سورۃ لقمٰن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ لقمٰن
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّلۡمُحۡسِنِیۡنَ ۙ﴿۳﴾﴾
ابتدائی آیات کا شانِ نزول:
﴿الٓـمّٓ﴾
یہ حروف مقطعات میں سے ہے، اس پر بات پہلے ہو چکی ہے۔
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۶﴾﴾
نضر بن حارث یہ مشرک تھا اور تجارت کے لیے مختلف ملکوں کا سفر کیا کرتا تھا۔ ایک بار یہ ایران گیا کسریٰ کے ہاں تو وہاں سے پرانے بادشاہ جو ایران کے گزرے ہیں ان کے قصوں اور کہانیوں پر مشتمل کتابیں خرید کر لایا۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ وہاں سے ایک گانا گانے والی کنیز بھی خرید کر لایا۔ اس نے مکہ مکرمہ میں آ کر اہلِ مکہ کو جمع کیا اور کہا کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- تمہیں پرانے وقت کی کہانیاں سناتاہے، عاد اور ثمود کے قصے سناتا ہے تو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ مزیدار کہانیاں سناتا ہوں، تم ان کی نہ باتیں سنو بلکہ میری سنو اور کہتا کہ محمد – صلی اللہ علیہ وسلم- تمہیں قرآن سناتے ہیں اور نماز پڑھنے کا کہتے ہیں، روزے رکھنے کا کہتے ہیں، مشقت کی بات کرتے ہیں، ادھر آؤ اور اس کنیز کا گانا سنو! قرآن سننے میں تمہیں تکلیف ہی تکلیف ہو گی اور گانا سنو گے تو مزے ہی مزے ہیں، اس لیے تمہیں قرآن سننے کی کیا ضرورت ہے؟! تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا﴾
کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا سے غافل کرنے والی باتوں کو خرید لیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو خدا کے راستے سے بھٹکا دیں اور اس کا مذاق اڑائیں،
﴿اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴾
جو لوگ بھی یہ کھیل تماشے کی چیزیں خریدتے ہیں امت کو گمراہ کرنے کے لیے تو ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
جائز اور ناجائز کھیل:
ہمارے ہاں جو کھیل کود ہوتے ہیں یہاں ان کے بارے میں ایک بات سمجھ لیں کہ ایسا کھیل جس میں دین کا نفع ہو یا ایسا کھیل جس میں دنیا کا نفع ہو مثلاً بدن کو مضبوط کرنا ہو، چاک وچوبند رہنا ہو، اپنی طاقت کو برقرا ر رکھنا ہو، صحت کو ٹھیک رکھنا ہو تو ایسے کھیل کو شریعت جائز کہتی ہے۔ لیکن ایسا کھیل جس میں دین کا نفع بھی نہ ہو اور دنیا کا نفع بھی نہ ہو تو اس کو شریعت بسا اوقات مکروہ کہتی ہے، بسا اوقات نا جائز کہتی ہے اور بسا اوقات حرام بھی کہتی ہے۔ اس لیے ہر کھیل جائز بھی نہیں ہے اور ہر کھیل ناجائز بھی نہیں ہے۔ بعض کھیل ایسے ہیں جیسے شطرنج تو اس کے بارے میں حدیث میں صراحتاً ممانعت آ گئی ہے تو اب یہ دنیاکے لیے ہو یا کسی اور کام کے لیے ہو اسے ناجائز ہی کہنا ہے، ا س کے جائز ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے۔
جائز کھیلوں کا احادیث سے ثبوت:
احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ترغیب دی ہے کہ بندےکو کھیلنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تھےاور حبشی لوگ مسجد نبوی کے صحن میں نیزہ بازی کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ام المؤمنین امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پیچھے تھیں تو آپ رضی اللہ عنہا نے اپنا سر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے مبارک پر رکھا اور کھیل دیکھتی رہیں۔
صحیح مسلم، رقم: 892
ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اِلْھُوْا وَالْعَبُوْا“
کہ کھیل کود کرتے رہو! ،
"فَإِنِّيْ أَكْرَهُ أَنْ يُرَىٰ فِيْ دِيْنِكُمْ غِلْظَةٌ."
شعب الایمان: ج 5ص 247 رقم الحدیث 6542
کہ مجھے تمہارے دین میں شدت اور خشکی پسند نہیں ہے، اتنی سختی پیدا نہ کرو کہ بندہ کھیلنا بھی چھوڑ دے بلکہ اپنے کھیل کود کو جاری رکھو!
اور ایک حدیث پاک میں ہے :
"رَوِّحُوا الْقُلُوْبَ سَاعَةً بِسَاعَةٍ․"
مسند الشہاب: ج1 ص393 رقم الحدیث672
کہ اپنے دل کو کبھی کبھی خوش کر لیا کر و۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں احادیث میں ہے کہ بسا اوقات قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے مشاغل اور ان میں مسلسل غور وفکر کرنے سے جب تھک جاتے تو اپنی تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے زمانۂ جاہلیت کے شعر سنا کرتے تھے۔ تو یہ شعر وشاعری گناہ نہیں ہے، یہ غلط نہیں ہے، مقصد اس کا ٹھیک ہو تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ شرط یہ ہے کہ آواز عورت کی نہ ہو، موسیقی اور ساز نہ ہو، اور ایسا بے ریش لڑکا بھی نہ ہو کہ جس کو دیکھ کر بندے کو عورت کی طرح کے خیالات پیدا ہوں اور مضمون بھی گندا نہ ہو جوبندے میں شہوت پیدا کرے۔ تو ان شرائط کے ساتھ آپ شاعری سننا چاہیں تو سننے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ایسا کچھ نہ سنیں کہ جس سے دین کا نقصان ہو اور تباہی ہو۔
خیر میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہر کھیل کو شریعت نہ منع کرتی ہے اور نہ ہی ہر کھیل کی اجازت دیتی ہے۔ ایک حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَیْسَ مِنَ اللَّھْوِ ثَلَاثٌ․
یہ روایت اکثر کتب ِ احادیث میں کتاب الجہاد کے تحت موجود ہے کہ لہو ولعب کے کھیلوں سے یہ تین کھیل مستثنیٰ ہیں، ان تین کھیلوں کی اجازت ہے:
نمبر 1:
”تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهٗ“
آدمی اپنے گھوڑے کو سدھائے۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ جہاد کے لیے یہ گھوڑا تیار وہ جائے گا۔
نمبر 2:
”وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهٗ“
آدمی اپنی بیوی سے کھیلے۔ اس میں مقصد توالد و تناسل کی تکمیل ہے۔
نمبر 3:
”وَرَمْيُهٗ بِقَوْسِهٖ وَنَبْلِهٖ“
آدمی تیر اندازی کرے۔ یہ بھی جہاد کی تیار میں داخل ہے۔
نصب الرایۃ للزیلعی: ج4 ص273 رقم الحدیث:2513
تو ہر کھیل کو ناجائز بھی نہیں کہہ سکتے اور ہر کھیل کو جائز بھی نہیں کہہ سکتے۔
آسمانوں کے ستونوں کی تحقیق:
﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا وَ اَلۡقٰی فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِکُمۡ وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ؕ﴾
نحوی لحاظ سے اس آیت کی دو ترکیبیں ہو سکتی ہیں:
ایک تو یہ کہ
”تَرَوْنَهَا“
یہ
”عَمَدٍ“
کی صفت ہے اور ”ھا“ ضمیر کا مرجع
”عَمَدٍ“
ہے۔ اب اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں کو پیدا فرمایا ہے ایسے ستونوں کے بغیر جو تمہیں نظر آ سکیں۔ یعنی اگر ستون ہوتے تو تمہیں نظر آ جاتے جب تمہیں نظر نہیں آتے تو معلوم ہوا کہ ستون نہیں ہیں اور یہ آسمان بغیر ستون کے محض اللہ کی قدرت کے سہارے قائم ہیں۔
دوسری ترکیب یہ ہے کہ
”تَرَوْنَهَا“
کی ضمیر کا مرجع
”السَّمٰوٰتِ“
ہیں۔ اب اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا فرمایا ہے جیسا کہ تم انہیں دیکھ رہے ہو، مطلب یہ کہ آسمان بغیر ستون کے بنایا گیا ہے۔ بعض حضرات نے پہلی ترکیب کے مطابق کہ
”تَرَوْنَهَا“
کو
”عَمَدٍ“
کی صفت بنایا جائے اس کا ایک معنی یہ بھی کیا ہے کہ اللہ نے آسمانوں کو پیدا فرمایا ہے ایسے ستونوں کے بغیر جن کو تم دیکھتے ہو یعنی آسمانوں کے ستون تو ہیں لیکن تمہیں نظر نہیں آتے۔
بہر حال یہ دونوں معانی درست ہیں کہ آسمان کے ستون ہیں یا یہ کہ آسمان بغیر ستون کے بنا ہوا ہے۔
حضرت لقمان نبی تھے یا ولی؟ راجح قول:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلہِ ؕ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۱۲﴾﴾
حضرت لقمان علیہ السلام نبی تھے یا ولی تھے؟ راجح قول یہ ہے کہ حضرت لقمان ولی تھے نبی نہیں تھے اور بعض روایات میں ہے کہ لقمان علیہ السلام کو اللہ پاک نے اختیار دیا تھا کہ تم چاہو تو نبوت لے لو اور چاہو تو حکمت لے لو۔ انہوں نے کہا کہ اے اللہ! نبوت بڑی ذمہ داری ہے، آپ مجھے حکمت دے دیں۔ کسی نے پوچھا کہ آپ نے حکمت کو نبوت پر ترجیح کیوں دی؟ عجیب جواب دیا، فرمایا کہ اگر اللہ مجھ سے پوچھے بغیر مجھےنبوت دے دیتے تو یہ انتخابِ خدا ہوتا تو اللہ خود حفاظت فرماتے اور جب اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے، اب نبوت ملتی تو اللہ کا انتخاب نہ ہوتا بلکہ خود میرا ہوتا تو میرے لیے سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا، اس لیے میں نے حکمت کو نبوت پر ترجیح دی۔
اکابر کے کلام سے توافق:
میں نے آپ سے کہا تھا کہ میری عادت ہے کہ میں بہت ساری باتیں اصول کے درجے میں کہتا ہوں اور وہ اصول میں نے کہیں پڑھا نہیں ہوتا ہے لیکن جو مجھے سمجھ آتا ہے کہہ دیتا ہوں۔ پھر جب مجھے اپنے اکابر کی کتابوں سے اس کے حوالے ملنا شروع ہو جاتے ہیں تو خلوت میں میری خوشی کو میں ہی جانتا ہوں اس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔
عصمت نبوت پر میں نے کئی بار یہ بات کی -آپ کو یاد ہے- کہ نبی معصوم ہے، اللہ نبی کو گناہ سے بچاتاہے، یعنی اللہ نبی کو نبوت عطا فرماتاہے اور گناہوں سے بچاتا ہے، وجہ کہ یہ نبوت انتخابِ نبی نہیں ہوتا بلکہ انتخاب خدا ہوتاہے، اس لیے پیغمبر پر اعتراض ہو تو پیغمبر دفاع نہیں کرتے بلکہ اللہ خود دفاع کرتے ہیں، جیسے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی میں نے مثال دی تھی۔ اب اس بات سے مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ حضرت لقمان حکیم نے یہی بات فرمائی جب سوال ہوا کہ آپ نے حکمت کو نبوت پر ترجیح کیوں دی ہے؟ فرمایا کہ اگر اللہ مجھے بغیر میرے اختیار کے خود نبوت دے دیتے تو انتخاب اللہ کا ہوتا اور اللہ خو دحفاظت فرماتے چونکہ مجھے انتخاب دیا کہ نبوت لوں یا حکمت لوں تو اگر میں کہتا کہ میں نبوت لیتا ہوں تو اس کا مطلب کہ نبوت انتخاب میرا ہے تو مجھے خود اپنی حفاظت کرنی پڑتی اور یہ بہت مشکل تھا، اس لیے میں نے حکمت کو نبوت پر ترجیح دی ہے۔ جب ایسے تائیدی جملے ملتے ہیں تو بندے کو بے حد خوشی ہوتی ہے۔
حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں:
لقمان علیہ السلام اللہ کے ولی تھے۔ آپ نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں فرمائی ہیں وہ سن لیں:
نمبر 1:
﴿یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللہِ﴾
کہ بیٹا! شرک نہیں کرنا شرک بہت بڑا گناہ ہے۔ اس نصیحت کا تعلق عقیدے سے ہے۔
نمبر 2:
﴿یٰبُنَیَّ اِنَّہَاۤ اِنۡ تَکُ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَکُنۡ فِیۡ صَخۡرَۃٍ اَوۡ فِی السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِی الۡاَرۡضِ یَاۡتِ بِہَا اللہُ﴾
اے میری بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو، کسی چٹان میں چھپی ہو، آسمانوں میں ہو یا زمین میں کسی جگہ ہو تو اللہ کی ذات ایسی ہے کہ اسے حاضر کر دے گی۔ اس لیے اللہ کے علم کا قائل ہوجانا کہ کوئی چیز بھی اللہ کے علم سے مخفی نہیں ہے۔ اس نصیحت کا تعلق بھی عقیدے سے ہے۔
نمبر 3:
﴿یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ﴾
بیٹا! نماز کی پابندی کرنا۔ اس کا تعلق اصلاحِ عمل سے ہے۔
نمبر 4:
﴿وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ﴾
بیٹے! نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ اس کا تعلق اصلاحِ خلق سے ہے۔
نمبر 5:
﴿وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ﴾
سے آخر تک جو نصیحتیں ہیں ان کا تعلق آدابِ معاشرت سے ہے۔ اور یہ کل چار نصیحتیں ہیں:
پہلی:․․․
﴿وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ﴾
لوگوں کےساتھ ترش روئی کے ساتھ پیش نہ آنا!
دوسری:․․․
﴿وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا﴾
زمین میں اکڑ کر نہ چلنا۔
تیسری:․․․
﴿وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ﴾
میانہ روی کے ساتھ چلنا۔
چوتھی:․․․
﴿وَ اغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِکَ﴾
اپنی آواز کو پست رکھنا۔ پست کا معنی کہ اتنی آہستہ آواز بھی نہ ہو کہ لوگ سن نہ سکیں اور بہت اونچی بھی نہ ہو بلکہ درمیانی آواز ہو۔ بلند آواز اس لیے نہ ہو کہ
﴿اِنَّ اَنۡکَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِیۡرِ﴾
سب سے ناپسندیدہ آواز گدھے کی آواز ہے۔ اس لیے چیخ چلا کر بولنا یہ مناسب نہیں ہے۔
اللہ تعالی کے کلمات لا متناہی ہیں:
﴿وَ لَوۡ اَنَّ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ شَجَرَۃٍ اَقۡلَامٌ وَّ الۡبَحۡرُ یَمُدُّہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ سَبۡعَۃُ اَبۡحُرٍ مَّا نَفِدَتۡ کَلِمٰتُ اللہِ﴾
زمین میں جتنے درخت ہیں ان کی قلمیں بن جائیں اور جو سمندر ہے اس کے ساتھ سات سمندر اور بھی مل جائیں اور اللہ کے کلمات لکھنا شروع کر دیں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔
زمین میں جتنے درخت ہیں ان کی قلمیں بنا دی جائیں کا معنی یہ نہیں ہے کہ ایک درخت کی ایک قلم ہو بلکہ معنی یہ ہے کہ اس کی شاخوں کی قلمیں بنائی جائیں اور سات سمندروں کو سیاہی بنایا جائے اور پھر کوئی بندہ اللہ کی صفات لکھنا چاہے تو بھی اس کے اختیار اور بس میں نہیں ہے۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے علماء کے ایک سوال کے جواب میں نازل ہوئی۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۸۵﴾﴾
الاسراء 17: 85
کہ تمہیں بہت تھوڑا علم ملاہے۔ علمائے یہود نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس آیت کا مصداق آپ کی قوم ہے یا ہم بھی ہیں؟ فرمایا کہ سب اس کا مصداق ہیں۔ یہودی علماء نے کہا کہ ہم اس کا مصداق نہیں ہو سکتے، کیونکہ
"أَنَّا أُوْتِيْنَا التَّوْرَاةَ ، وَفِيْهَا تِبْيَانُ كُلِّ شَيْءٍ"
ہمارے پاس تورات ہے اور تورات میں ہر چیز ہے، تو ہمارے پاس بہت زیادہ علم ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پہلی بات یہ ہے کہ خود تورات تھوڑا سا علم ہے سارانہیں ہے اور پھر تورات کا بھی تمہارے پاس سارا علم نہیں بلکہ بہت تھوڑا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی
﴿وَ لَوۡ اَنَّ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ شَجَرَۃٍ اَقۡلَامٌ وَّ الۡبَحۡرُ یَمُدُّہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ سَبۡعَۃُ اَبۡحُرٍ مَّا نَفِدَتۡ کَلِمٰتُ اللہِ﴾
کہ اللہ کی صفات کوئی شخص لکھنا چاہے تو سات سمندر بھی نہیں لکھ سکتے تو تمہارے پاس اس کے مقابلے میں کیا علم ہے؟! بہت تھوڑاساعلم ہے! اس لیے اس پر تمہیں اکڑنا نہیں چاہیے۔
تفسیر ابن کثیر: ج 4ص 178
والد اپنی اولاد کے کام آئے گا یا نہیں؟ (تعارض کا حل)
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ وَ اخۡشَوۡا یَوۡمًا لَّا یَجۡزِیۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِہٖ ۫ وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ ہُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِہٖ شَیۡئًا﴾
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرتے رہو اور اس دن سے ڈرو جس دن باپ اپنی اولاد کے کام نہیں آئے گا اور نہ اولاد اپنے باپ کے کام آئے گی۔ مراد اس سے قیامت کا دن ہے ۔ اللہ کاو عدہ سچاہے یہ ہوکر رہے گا۔
یہاں بظاہر اشتباہ یہ پیدا ہو رہا ہے کہ سورۃ الطور میں ہے :
﴿وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ مَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ﴾
الطور26: 21
کہ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد ان کے نقش قدم پر چلی ایمان کے ساتھ یعنی اولاد بھی مؤمن ہوئی تو ہم ان کی اولادکو ان کی وجہ سے ان کے مقامات کے ساتھ ملا دیں گے اور ہم والدین کے اعمال میں کمی بھی نہیں کریں گے۔
توسورۃ الطور سے معلوم ہوتاہے کہ والد بھی مؤمن ہو اور اولاد بھی مؤمن ہو تو اللہ اولاد کو والدین کے اونچے مقام تک پہنچادیں گے۔ تو والد تو کا م آئے گا۔
اسی طرح سورۃ الرعد میں ہے:
﴿جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ﴾
الرعد13: 23
ہمیشہ رہنے والے باغات میں یہ لوگ خود بھی داخل ہوں گے اور جو ان کے نیک آباء واجداد ہیں وہ بھی ان میں آئیں گے اور جو بیویاں نیک ہیں وہ بھی آ جائیں گی اور جو نیک اولادیں ہیں وہ بھی آئیں گی۔ نیکی کی وجہ سے ان کو بھی یہ محل ملیں گے۔ تو اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے دن یہ رشتے کام آئیں گے۔
جبکہ یہاں سورۃ لقمٰن کی اس آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ والد کام نہیں آئے گا۔
اب یہاں جواب سمجھیں! قرآن کریم میں یہاں جو ہے کہ باپ بیٹے کے کام نہیں آئے گا اس سے مراد کافر ہے کہ اگر بیٹا کافر ہو تو باپ اس کے کا م نہیں آئے گا، باپ کافر ہو تو بیٹا اس کے کام نہیں آئے گا اور اگر کا فرنہ ہو بلکہ مؤمن ہو تو پھر ایک دوسرے کے کام آئیں گے۔ لہذا ان ساری آیتوں میں تعارض نہیں ہے۔
ادنیٰ کی نفی سے اعلیٰ کی نفی:
یہاں
﴿وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ ہُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِہٖ شَیۡئًا﴾
پر دوسری بات سمجھیں کہ ”ولد“ اور ”مولود“ میں کیا فرق ہے؟ مولود کہتے ہیں براہ راست بیٹےکو اور ولد بیٹے کو بھی کہتےہیں اور بیٹے کے بیٹے یعنی پوتے کو بھی کہتے ہیں، اسی طرح اس کے بیٹے یعنی پڑپوتے کو بھی کہتے ہیں۔ تو یہاں اللہ نے
﴿وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ ہُوَ جَازٍ﴾
فرمایا ہے،
”وَ لَا وَلَدَ هُوَ جَازٍ“
نہیں فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی بیٹا جس کو باپ سے گہرا تعلق ہے جب یہ باپ کے کام نہیں آئے گا تو پوتا اور پڑپوتا جن کا باپ سے تعلق کم ہوتا ہے وہ توبدرجہ اولیٰ اس کےکام نہیں آئیں گے۔ تو
﴿وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ﴾
کہہ کر
”ولد“
کی نفی کر دی ہے۔ اگر ولد کی نفی کرتے تو مولود کی نفی سمجھ میں نہیں آنی تھی کیونکہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ پوتا قیامت کے دن دادا کے کام نہیں آئے گا ہو سکتا ہے کہ بیٹا کام آ جائے، اسی طرح پڑپوتا کام نہ آئے تو ممکن ہے کہ بیٹا کام آ جائے۔ تو بیٹے کی نفی کرنے سے پوتے اور پڑپوتے کی نفی خود بخود سمجھ میں آ جاتی ہے۔
میں نے کہا تھا کہ میں ایک اصول پر چلتا ہوں اور میں یہ اصول اکثر بیان کرتا ہوں اور آج جب میں نے اس آیت کی تفسیر دیکھی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے کئی بار کہا تھا اعلیٰ کی نفی سے ادنیٰ کی نفی نہیں ہوتی اور ادنیٰ کی نفی سے اعلیٰ کی نفی ہوجاتی ہے۔ ایک حکم ادنیٰ کے لیے ثابت ہو تو وہ اعلیٰ کے لیے بطریق اولی ٰ ثابت ہوگا اور اگر اعلیٰ کے لیے حکم ثابت ہو تو وہ ادنیٰ کے لیے ثابت نہیں ہو گا۔ قرآن کریم نے پیغمبر کی حیات کی بات صراحتاً نہیں فرمائی بلکہ شہید کی حیات کی بات کی ہے، کیونکہ اگر نبی کی حیات بتاتے تو شہید کی حیات سمجھ میں نہیں آنی تھی، شہید کی حیات بتائی ہے تو پیغمبر کی حیات سمجھ میں آئی ہے۔
پانچ چیزوں کا علم:
﴿اِنَّ اللہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ ۚ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ؕ اِنَّ اللہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ﴿٪۳۴﴾﴾
یہ جو پانچ چیزیں ہیں ان پانچ چیزوں کے علم کو ”مفاتح الغیب“ کہتے ہیں۔ یہ غیب کی پانچ کنجیا ں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہی پانچ کو ذکر کیوں کیا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ ان پانچ چیزوں کے بارے میں ہی بات کرتےہیں، نجومیوں سے انہی کے بارے میں پوچھتے ہیں،اندازے انہی کے بارے میں لگاتے ہیں تو اس لیے اللہ نے انہی پانچ کو ذکر فرمایا۔ وہ پانچ چیزیں کون سی ہیں؟
1: قیامت کا علم اللہ کے پاس ہے۔
2: بارش کب ہو گی؟ اس کا علم بھی اللہ کے پاس ہے۔
3: ماداؤں کے پیٹ میں کیاہے؟ اس کا علم بھی اللہ کے پاس ہے۔
4: انسان کیاکمائے گا؟ اس کا علم بھی اللہ کے پاس ہے۔
5: انسان کہاں مرے گا؟ اس کا علم بھی اللہ کے پاس ہے۔
تبدیلی اسلوب سے معانی پر اثر:
اب ذرا دیکھیں کہ
﴿اِنَّ اللہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ ۚ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ﴾
ان تینوں کو الگ الگ انداز میں بیان کیا ہے۔
﴿اِنَّ اللہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ﴾
یہ جملہ اسمیہ لائے ہیں،
﴿وَ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ﴾
یہ جملہ فعلیہ لائے ہیں اور
﴿وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ﴾
یہ بھی جملہ فعلیہ ہے۔ تو پہلا جملہ اسمیہ اور باقی دو جملے فعلیہ ہیں۔ جملہ اسمیہ کیوں لائے! اس لیے کہ قیامت کا دن متعین ہے، قیامت بار بار نہیں آنی، اس میں تجدد نہیں ہے اور بارش بار بار ہونی ہے اور ماں کے پیٹ میں اولاد نے بار بار پیدا ہونا ہے، بارش میں اور ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے میں تجدد ہے اس لیے یہاں جملہ فعلیہ لائے اور جملہ فعلیہ میں تجدد ہوتا ہے۔
اچھا پھر دیکھیں کہ
﴿اِنَّ اللہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ﴾
میں علم کی بات کی ہے،
﴿وَ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ﴾
میں علم کی بات نہیں کی بلکہ فرمایا کہ اللہ بارش برساتے ہیں۔ اس پر سوال یہ ہے کہ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ اللہ بارش برساتا ہے بلکہ وہ تو سب جانتے ہیں اللہ برساتا ہے، مسئلہ یہ تھا کہ بارش کب ہوگی اس کاعلم کسی کے پاس ہے یا نہیں؟ تو جو مسئلہ زیرِ بحث تھا وہ ذکر نہیں کیا اور جو زیر بحث نہیں تھا وہ ذکر کر دیا۔ جواب یہ ہے کہ اللہ نے یہ طرز اختیار کیا یہ بات سمجھانے کے لیے کہ ایک ہے بارش کا برسانا اور ایک ہے بارش کا علم، تو جس نے برسانا ہے علم اسی کے پاس ہو گا جس نے برسانا نہیں ہے اس کے پاس علم کہاں سے ہو گا؟! آگے فرمایا:
﴿وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ﴾
یہاں پر پھر علم کی بات کی ہے کہ اللہ پاک جانتے ہیں جو کچھ رحم میں ہے۔ اب بظاہر اس پر آج کے دور میں اشکال ہوتا ہے کہ عورت کے پیٹ میں بچہ ہوتاہے تو الٹرا ساؤنڈ کے ذریعہ پتا چل جاتا ہے کہ بیٹا ہے یا بیٹی؟ ہم کہتے ہیں کہ اس کا تعلق صرف بچے کے جسم بننے کے ساتھ نہیں ہے بلکہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں بطور نطفہ آیا تھا اس کو بھی
﴿مَا فِی الۡاَرۡحَامِ﴾
کہتے ہیں اور وہ کیا ہو گا؟ یہ اللہ ہی جانتاہے اس کو کوئی الٹرا ساؤنڈ مشین نہیں بتا سکتی۔
﴿وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا﴾
دیکھیں! پہلےتین جملوں میں اللہ کے علم کا دعویٰ کیا ہے بقیہ کے علم کی نفی نہیں کی اور آخری دو میں بقیہ کے علم کی نفی بھی کر دی ہے،
﴿وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا﴾
یہ کل کیا کمائے گا اس کو کچھ پتا نہیں ہے،
﴿وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ﴾
کہاں مرے گا اس کو کچھ پتا نہیں۔ تو پہلے تین میں بقیہ کے علم کی نفی نہیں کی اور آخری دو میں بقیہ کے علم کی نفی کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کل کیا کماناہے اس کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے، انسان نے کہاں مرناہے اس کا تعلق انسان کی اپنی ذات کےساتھ ہے اور پہلی تین چیزیں کہ قیامت کب آنی ہے؟ اس کا تعلق کسی ذات کے ساتھ نہیں ہے، بارش کب برسنی ہے؟ اس کا تعلق انسان کی ذات کے ساتھ نہیں ہے، کسی عورت کے پیٹ میں کیا ہے؟ اس کا تعلق انسان کی ذات سے نہیں۔ اللہ پاک بات سمجھا رہے ہیں کہ وہ دو چیزِیں جس کا تعلق انسان کی ذات سے ہے جب انسان ان کو نہیں جانتا تو جن چیزوں کا تعلق اس کی ذات سے نہ ہو ان کو کیسے جانتا ہو گا؟
میں نے عرض کیا نا کہ وہ جو میں اصول بیان کرتا ہوں مجھے آج دومثالیں تفسیر میں اور ملی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان دو کی نفی کرنے سے پہلی تین کی نفی خود ہی ہوگئی کیونکہ یہ ادنیٰ ہیں اور پہلی تین اعلیٰ ہیں۔ ادنیٰ کی نفی سے اعلیٰ کی نفی خود بخود ہو جاتی ہے۔ جب انسان اپنی ذات کے متعلق بات نہیں جانتا تو قیامت کو کیسے جانے گا؟ اپنی ذات کے متعلق نہیں جانتا کہ کل کیا کمائے گا تو بارش کو کیسے جانے گا؟ اپنی ذات کے متعلق یہ نہیں جانتا کہ کس جگہ پر مرنا ہے تو کسی اور کے بارے میں کیا جانے گا؟
اچھا یہاں ایک بات اور سمجھیں! ایک ہےمکانِ موت اور ایک ہے زمانِ موت۔ یہاں مکانِ موت کی نفی کی ہے زمانِ موت کی نفی نہیں کی۔ انسان کہاں مرے گا اس کو نہیں پتا یہ مکانِ موت کی نفی ہے اور کس وقت مرے گا اس کا یہاں کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکانِ موت کا آدمی کو کچھ نہ کچھ اندازہ ہوتا ہے لیکن زمانِ موت کا آدمی کو اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک آدمی نے مکان بنایا ہے کہ اب بوڑھا ہو گیا ہوں، بچے اپنے اپنے کام میں لگ گئے ہیں، بس اچھا سا مکان بنا لیا ہے تاکہ راحت کے ساتھ زندگی گزاریں۔ اب اس آدمی نے کیا سوچنا ہے کہ میں نے کہاں مرنا ہے؟ نہیں کیونکہ اس کو کچھ اندازہ ہے کہ اسی مکان میں مروں گا تو مکانِ موت کا بندے کو کچھ نہ کچھ اندازہ ہوتاہے لیکن کب مرنا ہے! اس کا ذرا بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ جب انسان کو مکانِ موت کا پتا نہیں تو زمانِ موت کا کیسے پتا چلے گا؟ زمانِ موت کی نفی کر دیتے تو مکانِ موت کی نفی نہیں ہونی تھی اور مکانِ موت کے علم کی نفی سے زمانِ موت کے علم کی نفی خود بخود ہو جاتی ہے۔
علمِ غیب کی تعریف اور اشکالات کے جوابات:
یہاں ایک اشکال اور اس کا جواب سمجھیں۔ اشکال یہ ہے کہ یہاں فرمایا کہ ان پانچ چیزوں کا علم اللہ کے پاس ہے، اس سے تو معلوم ہوا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے پاس ان کا علم نہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر معجزۃً بتا دیتے ہیں تو ان میں سے بعض چیزوں کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی ہوتا ہے،کبھی ان کا علم بذریعہ الہام ولی کے پاس بھی ہوتا ہے اور بسا اوقات ایک بات نجومی کہتا ہے اور کبھی اس کی بات ٹھیک ہوتی ہے اور کبھی وہ غلط ہوتی ہے اور بارش کے بارے میں ماہرین موسمیات بتا دیتے ہیں کہ فلان دن بارش ہو گی اور وہ اسی وقت ہوتی بھی ہے۔ اس سے تو پتا چلا کہ اللہ کے علاوہ ان کے پاس بھی بعض چیزوں کا علم ہوتا ہے۔
یہ اشکالات تب ہو تے ہیں کہ جب بندے کو علمِ غیب کی تعریف اور مفہوم کا پتا نہ ہو، جب علم غیب کا معنی سمجھ میں آ جائے تو پھر کبھی بھی اشکالات نہیں ہو ں گے۔ علم الغیب کی تعریف کیا ہے:
فَإِنَّ الْغَيْبَ الْمُطْلَقَ فِي الْإِطْلَاقَاتِ الشَّرْعِيَّةِ مَا لَمْ يَقُمْ عَلَيْهِ دَلِيْلٌ وَّ لَا إِلٰى دَرْکِهٖ وَ سِيْلَةٌ وَّ سَبِيْلٌ ․
المہند علی المفند:ص88
اصطلا حِ شریعت میں غیب اسے کہتے ہیں کہ جس پر کوئی دلیل بھی نہ ہو اور جس تک پہنچنے کا کوئی واسطہ اور وسیلہ بھی نہ ہو۔جس تک آپ پہنچے ہیں وہ غیب رہا ہی نہیں، اس لیے علم الغیب الگ ہوتا ہے اور انباء الغیب الگ ہوتا ہے۔ علم الغیب اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہوتا، عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے اور انباء الغیب؛ اللہ نبیوں کو بذریعہ وحی دیتے ہیں اور ولیوں کو بذریعہ الہام دیتے ہیں اور بسا اوقات کل ہو نے والی چیز کو بذریعہ اوزار وآلات کے ماہرین موسمیات معلوم کر لیتے ہیں تو اسے علم الغیب نہیں کہتے ہیں، علم نام ہے
یقینیات
کا اور آلات کے ذریعہ جو معلوم ہو وہ ظنیات ہیں اور ظنی چیز کو علم کبھی نہیں کہتے۔ اس لیے یہ چیزیں ایک تو علم نہیں ہیں اور اگر علم ہوں بھی تو علم الغیب نہیں ہے کیونکہ غیب وہ ہے جس پر کوئی دلیل اور پہنچنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔ بلا واسطہ علم ہی علم الغیب ہوتا ہے اور نبی کے پاس علم بلاواسطہ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے ہوتا ہے، اظہار غیب الگ ہے اور اطلاع علی الغیب الگ ہے اور انباء الغیب الگ ہے اور علم الغیب الگ ہے۔ پورے قرآن کریم اور تمام احادیث میں اللہ کی ذات کے علاوہ عالم الغیب اور علم الغیب کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا! یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں۔
احکام غیبیہ اور اَکْوان غیبیہ میں فرق:
اور دوسری بات یہ سمجھ لیں جو غیب سے متعلقہ چیزیں ہیں وہ دوقسم کی ہیں :
نمبر1: احکام غیبیہ
نمبر 2: اَکْوان غیبیہ
احکام غیبیہ سے مراد وہ علوم ہیں جن کا تعلق احکامِ شریعت کے ساتھ ہو جس میں عقائد، مسائل، اخلاق سب شامل ہیں اور اَکْوان غیبیہ سے مراد آنے والے حالات کی خبریں ہیں احوال، اخبار وغیرہ۔ جہاں تک تعلق ہے احکام غیبیہ کا وہ تو اللہ اپنے پیغمبر کو دیتے ہیں چونکہ پیغمبر کا منصب ہے کہ اس نے شریعت بتانی ہے اور اکوان غیبیہ کا تعلق نبی اور ولی کے ساتھ نہیں ہے، یہ خاصۂ خداوندی ہے، اللہ جس قدر جتنے حالات بتانا چاہیں بتا دیتے ہیں اور نہ بتانا چاہیں تو نہیں بتاتے۔ اس لیے کلی طور پر اگر احکام غیبیہ یہ کسی نبی کو مل جائیں تو ممکن ہے لیکن اکوا ن غیبیہ اللہ نہ کسی نبی کو دیتے ہیں اور نہ کسی ولی کو دیتے ہیں۔ اگر
﴿وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ﴾
النساء3: 113
کا معنی کوئی یہ کرے کہ نبی کو سارے احکام غیبیہ ملے ہیں تب بھی نبی عالم الغیب نہیں ہوتا کیونکہ اکوان غیبیہ تواب بھی اللہ کے پاس ہیں تو آپ نبی کو عالم الغیب کیسے کہیں گے؟ اس لیے کوئی نبی عالم الغیب نہیں ہوتا بلکہ عالم الغیب اللہ کی ذات ہے جس کے پاس احکام غیبیہ بھی ہیں اور اکوان غیبیہ بھی ہیں۔اللہ ہم سب کو صحیح عقائد و نظریات پر کاربند فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․