سورت قٓ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورت قٓ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿قٓ ۟ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾ بَلۡ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ فَقَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا شَیۡءٌ عَجِیۡبٌ ۚ﴿۲﴾﴾
سورۃ ق کی اہمیت:
حضرت ام ہشام بنت حارثہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارا گھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے ساتھ تھا، دو سال تک ہمارا تنور بھی ایک رہا جس تنور میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روٹیاں پکتیں تھیں اسی میں ہماری روٹیاں بھی پکتی تھیں۔ مجھے سورت ق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن سن کر یاد ہو گئی کیونکہ جمعے کے دن خطبہ جمعہ میں سورت ق پڑھنا آپ کا معمول تھا۔
صحیح مسلم، رقم 873
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نماز میں کبھی سورت ق اور اقتربت الساعۃ کی تلاوت فرماتے تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ نمازِ فجر میں بکثرت سورۃ ق کی تلاوت فرماتے تھے لیکن یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص اعجاز تھا کہ لمبی سورتوں کے باوجود آپ کی نماز بہت ہلکی محسوس ہوتی تھی۔
کفار کے دو تعجبات:
﴿ قٓ ۟ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾ بَلۡ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ فَقَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا شَیۡءٌ عَجِیۡبٌ ۚ﴿۲﴾﴾
﴿ قٓ﴾
یہ حروفِ متَشابہات میں ہے جس کا معنی اللہ ہی کو معلوم ہیں۔ قرآن مجید کی قسم ! مضمونِ قسم محذوف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے، آپ لوگوں کو قیامت سے ڈراتے ہیں۔
﴿بَلۡ عَجِبُوۡۤا﴾
چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ بات قبول کرتے لیکن ان لوگوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک انسان کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ کافر لوگ یہ کہنے لگے کہ ہم مر جائیں گے، مٹی ہو جائیں گے تو کیا پھر دوبارہ اٹھیں گے؟ یہ بہت مشکل اور عجیب بات ہے۔
گویا یہ کافر دو باتوں پر تعجب کرتے ہیں:
1: نبی کے بشر ہونے پر۔
2: اس بات پر کہ دوبارہ پھر اٹھائے جائیں گے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مشرک اور آج کے مشرک دونوں کی فکر ایک ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کا مشاہدہ تھا اور ان کا مشاہدہ نہیں ہے، اس لیے مشاہدے کی بنیاد پر انہوں نے بشر مانا لیکن نبی نہیں مانا اور یہ نبی تو مانتے ہیں لیکن بشر نہیں مانتے اور ہم اھل السنۃ والجماعۃ بشر بھی مانتے ہیں اور نبی بھی مانتے ہیں۔
﴿قَدۡ عَلِمۡنَا مَا تَنۡقُصُ الۡاَرۡضُ مِنۡہُمۡ ۚ وَ عِنۡدَنَا کِتٰبٌ حَفِیۡظٌ ﴿۴﴾﴾
اللہ فرماتےہیں کہ تم اٹھنے کی بات کرتے ہو جب تم مر جاؤ گے اور مٹی تمہارے جسم کو کھائے گی اور تمہارے جسم کو کم کر دے گی تو ہم یہ بھی جانتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں ان اعضاء کو جن کو مٹی کم کر دے گی۔ ہمارے پاس لوح محفوظ میں سب لکھا ہوا محفوظ ہے۔
جسم کے بعض اعضا وہ ہیں جن کو مٹی نہیں کھاتی مثلاً ریڑھ کی ہڈی کا جز و اصلی جس سے انسان بنتاہے اس کو مٹی نہیں کھاتی۔ کبھی قبر اکھڑے تو اس میں ہڈیاں پڑی ہوئیں نظر آتی ہیں، ان کو مٹی نہیں کھاتی اور بعض اعضاء کو مٹی کھاتی رہتی ہے اور جسم کم ہوتا رہتا ہے، ہم تو اس کو بھی جانتے ہیں۔
﴿بَلۡ کَذَّبُوۡا بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ فَہُمۡ فِیۡۤ اَمۡرٍ مَّرِیۡجٍ ﴿۵﴾﴾
اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس جب سچ آیا تھا تو ان لوگوں نے اسے اسی وقت ہی جھٹلا دیا تھا اور اب عجیب تضاد کا شکار ہوئے پڑے ہیں۔
یعنی صرف یہ نہیں کہ ان کو تعجب ہے بلکہ یہ تکذیب بھی کرتے ہیں۔ بسا اوقات انسان کو بعض چیزوں پر تعجب ہوتا ہے لیکن تکذیب نہیں کرتا۔ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ اس بات کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ اتنا بڑا درخت ہے اور ایسا عمدہ پھل ہے! لیکن ہم تکذیب تو نہیں کرتے۔ تو یہ لوگ تعجب بھی کرتے تھے اور تعجب سے بڑھ کر تکذیب بھی کرتے تھے۔
اب دیکھیں! وہ لوگ جو تعجب کرتے تھے بلکہ انکار کرتے تھے کہ اللہ ہمارے وجود کو دوبارہ کیسے پیدا فرمائیں گے تو اس انکار کی دووجہیں ہو سکتی ہیں: یا تو یہ کہ انسان کے جسم میں موجود ہونے کی صلاحیت نہیں، یا یہ کہ اللہ ان کے موجود کرنے پر قادر نہیں ہے۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ وجود میں صلاحیت نہ ہو تو یہ بات تو غلط ہے۔ انسان کا جسم تو موجود ہے، نہیں تھا تو موجود ہوا۔ تو صلاحیت کا انکار تو ہو نہیں سکتا۔ پھر انکار اس بات کا ہو گا کہ اللہ قادر نہیں ہے۔ تو اس کی تردید کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا:
قدرتِ باری تعالیٰ:
﴿اَفَلَمۡ یَنۡظُرُوۡۤا اِلَی السَّمَآءِ فَوۡقَہُمۡ کَیۡفَ بَنَیۡنٰہَا وَ زَیَّنّٰہَا وَ مَا لَہَا مِنۡ فُرُوۡجٍ ﴿۶﴾﴾
ہماری قدرت دیکھنی ہے تو آسمان کو دیکھو! کہ ہم نے ان کے اوپر آسمان کیسے بنایا! اور اس کو خوبصورت بنایا، اس آسمان میں کسی قسم کا رخنہ نہیں پڑا!
﴿وَ الۡاَرۡضَ مَدَدۡنٰہَا وَ اَلۡقَیۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍۭ بَہِیۡجٍ ۙ﴿۷﴾ ﴾
اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور اس میں پہاڑ گاڑھ دیے اور اس میں ہر قسم کی خوشنما چیزیں اگا دی ہیں۔ جب اللہ یہ کر سکتا ہے تو کیا تمہارے وجود کو پیدا نہیں کر سکتا؟
﴿تَبۡصِرَۃً وَّ ذِکۡرٰی لِکُلِّ عَبۡدٍ مُّنِیۡبٍ ﴿۸﴾ ﴾
ہم نے زمین میں جو کچھ پیدا کیا یہ سب اس لیے پیدا کیاتاکہ ایک تو دانائی حاصل ہو اور پھر بینائی حاصل ہو! حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان القرآن میں دو لفظ استعمال فرمائے؛ دانائی اور بینائی ہر اس شخص کے لیے کہ جو رجوع کرتا ہے۔
علوی ماحول با برکت ہے:
﴿وَ نَزَّلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَکًا فَاَنۡۢبَتۡنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الۡحَصِیۡدِ ۙ﴿۹﴾﴾
ہم آسمان سے برکت والا پانی اتارتےہیں۔ پھر اس کے ذریعے باغات اگاتے ہیں اور غلے کے دانے اگاتے ہیں جنہیں کاٹا جاتا ہے۔
اب دیکھیں! جو پانی اوپر سے نیچے آیا اس کو بابرکت فرمایا، اس لیے کہ وہاں ماحول ایسا ہے۔ ایک ہمارا ماحول ہے سِفلی یعنی نیچے والا، ایک ماحول ہے علوی اوپر والا، اوپر والے ماحول میں گناہ نہیں ہیں اس لیے وہاں پر برکات زیادہ ہیں، نیچے والے ماحول میں گناہوں کی وجہ سے برکات کم ہو جاتی ہے۔
بعض ایسی چیزیں ہیں کہ جن کے وجود میں برکت ہے۔ مثلاً مسجد،قرآن وغیرہ ان کے وجود میں برکت ہے۔ تو یہاں جتنے گناہ آتے رہیں گے ان کے وجود کی برکت ختم نہیں ہو گی، خارجی برکات کم ہو جائیں گی اور جو اوپر کا ماحول ہے وہاں وجود میں بھی برکت ہے اور ماحول بھی ایسا ہے کہ وہاں برکتیں ہوتی ہیں۔
یہ بات ذہن میں آئے تو ایک اشکال ختم ہو جاتا ہے۔ ایک ایسے ہمارے عالم جو صوفی مزاج تھے تو انہوں نے کہا کہ بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہے۔ قرائن کیا ہیں؟ کہ انسان کی توجہ جب بھی نیک کام کی طرف ہو تو اوپر جاتی ہے۔ آدمی جب دعائیں مانگتا ہے تو رجوع اوپر ہو جاتا ہے، جب نیک اعمال ہوتے ہیں تو وہ بھی اوپر جاتے ہیں۔ تو اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اوپر ہے۔
میں نے انہیں کہا کہ وجہ یہ نہیں ہے، دیکھو! ایک معاملہ ہے انسان کی روح کا اور ایک معاملہ ہے نفس کا۔ انسان جو نفس ہے وہ ہے مرغوباتِ طبعیہ کا نام جو ٹھیک نہیں ہے اور روح ایک مستقل الگ چیز ہے، روح اوپر سے آتی ہے، ہمیشہ اب یہاں کے نفسانی آمیزش میں ملوث ہو کر روح میں بھی نحوستیں آتی ہیں، روح بھی ملوث ہوتی ہے اور پھر ناپاکی کی طرف جاتی ہے نفسانی خواہشات میں ملوث ہو نے کی وجہ سے۔ فرق کیا ہے کہ روح چونکہ اوپر سے آئی ہے تو روح کی ترقیات کے لیے اوپر کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اور روحانی ترقیات کا نام ہے کہ انسان پاکیزگی اختیار کرے اور ناپاکیوں سے بچے۔ زمین کا ماحول ناپاکیوں کا ہے اور آسمانی ماحول پاکیوں کا ہے۔ تو جب روح کو ترقیات چاہییں ہو ں گی تو وہ اس محل کی طرف رجوع کرے گی جہاں ماحول پاک ہو گا، وہ اوپر والا ماحول ہے۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ اللہ اوپر ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اوپر کا ماحول پاک ہے اور اوپر کے ماحول کے پاک ہونے کی وجہ سے روح کی توجہ اس طرف ہوتی ہے۔ نیچے والا ماحول چونکہ گناہوں کی وجہ سے ناپاک ہے اور اوپر کا ماحول بالکل پاک ہے، نورانی ماحول ہے، ملائکہ کا ماحول ہے، گناہوں کا تصور نہیں ہے اس لیے جب بھی تقویٰ مطلوب ہو تو روح اوپر کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ اللہ اوپر ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوپر ماحول پاکیزہ ہے۔
رزقِ خداوندی:
﴿وَ النَّخۡلَ بٰسِقٰتٍ لَّہَا طَلۡعٌ نَّضِیۡدٌ ﴿ۙ۱۰﴾﴾
اور کھجوروں کے اونچے اونچے درخت ہیں،
﴿لَّہَا طَلۡعٌ نَّضِیۡدٌ﴾
جس کے خوشے تہہ بہ تہہ ہوتے ہیں۔
﴿رِّزۡقًا لِّلۡعِبَادِ ۙ وَ اَحۡیَیۡنَا بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا ؕ کَذٰلِکَ الۡخُرُوۡجُ ﴿۱۱﴾﴾
یہ چیزیں ہم نے اپنے بندوں کو رزق دینے کے لیے پیدا کی ہیں۔ برکت والے پانی سے ہم بنجر زمین کو آباد کر دیتے ہیں۔
﴿کَذٰلِکَ الۡخُرُوۡجُ﴾
جس طرح پانی سے مردہ زمین کو زندہ کرتے ہیں اسی طرح تم بھی نکل کر ہمارے سامنے آ جاؤ گے! یہ کیا مشکل ہے ہمارے لیے؟
منکرینِ انبیاء کا کچھ تذکرہ:
﴿ کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ اَصۡحٰبُ الرَّسِّ وَ ثَمُوۡدُ ﴿ۙ۱۲﴾ وَ عَادٌ وَّ فِرۡعَوۡنُ وَ اِخۡوَانُ لُوۡطٍ ﴿ۙ۱۳﴾﴾
اب اللہ نے اپنے پیغمبر کو تسلی دی ہے کہ یہ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو اس سے پہلے بھی نوح علیہ السلام کو جھٹلایا ہے اور کنویں والی قوم نے اپنے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلا دیا تھا اور قوم ثمود نے بھی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا۔ اور قوم عاد نے بھی جھٹلایا اور قوم فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا اور قومِ لوط نے بھی جھٹلایا۔
کنویں والے کون ہیں؟
﴿اَصۡحٰبُ الرَّسِّ وَ ثَمُوۡدُ﴾
حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ آپ پر تقریباً چار ہزار افراد ایمان لائے اور بقیہ ایمان نہیں لائے۔ ان منکرین کی شرارتیں بڑھ گئیں تو ان کو تباہ کر دیا گیا۔ حضرت صالح علیہ السلام پر جو چار ہزار لوگ ایمان لائے تھے آپ ان کو لے کر چلے گئے اور ایک جگہ پر آباد ہوئے۔ جہاں آباد ہوئے وہاں ایک کنواں بھی تھا۔ عربی زبان میں کنویں کو
”الرس“
بھی کہتے ہیں۔ اس کنویں کے ساتھ جو آباد تھے اس لیے ان کو کہتے ہیں
”اصحاب الرس“
۔ حضرت صالح علیہ السلام کی وفات اسی جگہ پر ہوئی اور جب موت آئی تو کہا :
”حَضَرَ مَوْتٌ“
کہ صالح علیہ السلام پر موت حاضر ہو گئی ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی وفات ہو گئی، اس کے بعد سے لے کر اب تک اس جگہ کا نام پڑ گیا
”حضرموت “
۔ یہ قوم ایک عرصہ وہاں رہی ارو بت پرستی میں مبتلا ہو گئی۔ اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے ایک اور نبی بھیجا۔ اس قوم نے اس پیغمبر کی نافرمانی کی اور اسے قتل کر دیا تو خدانے اس قوم کو بھی ہلاک کر دیا۔
﴿وَّ اَصۡحٰبُ الۡاَیۡکَۃِ وَ قَوۡمُ تُبَّعٍ ؕ کُلٌّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیۡدِ ﴿۱۴﴾﴾
”ایکہ“ کہتے ہیں گھنے جنگل کو۔ حضرت شعیب علیہ السلام جس قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے وہاں گھنے جنگلات تھے۔ ”تبع“ یمن کے بادشاہ کا لقب ہے۔ تو فرمایا کہ: اصحاب الایکہ نے بھی اپنے نبی کو جھٹلایا اور قوم تبع نے بھی جھٹلایا۔ ان میں سےہر ایک نے پیغمبر کو جھٹلایا تو ہمارا عذاب ان پر آ گیا۔
﴿اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ﴿٪۱۵﴾﴾
اور کسی کو بنا نہ سکنے کی تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی بناتے بناتے تھک جائے۔ اللہ نے اس وجہ کی بھی تردید فرما ئی اور فرمایا: کیا ہم پہلی بار پیدا کرنے پر تھک گئے ہیں؟ ہرگز نہیں! بلکہ یہ لوگ دوبارہ پیدا کرنے کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے:
﴿وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَ نَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِہٖ نَفۡسُہٗ ۚوَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶﴾﴾
تم پیدائش کی بات کرتے ہو! ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اس کے دل کے خیالات کو بھی جانتے ہیں اور ہم تو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
رگیں دو قسم کی ہیں؛ ایک وہ جو جگر سے نکلتی ہیں اور جسم میں خون پہنچاتی ہیں۔ انہیں ”ورید“ کہتے ہیں۔ اور دوسری ان سے باریک رگیں ہیں جو دل سے نکلتی ہیں اور خون کی لطیف بھاپ -جسے ہم روح کہتے ہیں- اس کو پورے جسم میں پہنچاتی ہیں، انہیں ”شریان“ کہتے ہیں۔ تو ”شریان“ اور ”ورید“ یہ اطباء کے ہاں الگ الگ ہوتی ہیں۔
لیکن عربی لغت کے اعتبار سے ”ورید“ رگ کو کہتے ہیں خواہ وہ جگر سے نکلے، خواہ وہ دل سے نکلے۔ یہاں
﴿الۡوَرِیۡدِ﴾
سے کون سی رگ مراد ہے؟ تو مفسرین فرماتے ہیں کہ مناسب یہ ہے کہ یہاں ورید سے مراد شریان یعنی قلب سے نکلنے والی باریک رگیں مراد ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قلب کی حرکت کے بند ہونے کی وجہ سے انسان پر موت آتی ہے۔ جو رگیں جگر سے نکلتی ہیں اور خون پہنچاتی ہے ان سے موت کا تعلق نہیں ہے، خون سے باریک جو غبار ہے جسے ہم روح کہتے ہیں موت کا تعلق اس سے ہے۔ تو جب شریان والی رگ کٹتی ہے تو بندے پر بہت جلد موت طاری ہو جاتی ہے۔ کئی بندوں کے جگر نکل جاتے ہیں لیکن بندہ نہیں مرتا لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ دل نکال کر پھینک دیں اور پھر بھی بندہ زندہ رہ جائے، ایسا نہیں ہوتا بلکہ بندہ مر جاتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہاں ”ورید“ سے مراد یہی رگیں لی جائیں۔
﴿وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ﴾....
اس آیت کے تحت تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اصحاب الظواہر جو علماء ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں ”قرب“ سے مراد قربِ علمی ہے اور جو اصحاب باطن اور صوفیا ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد قربِ ذاتی ہے۔
معیتِ ذاتیہ کا بیان:
حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور اللہ کی صفات میں تلازم ہے، جہاں صفت ہو گی وہاں اللہ کی ذات ہو گی، ایسا نہیں ہو سکتا کہ صفت ہو اور وہاں اللہ کی ذات نہ ہو۔ تو اگر قربِ علمی مان بھی لیں تو قربِ علمی کو قربِ ذاتی لازم ہے۔ قربِ ذاتی پھر بھی وہاں پر موجود ہو گا۔
مکاتیب رشیدیہ ص 42
اس لیے اس سے اس وسوسے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ قربِ علمی ہے، قرب ذاتی نہیں ہے۔
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ یہاں قرب سے مراد اتصالِ علمی اور احاطۂ علمی ہے اور صوفیاء کی رائے یہ ہے کہ یہاں قرب سے مراد صرف قربِ علمی اور احاطۂ علمی ہی نہیں بلکہ ایک خاص قسم کا اتصال ہے جس کی کیفیت اور حقیقت کسی کو معلوم نہیں لیکن یہ قرب و اتصال بلا کیف موجود ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اس پر دلائل بھی موجود ہیں مثلاً
﴿وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡ ﴿٪ٛ۱۹﴾﴾، ﴿اِنَّ اللہَ مَعَنَا ۚ﴾، ﴿اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ﴾
وغیرہ ایسے دلائل موجود ہیں جن سے یہ خاص قسم کی معیت ثابت ہوتی ہے۔
﴿وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ﴾....
اس پر ایک چھوٹی سی بات مجھے یاد آ گئی۔ اب یہ سمجھانا کہ اللہ کیسے بندے کے ساتھ ہیں یہ کتنا مشکل ہے! مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اتصالے

بے مثال و بے قیاس

ہست

رب الناس را با جانِ ناس

اللہ کا اتصال بندوں کی ذات سے ایسے ہے کہ جو بے مثال وبے قیاس ہے، اس کو سمجھانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔
﴿اِذۡ یَتَلَقَّی الۡمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الۡیَمِیۡنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ قَعِیۡدٌ ﴿۱۷﴾﴾
جب بندہ کوئی کام کرتا ہے تو دائیں بائیں جانب بیٹھنے والے دو فرشتے لکھ لیتے ہیں۔
﴿مَا یَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿۱۸﴾﴾
جب بھی کوئی بات بندے کی زبان سے نکلتی ہے تو وہاں ایک نگران متعین ہے۔
﴿وَ جَآءَتۡ سَکۡرَۃُ الۡمَوۡتِ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنۡہُ تَحِیۡدُ ﴿۱۹﴾﴾
اور موت کی بے ہوشی کا وقت یقیناً آ پہنچا اور یہی وہ چیز ہے جس سے اے انسان تو بھاگا کرتا تھا۔
﴿وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡوَعِیۡدِ ﴿۲۰﴾ وَ جَآءَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّعَہَا سَآئِقٌ وَّ شَہِیۡدٌ ﴿۲۱﴾ لَقَدۡ کُنۡتَ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا فَکَشَفۡنَا عَنۡکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الۡیَوۡمَ حَدِیۡدٌ ﴿۲۲﴾﴾
قیامت کے دن صور پھونکا جائے گا، یہی وعید کا دن ہے۔ ہر شخص آئے گا تو اس کے ساتھ ایک ہنکانے والاہو گا اور ایک اس کے اعمال پر گواہ ہو گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اسی دن کے بارے میں تو غافل تھا آج ہم نے تیرے سارے پردے ہٹادیے ہیں۔ اب دیکھو! تمہاری نگاہ کتنی تیز ہو گئی ہے!
﴿وَ قَالَ قَرِیۡنُہٗ ہٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیۡدٌ ﴿ؕ۲۳﴾﴾
اس کا ہمنشین ایک فرشہ کہے گا: یہ دیکھو! یہ اعمال نامہ میرے پاس محفوظ ہے۔
﴿اَلۡقِیَا فِیۡ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیۡدٍ ﴿ۙ۲۴﴾ مَّنَّاعٍ لِّلۡخَیۡرِ مُعۡتَدٍ مُّرِیۡبِۣ ﴿ۙ۲۵﴾﴾
پھر دوفرشتوں کو حکم ہو گا کہ تم ہر کافر کو اور ہر سرکش کو جہنم میں ڈال دو جو نیکی سے روکنے والا تھا، حد سے تجاوز کرنے والا تھا اور شک ڈالنے والا تھا۔
﴿الَّذِیۡ جَعَلَ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَاَلۡقِیٰہُ فِی الۡعَذَابِ الشَّدِیۡدِ ﴿۲۶﴾﴾
جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا رکھا تھا، اس لیے تم اس شخص کو سخت عذاب میں ڈال دو!
﴿قَالَ قَرِیۡنُہٗ رَبَّنَا مَاۤ اَطۡغَیۡتُہٗ وَ لٰکِنۡ کَانَ فِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۲۷﴾ قَالَ لَا تَخۡتَصِمُوۡا لَدَیَّ وَ قَدۡ قَدَّمۡتُ اِلَیۡکُمۡ بِالۡوَعِیۡدِ ﴿۲۸﴾ مَا یُبَدَّلُ الۡقَوۡلُ لَدَیَّ وَ مَاۤ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿٪۲۹﴾﴾
اور شیطان کہے گا کہ اللہ ! میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود گمراہ ہوا ہے۔ اللہ فرمائیں گے: میرے پاس اب جھگڑا نہ کرو، ہم تو پہلے ہی تمہیں تمہارے برے انجام کی وعید سنا چکے ہیں اور جو بات ہمارے ہاں طے شدہ ہو تو وہ تبدیل نہیں ہوتی اور ہم بندوں پر ظلم بھی نہیں کرتے۔
جہنم سے سوال اور اس کا جواب:
﴿یَوۡمَ نَقُوۡلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امۡتَلَاۡتِ وَ تَقُوۡلُ ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ ﴿۳۰﴾﴾
اس وقت کو بھی یاد رکھو جب ہم جہنم سے کہیں گے کہ کیا تمہارا پیٹ بھر گیا ہے؟ تو وہ کہے گی: کیا کچھ اور بھی ہے؟
قرآن کریم میں ہے:
﴿لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾﴾
ھود11: 119
کہ اللہ جہنم کو بھر دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ جب جہنم کو بھر دیں گے تو پھر کیوں پوچھیں گے کہ کیا تمہارا پیٹ بھر گیا ہے؟ اور وہ کہے گی کہ اور چاہیے! بظاہر دونوں میں تعارض ہے۔
جواب یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ جہنم کو تو لوگوں سے بھر دیا جائے گا اور پھر پوچھیں گے کہ کیا تم بھر چکی ہو اور جہنم کہے گی کہ مجھے اور چاہیے تو ا س کا معنی یہ نہیں ہے کہ جہنم میں مزید جگہ ہو گی، بلکہ یہ صرف تحدیداً اور زجر کے لیے ہو گا کہ اور لاؤ... اور لاؤ... جو لوگ پہلے سے جہنم میں ہوں گے تو اس سے ان پر خوف طاری ہو جائے گا۔
متقین کا انعام:
﴿وَ اُزۡلِفَتِ الۡجَنَّۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ غَیۡرَ بَعِیۡدٍ ﴿۳۱﴾ ہٰذَا مَا تُوۡعَدُوۡنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیۡظٍ ﴿ۚ۳۲﴾﴾
جنت کو متقین کے بالکل قریب کر دیا جائے گا اور یہ قطعاً دور نہیں ہو گی۔ یہی ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ یہ چیز ہر اس بندے کے لیے ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو اور اپنی حفاظت کرنے والا ہو۔
﴿مَنۡ خَشِیَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَیۡبِ وَ جَآءَ بِقَلۡبٍ مُّنِیۡبِۣ ﴿ۙ۳۳﴾﴾
جو اللہ سے بن دیکھے ڈرتا ہو اوررجوع کرنے والا دل لے کر آتا ہو۔
﴿ادۡخُلُوۡہَا بِسَلٰمٍ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡخُلُوۡدِ ﴿۳۴﴾ لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ فِیۡہَا وَلَدَیۡنَا مَزِیۡدٌ ﴿۳۵﴾﴾
حکم ہو گا : امن و سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ، یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ جنتیوں کو ہر وہ چیز ملے گی جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس تو بہت کچھ اور بھی ہے۔
﴿وَ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ ہُمۡ اَشَدُّ مِنۡہُمۡ بَطۡشًا فَنَقَّبُوۡا فِی الۡبِلَادِ ؕ ہَلۡ مِنۡ مَّحِیۡصٍ ﴿۳۶﴾﴾
ان لوگوں سے پہلے کتنے لوگوں کو ہم نے ہلاک کر دیا جو طاقت میں اِن سے بڑھ کر تھے، وہ لوگ مزید قوت حاصل کرنے کے لیے شہروں میں پھرتے تھے، کیا ان کے بھاگنے کی کوئی جگہ ہے؟
عبرت کون حاصل کرتا ہے؟
﴿اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ ﴿۳۷﴾﴾
اس میں اس شخص کے لیے عبرت کا سامان ہے جو دل رکھتا ہو یا دل سے متوجہ ہو کر کان لگاتا ہو۔
یہاں پر دو قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا کہ عبرت وہ شخص حاصل کرتا ہے جس کے پاس قلب ہو، قلب سے مراد عقل سلیم ہو اور جس کے پاس عقل تو کم ہو لیکن توجہ سے سنتا ہو۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں کہ یہاں دو قسم کے بندوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک
﴿لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ﴾
وہ لوگ جو مشائخ ہیں اور دوسرا
﴿اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ﴾
کہ جو سالکین ہیں۔ ایک ہوتا ہے بڑے مقام پر فائز ہونا اور ایک ہوتا ہے اس کے پیچھے چلنے والا۔ بڑے مقام والے کو تو شرح صدر ہوتا ہے اور دوسرے کو شرح صدر نہیں ہوتا لیکن بات توجہ سے سنتا ہے اور اعتماد کر لیتا ہے۔
﴿وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ٭ۖ وَّ مَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ ﴿۳۸﴾﴾
ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کو چھ دنوں کی مقدار میں پیدا فرمایا۔ ہمیں اس بنانے میں تھکاوٹ کا احساس تک بھی نہیں ہوا۔
مخالفت کا حل ؛ صبر اور تسبیحِ خداوندی:
﴿فَاصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ وَ قَبۡلَ الۡغُرُوۡبِ ﴿ۚ۳۹﴾ وَ مِنَ الَّیۡلِ فَسَبِّحۡہُ وَ اَدۡبَارَ السُّجُوۡدِ ﴿۴۰﴾﴾
میرے پیغمبر! آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہیں سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے کے بعد۔ رات کے حصوں میں بھی اللہ کی تسبیح کرو اور سجدوں کے بعد بھی تسبح کرو!
یہ بات کیوں سمجھائی؟ ا س لیے کہ جب کوئی بندہ مخالفت کرتا ہے اور مخالفت سن کر تکلیف ہو تو تکلیف سے بچنے کا طریقہ خود کو کسی دوسرے کام میں مشغول کرنا ہے۔ بس اس سے تکلیف کم ہو جائے گی۔ پھر مشغولیت اچھی ہو تو سبحان اللہ کیا کہنے! تو اللہ نے فرمایا کہ میر ے پیغمبر! ان کی باتوں پر صبر کیجیے! باقی جو تکلیف ہوتی ہے اس سے بچنا کیسے ہے؟ تو فرمایا:
﴿وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ﴾
کہ عبادات میں خود کو مشغول کر لو، صبح شام ذکرو اذکار میں لگ جاؤ! اب یہ پریشانی کم ہو جائے گی۔ دیکھو! قرآن نے جو نسخہ بتایا ہے اس نسخے کو پلے باندھ لو۔
جب بھی آپ دین کا کام کریں گے تو مخالفت ہو گی۔ اس کا پہلا حل تو ہے کہ اس مخالفت پر صبر کریں اور دوسرا یہ کہ خود کو کسی اور کام میں مشغول کریں۔ وہ دوسرا کام تسبیحات اور عبادات کا ہے۔ اس سے آدمی کو صبر کی توفیق ملتی ہے اور آدمی تسلی اور دل جمی کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔
ہمارا یہ بہت بڑا المیہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص مخالفت کرے تو ہم اس کی مخالفت کا رونا روتے ہیں، ہر وقت مخالفت کا ذکر کرتے ہیں، پھر جواب میں مخالفت شروع کرتے ہیں، اس سے نقصان ہوتا ہے اور نفع نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بندہ آپ کی بات نہ سمجھے یا آپ کی مخالفت کرے تو آپ اس کی مخالفت نہ کریں، اس کی مخالفت کا ہر وقت ذکر نہ کریں، اس سے غیبت کی بیماری شروع ہو جاتی ہے اور آپس میں نفاق آتا ہے، افتراق آتا ہے، لڑائیاں اور جھگڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے مواقع پر بس خاموش ہو جاؤ ! اب جب خاموش ہوں گے تو تکلیف ہو گی، اس تکلیف سے بچنے کے لیے اپنی توجہ ہٹا دو! جب بندے کی توجہ ہٹ جاتی ہے تو تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ ہم اپنی توجہ نہیں ہٹاتے بلکہ پھر اسی بات پر، پھر اسی بات پر دھیان دیتے ہیں اور اس کا خیال لاتے رہتے ہیں تو پھر اس سے بہت نقصان ہوتا ہے۔
﴿وَ اسۡتَمِعۡ یَوۡمَ یُنَادِ الۡمُنَادِ مِنۡ مَّکَانٍ قَرِیۡبٍ ﴿ۙ۴۱﴾﴾
سنو! جب ایک منادی بہت قریب سے آواز دے گا۔
﴿یَّوۡمَ یَسۡمَعُوۡنَ الصَّیۡحَۃَ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡخُرُوۡجِ ﴿۴۲﴾﴾
اس دن ہر بندہ یقیناً اس چیخ کو سنے گا اور یہی وہ دن ہو گا جب اٹھ کر سامنے آئیں گے۔
﴿اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیٖ وَ نُمِیۡتُ وَ اِلَیۡنَا الۡمَصِیۡرُ ﴿ۙ۴۳﴾ یَوۡمَ تَشَقَّقُ الۡاَرۡضُ عَنۡہُمۡ سِرَاعًا ؕ ذٰلِکَ حَشۡرٌ عَلَیۡنَا یَسِیۡرٌ ﴿۴۴﴾﴾
ہم ہی ہیں جو زندہ بھی کرتے ہیں اور مارتے بھی ہیں اور ہماری طرف ہی تمہارا لوٹنا ہو گا۔اس دن زمین پھٹ کر ان کو اس طرح باہر کرے گی کہ وہ لوگ تیزی سے چل پڑیں گے۔ یہ جمع کرنا ہمارے لیے بہت آسان ہے۔
﴿نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِجَبَّارٍ ۟ فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾﴾
جو کچھ یہ کہتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں، آپ ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہیں۔ آپ قرآن کریم سے ذریعے نصیحت ہر اس بندے کو کریں جو وعیدسے ڈرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ڈرے گا تب اس پر اس وعید کا اثر ہو گا اور جو ڈرتا نہیں ہے اس پر کیا اثر ہو گا!اللہ ہم سب کو دین کی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․