتے ہیں، ایک اور بندہ آتا ہے، وہ ان بزرگ سے پوچھتا ہے کہ استادجی! آپ نے کہیں جانا ہے؟ وہ سمجھتا ہے کہ ہماری مسجد کے امام صاحب ہیں، وہ ان کی عزت تھوڑی سی زیادہ کرتاہے، ایک تیسرا بندہ آتا ہے اور کہتاہے میری گاڑی میں بیٹھیں میں آپ کو شہر چھوڑ کر آتاہو ں، تو یہ تیسرا آنے والا ان کا شاگرد ہے جس نے ان کے پاس پڑھا تھا تو تینوں میں فرق ہوگیا۔ اس لیے کہ جتنی معرفت ہو گی اتنی تواضع ہوگی اور معرفت کی بنیاد علم اور معلومات ہیں۔
اب بات سمجھنا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا اللہ کی ذات اور صفات کے بارے میں اتنا علم ہے کہ سارے انسانوں کا علم بھی جمع کریں تو حضور کے علم سے کم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اللہ کی جتنی عظمت ہے ساری کائنات کی عظمت کو جمع کریں تو وہ اس سے کم بنتی ہے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اللہ کی عظمت ہے۔ وجہ؟ علم کی وجہ سے معرفت ہے، معرفت کی وجہ سے عظمت ہو رہی ہے اور جب عظمت دل میں ہوگی تو اس مطلب یہ ہو گا کہ جس قدر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اللہ کی تواضع، عظمت، خشیت اور خشوع ہے تو سارے انسانوں کا خشوع جمع کر لیں تو آپ کا خشوع زیادہ ہے، کیوں؟ اس لیے کہ خشوع کی بنیاد عظمت ہے، اس کی بنیاد معرفت ہے، اس کی بنیاد علم ہے تو جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خشوع پوری کائنات کے انسانوں سے زیادہ ہے اور عمل کی کیفیت کی بنیاد خشوع ہوتاہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی جو کیفیت ہےیہ پوری کائنات کے انسانوں کی کیفیات سےزیادہ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سجدہ کریں تو اس کی کیفیت اتنی بڑی ہوتی ہے کہ اگر قیامت تک آنے والے سارے انسانوں کی سجدوں کی کیفیات ملا بھی لیں تب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدے کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تو پھر پیغمبر کا ایک سجدہ پورے انسانوں کے سجدے سے اعلیٰ ہوگا۔ (سبحان اللہ۔ سامعین) بات سمجھ آگئی ہے؟ (جی ہاں۔ سامعین)
حضرت نانوتوی کے علوم:
مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ تحذیر الناس میں یہی بات فرماتے ہیں کہ بظاہر امتی اعمال میں نبی سے بڑھ جاتاہے حقیقت میں نہیں بڑھتا۔ یہ ”بظاہر“ کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تریسٹھ سال ہے، امتی کی عمر ساٹھ سال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کام چالیس سال کے بعد شروع کیا ہے اور امتی پندرہ سال کے بعد بالغ ہوتے ہی نمازیں شروع کردے گا۔ تو بظاہر تو نمازیں اس کی زیادہ ہیں لیکن اللہ کے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوں کا جووزن ہے وہ اس امتی کی نمازوں کا نہیں ہے۔تو بظاہر امتی نبی سے بڑھتا ہے لیکن حقیقت میں نہیں بڑھ سکتا۔ حضرت نانوتوی کی اسی عبارت پر بریلوی حضرات اعتراض کرتے ہیں۔
قومِ لوط کے جرائم:
﴿اَئِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ وَ تَقۡطَعُوۡنَ السَّبِیۡلَ ۬ۙوَ تَاۡتُوۡنَ فِیۡ نَادِیۡکُمُ الۡمُنۡکَرَ﴾
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے بنیادی طور پر تین جرم تھے جو قرآن کریم نے بیان کیے ہیں؛ پہلا جرم یہ تھا کہ وہ لڑکوں سے بدفعلی کرتے تھے۔
اور دوسرا جرم اس قوم کا یہ تھا کہ وہ ڈاکے ڈالتے تھے اور تیسرا جرم یہ تھا کہ بے حیائی کا کام مجلس میں کرتے تھے۔ بعض نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ یہ بدفعلی بھی کرتے اور مجلس میں ہی کرتے تویہ ان کا دوہرا جرم تھا، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ بدفعلی تو مجلس میں نہیں کرتے تھے لیکن بعض دیگر نامناسب کام مجلس میں کرتے ہوئے شرماتے نہیں تھے،اور یہ بات معاشرے میں دیکھ لیں کہ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے مزاج میں بے حیائی ہوتی ہے اور وہ سمجھتے نہیں کہ مجلس میں یہ بات کرنی چاہیے، یہ کام اس مجلس کے مناسب ہے یا نہیں! وہ یہ کام کریں گے اور اس کے اس کام پر دس بندے ہنسیں گے تو اسے فخر ہو گا کہ میرے اس کام پر دس بندے ہنس پڑے ہیں۔
چار قسم کا عذاب:
﴿فَکُلًّا اَخَذۡنَا بِذَنۡۢبِہٖ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِ حَاصِبًا ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اَخَذَتۡہُ الصَّیۡحَۃُ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ خَسَفۡنَا بِہِ الۡاَرۡضَ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اَغۡرَقۡنَا﴾
اللہ تعالیٰ نے یہاں چار قسم کے عذاب کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم، حضرت لوط علیہ السلام کی قوم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی قوموں کا تذکرہ فرمایا کہ ان میں سے نافرمان لوگوں کو ہم نے ان کو یہ عذاب دیے:
﴿فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِ حَاصِبًا﴾
بعضوں پر سخت تیز ہوا بھیجی جس میں پتھر تھے،
﴿وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اَخَذَتۡہُ الصَّیۡحَۃُ﴾
اور بعضوں کو چیخ نے ہلاک کردیا،
﴿وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ خَسَفۡنَا بِہِ الۡاَرۡضَ﴾
اور بعضوں کو زمین میں دھنسا دیا،
﴿وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اَغۡرَقۡنَا﴾
اور بعضوں کو پانی میں غرق کر دیا۔ ان چار عذابوں کا معنی یہ نہیں ہے کہ عذاب ان چار میں منحصر ہے بلکہ عذاب اس کے علاوہ بھی ہیں، ان چار کا ذکر اس لیے کیا کہ خاص خاص لوگوں پر یہ خاص چار عذاب آئے تھے۔۔
داعی کے لیے دو چیزوں کا اہتمام:
﴿اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ ﴿۴۵﴾﴾
یہاں اللہ رب العزت نے دین کی دعوت دینے والے داعی اور واعظ کو نصیحت کی ہے کہ اس کو دو چیزو ں کا اہتمام کرنا چاہیے:
نمبر 1:
﴿اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ﴾
قرآن کریم کی تلاوت کرنا
نمبر 2:
﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ﴾
نماز کی پابندی اور اہتمام کرنا
داعی اور واعظ کو یہ دو چیزیں اختیار کرنی چاہییں، یہ داعی کے لیے بنیادی چیزیں ہیں ، نماز پڑھنا کافی نہیں ہے بلکہ نماز کا اہتمام ضروری ہے،
﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ﴾
کیونکہ نماز انسان کو فحشاء اور منکر سے روک دیتی ہے۔ فحشاء اور منکر کا معنی کیا ہے؟
”منکر“ ایسے گناہ کو کہتے ہیں جس کے حرام ہونے پر دلیل شرعی ہو، اور ”فحشاء“ اس گناہ کو کہتے ہیں جس کو ہر عقل مند شخص برا اور نامناسب سمجھے چاہے وہ مؤمن ہو یا کافر ہو، مثلاًزنا ہے․․․ دنیا میں جو کفار ہیں وہ بھی زنا کو اچھا نہیں سمجھتے، ڈاکہ․․․ دنیا میں کوئی کافر بھی اس کو اچھا نہیں سمجھتا، کسی کا حق مارنا․․․ کوئی کافر بھی اس کو اچھا نہیں سمجھتا۔ تو فرمایا کہ تم نماز کی پابندی کرو اس لیے کہ نماز فحشاء اور منکر ہرقسم کے گناہوں سے روک دیتی ہے۔
نماز گناہ سے روکتی ہے تو نمازی گناہگار کیوں؟
اس پر سوال یہ ہے کہ بسا اوقات بندہ نماز پڑھتا ہے اور پھر بھی گناہ نہیں چھوڑتا! اس کے دوجواب ہیں؛
ایک یہ کہ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ نماز بندے سے اس کے گناہ چھڑوا دیتی ہے، اس کامعنی یہ ہے کہ نماز گناہوں سے روکتی ہے، روکنا اور ہے اور چھڑوانا اور ہے۔ قرآن کریم زنا سے روکتا ہے لیکن لوگ پھر بھی کرتے ہیں، قرآن شراب سے روکتا ہے لیکن لوگ پھر بھی پیتے ہیں، اس لیے نماز گناہوں سے روکتی ہے کا معنی یہ نہیں ہے کہ نمازی گناہ نہیں کرے گا۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب نماز پورے آداب کے ساتھ ہو تو پھر گناہوں سے روکتی ہے اور آدمی کو توفیق مل جاتی ہے کہ گناہوں سے بچ جاتا ہے لیکن اگر کسی کویہ توفیق نہ ملے تو اسے غور کرنا چاہیے کہ اس کی نمازبغیر آداب کی رعایت کے ہے، اس لیے بندے کو پورے آداب کے ساتھ نماز کا اہتمام کرنا چاہیے، اور ایک حدیث پاک میں ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ لَمْ تَنْهَهٗ صَلَاتُهٗ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ فَلَا صَلَاةَ لَهٗ ."
تفسیر ابن ابی حاتم: ج7 ص294
کہ وہ نماز جو انسان کو گناہوں سے نہ روکے تو وہ تو نماز کہلانے کے لائق ہی نہیں۔
لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اگر نماز پڑھیں اور گناہ نہ چھوٹیں تو بندہ نماز ہی چھوڑ دے بلکہ نماز پڑھتا رہے، ایک وقت آئے گا کہ اللہ اس کو توبہ کی توفیق عطا فرمائیں گے۔
اور قرآن کریم کی تلاوت انسان کو راہ راست پر لاتی ہے اور نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے، بندہ گناہوں سے بچتاہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بندہ قرآن کا مخاطب خود کو سمجھے، ایسا نہ ہو کہ درسِ قرآن مسجد میں دیں اور قرآن کامخاطب مقتدی کو سمجھیں اور خود کو نہ سمجھیں۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ کئی بار فرماتے کہ میں اپنے اندر جو عیب دیکھتا ہوں اسی پر میں بیان کرتا ہو ں اور خود کو مخاطب کرتا ہوں۔ یہ بہت اہم چیز ہے کہ قرآن کریم کے مخاطب خود کو سمجھیں گے تو توبہ کی توفیق ملے گی اور اگر درسِ قرآن دیں گے اور عوام کے لیے دیں گے تو پھر خود کو توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔
ہجرت کا حکم:
﴿یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾﴾
یہاں پر ان حضرات کو بات سمجھائی ہے کہ جو لوگ دین پر عمل نہیں کر سکتے یا دین کا کام نہیں کرتے اور ان کا عذر ان کا معاشرہ ہوتاہے کہ اس ماحول میں ہم کام نہیں کرسکتے تو اللہ رب العزت نے فرمایا کہ میری زمین بہت وسیع ہے، اگر ایک زمین میں رہتے ہوئے دین کا کام نہیں کر سکتے تو اس علاقے سے ہجرت کر کے کسی اور جگہ چلے جاؤ۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا﴾
النساء4: 97
کہ جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور اسی حالت میں فرشتے جب ان کی جان نکالنے آئے تو فرشتوں نے پوچھا کہ تم کس حالت میں تھے؟ تو ان ظالم لوگوں نے کہا کہ ہم مجبور تھے، فرشتوں نے کہا:
﴿اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا﴾
کہ خدا کی زمین تو بڑی وسیع اور کشادہ ہے، تم ہجرت کر جاتے! اپنا علاقہ چھوڑ کر کسی اور علاقے میں چلے جاتے۔
رابطہ رکھ کر کام کریں!
میں طلبہ سے یہ درخواست کیا کرتا ہوں کہ جب آپ ہمارے ہاں تخصص کر لیں تو کام کے لیے اپنے علاقے کو ترجیح دیں۔ باقی یہ بات کہ اپنے علاقے میں کیسے کام کرنا ہےتو اس کے لیے ہم سے رابطہ رکھیں، وہاں کے حالات بتائیں، پھر یہاں سے ہدایات لیں، کچھ وقت لگے گا، پھر علاقے میں کام شروع ہو جائے گا ان شاء اللہ۔
ہمارے ہاں طلبہ اپنے علاقے میں جاتے ہیں، کام شروع کرتے ہیں، احوال نامناسب ہوتے ہیں، یہ سہہ نہیں سکتے تو ہمیں بتائے بغیر علاقہ چھوڑ دیتے ہیں۔ جب کبھی ملاقات ہوتی ہے اور میں حالات اور کام کا پوچھتا ہوں تو کہتے ہیں کہ استادجی! میں فلاں علاقے کا ہوں۔ وہ علاقہ کیوں چھوڑا؟جی! حالات ٹھیک نہیں تھے۔ تو میں کہتا ہوں کہ ہمیں تو بتاتے کہ حالات ٹھیک نہیں تھے،مشورہ تو کر لیتے، اس کے بعد آپ آگے چلتے۔ جی استاذ جی! میں نے بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ اس سے آپ کو تکلیف ہوگی۔ میں نے کہا کہ آپ جو علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو کیا اس سے مجھے خوشی ہو گی؟
بعض لوگوں کا دماغ بہت عجیب ہوتاہے۔ ایک طالب علم پڑھتا ہے۔ دو چار مسئلے بنیں گے تو چھوڑ کر چلا جائے گا۔ عین جانے کے وقت آتا ہے اور کہتا ہے: استادجی! میں جانے لگا ہوں! کیوں جارہے ہو؟ مجھے فلاں استاد نے ڈانٹاہے! مجھے فلاں نے مارا ہے! فلاں نے میری بے عزتی کی ہے! میں نے کہا کہ مجھے بتایا کیوں نہیں؟ جی! میں نے سوچا کہ استاذ جی آپ کو تکلیف ہوگی۔ میں نے کہا کہ ابھی جو تم جا رہے ہو تو کیا میں مٹھائی تقسیم کروں گا؟ ابھی خوشی ہوگی؟ بھائی یہ تم پہلے دن بتاتے تو اس کا حل نکل آتا، اب چھوڑ کر جا رہے ہو تو اب اس کا کیا حل نکل سکتاہے؟! تو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔
امیر اور پیر ایک ہونا چاہیے:
اگر تم ایک علاقے میں کام نہیں کر سکتے تو علاقہ بدل لو لیکن اپنی رائے سے نہ بدلو بلکہ کسی بندے سے مشورہ کر کے بدلو، اور میں ایک بات کہتا ہوں وہ شاید آپ کو ابھی سمجھ میں نہ آئے، جب آپ میری سیٹ پر ہوں گے تو پھر آپ کو سمجھ میں آئے گی۔ میں کہتا ہوں کہ اپنا امیر اور اپنا پِیر ایک رکھو۔ ہمارے ہاں پیر الگ ہوتا ہے اور امیر الگ ہوتا ہے، امیر کی فکر الگ ہے اور پیر کی الگ ہے، جب پیر اور امیر کی رائے الگ الگ ہوتو مرید اور کارکن پریشان ہوتا ہے کہ میں کدھر جاؤں؟! اور اگر پیر اور امیر ایک ہوتو پھر کبھی الجھن نہیں ہوگی۔ میری گزارش سمجھ آئی؟ (جی ہاں۔ سامعین) اس کا ہمیشہ خیال فرمائیں۔
میں یہ بات سمجھاتاہوں کہ ہمیشہ استخارہ اور استشارہ کرنے کے بعد بات طے کرو کہ میں نے کرنا کیا ہے؟ استخارہ کہ اللہ سے خیر طلب کرو دو رکعات پڑھ کر اور استشارہ کہ اپنے با اعتماد دوستوں سے مشورہ کرو اور جو تم سے محبت کرتے ہیں ان سے کرو۔ پھریہ طے کر لو کہ نے زندگی میں کیا کرنا ہے؟ ہدف طے کرو! جب یہ ہوگیا تو اب اس ہدف تک پہنچنے کے لیے کون سا شخص مناسب ہے؟ استخارہ اور استشارہ سے اس بندے کا انتخاب کرو! جب یہ دو چیزیں طے ہو گئیں تو اب دائیں بائیں نہیں دیکھنا، بس اب چلتے رہو! اللہ تمہیں نتائج عطا فرمائیں گے۔ الجھن تب ہوتی ہے کہ جب ہم ہدف طے نہیں کرتے کہ ہم نے کرنا کیا ہے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر،کبھی یہ کبھی وہ اور جب ہدف طے ہوجاتاہے تو اس ہدف تک پہنچنا کیسے ہے۔ اس کا طریقہ متعین نہیں ہو پاتا تو پھر آدمی الجھن کا شکار رہتاہے۔
ہجرت کرنے والوں کو تسلی:
تو فرمایا:
﴿یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾﴾
کہ اے میرے مومن بندو! میری زمین بہت کشادہ اور وسیع ہے، لہذا خالص میری ہی عبادت کرو! یہاں بات سمجھیں کہ جب آدمی اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقے میں مستقل چلا جاتا ہے تو بندے کو دو پریشانیاں ہوتی ہیں؛ پہلی پریشانی کہ خوف ہوتا ہے کہ میری جان کا کیا بنے گا، کہیں میں مر نہ جاؤں۔ تو اللہ نے فرمایا
”كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ“
کہ موت تو آنی ہے ادھر بھی آنی ہے ادھر بھی آنی ہے، اس خدشے چھوڑو اور اپنا کام شروع کرو، اور دوسری پریشانی یہ ہوتی ہے کہ اپنے علاقے میں رشتہ دار ہیں، گھر بار ہے، ہجرت کرکے دوسرے علاقے میں جاؤں گا تو معاش کا کیا بنے گا؟ تو فرمایا:
﴿وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ دَآبَّۃٍ لَّا تَحۡمِلُ رِزۡقَہَا ٭ۖ اَللہُ یَرۡزُقُہَا وَ اِیَّاکُمۡ ۫ۖ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۶۰﴾﴾
کہ کتنے جانور ایسے ہیں جو اپنا رزق روزی اٹھا کر نہیں پھرتے، اللہ انہیں بھی رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی رزق دیتا ہے، اللہ تمہاری باتیں سنتا بھی ہے اور تمہاری نیتوں کو جانتا بھی ہے اس لیے رزق کی فکر نہ کرو۔ یہ دو کام ہم حل کریں گےبس تم اپنا سفر شروع کرو۔
مشرکین کا مصیبت کے وقت اللہ کو پکارنا:
﴿فَاِذَا رَکِبُوۡا فِی الۡفُلۡکِ دَعَوُا اللہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ اِذَا ہُمۡ یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۶۵﴾﴾
مشرکین کی عادت تھی کہ جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے اور پھنس جاتے تو اس وقت اللہ کو پکارتے اور اخلاص کے ساتھ پکارتے۔ مشرک بھی سمجھتے تھے کہ اس مشکل سے اللہ کے علاوہ کوئی بھی نہیں نکال سکتا تو چونکہ دعا اخلاص سے ہوتی تھی تو اللہ ان کے اخلاص کوقبول فرما لیتے تھے۔ یہ ہے اخلاص کا معنی! اخلاص کا معنی یہ نہیں تھا کہ وہ مؤمن ہو جاتے تھے، وہ نیک ہو جاتے تھے بلکہ اس گھڑی میں ا ن کا عقیدہ یہ ہوتا تھا کہ اس مشکل سے خدا کے علاوہ ہمیں کوئی نہیں نکال سکتا،تواللہ بچا دیتے اور یہ پھر شرک شروع کر دیتے۔
اب دیکھو! اس آیت اور دیگر اس قسم کی آیات سے معلوم ہوتاہے کہ مشرکین کی دعائیں اللہ قبول فرماتےہیں اور قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ مَا دُعَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ ﴿۱۴﴾﴾
الرعد13: 14
کہ کافر کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ تو بظاہر دونوں آیتوں میں تعارض ہے۔
جواب یہ ہے کہ ان میں تعارض نہیں ہے اس لیے کہ مقام بدل گیا ہے۔ یہ جو ہے کہ ان کی دعا قبول ہو گئی تھی اس کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے اور یہ جو کہا گیا کہ ان کی دعا قبول نہیں ہوگی اس کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے،اب تعارض وتناقض نہیں رہتا۔ آپ تو منطقی لوگ ہیں۔ علم منطق میں پڑھتے رہتے ہیں کہ:
در تناقض

ہشت وحدت شرط داں

وحدتِ

موضوع و محمول و مکاں

وحدتِ شرط

و اضافت جزء و کل

قوت و فعل

است در آخر زماں

تین کام چار طریقے:
﴿وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۶۹﴾﴾
کہ جو شخص ہمارے دین کے راستے میں مشقت برداشت کرے اور محنت کرے تو ہم اس کے لیے اپنے راستے کھول دیتے ہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ آ رہی ہے کہ ”سبل“ یہ ”سبیل“ کی جمع ہے، اللہ تک پہنچنے کا ایک راستہ نہیں ہے، اللہ تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ تو دین کو ایک خاص ہیئت میں محدود کرنا یہ بہت بڑا ظلم ہوگا۔ اس لیے میں یہ بات اکثر سمجھایا کرتا ہوں کہ مجموعۂ نبوت نے تین کام کیے ہیں:
نمبر 1: اشاعت دین نمبر 2: دفاع دین نمبر 3: نفاذ دین
اور اس کام کے لیے چار طریقے اختیار کیے ہیں:
1: تقریر 2: تحریر 3: مناظرہ 4: جہاد
اب یہ جو تین کام اور چار طریقے ہیں کوئی بندہ کہے کہ میں نے ایک ہی کام کرنا ہے، نفاذ اسلام تو جرم ہے۔ میں نے ایک ہی کرنا ہے، دفاع اسلام توجرم ہے۔ میں ایک ہی کروں گا، اشاعت اسلام تو جرم ہے۔
اشاعتِ دین فضائل سے ہوتی ہے، ترغیب سے ہوتی ہے۔ دفاعِ دین دلائل سے ہوتاہے اور نفاذ دین طاقت سے ہوتاہے۔ اس لیے یہ تینوں کام ہمارے ہیں، فضائل والا بھی، دلائل والا بھی اور طاقت والا بھی۔ اگر فضائل والا دلائل نہیں دے سکتا تو دلائل والوں کی مخالفت نہ کرے اور دلائل والا اگر طاقت نہیں رکھتا تو طاقت والوں کی مخالفت نہ کرے۔ہمارے اس دور میں تبلیغ والے یہ فضائل والے ہیں اور تبلیغ سےمراد خاص تبلیغی جماعت نہیں بلکہ علماء،خطباء اور واعظین بھی اس کا حصہ ہیں، اور دلائل یہ ہمارا کام ہے اور ہماری طرح جو لوگ دنیا میں کام کرتے ہیں کہ شریعت پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دلائل سے دیتے ہیں، یہ دفاع دین ہے، اور نفاذِ دین یہ طاقت سے ہوتاہے جو کہ مجاہدین کا کا م ہے۔
یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ ہم فضائل والاکام نہیں کرتے، ہم طاقت والا کام نہیں کرتے لیکن ہم ان دونوں کو برابھی نہیں کہتے، ایک کام ہم نہیں کر سکتے تو وہ کام دوسرے کریں گے۔میں نے کئی بار کہا ہے کہ مجھے بہت سارے تعجبات ہوتے ہیں، ایک تعجب مجھے اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم فضائل اور طاقت والوں کو برا نہیں کہتے، تنقید بھی نہیں کرتے، اعتراض بھی نہیں کرتے اور ہمارے اوپر ہر دوسرا بندہ اعتراض کرتاہے تم یہ کیوں کرتے ہو؟ یہ کیوں کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ کبھی ہم نے بھی اعتراض کیا ہے؟! تم لوگ ہم پر اعتراض بھی کرتے ہو اورمعتدل بھی ہو اور ہم اعتراض سنتے ہیں اور اس کا جواب بھی نہیں دیتے تو ہم متشدد ٹھہرے اور میڈیا پر آ کر تم ہمارے خلاف باتیں بھی کرتے ہو اس کے باوجود تم معتدل ہواور ہم جو خاموش رہتے ہیں ہم متشدد ہیں۔ اس پر مجھے بہت تعجب ہوتا ہے۔
تین کام ہیں: اشاعتِ دین، دفاعِ دین اور نفاذِ دین۔ اس کے لیے چار طریقے ہیں:پہلا تقریر، دوسرا تحریر،تیسرا مناظرہ اور چوتھا جہاد۔ میں ان شاء اللہ اس عنوان کو اپنے اجتماع ”دورہ تربیۃ العلماء“میں پیش کروں گا، پھر تفصیل سے بات کریں گے تاکہ آپ اس کو سمجھیں۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی موضوعات ہم نے طے کیے ہیں۔
تو یہاں اللہ فرماتےہیں:
﴿وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا﴾
یہاں ”سبل“ فرمایا، ” سبیل“ نہیں فرمایا۔ ”سبل“ کہہ کر ہم جیسے فقیروں کے لیے بھی راستے کھولے ہیں۔ ہمیں بھی کچھ تسلی ہوتی ہے کہ ہماراکام دین کا کام ہے۔اللہ ہم سب کو دین کا کام اخلاص کے ساتھ کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․