سورۃ السجدۃ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ السجدۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ؕ﴿۲﴾ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ۚ بَلۡ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ لَعَلَّہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۳﴾﴾
نماز کی تلاوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ وقت جماعت کا خود اہتمام فرماتے اور یہ سنت ہے۔ کسی ادارے کا سربراہ ہو، کسی جماعت کا سربراہ ہو تو اس کو نماز کی امامت خود کرنی چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک اور سنت طریقہ یہی ہے۔ پھر کون سی نماز میں کون سی تلاوت کرے یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ عام طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ آپ فجر اور ظہر کی نماز میں سورۃ الحجرات سے لے کر سورۃ البروج تک کی سورتوں میں سے کوئی دو سورتیں،عصر اور عشاء کی نماز میں سورۃ الطارق سے لے کر سورۃ البینہ تک کی سورتوں میں سے کوئی دو اور مغرب میں سورۃ الزلزال سے لے کر سورۃ الناس تک کوئی دو سورتیں تلاوت فرماتے تھے۔ سورۃ الحجرات سے لے کر سورۃ البروج تک کی سورتوں کو طِوال مفصَّل کہتے ہیں اور سورۃ الطارق سے سورۃ البینہ تک اوساط مفصَّل اور سورۃ الزلزال سے سورۃ الناس تک کی سورتوں کو قِصار مفصَّل کہتے ہیں۔کئی مرتبہ اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے مثلاً مغرب کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت المرسلات پڑھی ہےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفجر کی نماز پڑھائی تو دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت
﴿اِذَا زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ زِلۡزَالَہَا﴾
پڑھی۔ تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ اپنے مقتدیوں میں بعض کی رعایت فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مختصر فرما دیتے جس طرح فجر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا رہے تھے تو بچے کے رونے کی آواز آئی۔ بعض صحابیات نماز میں شریک تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازمیں تلاوت مختصر فرما دی۔ پہلی رکعت میں
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ﴾
اور دوسری میں
﴿قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾
کی تلاوت فرما دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ بچہ رو رہا تھا اور عورت کی توجہ اس طرف تھی اس لیے میں نے نماز کو مختصر کردیا۔
جمعہ کے دن فجر کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ السجدۃ اور دوسری رکعت میں سورۃ الدھر کا پڑھنا سنت ہے۔ اس کا آپ لوگ بھی اہتمام فرمائیں! مدرسے میں ماحول ہوتا ہے لیکن عام مساجد میں اس کا ماحول نہیں ہوتا۔ اس لیے عام مساجد میں پھر ترغیب دو کہ جمعہ کے دن فجر میں یہ دونوں سورتیں پڑھنا سنت ہے، پھر ایک دوبار اس کی تلاوت کر لیں تو لوگوں کو بات سمجھ آ جائے گی۔
استاذ یا شیخ آئے تو امامت اس سے کروائیں!
آپ کبھی کسی علاقے میں امام مقرر ہوں اور آپ کی مسجد میں کوئی استاذ یا کوئی بڑا آ جائے تو کوشش کریں کہ جماعت وہ کرائے اور اپنے مقتدیوں کو مسئلہ سمجھائیں کہ جب امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم ہوں تو امام دو رکعات کےبعد سلام پھیر دے گا اور مقتدی اپنی بقیہ نماز کھڑے ہو کر پوری کریں گے اور ان دو رکعات میں نہ تو سورۃ فاتحہ پڑھنی ہے اور نہ ہی کوئی دوسری سورۃ، یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے امام کے پیچھے ہی کھڑے ہیں، اس کو ”لاحق “ کہتے ہیں۔ مقتدی کی تین قسمیں ہوتی ہیں؛ مُدْرِک، مسبوق اور لاحق۔ اس طرح مسئلہ سمجھائیں گے تو کبھی کوئی الجھن نہیں ہو گی، اگر مسئلہ سمجھائے بغیر کسی کو مصلے پر کھڑاکریں گےتو لوگ اعتراض کریں گے اور پھر اپنے مقتدیوں کو یہ سمجھائیں کہ بھائی! ہماری خوش قسمتی ہے، ہماری نیک بختی ہے کہ آج ہماری مسجد میں ہمارے بڑے تشریف لائے ہیں اس لیے آج نماز وہ پڑھائیں گے۔ پھر جب آپ کےوہ استاذ یاشیخ چلے جائیں تو جانے کے بعد اگلے دن یہ بات پھر سمجھائیں، اس کا ماحول بنائیں کہ کل ہمارے استاد ہمارے پاس آئے تھے، ان کا احسان ہے کہ ہمارے پاس آئے ہیں، بڑا کرم فرمایا، بڑی شفقت فرمائی، ہمیں چاہیے تھا کہ ہم ان کے پاس جاتے ہم نہیں جا سکے تو وہ خود آ گئے۔ آپ ایسی باتیں کریں گے تو آپ کے مقتدیوں کے ذہن بن جائیں گے اور آئندہ آپ کی مسجد میں کوئی بڑا آدمی آئے گا اور آپ اس کو مصلے پر کھڑا کریں گے تو کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ ہمارے ہاں چونکہ ماحول نہیں بنا ہوتا اس لیے ہم چاہتے بھی ہوں کہ اپنے بڑے کو مصلے پر کھڑا کریں لیکن پھر بھی کھڑا نہیں کر سکتے۔
متکلم اسلام کا واقعہ امامتِ سفر:
یہ کافی پرانی بات ہے، اس وقت سرگودھا شہر میں بھی میری کوئی زیادہ شہرت نہیں تھی۔ میں ایک بار گھر والوں کے ساتھ میانوالی گیا، واپس سرگودھا شہر میں ایک جگہ رکا کسی کو ملنے کے لیے، نماز ظہر کا وقت تھا تو نماز پڑھنے کے لیے محلہ کی مسجد میں چلا گیا۔ مجھے خیال نہ رہا کہ میں مسافر ہوں، چونکہ شہر میں تھا اس لیے میں نے سمجھا کہ مقیم ہوں۔ اس مسجد کے امام صاحب میرے جاننے والے تھے اور انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ یہ یہیں 87 جنوبی ہی سے آئے ہیں یہ کون سا مسافر ہیں! انہوں نے مجھے مصلے پر کھڑا کر دیا۔
جب میں نے نماز پڑھانی شروع کر دی تو پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو مسافر ہوں۔ اب جب دو رکعات پوری کیں تو میں نے سوچا کہ یا تو میں چار رکعات پوری کروں تاکہ ان کی گالیوں سے بچ جاؤں اور قیامت کے دن عذاب بھگتوں اور یا دو رکعات کے بعد سلام پھیر دو ں اور قیامت کو اجر ملے اور ابھی آفت اپنے سر لے لوں، تو میں نے اسی کو ترجیح دی کہ دنیا میں ان مقتدیوں کی طرف سے اذیت برداشت کروں اور آخرت کی ذلت سے بچوں۔ ظہر کے دو رکعات کے بعد میں نے سلام پھیرا اور جوں ہی میں نے سلام پھیرا تو لوگوں نے بھی سلام پھیر دیا اور لوگ لعن طعن کرنا شروع ہوگئے۔
اب مسئلہ بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں تھا، دو چار مقتدیوں کو پتا تھا تو انہوں نے کھڑے ہو کر باقی نماز پوری کی اور باقی سب نے سلام پھیر دیا اور شروع ہو گئے، امام صاحب پر بھی برسے اور مجھ پر بھی برسے، وہ بولتے رہے اور میں خاموش چپ چاپ سنتا رہا، جتنی ان کے پاس باتیں تھیں جب وہ ختم ہو گئیں تو پھر میں نے بولنا شروع کیا۔ایسے موقع پر بولنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے صبر سے کام لو، ان کو اندر کا ابال باہر نکالنے دو۔جب وہ لوگ خاموش ہو گئے تو میں نے کہا کہ اب میری بات سنیں! میراگاؤں 87 چک ہے، میں وہاں سے میانوالی گیا تھا اور میانوالی سے واپسی پر یہاں رکا ہوں تو میں مسافر ہوں، آپ کے امام صاحب کا خیال یہ تھا کہ مولانا صاحب 87 چک سے آئے ہیں چونکہ میں تو ان سے ملنے کے لیے نہیں آیا تھا میں تو اس محلے کے فلاں بندے کو ملنے کے لیے آیا ہوں، نما ز کے لیے آیا تو انہوں نے مصلے پر کھڑا کر دیا ان کو تو پتا نہیں ہے کہ میں مسافر ہوں یانہیں ہوں اور آپ ان کو ڈانٹ رہے ہیں۔
اور میں چونکہ سرگودھا شہر میں ہوں اور عام طور پر شہر میں کسی کے ذہن میں نہیں ہوتا کہ میں مسافر ہوں تو میرے خیال میں بھی نہیں تھا کہ میں مسافر ہوں۔ تو میں بھی اپنے آپ کو مقیم سمجھ کر کھڑا ہو گیا، میں بھول گیا، بھولنے پر تو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے لیکن آپ لوگ معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور دوسری بات میں نے یہ کہی کہ یہ مسئلہ ہے کہ جب امام مقیم ہو تو چار رکعات پڑھائے اور امام مسافر ہو تو چار رکعات والی نماز میں دو کے بعد سلام پھیر دے اور مقتدی اپنی باقی دو رکعات ایسے پڑھیں! مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آپ جھگڑتے کیوں ہیں، پریشان کیوں ہیں؟ امام مقیم ہو نماز آپ کی پھر بھی ہوتی ہے، امام مسافر ہو نماز آپ کی پھر بھی ہوتی ہے، مجھے افسوس اس وجہ سے ہے کہ تم اتنے جاہل لوگ ہو تمہاری ڈاڑھیاں سفید ہو گئیں اور تمہیں مسئلے کا پتا نہیں ہے اور تم کوستے ہو مولانا صاحب کو! جرم تمہارا ہے اور ڈانٹتے ہمیں ہو۔
پھر میں نے بھر پور طریقے سے ان کی کلاس لی تو کہنے لگےکہ جی غلطی ہو گئی ہے، معذرت معذرت! میں اس لیے کہتا ہوں کہ ایسے کبھی ہوتا ہے لیکن بولنے میں جلدی نہ کرو، پہلے ان کو اپنا ابال نکالنے دو پھر اس کے بعد مسئلہ بیان کرو! جب ان کو احساس ہو کہ ہم غلطی پر ہیں پھر ان کو ڈانٹ پلاؤ! اس کےبعد ان کو احساس ہوتاہے کہ ہم نے جرم کیا ہے۔
نمازوں میں مسنون قرأت کا اہتمام کیا کریں لیکن اگلی بات میں بارہا کہتا ہوں کہ آپ نے مسئلہ پڑھ لیا اور مسئلہ آپ کو یاد ہو گیا لیکن جس مسجد میں آپ نماز پڑھتے ہیں اس مسجد کا امام اس طرز پر تلاوت نہیں کرتا جومیں نے بتائی ہے تو اس کے بارے میں دل میں نفرت کے خیالات ہرگز نہ لائیں کہ اس کو مسئلے کا پتا نہیں، یہ مسنون قرأت نہیں کر رہا کیونکہ یہ اس سے بھی بڑا گناہ ہے، اس لیے بہت جلد کسی کے بارے میں ایسا ذہن نہ بنایا کریں! اس سے نفرت کی فضا پھیلتی ہے،اس کو نقصان کچھ نہیں ہوتا اور بندہ اپنی آخرت تباہ کر بیٹھتا ہے۔
استواء علی العرش متَشابہات میں سے ہے:
﴿اَللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ﴾
اللہ رب العزت نےآسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیداکیا۔ چھ دنوں سے مراد چھ دنوں کی مقدار ہے کیونکہ اس وقت تو دن رات ہوتے ہی نہیں تھے۔
﴿ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ﴾
پھر اللہ عرش پر مستوی ہوئے۔ یہ
متشابہات
میں سےہے اور استواء علی العرش کا معنی ہم نہیں جانتے بلکہ اس کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ اس پر میں پہلے تفصیل سے بات کر چکا ہوں۔
قیامت کے دن کی مقدار؛ تعارض کا حل
﴿یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ ﴿۵﴾﴾
اللہ رب العزت آسمان سے لے کر زمین تک جتنے معاملات ہیں ان سب کی تدبیر اور انتظام خود فرماتے ہیں اور پھر ہر امر؛ اللہ کی طرف لوٹتا ہے ایک ایسے دن میں جو تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے یعنی قیامت کےدن۔
بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے کہ دوسرےمقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ﴿۴﴾﴾
النساء3: 113
کہ وہاں کا ایک دن دنیا کے پچاس ہزار سال کے برابر ہوتا ہے اور اس سورت میں فرمایا کہ وہاں کا ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے لیکن اس میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ یہ فرق مختلف اشخاص کی مختلف کیفیات کے اعتبار سے ہے۔ بعض بندوں کو وہاں کاایک دن ایک ہزار سال کے برابر لگے گا اور بعضوں کو وہاں کا ایک دن دنیا کے پچاس ہزار سال کے برابر لگے گا اور صحیح اور راجح بات یہ ہےکہ نہ ہمیں ایک ہزار سال کے برابر ہونے کی کیفیت کا پتا ہے اور نہ ہمیں پچاس ہزار سال کے برابر ہونے کی کیفیت کا پتا ہے، ہم اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی ایمان لاتے ہیں، اس کا حقیقی معنی قیامت کے دن خود بخود معلوم ہو جائے گا۔ دنیا میں اس طرح ہوتا ہے کہ مثلاً ایک شخص صحت مند ہو، خوراک اس کی اچھی ہو، راحت کے اسباب موجود ہوں، عشاء پڑھ کر سوتا ہے اور جب فجر ہوتی ہے تو اس کو پتا نہیں چلتا یوں لگتا ہے کہ جیسے ابھی سویا تھا اور ایک شخص تکلیف میں ہو، اس کو رات کو نیند نہ آتی ہو تو اس کو ایک رات یوں لگتی ہے کہ جیسے مہینا گزر گیا ہو۔ ایک وقت ایک شخص کے لیے لمبا ہو جاتا ہے اور وہی وقت دوسرے کے لیے بہت چھوٹا ہو جاتا ہے، دنیامیں ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
منکرین حیات الانبیاء کے ایک شبہ کا جواب:
یہ بات سمجھ آ جائے تو اس سے ایک اور عقیدہ سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام ایک بستی سےگزرے،
﴿اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا﴾
البقرۃ2: 259
وہ بستی تباہ شدہ تھی تو انہوں نے کہا کہ اللہ رب العزت اس کو کیسے زندہ کریں گے؟
﴿فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ﴾
اللہ نے انہیں سو سالوں کے لیے موت دے دی پھر ان کو زندہ کیا۔ پھر پوچھا
﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾
آپ کتنا ٹھہرے ہیں ؟ عرض کیا:
﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
کہ میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ فرمایا:
﴿بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَۃَ عَامٍ﴾
کہ آپ سو سال تک ٹھہرے ہیں۔
اب اس سے وہ لوگ دلیل پکڑتےہیں جو قبور میں انبیاء علیہم السلام کے اجساد کی حیات کی نفی اور انکارکرتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ دیکھو! اللہ نے پوچھا کہ کتنا ٹھہرے ہو؟ انہوں نے کہا: دن یا دن کا بعض حصہ۔ اللہ رب العزت نےفرمایا کہ نہیں بلکہ تم سو سال ٹھہرے ہو! اگر حضرت عزیر زندہ ہوتے تو ان کو پتا چل جاتا کہ میں کتنا عرصہ ٹھہرا ہوں، ان کو پتا نہیں چلا۔ لہذا معلوم ہوا کہ وہ زندہ نہیں ہیں۔ یعنی منکرین حیات نے ان کے عدمِ علم کو عدمِ حیات پر دلیل بنا دیا۔
پہلی بات تو یہ سمجھیں کہ عدمِ علم کو عدمِ حیات پر دلیل بنانا ہی غلط ہے۔ مثال کے طور پر آپ یہاں بیٹھے ہیں اور میں پوچھوں کہ میرے سبق کو شروع ہوئے کتنے سیکنڈ ہوئے ہیں؟آپ جواب دیں کہ پتا نہیں۔ اب اس کا معنی کیا ہے کہ آپ مردے ہیں؟ اب عدمِ علم عدمِ حیات پر دلیل کیسے بنا؟ قرآن کریم میں ہے:
﴿یَوۡمَ یَجۡمَعُ اللہُ الرُّسُلَ فَیَقُوۡلُ مَا ذَاۤ اُجِبۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَا عِلۡمَ لَنَا﴾
المائدۃ5: 109
کہ قیامت کے دن اللہ تمام رسولوں کو جمع فرمائے گا اور ان سے کہے گا کہ میں نے تمہیں ان لوگوں کے پاس بھیجا تھا ان کی طرف سے تمہیں کیا جواب ملا؟ نبی کہیں گے کہ ہمیں تو کچھ پتا نہیں۔ تو کیا نبی دنیا میں زندہ نہیں ہوتے؟! اگرعدمِ علم؛ عدمِ حیات پر دلیل ہے تو پھر تو دنیامیں کوئی نبی زندہ نہیں ہو گا حالانکہ ایسا نہیں ہے!
قرآن کریم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنمیوں سے پوچھیں گے:
﴿ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ عَدَدَ سِنِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾﴾
کہ تم زمین میں کتنے سال ٹھہرے رہے؟ وہ کہیں گے:
﴿لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
المؤمنون 23: 112، 113
کہ دن یا دن کا کچھ حصہ ہم ٹھہرے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو دن کا کچھ حصہ تھوڑا ٹھہرے ہیں بلکہ کوئی ساٹھ سال جیا ہے، کوئی سو سال جیا ہے تو کیا یہ سارے لوگ مردے ہیں؟ اس لیے عدمِ علم کو عدِم حیات پر دلیل نہیں بنا سکتے۔
اور دوسری بات یہ سمجھیں کہ عزیر علیہ السلام دنیا میں نہیں تھے ان کی حیات عالمِ برزخ یعنی دوسرے جہان کی حیات تھی، اِس عالم اور دوسرے عالم میں فرق یہ ہے کہ اِس عالم کا ایک ہزار سال ہو تو اگلے عالم کا ایک دن بنتا ہے۔ تو اللہ رب العزت نے پوچھا :
﴿کَمۡ لَبِثۡتَ﴾
کہ تم کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ عرض کیا:
﴿لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ﴾
کہ میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ تو بات تو ٹھیک تھی کیونکہ جب اللہ نےپوچھا تو عزیر علیہ السلام یہ سمجھے کہ شایدمجھ سے وہاں کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے، فرمایا: نہیں! ہم وہاں کا نہیں بلکہ ہم یہاں کا پوچھ رہے ہیں، اور یہاں کا کتنا بنتا ہے؟ فرمایا:
﴿بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَۃَ عَامٍ﴾
بلکہ تم ایک سو سال ٹھہرے ہو! اب یہاں کا ایک سو سال اور وہاں کا دن یا دن کا بعض حصہ ہو تو یہ تو موافقت ہے، یہ مخالفت کیسے ہے؟! اور اگر عدم ِعلم کو عدمِ حیات کی دلیل بنائیں تو بھی ٹھیک نہیں ہے اور اگر آپ کہتے ہیں کہ ان کو علم نہیں تھا یہ بھی ٹھیک نہیں ہے بلکہ ان کو تو علم بھی تھا۔ اس لیے اس آیت کو عدمِ حیات پر دلیل نہیں بنا سکتے۔
ملک الموت اور ان کی جماعت:
﴿قُلۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمۡ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿٪۱۱﴾﴾
آپ ان سے فرمائیں کہ ملک الموت تمہاری روح کو قبض کرتا ہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تمہیں واپس تمہارے رب کی طرف لے جایا جائے گا۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک الموت روح کو قبض کرتا ہے اور دوسرے مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ روح قبض کرتے ہیں۔ فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ﴾
النساء4: 97
کہ جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے آئے تو پوچھنے لگے کہ تم کس حالت میں تھے؟ جواب یہ ہے کہ یہا ں ”ملک“ وہاں ”ملائکہ“ میں کوئی تعارض نہیں ہے، روح قبض کرنے پر کئی فرشتے متعین ہیں جن کے سربراہ ملک الموت ہیں جن کا نام عزرائیل علیہ السلام ہے۔
یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ بڑی شدت سے رد کرتے ہیں کہ ملک الموت کا نام عزرائیل کہیں بھی نہیں آیا۔ میں نے کہا کہ مفسرین نے ملک الموت کا نام عزرائیل لکھا ہے اس لیے ہر بات کا شدت سے رد نہ کیا کریں۔ بعض لوگ معروف بات کے رد کرنے کو بڑا عالم ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑا مولوی ہے کیونکہ معروف بات کا رد کیا ہے یہ بعض لوگوں کا مزاج ہے۔ جب مفسرین نے ملک الموت کا نام عزرائیل رکھا ہے تو آپ کو شدت سے رد کرنے کی ضرورت کیا ہے! بس خاموشی اختیار کر لیں۔
عزرائیل علیہ السلام کے بارے میں کئی ایک روایات ہیں کہ عزرائیل علیہ السلام کو جب ارواح قبض کرنے کی ڈیوٹی پر متعین کیا تو انہوں نے خود اللہ سے درخواست کی کہ اے اللہ! میرے ذمے جو آپ نے کام لگایا ہے میں کروں گا لیکن اس کی بدنامی بہت ہو گی، ہر بندہ مجھے برا کہے گا کہ یہ ہمارے باپ کی روح لے گیا، ماں کی روح لے گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ارواح تم قبض کرو گے لیکن ہم اس کے ظاہری اسباب کچھ ایسے پیدا کریں گے کہ لوگ آپ کا تذکرہ بھی نہیں کریں گے۔ تو کوئی ایکسیڈنٹ میں جا رہا ہے، کوئی بیماری میں جا رہا ہے،کوئی آدمی بالکل صحت مند ہواور موت آئے ایسا بہت کم ہوتا ہے جب بھی کسی پر موت آتی ہے تو اس کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ بن جاتا ہے۔ کبھی بوڑھا ہو گیا، کبھی بیمار ہو گیا اور کبھی اتنا بوڑھا ہو جاتا ہے کہ لوگ خود ہی کہتے ہیں کہ مر ہی جائے تو اچھا ہے، اب عزرائیل علیہ السلام کو بددعائیں کیا دینی ہیں ، اب تو دعائیں دیں گے کہ اچھا ہے کہ اس کی روح تو لے گیا۔
یہ معاملہ تو انسانوں کا ہے کہ عزرائیل علیہ السلام اور ان کی جماعت ارواح قبض کرتی ہے لیکن انسان کے علاوہ جو حیوانات ہیں ان کے بارے میں دونوں قسم کی روایات ملتی ہیں کہ ان کی روح ملک الموت قبض کرتےہیں یا یہ کہ ان کی روح براہِ راست اللہ تعالیٰ خود قبض فرما لیتے ہیں۔ دونوں قسم کے اقوال ملتے ہیں۔
حدودِ شریعت کا لحاظ کیجیے!
﴿وَ لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَیۡنَا کُلَّ نَفۡسٍ ہُدٰىہَا وَ لٰکِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّیۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۱۳﴾﴾
یہاں یہ مسئلہ ذہن نشین فرما لیں کہ ہم دعوت کے پابند ہیں، ہم تبلیغ کے پابند ہیں، لوگوں کو ہدایت کی طرف لانے پر پابند ہیں لیکن حدودِ شریعت میں رہتے ہوئے، حدودِ شریعت سے نکل کر ہم دعوت کبھی نہ دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں کہ اگر ہم چاہتے تو ہر کسی کو ہدایت عطا فرما دیتے لیکن ہمارا فیصلہ ہے کہ جہنم کو ہم نے لوگوں اور جنات سے بھرنا ہے۔ تو جب ہر بندے نےجنت میں نہیں جانا بہت ساروں نے جہنم میں بھی جانا ہے تو پھر آپ حدودِ شریعت کو توڑ کر دین کی دعوت کیوں ہیں؟ حدودِ شریعت میں رہ کر دین کی دعوت دیں، کسی کے مقدر میں ہو گا تو دعوت قبول کرے گا، مقدر میں نہیں ہو گا تو نہیں قبول کرے گا۔
”اللہ بھلا دیں گے“ کا معنی:
﴿فَذُوۡقُوۡا بِمَا نَسِیۡتُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ۚ اِنَّا نَسِیۡنٰکُمۡ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡخُلۡدِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴﴾﴾
قیامت کے دن اللہ خود فرمائیں گے یا بذریعہ ملائکہ فرمائیں گے کہ آج تم چکھو اس عذاب کو، تم نے قیامت کے دن کو بھلا دیا تھا تو آج ہم نے تمہیں بھلا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کسی بندے کو بھلا تو نہیں سکتے تو کیسے فرما دیا کہ آج ہم نے تمہیں بھلا دیا ہے؟ اس کا معنی یہ ہے کہ بھلایا نہیں بلکہ اس کے ساتھ معاملہ ایسا ہو گا جیسے بھلا دیا ہے۔ جیسے بسا اوقات حکمران کسی بندے کو پکڑتے ہیں اور جیل میں ڈا لتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ حکمران تو ایسے ہیں کہ جیسے جیل میں ڈال کر بھلا دیا ہے حالانکہ بھلایا نہیں ہوتا بلکہ پتا ہوتا ہے لیکن چونکہ رہا نہیں کرتے تو گویا یہ معاملہ ایسے ہے جیسے بھول گیا ہو۔
﴿وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۲۱﴾﴾
اللہ رب العزت کبھی دنیا میں انسان کو مصیبت اور تکلیف دیتے ہیں آخرت کے عذاب سے پہلے تاکہ یہ بندہ لوٹ آئے اور کفر سے باز آجائے اور اگر کسی بندے کو دنیا میں تکلیف پہنچے اور اس کی وجہ سے توبہ کر کے گناہ چھوٹ جائے تو یہ تکلیف تکلیف نہیں بلکہ یہ خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ ظاہری طور پر اگرچہ عذاب ہے لیکن درحقیقت خدا کی بہت بڑی نعمت ہے اور آپ یقین فرمائیں میں کس درد کےساتھ آپ کو یہ بات سمجھاؤں کہ بسا اوقات اللہ کی طرف سے آنے والی تکالیف یہ انسان کے لیے اتنی مفید ہوتی ہیں کہ اگر یہ تکالیف نہ ہوتیں تو شاید بندے کو اتنا فائدہ نہ ہوتا اور بسا اوقات فتوحات ملتی ہیں، نعمتیں ملتی ہیں،صحت ملتی ہے، مسلسل عزت ملتی ہے تو انسان غرور اور گھمنڈ کا شکار ہو جاتا ہے لیکن جب اللہ اس بندے کو تھوڑی سی تنبیہ فرماتے ہیں تو پھر بندہ رجوع الی اللہ کر کے توبہ کرتا ہے۔ تو یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے، خدا کا کتنا بڑا کرم ہے۔ اس لیے اللہ کی طرف سے آنے والی تکلیف کو اللہ کی محبت سمجھا کریں کہ اللہ کو مجھ سے پیار ہے تبھی تو اللہ نےمجھے تنبیہ فرمائی ہے،اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
سفرِ معراج میں موسیٰ اور حضور علیہما السلام کی ملاقات:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَلَا تَکُنۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآئِہٖ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ۚ۲۳﴾﴾
اس کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تورات دی ہے اور آپ کو ہم نے قرآن کریم دیا ہے
﴿فَلَا تَکُنۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآئِہٖ﴾
یہ قرآن ہماری طرف سے ہے اس قرآن میں آپ نے شک نہیں کرنا! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے قرآن ہونے میں کوئی شک نہیں تھا لیکن بسا اوقات اس پر مزید پختہ رہنے کے لیے اللہ پاک ایسی بات ارشاد فرماتے ہیں۔
اور دوسرا معنی اس آیت کا بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تورات دی اور آپ کی موسیٰ علیہ السلام سے اس دنیا میں ملاقات ہو گی اس ملاقات میں آپ شک نہ کرنا، یقین کرناکہ آپ کی ملاقات موسیٰ علیہ السلام ہی سے ہوئی ہے۔ اور موسیٰ علیہ السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ملاقات کہاں پر ہوئی ہے؟ تو یہ ملاقات معراج کی رات آسمانوں پر ہوئی ہے۔
 اللہ کے نبی پہلے آسمان پر گئے ہیں ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہے
 دوسرے آسمان پر ملاقات حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہے
 تیسرے آسمان پر ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے ہے
 چوتھے آسمان پر ملاقات حضرت ادریس علیہ السلام سے ہے
پانچویں آسمان پر ملاقات حضرت ہارون علیہ السلام سے ہے
چھٹے آسمان پر ملاقات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہے
 ساتویں آسمان پر ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ کس نبی سے کس آسمان پر ملاقات ہوئی اس کو یاد رکھنے کےلیے جو مخفف ہے وہ ہے
”أَعْیَاھُمَا “
اس میں پہلے الف ہے مراد آدم، پھر عین ہے مراد عیسیٰ، پھر یا ہے مراد یوسف،پھر الف ہے مراد ادریس، پھر آگے ھا ہے مراد ہارون، پھر میم ہے مراد موسیٰ، پھر الف ہے مراد ابراہیم۔ یہ سات حروف ذہن میں رکھیں گے تو یاد کرنا بہت آسان ہو گا کہ کس آسمان پر کس نبی سے ملاقا ت ہوئی تھی۔
تو چھٹے آسمان پر ملاقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی اور یہ لمبا واقعہ ہے، اس وقت میں اس پر بات نہیں کرتا۔
موسیٰ علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا:
اسی طرح صحیح مسلم کی جو روایت ہے کہ
کثیب احمر
سرخ ٹیلے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزرےتو موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ حدیث کے الفاظ ہیں:
مَرَرْتُ عَلٰی مُوسٰی لَیْلَةً اُسْرِیَ بِیْ عِنْدَ الْکَثِیْبِ الْاَحْمَرِ وَھُوَ قَائِمٌ یُّصَلِیْ فِیْ قَبْرِہٖ.
صحیح مسلم، رقم: 2375
معراج والی رات میرا گزر موسیٰ علیہ السلام پر ہوا تو وہ سرخ ٹیلہ کے پاس اپنی قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔
اب جو نہیں مانتے وہ آسان سا اعتراض کر دیتے ہیں کہ یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔ ہم نے کہاکہ دو باتیں الگ ہیں؛ ایک ہے موسیٰ علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا اور ایک ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا باہر سے دیکھ لینا! تو معجزہ اُن کا نماز پڑھنا نہیں ہے بلکہ معجزہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھ لینا ہے۔ بحث دیکھنے پر نہیں ہو رہی، بحث نماز پڑھنے پر ہو رہی ہے۔
کبھی اعتراض کر دیتے ہیں کہ جی نماز تو روحیں پڑھتی تھیں، جسم نہیں پڑھتے تھے۔ میں نے کہا کہ جس کو قبر میں دفن کیا ہے نماز وہی پڑھےگا نا؟ اگر اس قبر میں روح ہے تو پھر روح پڑھے گی اور اگر اس قبر میں جسم ہے تو پھر جسم پڑھے گا۔ جب اس قبر میں نماز پڑھی جا رہی ہے تو اس قبر میں روح کیسے نماز پڑھے گی؟ تمہارا تو عقیدہ یہ ہے کہ روح کا جسم کے ساتھ تعلق بھی نہیں ہے اور روح ہوتی بھی علیین میں ہے،یہ تو ہمارا عقیدہ ہے کہ روح اور جسم کا تعلق ہے، تمہارے عقیدے پر تو نہ یہاں روح ہے اور نہ اس کا تعلق ہے تو خالص جسم نماز پڑھ رہاہے نا! ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:
فَإنَّ حَقِيْقَةَ الصَّلَاةِ وَهِيَ الْإتْيَانُ بِالْأفْعَالِ الْمُخْتَلِفَةِ إنَّمَا تَكُوْنُ لِلْأَشْبَاحِ لَا لِلْأَرْوَاحِ․
مرقاۃ المفاتیح: ج10 ص571 کتاب الفضائل والشمائل باب فی المعراج
کہ اصل نماز تو وہی ہوتی ہے جو جسم پڑھتا ہے، وہ نماز نہیں ہوتی جو روح پڑھتی ہے۔
نماز پڑھنا جسم کا کام ہے:
اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ نماز کا تعلق روح سے نہیں ہے بلکہ جسم سے ہے۔ حدیث جبرائیل مفصل حدیث ہے۔ اس میں ہے کہ جبرائیل امین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلا سوال کیا
”أَخْبِرْنِىْ عَنِ الْإِسْلَامِ“
حضور! فرمائیے کہ اسلام کیاہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ وَتُقِيْمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِىَ الزَّكَاةَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا
کہ اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کر، زکوٰۃ ادا کیا کر، رمضان کا روزہ رکھا کر اور اگر طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج ادا کر۔
پھر پوچھا:
”فَأَخْبِرْنِى عَنِ الْإِيْمَانِ“
کہ ایمان کیاہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ چیزیں فرمائی ہیں:
أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَيْرِهٖ وَشَرِّهٖ.
کہ اللہ کو ماننا، اللہ کے فرشتوں کو ماننا، خدا کی آسمانی کتابوں کو ماننا، اللہ کے رسولوں کو ماننا، آخرت کے دن کو ماننا اور اچھی یا بری تقدیر کو ماننا۔ یہ ایمان ہے۔
پھر پوچھا:
” فَأَخْبِرْنِىْ عَنِ الْإِحْسَانِ “
احسان کیا ہے؟ فر مایا:
أَنْ تَعْبُدَ اللّهَ كَاَ نَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ․
کہ اللہ کی عبادت یوں کر کہ گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے، اگر یوں نہ کر سکے تو پھر عبادت یوں کر کہ گویا خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔
پھر پوچھا:
”فَأَخْبِرْنِىْ عَنِ السَّاعَةِ“
قیامت کے بارے میں بتائیے! فرمایا:
مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ․
فرمایا: اس سوال کاجواب تجھے بھی نہیں آتا،اس سوال کا جواب مجھے بھی نہیں آتا۔
پھر پوچھا:
”فَأَخْبِرْنِىْ عَنْ أَمَارَاتِهَا“
کہ اچھا قیامت کی کچھ نشانیاں ہی بتا دیجیے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُوْنَ فِى الْبُنْيَانِ․
سنن ابی داؤد، رقم: 4695
فرمایا: جب وہ دور آجائے کہ باندی اپنی مالکہ کو جنے یعنی بیٹی کی حیثیت مالکہ کی بن جائے اور ماں کی حیثیت باندی کی بن جائے تو سمجھ لینا قیامت آنے لگی ہے اور فرمایا کہ جب دیکھو کہ ایک آدمی جس کے پاؤں میں جوتے بھی نہیں ہیں، اس کے جسم پر کپڑا بھی نہیں ہے، پیٹ میں روٹی بھی نہیں ہے اور بکریاں چرانے والا ہے جب ایسے آدمی بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کریں تو سمجھ لینا کہ قیامت آ رہی ہے۔
اب دیکھو! پہلاسوال اسلام، دوسرا ایمان اور تیسرا احسان کے بارے میں کیا ہے۔ اسلام کا تعلق جسم سے ہے، ایمان کاتعلق دل سےہے اور احسان کاتعلق دل میں چھپی ہوئی کیفیت سے ہے۔ تو اسلام میں جو پانچ چیزیں ہیں ان میں سے دوسری چیز نماز ہے۔ تو نماز جسم کا کام ہے یا روح کا؟ (جسم کا۔ سامعین) یہ تو کام ہی جسم کا ہے۔تو پھر روح کیسے پڑھ رہی ہے؟! اس لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے جو نماز پڑھی ہے وہ جسم نے پڑھی ہے، یہ مت کہو کہ روح نے پڑھی ہے۔
مقتدا کے لیے دو شرطیں:
﴿وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا ۟ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ ﴿۲۴﴾﴾
اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو جنہوں نے صبر سے کام لیا پیشوا بنا دیا وہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے اور ہماری آیات پر یقین بھی رکھتے تھے۔
اللہ رب العزت جس کو ہدایت کا مقتدابناتے ہیں اور امام الہدیٰ بناتے ہیں تو اس کے لیے دو شرطیں ہیں :
1: کمال علمی 2: کمال عملی
علم اور عمل میں کمال ہو تو اللہ اس بندے کو مقتدیٰ بناتےہیں۔
﴿لَمَّا صَبَرُوۡا﴾
یہ کمال عملی ہے۔ صبر کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
”اَلصَّبْرُ عَلَی الطَّاعَاتِ“
کہ نیکی پر دل نہیں کرتا پھر بھی کرتاہے،
”اَلصَّبْرُ عَنِ الْمَعَاصِیْ“
کہ گناہ کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن پھر بھی نہیں کرتا،
”اَلصَّبْرُ عَلَی الْمَصَائِبِ“
کہ مصیبت آئے تو اس پر صبر کرے اور برداشت کرے۔ تو یہ تین قسم کے صبر اس میں شامل ہیں۔ طاعات پر بھی صبر کرتا ہے، گناہوں سے رکنے پر بھی صبر کرتا ہے، مشقت آئے تو اس کو بھی برداشت کرتاہے تو کمال عملی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا؟ اس سے بڑا کمال اور کیا ہو سکتا ہے؟
﴿وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ﴾
کہ ہماری آیات پر یقین رکھتے ہیں۔ تو یقین وہی کرے گا جس کے پاس علم ہو گا، علم بھی آ گیا فہم بھی آ گیا تو یہ کمالِ علمی اس میں آ گیا۔
تو جس شخص میں کمالِ علمی بھی ہو اور کمالِ عملی بھی ہو تو مقتدا بننا اس کا حق ہے۔ جب اللہ بندے کو یہ دو چیزیں دے اور پھر اس کو اقتداء بھی ملے تو اس بندے کو قبول کرنا چاہیے، اس کے خلاف پلان نہ بناؤ! تمہاراکچھ بھی فائدہ نہیں ہونا اور اس کا کچھ بھی نہیں بگڑنا، انسان اپنی دنیا اور آخرت تباہ کر بیٹھتا ہے۔
صبر کی تین اقسام:
صبر کی تین قسمیں ہیں؛ صبر علی الطاعات، صبر عن المعاصی اور صبر علی المصائب۔ تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں۔ عوام کو الجھن ہو تو تعجب نہیں ہونا چاہیے لیکن اگرعلماء کو الجھن ہو تو تعجب ہوتا ہے کہ نماز میں دل نہیں لگتا،مطالعہ میں دل نہیں لگتا، تکرار کو دل نہیں کرتا۔ مجھے بعض طلبہ کہتے ہیں کہ استاذ جی دعا کریں! میں نے کہا: اس کا تعلق دعاسے نہیں ہے اس کا تعلق چستی سے ہے، میں بھی کبھی تھکا ہوا ہوتا ہوں میرابھی دل نہیں کرتاکہ مطالعہ کروں، میرابھی جی چاہتا ہے کہ سبق کی چھٹی کروں لیکن جی چاہنے کا نام تو عبادت نہیں ہے، اگر دل کیا اور آپ نے پڑھ لیا تو کون سا ثواب کمایا؟ دل کیا اور تلاوت کر لی تو کون سی عبادت کی؟ عبادت تو اس چیز کا نام ہے کہ دل نہ کرے پھر بھی انسان اسے کرے۔حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کتنے بڑے آدمی تھے! حضرت کے ایک مرید نے خط لکھا کہ حضرت میں عبادت کرتا ہوں لیکن مزا نہیں آتا۔ حضرت تھانوی نے جواب لکھا کہ مزا؛ مذی میں ہے عبادات میں نہیں ہے، اس کو اللہ کا حکم سمجھ کر کرو! اب دیکھو بظاہر ہنسانے والی بات ہے لیکن حکیم الامت نے کتنی بڑی بات فرمائی! کیسے امت کے نبض کو سمجھتے تھے!
متکلمِ اسلام کی طلبہ کو نصیحت:
میں اس لیے کہتا ہوں کہ بس ایک فیصلہ کرو! مزوں کو چھوڑو! مزا آتا ہے یا نہیں آتا، جی چاہتا ہے یا نہیں کرتا لیکن یہ کام کرنا ہی کرنا ہے، کچھ وقت گزرے گا تو مزا بھی آنا شروع ہو جائے گا اور وہ طبیعت بن جائے گی، اطاعت کے بغیر بندے کو لطف ہی نہیں آئے گا لیکن اس پر تھوڑی سی محنت کرنی پڑتی ہے۔ محنت سے مطالعہ کا ذوق بنا لو پھر دیکھنا کہ مطالعہ میں کتنا مزا آتا ہے، پھر نکات سننے کو دل کتنا کرتا ہے، ایک نکتہ ملے تو بندہ باغ باغ ہو جاتا ہے کہ ایک نکتہ میرے سامنے آ گیا۔ اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں کہ جب انسان مطالعہ میں آگے بڑھتا ہے اور علوم میں وسعت آتی ہے تو انسان میں تواضع آتی ہے، کبر نہیں آتا، کیونکہ مطالعے کی وسعت سے اپنی جہالت بندے پر کھلتی ہے تو جہالت کھلنے سے تواضع آتی ہے کہ مجھے ان ان چیزوں کا پتا نہیں تھا۔ اب آپ تفسیر پڑھ رہے ہیں تو آپ کوکتنی باتیں معلوم ہو رہی ہیں جن کا آپ کو پتا نہیں تھا۔ تو جب چیزوں کا پتا چل رہا ہے تو آپ کے اوپر اپنی جہالت کھل رہی ہے یا نہیں؟ کھل رہی ہے تو اس سے بندے میں عاجزی آنی چاہیے، جب آپ اپنا یہ رخ بنا لیں تو پھر اللہ کے شکر کی توفیق ملتی ہے۔
مشکلات کے بعد راحتوں کا دور ہے:
آپ یقین فرمائیں کہ میں آپ کو اپنے دل کی کیفیت نہیں بتا سکتا بس! میں جب کبھی گھر میں بیٹھا ہوتا ہوں تو ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ جیسے بندے کے آنسو آنے لگتے ہیں، میں ایک ایک چیز دیکھتا ہوں تو خدا کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ آج سے کچھ سال پہلے میری حالت یہ تھی کہ مجھ سے کوئی بندہ سلام لینے کے لیے تیار نہیں تھا کہ اس سے ملیں گے تومصیبت، اس سے ملیں گے تو تکلیف، اس سے تعلق بنے گا تو پتا نہیں کیاہوگا؟! اتنی مشکلات سے میں گزرا ہوں کہ میرا نام لینے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ اب اللہ کا شکر ہے۔ کبھی لوگ ملنے کے لیے تیار نہیں تھے اور ابھی میں کسی علاقے میں جاؤں تو جانے سے پہلے فون شروع ہو جاتے ہیں کہ ہمارا گھر راستے میں ہے ہماری دکان روڈ کے اوپر ہے ہمارا مدرسہ سامنے ہے بس ایک منٹ کے لیے رک جائیں! خدا گواہ ہے کہ میرے دل میں اس پر اکڑ نہیں آتی بلکہ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک وقت تھا کہ کوئی پوچھنے کے لیے تیار نہیں تھا اور آج فون کر رہے ہیں، کل گھاس نہیں ڈالتے تھے اور آج دیسی مرغ کھلانے کے لیے تیار ہیں، ایسی چیزیں آنے سے خدا کا شکر ادا کیا کریں۔
میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ آج دنیا میں مسلمانوں پر اتنے شدید حالات ہیں کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے اور یہاں آپ کو تو کوئی ٹینشن ہی نہیں، قالین پر بیٹھے ہیں، پنکھے لگے ہوئے ہیں، صبح وشام وقت پر پکا پکایا کھانا مل رہا ہےاور آپ سبق پڑھ رہے ہیں۔ دیکھو خداکے کتنے انعا مات ہیں! تو ان انعامات کا کیا معنی ہے کہ ہم اپنی زندگیاں گناہوں میں گزار دیں؟ بلکہ ہمیں شکر اور اللہ کی عبادت کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
پانی کا نظام قدرت کا کرشمہ:
﴿اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا نَسُوۡقُ الۡمَآءَ اِلَی الۡاَرۡضِ الۡجُرُزِ فَنُخۡرِجُ بِہٖ زَرۡعًا تَاۡکُلُ مِنۡہُ اَنۡعَامُہُمۡ وَ اَنۡفُسُہُمۡ ؕ اَفَلَا یُبۡصِرُوۡنَ ﴿ؓ۲۷﴾﴾
کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم پانی کو کھینچ کر خشک زمین کی طرف لے جاتے ہیں، پھر اس سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جسے ان کے جانور بھی کھاتے ہیں اور یہ لوگ خود بھی کھاتے ہیں۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں!
یہاں اللہ پاک نے نظام آب پاشی کو بیان کیا ہے اور قرآن کریم نے دونوں نظاموں کوبیان فرمایا ہے۔ بعض ایسے علاقے ہیں کہ اللہ پاک فرشتوں کو حکم دیتے ہیں وہ وہاں بارش برساتے ہیں اور زمین تازہ ہو جاتی ہے، سبزے اگتے ہیں اور بعض زمینیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو زیادہ بارشوں کی متحمل نہیں ہوتیں، پھر اس علاقے میں بارشیں نہیں ہوتیں، بارشیں وہاں ہوتی ہیں جہاں زمینیں بارشوں کی متحمل ہوتی ہیں تو وہاں سے پانی چلتا ہے اور بذریعہ نہر ان علاقوں میں آتا ہے جہاں کی زمین بارش کی متحمل نہیں ہوتی۔ یہ ہماری زمینیں ہیں، یہاں دس دن بارشیں ہو جائیں تو سیلاب آ جائے اور چلنا مشکل ہو جائے۔ اللہ پانی پہاڑوں پر برساتے ہیں وہاں سے ندیاں نکلتی ہیں نہریں بنتی ہیں اور آگے ہماری زمینیں سیراب ہوتی ہیں۔ یہاں پر اس کا ذکر فرمایا کہ تم دیکھتے نہیں ہو کہ ہم برساتے کہاں پر ہیں اور وہاں سے پانی کو چلاکر کہاں لے جاتے ہیں جس سے تمہاری زمینیں سرسبز ہو جاتی ہیں ۔ اللہ رب العزت ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․