سورۃ الحجرات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ الحجرات
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱﴾ ﴾
قرآن کا مخاطب خود کو سمجھیے!
میں نے آپ سے کہا تھا کہ قرآن کریم کی تفسیر یا احادیث کا درس دیں یا کہیں وعظ و نصیحت کریں تو یہ ذہن سے نکال دیں کہ یہ درس عوام کے لیے ہے بلکہ یہ ذہن بنا لیں کہ یہ درس ہمارے لیے ہے۔ میں سورۃ الحجرات کے شروع میں یہ بات بطورِ خاص اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہم میں سے ہر بندہ یہ ذہن بنا لے کہ اس سورت کا مخاطب میں ہوں، اگر ایسا ذہن بنائیں گے تو پھر عمل کی توفیق مل جاتی ہے۔ اگر آدمی آیات کا مخاطب خود کو نہ سمجھے تو پھر عمل کی توفیق نہیں ملتی بلکہ بندہ یہ کمزوریا ں اور عیوب دوسروں میں تلاش کرتا ہے کہ یہ عیب فلاں کے اندر ہے، یہ فلاں کے اندر ہے،یہ فلاں کے اندر ہے اور جب اس کا مخاطب خود کو سمجھیں گے تو پھر یہ عیب کسی اور میں ہو یا نہ ہو بندہ اپنے اندر تلاش کرتا رہتا ہے۔
شانِ نزول:
قبیلہ بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے۔ مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے قبیلہ کا حاکم کس کو بنائیں؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ باتیں چل پڑیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ قعقاع ابن معبد کو بنائیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اقرع بن حابس کو بنائیں۔ اس پر بات تھوڑی سی چل پڑی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود تھے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ کے نبی موجود ہیں تو کوئی رائے نہ دیتا جب تک آپ رائے نہ لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رائے پوچھی نہیں اور انہوں نے رائے دے دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱﴾ ﴾
کہ اے ایمان والو! تم پیغمبر سے آگے مت بڑھو، اللہ سے ڈرو! اللہ تعالیٰ تمہاری باتیں سنتا ہے اور تمہارے دلوں کے احوال کو جانتا ہے۔
میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ آیات کے ترجمے میں محاورات کو سامنے رکھیں ورنہ آیت کا ترجمہ صحیح نہیں ہو پاتا۔ قرآن کریم ایک محاورے کے مطابق بات کر رہا ہوتا ہے تو ہمیں اسی محاورے کے طرز پر ترجمہ کرنا چاہیے۔
علماء کا احترام کرنا بھی ضروری ہے :
یہاں یہ بات سمجھیں کہ پیغمبر کا وارث عالم ہوتا ہے، جو احکام پیغمبر اور امتی کے ہوتے ہیں تقریباً اس سے ملتے جلتے احکام عالم اور غیر عالم کے ہوتے ہیں۔ اب مسجد کا امام ہے، یہ نبی تو نہیں ہے لیکن یوں سمجھیں کہ امت میں نبی کی طرح ہے۔ امت کو مسائل سمجھانے میں یہ نبی کا وارث ہے، اس لیے امت کو اس عالم کے ساتھ ادب اور احترام کا وہی معاملہ کرنا چاہیے جو ایک امت اپنے نبی کے ساتھ کرتی ہے۔ مقتدی اپنے امام کے ساتھ... مرید اپنے پیر کے ساتھ... شاگرد اپنے استاد کے ساتھ... تنظیم میں ہیں تو کارکن اپنے امیر کے ساتھ بس یہی ادب والا رویہ اختیار کرے۔ حضرات فقہاء نے یہ لکھاہے، اس لیے اس کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رائے لیں تو رائے دینی چاہیے اور جب رائے نہ لیں اور رائے لینے کی خواہش بھی نہ ہو تو رائے نہیں دینی چاہیے۔ اسی طرح استاد یا اپنے سے بڑا شخص اگر رائے لے تو رائے دیں اور جب تک اس کے رائے لینے کا منشا سامنے نہ آئے تو تب تک رائے نہیں دینی چاہیے اور اگر یہ خدشہ ہو کہ ہماری رائے ان کو ناگوار گزرے گی پھر تو بالکل رائے نہ دیں، بس خاموشی اختیار کریں۔ جب رائے مانگیں تو پھر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کریں۔
نبی کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرو!
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۲﴾﴾
اے ایمان والو! اپنی آواز پیغمبرکی آواز سے اونچی نہ کرو اور نبی کے ساتھ ایسی بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو ورنہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور تمہیں احساس بھی نہ ہو گا کہ تمہارے اعمال ضائع ہو گئے ہیں۔
یہاں پر ”جہر“ کا معنی صرف یہ نہیں کہ اونچی آواز سے بات نہ کرو بلکہ معنی یہ ہے پیغمبر کے ساتھ تم اس طرح بات نہ کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو۔ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اتنی پست آواز سے بولتے تھے کہ بسا اوقات پوچھنا پڑتا کہ آپ نے کیا کہا ہے؟
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی آواز طبعاً بہت اونچی تھی تو وہ بہت پریشان ہوئے کہ میری تو آواز اونچی ہے، نہ چاہتے ہوئے آواز اونچی ہو جاتی ہے تو انہوں نے اپنی آواز کو پست کیا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تو قسم اٹھا لی کہ میں اب زندگی بھر بات ایسے کروں گا جیسے بندہ سرگوشی کرتا ہے۔
﴿کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ﴾...
آپس میں بات کرنے کے دو مطلب ہوتے ہیں؛ ایک یہ کہ جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو اس طرح نبی کو نہ پکارا کرو! جس طرح بعض لوگ کہتے ہیں: اوئے بات سنو! تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے نہیں کہنا، ایک تو یہ خیال کرو۔ دوسرا یہ کہ جس طرح تم آپس میں بیٹھے ہو اور اونچی باتیں کرتے ہو اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوں تو اسی طرح اونچی باتیں نہ کرو، تمہاری آواز پیغمبر کی آواز سے اونچی نہیں ہونی چاہیے۔
روضہ مبارک کے پاس آواز بلند کرنا ممنوع ہے:
اور جس طرح یہ حکم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا والی زندگی میں تھا اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخ والی زندگی میں بھی یہی حکم ہے کہ آج بھی مدینہ منورہ میں روضہ رسول پر نہ اونچی آواز سے بات کرنی چاہیے اور نہ ہی وہاں شوروغل کرنا چاہیے۔ اللہ آپ سب کو حرمین کی زیارت کی توفیق دے۔ (آمین۔ سامعین) بیت اللہ کا جمعہ اور نمازیں آپ سنیں گے تو امام بہت بلند آواز سے بولتا ہے لیکن مسجدِ نبوی کا خطبہ جمعہ سن لیں یا مسجد نبوی کی نمازیں اور تراویح دیکھ لیں تو امام کی آواز اونچی نہیں ہوتی، بہت پست آواز ہوتی ہے۔ آپ کو دونوں میں نمایاں فرق نظر آئے گا۔ وہاں کے خطبات اور نمازوں سے اندازہ ہو گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہاں مسجد نبوی میں کیسے چلنا ہے؟
اعمال ختم ہونے کا معنی:
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں؛
(1): پہلا سوال تو یہ ہے کہ اللہ نے یہاں فرمایا:
﴿اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ﴾
کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ یہ بات اتفاقی ہے کہ نیک اعمال صرف اور صرف کفر کی وجہ سے ضائع ہوتے ہیں، اگر بندہ کافر ہو جائے تو اعمال ضائع ہو جاتے ہیں لیکن اگر معصیت کا کوئی کام کر لے تو اس کی وجہ سے نیک اعمال ضائع نہیں ہوتے۔ اب یہاں جو فعل ہے یعنی ”اونچی آواز سے بات کرنا“ تو یہ فعل کفر نہیں ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا﴾
کہ اے ایمان والو! اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ خطاب مومنوں کو ہے، ان میں ایمان موجود ہے۔ جب ایمان موجود ہے تو پھر ان کے اعمال کیوں ختم ہو گئے؟ ایک تو یہ سوال ہے۔
(2): اور دوسرا سوال یہ ہے کہ جس طرح ایمان لانا امرِ اختیاری ہے اسی طرح کفر بھی امرِ اختیاری ہے۔ ایک بندہ جب تک اپنے ارادہ اور اختیار سے ایمان نہیں لاتا تو اسے مومن نہیں کہیں گے، اسی طرح اگر کوئی مسلمان اپنے ارادے سے کفر اختیار نہ کرے تو اسے کافر نہیں کہیں گے لیکن یہاں فرمایا:
﴿اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ﴾
کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ اعمال ضائع ہوتے ہیں کفر کی وجہ سے تو گویا بندہ کافر ہو جائے گا اور اسے پتا بھی نہیں چلے گا کہ میں کافر ہو گیا ہوں حالانکہ کفر امر ِاختیاری ہے۔
تو یہ دو سوال یہاں پیدا ہوتے ہیں۔
ان کا جواب حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ نے دیا۔ حضرت کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ اے ایمان والو! تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے اور جہر کرنے سے بچو! کیوں؟ کہ ایسا کرنے میں خطرہ ہے کہ تمہارے اعمال ختم ہو جائیں گے! خطرہ کیوں ہے؟ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا یہ ایسے اعمال ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی اور بے ادبی کا احتمال ہے جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو گی۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست اور واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا وہم اور گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ معاذاللہ جان بوجھ کر ایسا کام کریں جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو۔ البتہ بعض کام ایسے ہوتے ہیں مثلاً آواز بلند کرنا یا آگے بڑھنا نا جنہیں کرنے والا شخص ایذا اور تکلیف دینے کے ارادے سے نہ بھی کرے کرے لیکن پھر بھی ایذاء کا احتمال تو ہے۔ اس لیے اس کو مطلقا ممنوع قرار دیا گیا اور اسے معصیت کہہ دی گیا۔پھر بعض معصیت کے کام ایسے ہوتے ہیں جس کا ارتکاب کرنے والے سے اللہ رب العزت توبہ اور نیک کام کی توفیق سلب کر لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسا شخص گناہوں میں پڑ کر ایک نہ ایک دن کفر تک جا پہنچتا ہے اور ظاہری بات ہے کہ کفر کی وجہ سے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں اور ایسا کرنے والے نے چونکہ قصد اور ارادہ نہیں کیا اس لیے اسے پتا بھی نہیں چلے گا کہ اس کے اعمال ختم ہو گئے ہیں۔
یہ خلاصہ ہے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے جواب کا۔ اب اس میں دونوں سوالات کا جواب ہو جاتا ہے۔
حضور علیہ السلام گھر میں ہوں تو پکار نہ بلایا جائے:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۳﴾﴾
فرمایا کہ جو لوگ پیغمبر کے سامنے اپنی آواز کو آہستہ کرتےہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے منتخب کر لیا ہے اور ان کے لیے مغفرت بھی ہے اور بہت بڑا اجر بھی ہے۔
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾﴾
یہی بنوتمیم کے لوگ آئے تو ان میں اکثر لوگ چونکہ اعراب لوگ تھے تو انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے باہر کھڑے ہوکر آوازیں لگائیں، وہ لفظ یہ تھے :
”اُخْرُجْ عَلَیْنَا یَامُحَمَّدُ!“
باہر آؤ ہماری بات سنو!
اب بلانے کا یہ طرز ایسا تھا جو مناسب نہیں تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں یوں نہیں کرنا چاہیے بلکہ تم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا انتظار کرو، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو پھر ان کےسامنے بات رکھو۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر چلے جائیں تو ان کو بلایا نہ کرو۔
وہ لوگ جو آپ کو بلاتےہیں حجروں کے باہر سے ان میں اکثر ایسے ہیں کہ جو بات سمجھتے نہیں ہیں۔ یہاں
﴿اَکۡثَرُہُمۡ﴾
کیوں فرمایا؟یاتوواقعتاً اکثر لوگ ایسے تھے جنہوں نے ایسے پکاراتھا اور بعض ایسے تھے کہ جنہوں نے ایسے نہیں پکاراتھا۔
اور یا
﴿اَکۡثَرُہُمۡ﴾
کہہ کران کا خیال فرمایا ہے تاکہ پریشان نہ ہوجائیں یہ بات سمجھائی کہ ان میں اکثر ناسمجھ ہیں۔ اس سے ہر بندہ سمجھےگا کہ میرے بارےمیں نہیں دوسرے کے بارے میں ہے تو بات بھی ہوجائے گی اور کسی بندے کی تذلیل بھی نہیں ہوگی۔
﴿وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ﴾
اگر یہ لوگ رک جاتے، آواز نہ دیتے یہاں تک کہ آپ باہر تشریف لاتے تو ان کے لیے زیادہ بہتر ہوتا۔
﴿وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾﴾
انہوں نے جرم اگر کر بھی لیاہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرماتےہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ مہربان ہیں۔
احترام پیغمبر اور وارثِ پیغمبر:
اب یہاں جو فرمایا
﴿حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ﴾
یہاں ایک نکتہ سمجھیں :
1: جب پیغمبر گھر چلے جائیں تو ان کو نہ بلاؤ بلکہ ان کے آنے کاانتظارکرو۔
2: اور اگر وہ باہر آئیں تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کسی کام کی وجہ سے تو پھر بھی ان سے مت پوچھو
﴿حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ﴾۔
ہاں جب تمہارے لیے آئیں گے تو پھر ان سے بات پوچھنا!
اور یہاں پر یہی مسئلہ علماء کے لیے ہیں کہ جب گھر چلے جائیں تو ان کو اپنے کام کے لیے مت بلاؤ، انتظارکرواور جب وہ تمہارے لیے آئیں تو پھر پوچھو۔ یہ بات بہت سمجھنے کی ہے۔ اگر ہم کسی بڑے کو بلاتےہیں تو مقصد توشریعت ہوتی ہے۔ جب خود شریعت کہتی ہے کہ یانہ بلاؤتو ہمیں نہیں بلانا چاہیے۔
میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ آدمی یہ سمجھے کہ شریعت کا مطالبہ کیا ہے؟ شریعت کا منشا کیا ہے؟ شریعت چاہتی کیا ہے؟ جب ہماراذہن بن جائے گا کہ ہم سارے کام اللہ کے لیے کرتےہیں تو پھر ان معاملات میں کسی قسم کی کوئی ٹینشین نہیں ہوتی۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما اور علماء کا احترام:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں معروف ہے کہ آپ اگر کسی عالم صحابی کے پاس حدیث پاک معلوم کرنے کے لیے جاتے تو گھر کے باہر بیٹھ جاتے اور دروازے پر دستک نہیں دیتے تھے۔ جب وہ صاحب باہر تشریف لاتے تو آپ سےکہتے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاکے بیٹے ہیں اور آپ نے ایسا کیا! آپ ہمیں بلا لیتے، آپ باہر کیوں بیٹھے ہیں؟ تو آپ فرماتے کہ عالم اپنی قوم میں نبی کی طرح ہوتا ہے اور نبی کے بارے میں امت کو ہدایت ہے کہ ان کے آنے کا انتظار کیا جائے۔
یہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرما رہے ہیں! اس لیے اس بات کا خیال رکھنابے حد ضروری ہے۔
متکلم اسلام کا معمول:
میں خود اپنی بات عرض کرتا ہوں۔ میں اگر کسی کے پاس جاؤں اور پہلے سے اطلاع دے کر جاؤں تو پھر جاکر اندر اطلاع دیتاہوں کہ میں آگیااور اگر میں اپنے سے بڑے کے پا س جاؤں اور اطلاع دے کر نہ جاؤ ں تو میرایہ معمول نہیں ہے۔ بس میں کہتاہوں کہ ان کو آرام کرنے دو! ہم بھی سوتے ہیں، جب ظہر کو اٹھیں گے تو ملاقات ہو جائے گی۔ اگر ان کا ملاقات کا ارادہ ہوا تو مل لیں گے، نہ ہوا تو انتظار کر لیں گے۔ اس لیے ہم ناراض بھی نہیں ہوتے۔
خبر کی تحقیق کرنے کا حکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴿۶﴾﴾
حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا جو امہات المومنین میں شامل ہیں ان کے والد حارث بن ضرار بن ابی ضرار اپنے قبیلہ بنو المصطلق کے رئیس اور سردار تھے۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ میں ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام کی دعوت دی اور زکوٰۃ ادا کرنے کا فرمایا۔ چنانچہ میں نے اسلام قبول کر لیا اور زکوٰۃ ادا کرنے کا اقرار بھی کر لیا۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور! میں جب اپنی قوم میں جاؤں گا تو انہیں بھی اسلام کی دعوت دوں گا اور زکوٰۃ ادا کرنے کا کہوں گا، وہ میری بات مانیں گے، اسلام بھی قبول کریں گے اور زکوٰۃ بھی دیں گے، میں ان کی زکوٰۃ کو جمع کر لوں گا، آپ فلاں مہینہ اور فلاں وقت میں اپنا کوئی قاصد میرے پاس بھیج دیں تاکہ جو زکوٰۃ کی رقم میرے پاس جمع ہو جائے گی میں وہ اس کو دے دوں گا۔ چنانچہ حضرت حارث بن ضرار رضی اللہ عنہ چلے گئے۔ انہوں نے اپنی قوم سے زکوٰۃ کی رقم وصول کر لی۔
قاصد بھیجنے کی جو تاریخ مقرر کی تھی جب وہ تاریخ گزر گئی تو ان کو شک ہوا شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کسی بات پر ناراض ہیں ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا نمائندہ ضرور بھیجتے دے۔ حارث رضی اللہ عنہ نے اپنے سرداروں سے بھی اس بات کا ذکر کی۔ سب نے ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جائیں اور دیکھیں کہ حقیقت حال کیا ہے؟
ادھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا، فرمایا کہ جاؤ اور ان سے زکوٰۃ وصول کر کے لاؤ۔ حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ چلے گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے اور لوگوں کو پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نمائندہ آ رہا ہے تو کچھ لوگ ان کے استقبال کے لیے بستی سے باہر نکلے تو حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ ان کے ساتھ میری پرانی دشمنی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ مجھے مار ڈالیں۔ اس لیے وہ واپس لوٹے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ یا رسول اللہ! میں تو زکوٰۃ لینے کے لیے گیا تھا لیکن وہ لوگ تو مجھے مارنے کے لیے باہر آئے ہوئے تھے اور زکوٰۃ بھی نہیں دی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک دستہ دیا اور فرمایا کہ جاؤ! پہلے خوب تحقیق کرنا کہ اصل معاملہ کیاہے اور اس کے بعد ہی کوئی اقدام کرنا!
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یہاں سے روانہ ہوئے اور ادھر سے وہ لوگ وفد کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ پتا چلے کہ اصل معاملہ کیا ہے؟ تو مدینہ کے قریب دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں جا رہے ہو تو حضرت خالد بن ولید نے بتایا کہ ہم تو تمہاری طرف آ رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا: کیوں؟ تو حضرت خالد بن ولید نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن مغیرہ رضی اللہ عنہ کو تمہارے پاس بھیجا تھا زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے لیکن تم نے انکار کر دیا اور انہیں قتل بھی کرنے لگے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تمہارے پاس بھیجا ہے۔ یہ بات سن کر حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو برحق رسول بنا کر بھیجا ہے میں نے ولید بن عقبہ کو دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی وہ میرے پاس آئے ہیں۔ ہم تو خود پریشان تھے کہ زکوٰۃ لینے والاکیوں نہیں آیا، اس لیے ہم خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا رہے ہیں کہ کہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہم سےناراض تو نہیں ہو گئے، بندہ کیوں نہیں بھیجا؟یہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سارا ماجرا پیش کیا تو معاملہ سارا بالکل حل ہو گیا، نہ لڑائی کی نوبت آئی اور نہ قتل وقتال ہوا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا﴾
اگر کوئی فاسق آدمی کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کیا کرو، تحقیق نہیں کرو گے تو
﴿اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴿۶﴾﴾
نتیجہ نکلے گاکہ تم کسی قوم کو نقصان پہنچاؤ گے لاعلمی کی وجہ سےاور بعد میں پھر تمہیں ندامت اٹھانی پڑے گی۔یہ تو ہوا مسئلہ۔
عدالتِ صحابہ کے متعلق ایک اشکال کا جواب:
اب اس سے جو قابلِ اشکال بات ہے وہ یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں قاعدہ ہے:
”اَلصَّحَابَۃُ کُلُّہُمْ عُدُوْلٌ“
صحابہ سارے عادل ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ یہ صحابی فاسق تھے۔ تو اگر ضابطہ عدول کا ہے تو پھر یہ فاسق کیسے؟ اور اگر فاسق ہے توضابطہ کیسے؟
اس لیے یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھیں:
اس آیت میں فاسق سے مراد وہ خاص صحابی نہیں ہے۔ شان نزول اگرچہ یہی واقعہ ہے لیکن مراد وہ صحابی نہیں ہیں بلکہ اس آیت میں ایک ضابطہ اور قاعدہ بیان کیا ہے کہ جب بھی کوئی فاسق آدمی آئے تو اس کی خبر کی وجہ سے تم فوراًکوئی عملدرامد شروع نہ کر دینا بلکہ پہلے اس کی تحقیق کرنی ہے کہ اس کی بات ٹھیک ہے یا اس کی بات غلط ہے؟ اور یہ اس وقت ہے جب اس فاسق بندے کی خبر سے کوئی نقصان کا اندیشہ ہو، اور اگر فاسق آدمی کی خبر سے نقصان کا کوئی اندیشہ نہ ہوتو پھر فاسق آدمی کی خبر کی تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، پھر فاسق نہیں کافر آدمی کی خبر کی تحقیق کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ مثلا: آپ کے پا س آپ کے علاقے کا کوئی آدمی آتاہے جو فاسق ہے، ڈاڑھی اس نے منڈوائی ہے، نمازیں وہ نہیں پڑھتا،شراب وہ پیتاہے اور وہ سرگودھاکسی کاروباری سلسلےسے آیااور آپ کو آکر ملتاہے اور کہتاہے کہ سردی کا موسم تھا میں آنے لگاآپ کے اباجی ملے توانہوں نے آپ کے لیے دیسی گھی بھیجاہے اب کوئی آپ تحقیق کریں گے؟ (نہیں۔ سامعین) تو آپ کو پتا ہے کہ ہمارے محلے کا آدمی ہے، ہمارے اباجی سے تعلق ہے تو ابو نے گھی دیاہو گا اور سردی کاموسم ہے، تو اس کی کوئی تحقیق کرےگا؟ (نہیں۔ سامعین)
یہ فاسق نہیں بلکہ اگر آپ کے محلے کا کوئی عیسائی بھی لے آئے تو آپ لے لیں گے۔ اس میں تحقیق کی کیا ضرورت ہے؟ تو فاسق کی خبر کی تحقیق اس وقت ہوتی ہے جب اس کی خبر پر یقین کرنے سے نقصان ہوتاہواور اگر اس کی خبر سے کوئی نقصان نہ ہوتاہوتو پھر فاسق کی خبر کی بھی تحقیق کی ضرورت نہیں، بس اس بات کو مان لو۔ تو یہاں ایک ضابطہ بیان کیا گیا ہے۔
صحابہ سارے عادل ہیں:
باقی جہاں تک صحابہ رضی اللہ عنہم کا معاملہ ہےتو یہ قاعدہ ہے
”اَلصَّحَابَۃُ کُلُّہُمْ عُدُوْلٌ“
اس لیے صحابہ کو فاسق نہیں کہتے۔ وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے گناہ ہوئے ہیں لیکن گناہ پر وہ برقرار نہیں رہے بلکہ گناہ کے بعد ان لوگوں نے توبہ کرلی اور جب انسان گناہ کرے اور گناہ کے بعد توبہ کرے تو ایسے آدمی کو فاسق نہیں کہتے۔
صحابہ کرام کے بارے میں جب قرآن کریم میں صاف فرمایا ہے کہ:
1: ﴿اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ﴾
2: ﴿وَ کُلًّا وَّعَدَ اللہُ الۡحُسۡنٰی﴾
3: ﴿رَضِیَ اللہُ عَنۡہُمۡ﴾
تو اللہ اس سے تھوڑاراضی ہوتاہے جو نافرمان ہو، اللہ راضی اس سے ہوتاہے جو فرمانبردار ہوتاہے۔ اس لیے صحابہ کرام کے بارے میں عدول کاضابطہ اپنی جگہ پر بجاہے۔
اب دیکھو! اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کی بات کو رد بھی نہیں فرمایا اور ان کی بات پر مکمل اعتماد بھی نہیں فرمایابلکہ فرمایا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ذراتحقیق کرلینا! اس سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص کوئی ایسی خبر لائے تو اس خبر کی بنا پر جلدی کوئی اقدام نہ کریں بلکہ تحقیق کر لیا کریں۔
اطاعت رسول کا حکم:
﴿وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾﴾
جب حضرت ولید بن عقبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا کہ بنو مصطلق والے مجھے زکوٰۃ دینے سے انکار کرتے ہیں اور قتل کرنا چاہتے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے غیرت دینی کی بنا پر یہ رائے دی کہ ان لوگوں سے جہاد کرنے کے لیے مجاہدین کو بھیجا جائے اور انہیں قتل کیا جائے لیکن حضور علیہ السلام نے حضڑت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کی خبر پر فوراً عمل کرنے کرنے کا حکم نہیں دیا کہ جا کر اس قبیلہ والوں کو قتل کر دو بلکہ حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ جا کر پہلے تحقیق کریں، اصل حقیقت معلوم کریں پھر اس کے مطابق اقدام کریں۔
تو پہلی آیت
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا﴾
میں ایک قاعدہ بیان کیا گیا تھا اور اس آیت
﴿وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ﴾
میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایک ہدایت کی گئی ہے کہ جب بنومصطلق کی خبر تم نے سنی تو تمہاری غیرت دینی کو جوش آنا اپنی جگہ پر درست تھا کہ ان کے خلاف مجاہدین کو بھیجا جائے اور قتال کیا جائے لیکن رائے وہی بہتر تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کی تھی کہ پہلے تحقیق کر لی جائے، پھر اقدام کیا جائے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے مشورہ لیں تو مشورہ دو لیکن یہ کوشش نہ کیا کرو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مشورہ کے مطابق عمل بھی کرے، یہ بات درست نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فہم و فراست اور دانشمندی عطا فرمائی ہے وہ تمہیں حاصل نہیں ہے، اس لیے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری رائے کے مطابق چلیں تو بہت سے معاملات میں تم نقصان میں پڑ جاؤ گے۔ اس لیے رسول اللہ سلم کی بات ماننے میں ہی خیر ہے۔
تو فرمایا:
﴿وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ﴾
دیکھو! تمہارے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، اگر وہ اکثر معاملات میں تمہاری بات مانیں گے تو تمہیں مشقت ہو گی۔
﴿وَ لٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ﴾
”لٰکِنَّ“
استدراک کے لیے آتا ہے۔ استدراک کسے کہتے ہیں کہ جو
”لٰکِنَّ“
سے پہلے والے کلام میں جو شبہ پیداہوتاہے
”لٰکِنَّ“
کے بعد والاکلام اس ماقبل والے شبہ کو دور کرتاہے۔ اب اتنی بات تھی
﴿وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ﴾
کہ اس بات کو سمجھو کہ اگر اکثر معاملات دنیاوی میں رسول اللہ تمہاری بات مانیں تو تمھیں مشقت اٹھانی پڑے گی، شبہ یہ پڑتاتھاکہ صحابہ یہ چاہتےتھے کہ حضور ہماری بات مانیں، فرمایا
”لٰکِنَّ“
ایسے نہیں ہے جو تمہیں شک پڑ رہاہے وہ ایسے لوگ نہیں تھے۔
﴿حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ﴾
اللہ نے کامل ایمان صحابہ کو محبوب بنالیاتھااور اس ایمان کو حاصل کرنااللہ نے صحابہ کے دل میں مزین کر لیا تھا۔
حکیم الامت کی تعبیر:
یہاں پر حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بیان القرآن میں بہترین ترجمہ کیاہے۔ میں نے کہاکہ میراکئی مرتبہ جی چاہتاہے کہ میں بیان القرآن لاکر سامنےرکھ کر بعض آیات کا ترجمہ سناؤں کہ حضرت تھانوی کیسا ترجمہ کرتے ہیں!
﴿وَ لٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ﴾
کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
”لیکن اللہ تعالیٰ نے (تم کو مصیبت سے بچالیااس طرح سے کہ) تم کو ایمان (کامل) کی محبت دی اور اس (کی تحصیل) کو تمہارے دلوں میں مرغوب کر دیا۔ “
حضرت تھانوی رحمہ اللہ ایسا اضافہ کرتے ہیں کہ اگر اس کوکاٹ لیں تب بھی ترجمہ ہے اور اس کوباقی رکھ لیں تب بھی ترجمہ ہے۔عجیب ترجمہ ہے بیان القرآن! قرآن کریم کا ترجمہ سمجھنے کے لیے اردومیں جتنی کتابیں آئیں بیان القرآن سب سے بہترہے اور شاید ہی دوبارہ کوئی آئے!
حضرت علامہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتےتھےمیں اردو کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتاصرف عربی کتابوں کا مطالعہ کرتاہوں، اس لیے کہ میں سمجھتاہوں کہ علوم اردوزبان میں نہیں ہیں لیکن بیان القرآن کا جب میں نے مکمل مطالعہ کرلیاتومیراذہن بدل گیا ہے، اب میں سمجھتاہوں کہ علوم اردوزبان میں بھی ہیں۔
حیات محدث کشمیری: ص288
مسلمانوں میں صلح کرانے کا حکم:
﴿وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا﴾
یہ ایک عام مسئلہ بیان کیاہے کہ جب مسلمانوں کی دوجماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو تمہیں چاہیے کہ تم ان کی اصلاح کرو۔اور اگر اس کے باوجود بھی صلح نہ کریں تو پھر جو چڑھائی کرتاہے تو اس کے خلاف دوسرے کا ساتھ دوتاکہ ظلم کا راستہ روک دیاجائے۔
﴿فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰىہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللہِ﴾
پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو تم ان کو مارو جو زیادتی کرتی ہے یہاں تک کہ اللہ کی بات کو مانیں اور انصاف کی طرف آجائیں۔
﴿فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ ﴿۹﴾ ﴾
اگر وہ باز آجائیں تو صلح کرادواور انصاف کے ساتھ رہو اور انصاف کا ساتھ دو۔ بے شک اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں انصاف کرنے والوں کو۔
﴿اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ﴾
اور مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں، ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو!
﴿وَ اتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿٪۱۰﴾﴾
اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
چند اہم ہدایات:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ﴾
اب یہاں ہدایات کی ہیں کہ ایمان والو کو چاہیے:
کوئی مرد کسی دوسرے مرد سے مذاق نہ اڑائے ہوسکتاہے جس کا مذاق اڑاتاہے وہ اس سے بہتر ہو۔
﴿وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ﴾
اور ایک عورت دوسری عورت کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے جس کا مذاق اڑایاجارہاہے وہ اس سے بہتر ہو جو مذاق اڑارہی ہے۔
﴿وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ﴾
اور تم عیب نہ نکالاکر و، الزام نہ لگایاکروایک دوسرے پر۔
﴿وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ﴾
اور برے القاب سے نہ پکارا کرو۔
﴿بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ﴾
ایمان لانے کے بعد برانام رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔
﴿وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱﴾﴾
اور جو توبہ نہیں کریں گے تو وہی ظالم ہوں گے۔
یہاں تین مسئلے بیان فرمائے:
[1]: پہلا مسئلہ بیان فرمایا کہ ایک قوم کو دوسری قوم کا مذاق نہیں اڑاناچاہیے۔ اس قوم کے لفظ میں عورتیں شامل نہیں، کیوں کہ ﴿وَ لَا نِسَآءٌ﴾ مستقل آگے آ رہا ہے۔ عموماً قرآن کریم میں جہاں لفظ قوم آتاہے وہ مرد اور عورت سب کوشامل ہوتاہے اور یہاں مردوں کو الگ ذکر کیاعورتوں کو الگ ذکرکیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو مسئلے کی اہمیت بتانا مقصود ہے کہ مذاق اڑاناجرم کتنا بڑا ہے؟ تو مردوں کو الگ سمجھایا اور عورتوں کو الگ سمجھایا۔
اور الگ اس لیے بھی کیا کہ شریعت کا مزاج بتانا مقصود ہے کہ مخلوط معاشرہ کا تصور شریعت میں ہے ہی نہیں۔ عورت مرد کا مذاق اڑائے اور مرد عورت کا مذاق اڑائے ایساہے ہی نہیں، اس لیے مرد مرد کا مذاق اڑاتاہے اور عورت عورت کا مذاق اڑاتی ہے۔ تو اس لیے
﴿وَ لَا نِسَآءٌ﴾
کو الگ ذکر کیااور
﴿قَوۡمٌ﴾
مردوں کو الگ ذکر فرمایا۔ یہاں پر شریعت نے اپنا مزاج بتایاہےکہ مذاق نہیں اڑاناچاہیے۔
[2]: اسی طرح کسی پر الزام نہ لگاؤ،عیب نہ نکالو، اور برے القاب نہ دو! اب یہاں ان الفاظ کو سمجھانے کے لیے بڑے اختصار سے کام لے رہاہوں اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کا ذکر زبان سے ہو،جس کا ذکر قلم سے ہو،جس کا ذکر اشارے سے ہو،تحریر ہو، تقریر ہو، اشارہ ہو،کسی کی نقل اتاریں وہ بھی اس میں شامل ہے، کوئی برالقب ہو وہ بھی اس کے اندر شامل ہے، کسی کا عیب نکالیں وہ بھی اس کے اندر شامل ہے الزام لگاؤ تو اس میں شامل ہے۔ غرض مقصد یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو دوسرے مسلمان کی تذلیل کا باعث بنے، دوسرے مسلمان کی توہین کا باعث بنے، دوسرے مسلمان کی ایذاء رسانی کا باعث بنے تو ا س سے بچناچاہیے۔
ہاں البتہ بعض القاب ایسے ہوتے ہیں کہ جو کسی کی توہین کے لیے نہیں ہوتے اور وہ بندہ اسی لقب کے ساتھ معروف ہوتاہے تو اس کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسے کہتےہیں کہ ”امام اعمش نے فرمایا“۔ اب ”اعمش“ کہتے ہیں چندھیائی آنکھوں والے کو، یہ عیب ہے لیکن معروف ہے۔ ”محدث اعرج نے فرمایا۔“ اب یہاں ”اعرج“ کا معنی لنگڑا ہے لیکن معروف اسی سے ہے تو پھر حرج کی کوئی بات نہیں۔ لیکن ویسے اس سے بہت زیادہ بچناچاہیے۔
[3]: اور یہ جو فرمایا کہ
﴿بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ﴾
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص مؤمن ہواور مؤمن ہونے کے بعد پھروہ الزام لگائے اور اس کی طرف نسبت ہوگناہ کی تو یہ بہت بری بات ہے کہ ایمان کے بعد ایک شخص کی طرف گناہ کی نسبت ہو۔ تم کسی پر الزام لگاؤ کہ فلاں مسلمان گناہ بھی کرتاہے یہ بہت بری بات ہے۔ اس سے بچناچاہیے۔
ایمان والوں کو ہدایات:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ ﴾
یہاں تین احکام اور بیان فرمائے:
1:
﴿اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ﴾
گمان سے بچو کیوں کہ بعض گمان گناہ ہوتےہیں۔
2:
﴿وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا﴾
تجسس سے بچو، کسی کی خفیہ باتیں کھولنے سے بچو۔
3:
﴿وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا﴾
اور آپس میں ایک دوسرے کی غیبت سے بچو! کیاتم میں سے کوئی شخص چاہتاہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے تم اس کو ناپسند کرتے ہو تو غیبت کو پسند کیوں کرتے ہو؟اللہ سے ڈرو اللہ توبہ قبول کرتےہیں اللہ، رحم والےہیں۔
یہ جو فرمایا کہ گمان سے بچو تو سمجھ لیں کہ گمان کی چار قسمیں ہیں:
1: ایک ظن اور گمان ایسا ہے جو حرام ہے۔
2: اور ایک ظن اور گمان ایسا ہے جو واجب ہے۔
3: اور ایک ظن اور گمان ایساہے جو مستحب ہے۔
4: اور ایک ظن اور گمان ایساہے جو مباح ہے۔
• حرام گمان یہ ہے کہ مثلاً اللہ کی ذات کے بارے میں کہ اس طرح یہ گمان کرنا اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ تکلیف میں رکھیں گے،مصیبت میں رکھیں گے۔ یہ بدگمانی اللہ کی ذات کے بارے میں حرام ہے،جائز نہیں ہے۔ اسی طرح کسی اچھے مسلمان کے بارے میں بلا وجہ اور بغیر کسی قوی دلیل کے بدگمان ہونایہ بھی حرام اور ناجائز ہے۔
• واجب گمان یہ ہے کہ جیسے بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کسی ایک جانب پر عمل کرنا شرعاً ضروری ہوتا ہے لیکن اس کے متعلق قرآن و سنت میں کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہوتی۔ تو ایسے موقع پر ظنِ غالب پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔ جیسے لڑائی جھگڑوں کے مقدمات میں قابلِ اعتماد گواہوں کی گواہی کے مطابق فیصلہ کرنا یہ حاکم اور قاضی پر واجب ہے۔
• ظنِ مستحب... ہر وہ مسلمان جس کا ظاہر اچھا ہو اور اس میں فسق کی کوئی علامت نہ پائی جائے تو اس کے بارے میں نیک گمان رکھنا مستحب ہے، اللہ رب ا لعزت اس پر ثواب دیتے ہیں۔
• ظنِ مباح ایسا ہے جیسے نماز کی رکعتوں میں کسی بندے کو شک پڑ جائے کہ میں نے تین پڑھی ہیں یا چار پڑھی ہے تو اپنے ظن غالب پر عمل کرنا مباح اور جائز ہے۔
تجسس اور تحسس میں کیا فرق ہے؟:
﴿وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا﴾
یہاں لفظ
”تجسس“
آیا ہے۔ ایک لفظ ہوتا ہے ”تحسس“ دونوں میں فرق سمجھ لیں:

تجسس کہتے ہے کہ ایسی چیز کو تلاش کرنا کہ جس کو چھپایا جارہاہو۔

اور
تحسس
کہتےہیں کہ اس چیز کو تلاش کرنا کہ جس کو چھپایا نہ جارہاہومعنی دونوں کا تلاش ہی ہے تویہاں
﴿وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا﴾
فرمایا یہ بتانے کے لیے کہ ایسی باتیں جو پوشیدہ رکھنی چاہیےتم ان کو کھرید کھرید کر تلاش نہ کیاکرو بلکہ چھوڑ دو۔
غیبت کا وبال:
﴿وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا﴾
یہاں صرف غیبت کے ساتھ
﴿اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ﴾
فرمایا یہ بتانے کے لیے کہ پچھلے بھی دونوں جرم ہیں لیکن غیبت ان سے بڑا جرم ہے، کیوں؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایک شخص کسی کے بارے میں بدگمانی رکھتاہے یاکسی کی خفیہ باتیں معلوم کرتاہے۔ جرم تو یہ بھی ہیں لیکن چھوٹے ہیں اور غیبت کا جرم بڑا ہے کیوں؟ بدگمانی میں کسی دوسرے کے سامنے برائی کا اظہار نہیں ہوتا اور بدگمان کا ذاتی مسئلہ ہوتا ہے لیکن غیبت کا جرم متعدی ہے، غیبت کرنے والے کا ذاتی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ دوسروں کو بتارہا ہوتا ہے۔ ایک گناہ جو لازمی ہو وہ چھوٹاہوتاہے اور ایک گناہ جو متعدی ہو وہ بڑا ہوتا ہےا س لیے غیبت بہت بڑاجرم ہے۔
اور حدیث پاک میں ہے :
"اَلْغِيْبَةُ أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا"
شعب الایمان للبیہقی: ج 5ص 306رقم الحدیث:6741
غیبت؛ زناسے بڑا جرم ہے۔
حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی رحمہ اللہ فرمایاکرتےتھے کہ زنا کی منشا باہ ہے اور غیبت کی منشا جاہ ہے، جاہ ؛ باہ سے بڑا جرم ہے اس لیے غیبت زناسے بڑا جرم ہے۔
جو باہ والا مسئلہ ہے یہ بہت جلدی ختم ہوجاتاہے، ایک کانٹاچبھے ختم، دوتھپڑ لگیں ختم اور جاہ والامرض ختم نہیں ہوتا۔ یہ حب جاہ کامرض اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
اعراب کے دعویٰ ایمان کی حقیقت:
﴿قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾﴾
بنواسد ایک قبیلہ تھا۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے۔ انہوں نے دل سے ایمان قبول نہیں کیا بلکہ یہ لوگ مدینہ کے مال میں سے کچھ مال لینا چاہتے تھے اس لیے آکر کہا کہ حضور! ہم تو مؤمن ہیں ہمیں بھی مال چاہیے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہمارااحسان دیکھو! باقی لوگ تم سے لڑےہیں اور پھر کلمہ پڑھاہے اور ہم نے بغیر لڑے کلمہ پڑھاہے، ا س لیے ہماراحق زیادہ بنتاہے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان آیات میں ان کے جھوٹے دعوے کی تردید کی گئی ہے۔
فرمایا: یہ دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اے پیغمبر! آپ ان سے فرما دیجیے کہ تم ایمان تو نہیں لائے، البتہ یہ کہو
﴿اَسۡلَمۡنَا﴾
کہ ہم نے ظاہری طور پر خود کو تمہارے سپرد کر دیا ہےاور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اور اگر تم دل سے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانون گے تو
﴿لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا﴾
اللہ تمہارے اعمال کے اجر میں کچھ بھی کمی نہیں کرے گا۔بے شک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔
﴿اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾﴾
ایمان والے تو وہ ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول کو دل سے مانتے ہیں پھر اس میں شک بھی نہیں کرتے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مال اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔ یہی لوگ سچے ہیں۔
﴿قُلۡ اَتُعَلِّمُوۡنَ اللہَ بِدِیۡنِکُمۡ ؕ وَ اللہُ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۶﴾﴾
اے پیغمبر! آپ ان سے فرما دیجیے کہ کیا تم اللہ کو اپنے دین کی خبر دیتے ہو کہ ہم ایمان والے ہیں، دیندارہیں، حالانکہ اللہ ان چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔
﴿یَمُنُّوۡنَ عَلَیۡکَ اَنۡ اَسۡلَمُوۡا ؕ قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ اِسۡلَامَکُمۡ ۚ بَلِ اللہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ ہَدٰىکُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾﴾
یہ لوگ ایسے ہیں کہ آپ پر احسان جتلاتے ہیں کہ یہ اسلام لے آئے ہیں۔ آپ ان سے فرما دیں کہ تم اپنا احسان مجھ پر مت جتلاؤ بلکہ اگر تم واقعی اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی۔
ایمان اور اسلام میں فرق:
یہاں صرف اتنی بات سمجھیں کہ ا س آیت سے معلوم ہوتاہے کہ ایمان اور اسلام میں مبداکے اعتبارسے فرق ہے اور منتہیٰ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے یعنی دل سے ماننا اور اسلام نام ہے اپنے ظاہر کو اللہ اور اللہ کے رسول کے تابع کرنے کا۔
اب ایمان معتبر اس وقت ہو گا کہ جب آدمی دل سے تصدیق بھی کرے اور اس کا اظہار انسان کے ظاہر پر ہو۔ جس کا سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ اپنی زبان سے کہے "لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ "ایک مرتبہ اپنی زبان سے پوراکلمہ "لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ "کہنا فرض ہے۔ اگر کوئی شخص یہ نہیں کہتااور صرف دل سے مانتاہے تو ایساشخص مؤمن نہیں کہلا سکتا۔
ایک تو یہ آیت آپ کےسامنے آگئی اور دوسری حدیث جبرائیل ہے کہ جب جبرائیل امین علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
”أَخْبِرْنِىْ عَنِ الْإِسْلَامِ“
حضور! فرمائیے کہ اسلام کیاہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ وَتُقِيْمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِىَ الزَّكَاةَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا
کہ اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کر، زکوٰۃ ادا کیا کر، رمضان کا روزہ رکھا کر اور اگر طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج ادا کر۔
تو یہاں پانچ چیزیں ارشاد فرمائیں۔ پھر پوچھا:
”فَأَخْبِرْنِى عَنِ الْإِيْمَانِ“
کہ ایمان کیاہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ چیزیں فرمائی ہیں:
أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَيْرِهٖ وَشَرِّهٖ.
کہ اللہ کو ماننا، اللہ کے فرشتوں کو ماننا، خدا کی آسمانی کتابوں کو ماننا، اللہ کے رسولوں کو ماننا، آخرت کے دن کو ماننا اور اچھی یا بری تقدیر کو ماننا۔ یہ ایمان ہے۔
سنن ابی داؤد، رقم: 4695
تو یہاں چھ چیزیں بیان فرمائیں اس سے بظاہر معلوم ہوتاہے کہ اسلام اور ایمان میں فرق ہے۔
اور جب ہم میت پر جنازہ پڑھتےہیں تو دعا پڑھتے ہیں:
"اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَكَبِيْرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ. "
سنن الترمذی، رقم: 1024
یہاں بظاہر معلوم ہوتاہے اسلام اور ایمان میں فرق ہے۔ تو یہ فرق لغوی معنی اور مبداکے اعتبار سے ہے لیکن منتہی اور انجام کے اعتبار سے دونوں میں فرق نہیں ہے۔ ایمان وہی معتبر ہوگا جس میں اسلام بھی ہو اور اسلام وہی معتبرہوگا جس میں ایمان بھی ہو۔ اس لیے بعض موقع پر صرف اسلام کا ذکر آتاہے اور بعض موقع پر صرف ایمان کا ذکر آتاہے۔
ہم جنازے میں دعامانگتےہیں کہ اللہ زندہ رکھے اسلام پر اورموت دے ایمان پر۔ کیوں کہ ایمان نام ہے دل سے ماننے کااور اسلام نام ہے ظاہر پر عمل کرنے کا۔ بوقت موت انسان عمل نہیں کرسکتاصرف دل سے مان سکتاہے۔ اب ایک بندے کے ذمہ دس سال کی نمازیں ہیں، اب اس کو توبہ کی توفیق ہوگئی۔ اس نے نمازیں قضاپڑھنی شروع کردیں۔ پانچ دن بعد موت کا وقت آ گیا۔ اب وہ دس سال کی نمازیں پڑھ تونہیں سکتا لیکن مان توسکتاہے۔
ایک بندے نے بیس سال زکوٰۃ نہیں دی۔ اس نے توبہ کرلی۔ اس نے نیت کی کہ میں اپنی ساری زکوٰۃ اداکرو ں گا۔ اب زکوٰۃ دے تو نہیں سکتالیکن مان توسکتاہے۔ایک شخص پر حج فرض تھا۔ اس نے ادا نہیں کیا۔ اب اس نے نیت کی کہ میں ان شاء اللہ اس سال ضرور حج کروں گا کہ اس سے پہلےموت کا وقت آ گیا۔ اب حج کرتونہیں سکتا لیکن مان تو سکتاہے۔
اس لیے دعامانگی جاتی ہے کہ اے اللہ! زندگی اسلام والی دے اور موت ایمان والی دے! آپ نے کبھی بھی کسی بزرگ کو دعامانگتے ہوئے یہ نہیں سناہوگا: اے اللہ! ہم سب کا خاتمہ بالاسلام فرمادے۔ یہ دعاہوتی ہے کہ اے اللہ! خاتمہ بالایمان فرمادے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ موت کے وقت آدمی مان سکتاہے اور عمل کرنا اس کے بس میں نہیں ہے تو پھر آدمی دعاایمان کی کرتاہے۔
اللہ ہم سب کو اسلام والی زندگی دے اور ایمان والی موت عطافرمادے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․