سورۃ النجم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ النجم
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی ۙ﴿۱﴾مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی ۚ﴿۲﴾ وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾﴾
سورت کی خصوصیت اور شانِ نزول:
سورۃ النجم پہلی وہ سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: عجیب بات یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں جب سورت نجم نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھرے بازار میں جہاں مؤمن اور کافر سب جمع تھے اس سورت کی تلاوت فرمائی اور آیت سجدہ پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں چلے گئے۔ صحابہ کرام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں سجدے میں چلے گئے اور جو تمام کفار تھے ان پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سجدے میں گر گئے۔ ایک کافر ایسا تھا جو سجدے میں نہیں گیا، اس نے مٹی زمین سے اٹھالی اور اپنے ماتھے پر لگائی اور کہاکہ میرا سجدہ یہی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ اس شخص کو حالت کفر پر قتل ہوتے ہوئے میں نے خود دیکھاہے۔ اس نے کبر اختیار کیا تو اس کا نتیجہ یہی ہوا کہ وہ کفر ہی پہ مراہے۔
حضور علیہ السلام کا جبرئیل امین کو دو بار دیکھنا:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبرائیل امین کا دومرتبہ دیدار ہوا ہے۔ ایک مرتبہ معراج سے پہلے اور ایک مرتبہ معراج کے موقع پر۔ معراج سے پہلے دیدار اس زمانے میں ہوا جو فترت وحی کا زمانہ تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی کے بعد چھ ماہ یا تین سال تک جو وحی نہیں آئی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل امین کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا تھا کہ جبرائیل امین مشرق کی جانب جہاں سورج طلوع ہوتاہے، وہاں پہ کھڑے ہیں اور آپ کے جسم پر چھ سو پر ہیں اور پورے مشرق اور مغرب کو ایسے ڈھانپ رکھاہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہوگئے جبرائیل امین کو دیکھ کر۔
اور دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر دیکھا ہے سدرۃ المنتہی کے پاس۔ یہ سدرۃ المنتہی ایک بیری کا درخت ہے اور یہ ساتویں آسمان کے اوپر ہے۔ بیری کو عربی میں ”سدرۃ“ کہتے ہیں اور ”منتہیٰ“ کا معنی ہوتا ہے ”انتہائی جگہ“۔ نیچے سے جو نیک اعمال جاتےہیں وہ سدرۃ پر پہنچتے ہیں اور وہاں سے ملائکہ اوپر لے جاتےہیں اور اوپر سے جو احکام آتےہیں وہ ملائکہ سدرۃ تک چھوڑتےہیں پھر اگلے فرشتے وہاں سے ان احکامات کو نیچے لاتےہیں۔ تو یہ درمیان میں ایک جگہ ہے جیسے جنکشن ہوتا ہے، یہ اللہ نے جگہ بنائی ہے اور اسی کے پاس پھر جنت ہے۔ تو جنت سات آسمانوں کے اوپر ہے، اوپر پھر اللہ کی عرش کی چھت ہے، اس کےنیچے جنت ہے۔ تو یوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل امین کو دو بار دیکھا ہے۔
اگلی جوآیات آرہی ہے ان آیات میں یہی مراد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ حضرت جبرئیل کو دیکھا ہے۔ البتہ بعض مفسرین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے یہ بھی ہے کہ ان آیات میں جو دوسری باردیکھنا مراد ہے وہ اللہ رب العزت کی ذات کا دیدار ہے۔ دونوں رائے ہیں۔ دونوں طرح کے اقوال ملتے ہیں۔
حضور علیہ السلام کو تسلی:
﴿وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی ۙ﴿۱﴾مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی ۚ﴿۲﴾﴾
قسم ہے ستارے کی جب وہ اوپر سے نیچے آئے، تمہارے ساتھی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہی راستہ بھولےہیں اور نہ ہی غلط راستےپر چلے ہیں۔
”صَاحِبُکُمۡ“
کہہ کر یہ تسلی دی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے ایک بشر ہیں، کوئی الگ نہیں ہیں تو اس سے بندے کو اُنس پیدا ہوتاہے۔
ضلال اور غویٰ میں فرق ہے:
ضلال․․․ کہتے ہیں کہ کوئی شخص راستہ بھول جائے اور اسے راستہ نہ ملے اور غویٰ․․․ کہ کوئی شخص غلط راستہ پر چل پڑے۔ تو فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو ضلال ہیں اور نہ ہی غویٰ ہیں یعنی نہ ایساہے کہ آپ کو راستہ نظر نہیں آتااور نہ ایساہے کہ آپ غلط راستےپر چل پڑےہیں۔
حضو ر علیہ السلام اپنی طرف سے کوئی بات نہیں فرمائے!
﴿وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾﴾
اور آپ اپنی خواہش سےبات نہیں فرماتےہیں بلکہ آپ کی بات وحی ہوتی ہے جو آپ کو بھیجی جاتی ہے۔ اور وحی بھی کون لاتاہے؟ فرمایا:
﴿عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی ۙ﴿۵﴾ذُوۡ مِرَّۃٍ ؕ فَاسۡتَوٰی ۙ﴿۶﴾وَ ہُوَ بِالۡاُفُقِ الۡاَعۡلٰی ؕ﴿۷﴾ ﴾
وحی لانے والا طاقتور ہے،
﴿ذُوۡ مِرَّۃٍ﴾
جو فطرتاً طاقت ور ہے کسی کی وجہ سے طاقت ور نہیں بنا۔ مراد حضرت جبرائیل امین ہیں۔
”فَاسۡتَوٰی“
وہ جبرائیل امین اپنے پاؤ ں پر کھڑے ہوئے اور وہ افق کے اوپر والے کنارے کی طرف تھے تاکہ نظر آئیں۔
حبرئیل اور حضور کا قرب:
﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۙ﴿۸﴾ فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی ۚ﴿۹﴾﴾
پھر حضرت جبرائیل امین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گئے،
﴿فَتَدَلّٰی﴾
پھر مزید قریب ہوئے اور کتناقریب ہوئے فرمایا
﴿فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ﴾
قوسان کے فاصلے کے برابر،
﴿اَوۡ اَدۡنٰی﴾
بلکہ اس سے بھی قریب ہوئے۔
اصل میں ایسےتھاکہ اگر عربوں کے دوقبیلوں میں مخالفت ہوتی، پھر وہ دونوں مخالفت ختم کرکے آپس میں صلح کرلیتے توا س کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ہاتھ پر ہاتھ مارتے تھے اور دوسراطریقہ یہ تھاکہ ہاتھ پہ ہاتھ نہیں مارتے بلکہ وہ دونوں کمان لیتے اور کمان کا ایک پچھلاحصہ ہوتا ہے اور ایک اگلاحصہ ہوتا ہے جہاں دھاگہ لگا ہوتا ہے اور دوسری کمان کی مڑی ہوئی لکڑی کی جگہ ہوتی ہے، تو وہ لوگ لکڑی کی جگہ اپنی طر ف رکھتے اور دھاگے کی جگہ دوسری طرف رکھتے اور دھاگے سے دھاگا ملاتے۔
”قاب“ کسے کہتے ہیں، ذرا اسے سمجھیں! مثلاً یہ کمان بنی ہوئی ہے، ایک طرف یہ لکڑی ہے اور دوسری طرف یہ دھاگہ ہے۔ اس لکڑی اور اس کے بالمقابل جو دھاگہ ہے اس کے درمیانی فاصلہ کو قاب کہتے ہیں۔ یہ فاصلہ تقریباً ایک ہاتھ کے برابر ہوتا ہے۔ تو جب عرب لوگ دوستی کرتے تو کمانوں کو یوں پکڑتے اور لکڑی والا حصہ اپنی طرف رکھتے اور رسی والا حصہ دوسرے کی طرف کرتے۔ یوں یہ رسیاں آپس میں مل جاتیں اور ان دونوں آدمیوں کے درمیان فاصلہ دو قاب کا ہوتا تھا۔
تو اب مطلب یہ ہے کہ حضرت حبرئیل علیہ السلام اتنے قریب ہو گئے جتنا دو قاب کا فاصلہ ہوتا ہے تقریباً ایک ذراع کے برابر، ”اَوۡ اَدۡنٰی “ بلکہ اس سے بھی قریب ہو گئے۔ دونوں کمانیں تو آپس میں ملیں گی لیکن دونوں کے درمیان پھر بھی فاصلہ رہے گا لیکن جبرائیل امین جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے یہ فاصلہ بھی ختم ہوگیا اور قریب ہو گئے۔
یہ بتانامقصود ہے کہ جب دودشمنوں کی صلح ہوتی ہے، ان کا جب قرب ہو تو قرب جسمانی ہوتاہے اور جبرائیل امین کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو قرب ہواہے یہ صرف قرب جسمانی نہیں ہے بلکہ یہ قرب روحانی بھی ہے، ان کے نظریات بھی ایک ہیں۔ دولڑنے والے صلح کرتےہیں، کبھی نظریہ ایک نہیں ہوتا، بس عارضی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہوکر جنگ ختم کرتےہیں اور جبرائیل امین اورحضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم جو آپس میں قریب ہیں وہ نظریاتی طور پر بھی قریب ہیں اور جسمانی طور پر بھی قریب ہے۔
دوسری رؤیت سے کون مراد ہے؟
﴿فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی ﴿ؕ۱۰﴾﴾
اور اللہ رب العزت نے اپنے بندے کی طرف جو وحی فرمانا چاہی وہی وحی فرمائی ہے۔
اب جوحضرات فرماتےہیں کہ
”ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی“
سے مراد اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ وہ دونوں آپس میں قریب ہوئے ہیں تو اس میں تاویل کرنی پڑتی ہے کہ قریب ہونا اور مزید قریب ہونا ذات کے اعتبار سے یہ تو اس میں ہوتا ہے کہ جس کا جسم ہو اور وہ جبرائیل امین ہیں۔ اللہ تو جسم سے پاک ہے۔ اب ان کے قرب سے مراد قربِ تجلی لیں گے توتاویل کرنی پڑے گی۔ بلاتاویل اگر قرب مراد لیں گے تو وہ جبرائیل امین کاہوگا اور اگر اللہ کا قرب مراد لیں گے تو وہ تاویل کے ساتھ ہوگا۔ تو جو بلاتاویل ہو اور صاف صاف بلاتکلف نظرآتاہے وہ قرب حضرت جبرائیل امین کاہے۔
تو جو حضرات کہتے ہیں کہ اللہ کا قرب ہے تو ان کی دلیل
﴿فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی﴾
ہے کہ یہ جملہ درمیان میں آرہا ہے کہ پھر اس نے وحی بھی کی، تو وحی تو اللہ کرتےہیں اس لیے قرب سے مراد اللہ کا قرب ہے۔
لیکن ہم کہتے ہیں کہ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ قرب جبرائیل امین کا ہے لیکن اس وقت جبرائیل امین اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپس میں قریب ہوئے ہیں لیکن قرب بلاوحی نہیں تھابلکہ بواسطہ جبرائیل امین وحی اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ توجبرائیل امین کو قریب بھی کیا ہے اور ایسے موقع پر وحی بھی نازل کی ہے۔
بسااوقات یہ ہوسکتاہے کہ آپ جبرائیل امین کو دیکھیں اور وحی نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دیکھیں بھی اور وحی بھی ہو۔ تواس سےاُنس اور بڑھ جاتاہے یعنی آپ پر وحی آتی اور جبرائیل امین کو دیکھے بغیر آتی، محض ان کی آوازہوتی تھی اور جسم نہیں ہوتاتھا۔ اب اگر جسم ہو اور آواز نہ ہوتو آواز کی شناخت نہیں ہوگی اور اگر جسم اور آواز دونوں ہوں تو آئندہ بغیردیکھے جب وحی آئے گی تو شناخت اور آسان ہوجائے گی۔
اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ویسے بھی یقین ہوتاہے لیکن وہ مشاہدے والا یقین بھی ساتھ شامل ہوجاتاہے۔
﴿مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾﴾
جو کچھ آپ نے آنکھ سے دیکھاہے دل نے اسی کی تصدیق کی ہے، ایسانہیں ہوتاکہ آدمی آنکھ سے دیکھتاہے لیکن دل اس کی تصدیق نہیں کرتا۔
مثلاً آدمی دور دیکھتاہے کہ وہ دھواں ہے، دل کہتاہے کہ نہیں، دھواں نہیں ہے دھول ہے۔ اب دیکھو! آنکھ دیکھ رہی ہے لیکن دل اس کی تصدیق نہیں کررہا۔ اب آپ گرمیوں میں سڑک پر دیکھتے ہوں تو یوں لگتاہے کہ جیسے پانی ہے حالانکہ پانی نہیں ہوتا، دل کہتاہے کہ یہ سراب ہے، تو اب آنکھ تو دیکھ رہی ہے لیکن دل تکذیب کررہاہے۔
فرمایا: یہاں ایسانہیں تھا بلکہ جو آنکھ دیکھ رہی تھی دل اس کی تصدیق بھی کررہاتھا۔
﴿اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ﴿۱۲﴾﴾
اور جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کیا تم اس میں شک کرتے ہو؟ حالانکہ یہ شک والی بات نہیں ہے۔
﴿ اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ﴿۱۲﴾وَ لَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۱۳﴾ عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی ﴿۱۴﴾ ﴾
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار اس کو دیکھا۔ کہاں؟
﴿عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی﴾
سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اب دیکھو! یہاں
﴿اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی﴾
فرمایا، یہ نہیں فرمایا کہ
”اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا قَدْ رَاٰی “۔
اگر
”عَلٰی مَا قَدْ رَاٰی“
ہو تو اس سے مراد ہو گا کہ جو پہلے دیکھ چکے ہیں۔ لیکن یہاں
”عَلٰی مَا یَرٰی“
ہے کہ جو کچھ اب آپ نے دیکھا ہے وہ بھی ٹھیک ہے اور جو آئندہ دیکھیں گے وہ بھی ٹھیک ہے، دونوں پہ شک نہیں کرنا۔
اب یہاں
”عَلٰی مَا یَرٰی“
آیا ہے اور آگے صیغہ ”رَاٰہُ “ پھر ماضی کا آ گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئندہ دیکھنا بھی ایسے یقینی ہے جیسے پہلے دیکھنا یقینی تھااور جب ہونے والے کام پر یقین ہو تو پھر وہاں پر صیغہ ماضی لاتے ہیں کہ یہ ایسے ہے جیسا کہ ہوچکاہے، اتنایقین ہونا چاہیے۔
﴿عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی﴾
بیری کے پاس جوکہ بالکل آخر میں ہے،
﴿عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی ﴾
سدرۃ المنتہی کے پاس جنت ہے۔ ماْوٰی کہتے ہیں رہنے کی جگہ کو، رہنے کی جگہ جنت ہے جہاں ابدی رہیں گے۔
﴿اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۶﴾﴾
جب بیری کو اس چیز نے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا۔
کس نے ڈھانپا؟کہتےہیں کہ سونے کے پروانے تھے یاملائکہ تھے جنہوں نے ڈھانپا ہواتھا۔
﴿مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ﴿۱۷﴾﴾
نہ تو آنکھ ادھر ادھر ہٹی ہے اور نہ ہی حد سے بڑھی ہے۔
زاغ اور طغیٰ میں فرق:
زاغ یہ ہے کہ ایک آدمی کسی چیز کو دیکھناچاہتاہے لیکن پھر دیکھناچھوڑ دیتاہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ نے ایسانہیں کیا بلکہ جس کو دیکھنا تھا اسی کو دیکھتی رہی۔ اور طغی کا معنی یہ ہے کہ جس کو دیکھنا تھا اس کے ساتھ اور چیزوں کو بھی دیکھنا شروع کر دے، یہاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ نے ایسا نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو دیکھنا تھا صرف اسی کو دیکھا۔ تو نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ دیکھنے میں چوک گئی ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ نے کئی چیزوں کو دیکھنا شروع کیا۔
جو کام ذمہ ہو وہیں کریں!
اس میں ایک بات یہ سمجھ لیں کہ پیغمبر کی شان یہ ہے کہ نبی وہی کام کرتاہے جس کا حکم ہوتاہے اور اس کے ساتھ وہ کام نہیں کرتاجس کا حکم نہ ہو۔ اس سے یہ اصول سمجھ میں آتاہے کہ ادب کا طریقہ یہ ہے کہ جوکام ذمے نہ ہواس کو چھوڑ دیں اور جو ذمے لگے اسی کو کریں۔ اس سے آدمی کی ترقی بہت جلد ہوتی ہے اور بطور خاص طلبہ اور مریدین کو ان چیزوں کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔ مثلاً آپ سبق پڑھ رہے ہیں؛ دورانِ سبق بڑی سے بڑی شخصیت آ جائے تو طالب علم کو چاہیے کہ نگاہ اٹھاکر بھی نہ دیکھے، صرف اپنے سبق کو دیکھتارہے۔ ہاں اگر استاد ہی کہہ دیں کہ سبق بند کردو اور دروازہ کھول دو تو اور بات ہے، جب تک استاد نہ کہیں تب تک طالب علم کو نگاہ نہیں اٹھانی چاہیے۔ اسی طرح جب مرید اپنے شیخ کی مجلس میں ہو تو پھر اس کے شیخ سےبڑا شیخ بھی آجائے تو پھر مرید کو دائیں بائیں نہیں دیکھنا چاہیے، اس کے بغیر فائدہ مکمل نہیں ہوتا۔
نفع اپنے شیخ ہی سے ہوتا ہے․․․ مثال:
حضرت مولانا رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ فرماتےتھے کہ نکاح سے پہلے بیوی کو سوچ لیناچاہیے کہ جس کےساتھ میرانکاح ہوناہے وہ بدصورت ہے یاخوب صورت ہے لیکن جب نکاح ہوجائے تو اب اس کو چھوڑ کر خوب صورت کو دیکھے تو یہ ٹھیک نہیں ہے، اسی طرح جب بیعت کرنی ہے تو دیکھ لو کہ میرا پیر کیساہے؟ لیکن جب بیعت ہوجائیں تو اب دائیں بائیں نہ دیکھو، جس طرح عورت کا شوہر کالابھی ہوتو عورت کو فیض یعنی اولاد اسی شوہر سے ملنی ہے اسی طرح پیر اگر ناقص بھی ہو جب بیعت کریں تو مرید کا ذہن یہ ہوناچاہیے کہ مجھے اب فیض اسی مرشد سے ملناہے۔ پھر اس کو فیض ملتاہے وگرنہ نہیں ملتا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔
ہاں جب عورت یہ سمجھےکہ میراشوہر ایسے ایسےہے، میرا اس سے نبھانہیں ہو سکتاتو پھر احسن طریقے سے اس سے علیحدگی کرے، خلع ہوسکتاہے حق مہر دے کر کر الگ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح مرید اگر یہ سمجھے کہ مجھے شیخ سے فائدہ نہیں ہو رہا تو پھر احسن طریقے سے شیخ کوچھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیارکرے لیکن جب تک اس کے ساتھ تعلق رکھیں تو مکمل تعلق رکھیں، پھر اس کو دھوکہ نہ دیں۔
اللہ کی بڑی بڑی نشانیوں کا دیدار:
﴿لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۸﴾﴾
آپ نے وہاں اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں بھی دیکھی ہیں۔
یہاں ایک دوباتیں سمجھ لیں؛
[۱]: پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ
﴿وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾﴾
پیغمبر جب بھی کوئی بات فرماتے ہیں تو وحی سے فرماتے ہیں۔ اگر مراد معانی اورالفاظ دونوں ہوں تو اس کا نام قرآن ہے اور اگر مراد یہ ہو کہ معنی بتادیا جائے اور الفاظ نہ بتائے جائیں تو اس کا نام حدیث ہے اور اس کو سنت بھی کہہ دیتے ہیں۔، اور یہ جو لفظ بتایاجارہاہے یامعنی بتایاجارہاہے کبھی حکمِ خاص یعنی جزئی کی وحی آتی ہے تو پیغمبر وہ بتاتے ہیں اور کبھی خاص جزئی کی نہیں بلکہ قاعدہ کلیہ کی وحی آتی ہے تو نبی وہ بتاتےہیں۔
اب اس قاعدہ کلیہ سے پیغمبر اجتہاد کرکےجزئی خود نکالتےہیں جو نبی کا اجتہاد ہوتاہے، اگر وہ اجتہاد صواب ہو تو اللہ اس کو برقرار رکھتےہیں اور اگر اس اجتہاد میں خطاہو تو اللہ بعد میں جزئی کی وحی نازل کرکے اس اجتہاد کو ختم فرمادیتےہیں۔
اس لیے پیغمبر کی ہر بات کے وحی ہونے کا معنی سمجھ لیں ورنہ لوگ اعتراض کریں گے کہ جب پیغمبر کی ہر بات وحی ہے تو پیغمبر کے اجتہاد پر بسا اوقات عتاب کیوں آتاہے؟ اور بسااوقات نبی کے اجتہاد کو اللہ ختم کیوں فرماتےہیں؟
[۲]: یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ کبھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مسئلہ جزئی کی صورت میں بطور وحی آتا ہے اور کبھی ایک قاعدہ کلیہ قانون کی صورت میں بطور وحی آتا ہے، پھر پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس قاعدہ کلیہ کے ذریعہ مسئلہ کا استنباط فرماتےہیں، ا س میں اگر خطاہوجائے تو اللہ تعالیٰ وحی نازل فرماکر نبی کی خطا کو ختم فرمادیتےہیں اور پھر دوسرا مسئلہ آتاہے۔
اب اس پر کسی کو شبہ ہو کہ جب تک اس اجتہاد کے مقابلے میں وحی نہیں آئی تب تک تو پیغمبر عمل اس اجتہاد پر کریں گے، جب اس کے مقابلے میں وحی آئی اور اس نے اس اجتہاد کو ختم کردیا تو اب اس اجتہاد کی حیثیت کیاہوئی جو ختم ہوا؟ہم کہتےہیں کہ اس کی حیثیت وہی ہے کہ جیسے کوئی آیت نازل ہوجائے اور جب تک اس کی ناسخ آیت نازل نہ ہو تو اسی آیت پر عمل کیاجاتاہے اور جب اس کی ناسخ آیت آتی ہے توپہلی آیت پر عمل ختم ہوجاتاہے لیکن جس دوران عمل کیاہے اس دوران اس آیت کو غلط نہیں کہتے بلکہ اس پر عمل کا اجر پوراملتاہے۔
﴿وَ مَا کَانَ اللہُ لِیُضِیۡعَ اِیۡمَانَکُمۡ ؕ﴾
البقرۃ2: 143
بیت المقدس کی طرف منہ کیا تھا اور بعد میں وحی آگئی کہ منہ بیت اللہ کی طرف کروتو جتنے ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے وہ نمازیں ضائع نہیں ہیں، وہ مقبول ہیں۔
[۳]: اسی طرح پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم ایک کلیہ سے اجتہاد فرماتےہیں، اس پر عمل کرتےہیں، جب اس اجتہاد کے مقابلے میں نص آجاتی ہے تو جتنے دن اجتہاد پر عمل ہوا وہ اسی طرح قبول ہے جس طرح نص پر عمل کرنا مقبول ہوتاہے۔ وجہ ہے ہے:
﴿وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾﴾
اس کو اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں۔
مشکرین کے بت؛ لات، منات اور عزیٰ:
﴿اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی ﴿ۙ۱۹﴾ وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی ﴿۲۰﴾﴾
”لات“ یہ قبیلہ ثقیف کا بت تھا، ”عزیٰ“ یہ قریش کا بت تھا، ”منات“ بنو ہلال کا بت تھا۔ ان لوگوں نے اپنےاپنے خدابناکے رکھے تھے اور ساتھ مکان بنائےتھے کعبہ کی طرح۔ تو اللہ نے فرمایا کہ یہ جو لات، منات اور عزیٰ تم نے خدا بنا رکھے ہیں کیا ان میں کبھی تم نے غور کیا ہے؟ مطلب کہ یہ پتھروں سے تم بناتے ہو اور پھر ان کو پوجتے ہو! پھر فرمایا:
﴿اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الۡاُنۡثٰی ﴿۲۱﴾تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی ﴿۲۲﴾﴾
اور پھر اپنے لیے تم نے بیٹے پسند کر رکھے ہیں اور خدا کے لیے بیٹیاں طے کر رکھی ہیں! کوئی عقل کی بات کرو۔اس کا معنی یہ نہیں کہ اللہ کے لیے بیٹے مانیں تو ٹھیک ہے بلکہ یہ عرف کی بنیاد پر کہا کہ تم بیٹیاں خود پسند نہیں کرتے تو اللہ کے لیے کیوں مانتے ہو؟ یہ کیسی ظالمانہ تقسیم ہے۔
ان بتوں کی حقیقت!
﴿اِنۡ ہِیَ اِلَّاۤ اَسۡمَآءٌ سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَہۡوَی الۡاَنۡفُسُ ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمُ الۡہُدٰی ﴿ؕ۲۳﴾﴾
ان کی حقیقت یہی ہے کہ یہ چند نام ہیں جو تم اور تمہارے آباء و اجداد نے خود رکھے ہیں، اللہ نے ان پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ یہ کافر لوگ اپنے خیالات کی پیروی کرتےہیں اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آ چکی ہے۔
ایک ظن وہ ہوتاہے جو بے دلیل ہو اور ایک ظن وہ ہوتاہے جو بادلیل ہو لیکن دلیل قطعی نہ ہو۔وہ ظن جو بے دلیل ہو تو اس کا تو کوئی اعتبار ہی نہیں اور وہ ظن اور گمان جو بادلیل ہو لیکن دلیل قطعی نہ ہوبلکہ دلیل ایسی ہو جس میں دوسری چیز کااحتمال بھی ہو جسے دلیلِ ظنی کہتے ہیں، تو اس سے جو حکم ثابت ہوتاہے وہ بھی ظنی ہوتاہے۔ جیسے اخبارِ آحاد سے کوئی حکم ثابت ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ احکام قطعیات میں سے ہیں جو کہ فرض ہیں اور یہ ظنیات میں سے ہیں جو کہ واجب ہیں یا سنت ہیں۔
توگمان ہرجگہ برانہیں ہوتا۔ وہ ظن جو بلادلیل ہو وہ براہوتاہےاور وہ ظن جوبادلیل ہو لیکن دلیل قطعی نہ ہو تووہ گمان قبول بھی ہے اور اس پر عمل کرناواجب بھی ہے۔
﴿ اَمۡ لِلۡاِنۡسَانِ مَا تَمَنّٰی ﴿۫۲۴﴾ فَلِلّٰہِ الۡاٰخِرَۃُ وَ الۡاُوۡلٰی ﴿٪۲۵﴾ ﴾
تو تم کیا سمجھتے ہو کہ انسان جو خواہش کرے گا وہ پوری ہو جائے گی، ایسا کبھی نہیں ہوتا! دنیا اور آخرت کی سب نعمتیں اللہ کے پاس ہیں، اللہ جس کو چاہیں دیتے ہیں۔
﴿وَ کَمۡ مِّنۡ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغۡنِیۡ شَفَاعَتُہُمۡ شَیۡئًا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ یَّاۡذَنَ اللہُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَرۡضٰی ﴿۲۶﴾﴾
فرشتے بھی قیامت کے دن سفارش نہیں کرسکتے سوائے اللہ کی چاہت اور اللہ کے مرضی کے، اللہ چاہیں گے تو وہ سفارش کر سکیں گے اور کسی نے کیاشفاعت کرنی ہے؟
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ لَیُسَمُّوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ تَسۡمِیَۃَ الۡاُنۡثٰی ﴿۲۷﴾ وَ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ ۚ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا ﴿ۚ۲۸﴾ ﴾
یہ کافر لوگ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بتاتے ہیں جس کی ان کےپاس کوئی دلیل نہیں ہے، صرف بے دلیل گمان ہے اور جو بے دلیل گمان ہوتاہے وہ حق کے مقابلےمیں کسی کام نہیں آتا۔
غیروں کے بجائے اپنوں کی فکر کیجیے:
﴿فَاَعۡرِضۡ عَنۡ مَّنۡ تَوَلّٰی ۬ۙ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ لَمۡ یُرِدۡ اِلَّا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ؕ۲۹﴾ ذٰلِکَ مَبۡلَغُہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ۙ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اہۡتَدٰی ﴿۳۰﴾﴾
میرے پیغمبر! آپ ان کی فکر چھوڑیں جو ہمارے ذکر اور ہماری شریعت سے منہ موڑ چکے ہیں، یہ صرف دنیاکی زندگی چاہتے ہیں۔ اور ان کا مبلغ علم یہ دنیاکی زندگی ہے۔ اللہ جانتاہے کہ کون گمراہ ہے اور اللہ جانتاہے کون ہدایت یافتہ ہے۔
اب یہاں دیکھو! اللہ اپنے پیغمبر پاک سے فرمارہے ہیں کہ ان سے اعراض کرو، ان کو باربار سینے سے لگانے کی ضرورت نہیں ہے، چھوڑ دوان کو، یہ جو اپنے ہیں بس ان کی فکر کرو۔ ہماری شریعت کا مزاج یہ ہے کہ جو اپنے ہیں ان کو جوڑو اور جو غیر ہیں ان کی فکر نہ کرو اور جب ہمارامزاج یہ بنے گا کہ ہم غیر کو جوڑیں گے اور اپنوں کو توڑیں گے تو یہ شریعت کے خلاف ہوگا۔ اللہ کو یہ جوڑ نہیں چاہیے۔ بس اپنوں کو جوڑو! اپنوں کو ایساجوڑنا کہ جس میں اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کو ساتھ ملانا پڑے تو یہ جوڑ اللہ کےہاں پسندیدہ نہیں ہے، یہ توڑ ہے، ایسے جوڑ کو ہم نے کیا کرناہے؟!
میں یہ بات اس لیے سمجھارہاہوں کہ ممکن ہے کل آپ کسی ادارہ کے سربراہ بنو، کل آپ کسی جماعت کے سربراہ بنو تواس کا بہت خیال رکھنا! ایساکبھی نہ کرنا کہ جماعت کےسربراہ ہونے پر اپنے محنت کرنے والے کارکنوں کو نظر انداز کر دو اور غیروں کو خوش کرنے کی کوشش کرو! یہ بات مطلوب نہیں ہے۔
دیکھو! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو نیت بھی ٹھیک تھی جب آپ کے پاس حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا صحابی آئے۔ اس وقت بڑے بڑے کافر آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کی تو نیت بھی ٹھیک تھی کہ موقع ملاہے میں ان کو بات سمجھاؤں، اپنے صحابی کو تھوڑا سانظر اندازکیا ٹھیک نیت کے ساتھ لیکن اللہ نے پوری سورت نازل فرما دی
﴿عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾ اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ؕ﴿۲﴾ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی ۙ﴿۳﴾﴾
عبس 80: 1 تا 3
کہ میرے پیغمبر! آپ کیا کر رہے ہیں! کتنی سخت تنبیہ آ گئی ہے۔
اس لیے اپنوں کی فکر کرو جو درد لے کر آیا ہے، جو تڑپ لے کر آیاہے، اس کی فکر کرو، ان کو سنبھالو، باقی سنبھلتے ہیں تو ٹھیک ہے، نہیں سنبھلتے تو جائیں۔ اگریوں نہ سمجھ آئے توپھر اس طرح سمجھ لوکہ ایک عورت تمہارے نکاح میں ہے۔ پہلےکھانااس کو کھلاؤ۔ محلے میں ایک غریب عورت ہے،مستحق وہ بھی ہے لیکن پہلے اپنی بیوی کو کھانا کھلاؤ، یہ زیادہ اہم ہے۔ اپنے بچے بھوکے ہیں، اوروں کے بھی بھوکے ہوں گے، اُن کی فکر بھی کرنی چاہیے لیکن پہلے اپنے بچوں کی فکر کرو، اپنے بچوں کوچھوڑ کر دوسروں کوکھانا کھلانا اور اپنے بھیک مانگتے پھریں یہ شریعت نہیں ہے۔ اسی طرح دینی معاملا ت میں اپنوں کو جوڑو، اپنوں کو!
”جوڑ“ کیجیے لیکن کس سے:
اور جوڑ کے حوالے سے ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں۔ ایک ہیں ہماری موجودہ امت کے افراد اور ایک ہیں امت کے گزرے ہوئے اکابر افراد۔ جوڑ کا ایک مطلب یہ ہے کہ امت کے بعد کے افراد کو اہلِ حق کے پہلے اکابرسے جوڑو تاکہ یہ ان سےنہ ہٹیں، اور ایک معنی یہ ہے کہ بعد والے اکابر سے کٹتے ہیں تو کٹ جائیں، ابھی جو حق اور باطل ہے ان کو جوڑو۔
تو میں حضرات سےکہتاہوں کہ جوڑ کی بات تو ہم بھی کہتےہیں لیکن ہمارےہاں جوڑ کی بات یہ نہیں ہے کہ آج کے حق اور باطل کوجوڑو۔ ہمارے ہاں جوڑ کا پہلامعنی ہے اس امت کے اصاغر کو اس امت کے گزرے ہوئے اکابرسے جوڑوتاکہ یہ دائیں بائیں نہ ہٹیں، اُن کے نظریات پہ چلیں۔ ہم اگر ایک نیا نظریہ دیں گے اور نیا نظریہ دے کر حق اور باطل کو جوڑیں گے تو یہ غلط ہے۔ پرانانظریہ جو اکابر کاتھا وہ پیش کرو تاکہ اس امت کے اصاغر اس امت کے اکابر سے جڑے رہیں۔ اپنے اکابر پر لعنت بھیج کر الگ نہ ہو، اور میں گزارش کرتاہوں کہ اللہ کے لیے محقق نہ بنو،ناقل بنو۔ ہم گزشتہ مسائل پر تحقیق کریں گے تواکابرسے اصاغر کو کاٹ دیں گے اور اگر صحیح ناقل بنیں گے تو آنے والے اصاغرکو جانے والے اکابرسے جوڑدیں گے۔ عافیت امت کو گزشتہ کےساتھ جوڑدینے میں ہے، گزشتہ سے توڑنے میں نہیں ہے۔
گناہ گاروں اور نیکوکاروں کا بدلہ:
﴿وَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۙ لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اَسَآءُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا وَ یَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا بِالۡحُسۡنٰی ﴿ۚ۳۱﴾﴾
آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے۔ اللہ چونکہ مالک ہیں اس لیے برے کو اس کے برے عمل کا بدلہ دیں گے اور نیک کو اس کی نیکی کا بدلہ دیں گے۔
﴿اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الۡمَغۡفِرَۃِ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٪﴿۳۲﴾﴾
جو لوگ بڑے بڑے گناہو ں سے بچتےہیں اور بطور خاص بے حیائی کے کاموں سے بچتےہیں،
﴿اِلَّا اللَّمَمَ﴾
ہاں چھوٹے چھوٹے گناہ ان سے ہوجاتےہیں تو الگ بات ہے، اللہ بہت وسیع مغفرت والےہیں، چھوٹے گناہ معاف فرمادے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں خوب جانتےہیں جب اللہ نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم ماں کے پیٹ میں تھے اللہ اس وقت بھی جانتے ہیں۔ اس لیے اپنے آپ کے پاکدامن ہونے کے دعوے نہ کیاکرو۔
گناہگار کو امید اور نیکو کار کو تنبیہہ:
یہاں دونوں کو بات سمجھائی ہے: ایک
مُسِیئ
اور دوسرا
مُحسِن۔
جو
مُسئی
یعنی گناہ کرنے والاہے وہ ذہن میں رکھے کہ اللہ کی رحمت بہت بڑی ہے، مایوس نہ ہوناکہ ہم تو گناہ گار ہیں ہماری معافی کیسے ہوگی؟ اور جو نیک تھے ان کو بھی سمجھایا کہ نیکی پر اکڑنا مت، جو مجرمین ہیں وہ امیدیں رکھیں اور جو نیک ہیں وہ اکڑیں مت۔ مجرم امید رکھیں اور ہم سے معافی مانگیں اور جو نیک ہیں وہ نیک عمل بھی کریں اور پھر بھی ہم سے معافی مانگیں کہ کہیں نیک عمل کی توفیق سلب نہ ہوجائے۔اللہ پاک نے کیسے دونوں فریقوں کوبات سمجھائی ہے۔
گناہ صغیرہ اور کبیرہ میں فرق:
یہاں فرمایا:
”کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ“۔
ایک ہے گناہِ کبیرہ اور ایک ہے گناہِ صغیرہ۔ کبیرہ اور صغیرہ میں فرق یہ ہے کہ وہ گناہ جس پر نص میں جہنم کی وعید آئی ہو یا وہ گناہ جس پر نص میں لعنت کے الفاظ آئے ہوں، یا وہ گناہ جس پر نص میں کوئی حد مقرر کی گئی ہو تو وہ کبیرہ ہے، اور وہ گناہ جس پر کوئی وعید نہ آئی ہو، لعنت نہ آئی ہو اور اس پر کوئی شرعی حد بھی مقرر نہ ہو تو وہ صغیرہ ہے لیکن اگر صغیرہ پر اصرار کیاجاتاہو وہ بھی کبیرہ بن جاتاہے۔ اسی طرح ایک گناہ صغیرہ ہے لیکن اس کے مفاسد اور نتائج کبیرہ گناہ کی طرح ہوں تو وہ بھی کبیرہ میں شامل ہے۔
اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ وہ ناپسندیدہ ہوتی ہیں، مکروہ ہوتی ہیں،نا مناسب ہوتی ہیں، گناہ صغیرہ ہوتی ہیں لیکن اسی میں اگر نیت بدل جائے تو گناہ کبیرہ ہی نہیں بلکہ کفر تک پہنچ جاتی ہیں۔ میں مثال دیتا ہوں کہ مسجد کا صحن ایساہو کہ وہاں اینٹیں نہیں لگی ہوئیں، وہاں صرف مٹی ہے، صفیں بھی نہیں ہیں، دریاں بھی نہیں ہیں، قالین بھی نہیں ہے، صرف مٹی ہے، اب وہ جگہ پاک ہے اور آدمی کا تھوک بھی پاک ہے۔ اب اگر کوئی شخص کوتاہی کرے، غفلت کرے اور وہاں تھوک دے تو یہ ناپسندیدہ ہے، مکروہ ہے، اگرچہ تھوک پاک ہے لیکن اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا، انتہائی برا کام ہے لیکن لیکن اگر کوئی شخص اسی تھوک کو کسی پاک جگہ پر پھینک دے نفرت کی وجہ سے تو یہ کفرہے۔ اب دیکھو! جرم تو ایک ہی ہے، تھوڑی سی نیت کے بدلنے سے وہ صرف کبیرہ گناہ ہی نہیں بلکہ کفر ہو گیا ہے۔ تو بسااوقات ایک ہی گناہ ہوتاہے، اس کی ایک جہت کو دیکھیں تو صغیرہ ہوتاہے اور دوسری جہت کو دیکھیں تو گناہِ کبیرہ نہیں بلکہ کفر ہوجاتاہے۔
میں اس لیے ہر بات کو سمجھاتاہوں کہ ہربات کی بنیاد پر غور ضرور کیاکریں کہ یہ کام ہم کیوں کرتےہیں؟ پھر خود کو بدلنے کی کوشش کریں وگرنہ نقصان بہت ہوتا ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت․․․:
﴿ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ﴾
فرمایا کہ پاک دامنی کا دعویٰ نہ کرو۔ میں پہلے بتاچکا ہوں کہ کبھی فعل بول کر نفسِ فعل کا معنی مراد ہوتاہے۔ یعنی فعل بول کر اسی فعل کا جو معنی نظر آرہا ہوتاہے وہی معنی مراد لیا جاتاہے، اسے کہتےہیں کہ ”نفسِ فعل“ مراد ہے اور کبھی فعل بول کر نفس فعل نہیں بلکہ ارادہ فعل مراد لیا جاتا ہے۔ جیسے قرآن میں ہے:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ﴾
المائدۃ5: 6
اب یہاں معنی یہ نہیں ہے کہ جب تم نماز کے لیےبالکل کھڑے ہو جاؤ تو اب وضوشروع کرو، بلکہ یہاں معنی یہ ہے کہ جب تم ارادہ کرو قیام الی الصلوٰۃ کا تو اب تم وضو کرو۔ تو یہاں فعل بول کر ارادہ فعل مراد ہے۔
اور بسااوقات فعل بول کردعویٰ فعل مراد ہوتاہے جس طرح یہاں ہے
”فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ“،
اس میں یہ دعویٰ فعل مراد ہے کہ تم نے پاک تو ہوناہے کیونکہ
”قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا “
کامیاب وہ شخص ہے جس نے اپنا تزکیہ کیا۔ تو تزکیہ تو کرنا ہے لیکن یہاں فرمایا کہ
”فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ“
اب یہاں اس کا ترجمہ یہ نہیں کریں گے کہ اپنا تزکیہ نہ کرو بلکہ یہاں معنی ہے کہ تم تزکیہ کا دعویٰ نہ کرو۔ تو یہاں دعویٰ فعل مراد ہے۔ اسی طرح قرآن میں ہے:
﴿قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ﴾
آل عمران 3: 31
کہ اے نبی! ان سے فرماؤ کہ اگر تم اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتےہوتو میری بات مانو۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری بات مانو کیونکہ جو اللہ سے محبت کرتاہے وہ تو اتباع کرے گا۔لیکن یہاں یہ بتانامقصود ہے کہ اگر تمہارا اللہ سے محبت کا دعویٰ ہے نا تو پھر حضور کی اتباع کرو! تو یہاں دعویٰ فعل مراد ہے۔
اور عجیب بات یہ ہے کہ بسااوقات حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اشخاص کے نام بدل دیے صرف اس وجہ سے کہ اس میں دعویٰ تزکیہ کی بوآرہی ہے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہاصحابیہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیانام ہے؟ انہوں نے کہا:
”برہ“۔
فرمایا: بدل دو۔
”برہ“
کامعنی ہوتاہے خود کو نیک سمجھنے والی۔ اس کا نام رکھو”زینب“ ایسے لفظ بدل دیے ہیں کہ جن سے دعویٰ تزکیہ کی بوآتی ہے۔
انفاق کی عادت ڈالیے:
﴿اَفَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی ﴿ۙ۳۳﴾ وَ اَعۡطٰی قَلِیۡلًا وَّ اَکۡدٰی ﴿۳۴﴾﴾
اے پیغمبر!آپ نے بھلا اس شخص کو بھی دیکھا ہے جو روگردانی کرتا ہے، جو تھوڑا سا دیتا ہے اور پھر رک جاتا ہے۔
کدیۃ
اس پتھر کوکہتےہیں کہ جب پانی کے لیے کھودیں تو نیچے سے وہ پتھر نکل آئے اور رکاوٹ بنے۔ کوئی بندہ پیسہ خرچ کرتا ہے اسے مفاد نظر نہیں آتاتو روک لیتاہے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کوئی بندہ نیک عمل شروع کرتاہےاور کچھ عرصے بعد نیک عمل ختم کردیتاہے تو یہ بھی اس میں شامل ہے۔ نیک عمل کریں اور ہمیشہ کریں۔ حدیث پاک میں ہے:
"وَمَا زَالَ عَبْدِيْ يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰى أَحْبَبْتُهٗ."
صحیح البخاری، رقم: 6502
بندے کے عمل میں تسلسل ہو تو اللہ اسے اپنا محبوب بنا لیتے ہیں۔
کیا اس کو علم غیب ہے کہ ایسی باتیں کرتا ہے؟
﴿اَعِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡغَیۡبِ فَہُوَ یَرٰی ﴿۳۵﴾اَمۡ لَمۡ یُنَبَّاۡ بِمَا فِیۡ صُحُفِ مُوۡسٰی﴿ۙ۳۶﴾ وَ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾﴾
کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے جس کو وہ دیکھ رہاہے؟ کیا اس کو ان باتوں کا کوئی علم نہیں ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت ابرا ہیم علیہم السلام کے صحیفوں میں لکھا ہوا ہے؟ کون ابراہیم؟ فرمایا:
”الَّذِیۡ وَفّٰۤی“
کہ ابراہیم وہ تھے جو امتحانات میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان صحیفوں میں باتیں کیا ہیں؟ آگے اٹھارہ آیات میں تقریباً وہی باتیں ہیں جو صحفِ موسی اور صحفِ ابراہیم میں تھیں۔
ان آیات کا پس منظر یہ ہے ایک شخص نے قرآن مجید کی آیات سنیں اور اس کا دل ایمان کی طرف مائل ہو گیا تو اس کو اس کے دوست نے کہا کہ تو اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر نیا دین کیوں اختیار کر رہا ہے؟ یوں اس کو کچھ عار دلائی۔ اس نے کہا کہ میں تو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہوں کہ کہیں آخرت میں میری پکڑ نہ ہو جائے! دوست نے کہا کہ اگر تم مجھے کچھ پیسے دے دو تو میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ آخرت کی پکڑ سے تجھے بچا لوں گا اور تمہارا عذاب اپنے سر لے لوں گا، یوں آخرت کے عذاب سے تم بچ جاؤ گے۔ اس شخص نے اس دوست کو پیسے دیے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اور پیسے مانگے تو اس شخص نے اور پیسے بھی دے دیے لیکن بعد میں دینا بند کر دیے۔ تو ان آیات میں ان دونوں کی حماقت کو بیان کیا جا رہا ہے کہ جو شخص کہہ رہا تھا کہ میں تمہیں آخرت کے عذاب سے بچا لوں گا تو کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ اس بات پر قادر ہے کہ اسے جہنم کے عذاب سے بچا لے؟ اور دوسرا اللہ نے ایک قاعدہ بیان کر دیا کہ
﴿اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی﴾
کہ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اس لیے اس نے جو پیسے دیے تھے کہ وہ آخرت کے عذاب سے مجھے بچا لے تو یہ صرف اس کی حماقت کی بات ہے۔
اس آیت کا ایک عمومی معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص مال خرچ کرتا تھا اور پھر اس کو خیال آیا کہ اگر میں نے خرچ کیا تو مال کم ہوجائے گا اور اب اس نے مال خرچ کرنا چھوڑ دیا تو اسے فرمایا جا رہا ہے کہ
﴿اَعِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡغَیۡبِ فَہُوَ یَرٰی﴾
کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ اس کا پیسہ خرچ کرنے سے ختم ہوجائے گا؟ حالانکہ اللہ کا تو وعدہ ہے:
﴿وَ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخۡلِفُہٗ﴾
سبا34: 39
کہ تم جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو تو اللہ اس کے بدلے میں اور دیتا ہے، اور یہ شخص کہتاہے کہ میرامال ختم ہوجائے گا، فرمایا: اس کے پاس غیب کا علم تھوڑا ہے کہ یہ کہے کہ میرامال ختم ہوجائے گا، اور حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے تھے:
"أَنْفِقْ يَا بِلَالُ! وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلَالًا."
المعجم الکبیر للطبرانی: ج 1ص 269رقم الحدیث:1013
کہ اے بلال! مال کو خرچ کرو اور کمی کا خوف نہ کرو!
اور یہ عجیب بات ہے جس طرح انسان کا جسم ہے، اس کی عمر ستر سال کی ہوجائے تو جسم گھٹتا نہیں ہے، جس قدر جسم سے چیزیں نکلتی جاتی ہیں مثلاً پانی ہے جو پسینے کی صورت میں نکل رہا ہے تو اتنی چیزیں اللہ خوراک کے ذریعے اور پیدا کرتے رہتے ہیں، بالکل اسی طرح جب مال خرچ ہوتارہتاہے تو اللہ اور مال دیتے رہتےہیں۔
”آدمی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا“ کا مطلب:
﴿اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ﴿ۙ۳۸﴾﴾
کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی گناہ کیا ہے تو اس کا بوجھ وہی اٹھائے گا جس نے گناہ کیا ہے،، کوئی دوسرا اس کے گناہ کے بوجھ کو نہیں اٹھائے گا۔ اسی طرح اگر ایک شخص کسی کو گناہ پر لگائے اور دوسرا شخص گناہ کرے تو گناہ کرنے والے کے گناہ کا بوجھ گناہ کرنے والا ہی اٹھائے گا اور جس نے گناہ پر لگایا ہے اس کو گناہ پر لگانے کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
ایصال ثواب پر اشکال کا جواب:
﴿وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۹﴾﴾
اور یہ کہ آدمی کو وہی چیز ملے گی جو آدمی نے خود کیاہوگا، آدمی کو اپنی کمائی ملے گی۔
بعض لوگوں نے اس آیت سے ایصالِ ثواب کا انکار کیاہےکہ یہ آیت ایصال ثواب کے خلاف ہے حالانکہ اس کا ایصال ثواب سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس آیت میں تو صرف یہ بتانامقصود ہے کہ مثلاً کوئی شخص فرض نماز نہ پڑھے، کیونکہ کوئی دوسرا پڑھ کر مجھے دے گا تو مجھے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا: ایسانہیں ہوگا بلکہ جس نے فرض اداکرنے ہیں اس کے فرض کا اجر اسی کوملے گا۔ تو سمجھانا یہ مقصود ہے کہ تمہیں تمہاری اپنی کمائی ملے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی نفلی عبادت کرے اور اس کا اجر تمہارے نامہ اعمال میں ڈالے گا تو تمہیں نہیں ملے گا، یہ معنی اس آیت کا نہیں ہے۔
ایک شخص مسلمان ہے اور دوسراکافر ہے۔ اب مسلمان اگر صدقہ کرے اور کافر کو ایصال ثواب کرے تو بالکل نہیں ہوگااور اگر مسلمان ایصال ثواب مسلمان کو کرے تو پھر ہوجائے گا۔ یہ جو دوسرے کے صدقے کا اجر اس کو ملاہے تو اس میں بھی اس کی محنت کو دخل ہے کہ یہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہواہے ورنہ اسے ثواب کیسے ملتا؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اچھا! فرائض میں بھی تو ایسے ہوتاہے مثلاً ایک آدمی پر حج فرض ہے، وہ نہیں کرسکا، وہ کسی دوسرے کو حج بدل کرا دیتا ہے اور کہتاہے کہ جی اجر مل جائے گا۔ اب یہاں تو دوسرے کے فرض کا اجر مل رہاہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حج بدل کرایاہے تو خرچہ تو اسی نے دیاہے، اگریہ خرچہ نہ دیتاتو حج کیسے اداہوتا؟تو حج بدل بھی اسی کے خرچے کی وجہ سے ہورہاہے۔ اس لیے یہ سعی میں شامل ہے۔
وعظ و نصیحت:
﴿ وَ اَنَّ سَعۡیَہٗ سَوۡفَ یُرٰی ﴿۪۴۰﴾ ثُمَّ یُجۡزٰىہُ الۡجَزَآءَ الۡاَوۡفٰی ﴿ۙ۴۱﴾ وَ اَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الۡمُنۡتَہٰی ﴿ۙ۴۲﴾ ﴾
قیامت کے دن ان کی محنت ان کو دکھادی جائے گی، پھر انہیں پورا بدلہ دے دیاجائے گا اور اللہ ہی کی طرف سب نے پہنچنا ہے۔
﴿ وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَضۡحَکَ وَ اَبۡکٰی ﴿ۙ۴۳﴾﴾
اللہ ہی ہنساتے ہیں اور اللہ ہی رلاتےہیں۔ مطلب یہ کہ ہنسنے کے اسباب اللہ دیتےہیں تو بندہ ہنس پڑتاہے اور رونے کے اسباب دیتےہیں بندہ روپڑتاہے۔
﴿وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَمَاتَ وَ اَحۡیَا ﴿ۙ۴۴﴾ وَ اَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوۡجَیۡنِ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰی﴿ۙ۴۵﴾ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اِذَا تُمۡنٰی ﴿۪۴۶﴾ ﴾
اللہ ہی موت دیتے ہیں، اللہ ہی زندہ کرتے ہیں، ہرچیز میں نر اور مادہ اللہ ہی پیدا فرماتے ہیں اور وہ بھی ایک قطرے سے پیدا فرماتے ہیں جب اسے ٹپکایا جاتا ہے۔
﴿ وَ اَنَّ عَلَیۡہِ النَّشۡاَۃَ الۡاُخۡرٰی ﴿ۙ۴۷﴾وَ اَنَّہٗ ہُوَ اَغۡنٰی وَ اَقۡنٰی ﴿ۙ۴۸﴾ وَ اَنَّہٗ ہُوَ رَبُّ الشِّعۡرٰی ﴿ۙ۴۹﴾ ﴾
اور اللہ نے یہ اپنے ذمے لیا ہے کہ دوبارہ پیدافرمائیں گے، غنی بھی اللہ کرتے ہیں اور مال محفوظ بھی اللہ کرتےہیں۔ شِعریٰ کا رب اللہ ہی ہے۔
”شعریٰ“ ایک ستارے کا نام ہے جسے مکہ والے پوجتے تھے۔ تو ان سے کہا جا رہا ہے کہ شعریٰ کا رب بھی تو اللہ ہے تو تم پھر اس کو کس لیے پوجتے ہو؟!
﴿ وَ اَنَّہٗۤ اَہۡلَکَ عَادَۨ ا الۡاُوۡلٰی ﴿ۙ۵۰﴾ وَ ثَمُوۡدَا۠ فَمَاۤ اَبۡقٰی ﴿ۙ۵۱﴾ وَ قَوۡمَ نُوۡحٍ مِّنۡ قَبۡلُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا ہُمۡ اَظۡلَمَ وَ اَطۡغٰی ﴿ؕ۵۲﴾ ﴾
اللہ نے عادِ اولیٰ کو ہلاک کیا، قوم ثمود کو بھی ہلاک کیاہے۔قوم عاد کے نبی حضرت ہود علیہ السلام تھے اور قوم ثمود کے نبی حضرت صالح علیہ السلام تھے۔ اللہ نے ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑا، اور اس سے پہلے قوم نوح کو بھی ہلاک کیا۔ قوم نوح کے بعد سب سے پہلے جن پر عذاب آیا تھا وہ عادِ اولیٰ تھی، یہ لوگ ظالم اور سرکش تھے۔
﴿وَ الۡمُؤۡتَفِکَۃَ اَہۡوٰی ﴿ۙ۵۳﴾فَغَشّٰہَا مَا غَشّٰی ﴿ۚ۵۴﴾ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکَ تَتَمَارٰی ﴿۵۵﴾﴾
اور جو بستیاں الٹی ہوئی تھیں تو ان کو بھی اللہ نے ہی الٹا کر رکھ دیا تھا، پھر ان بستیوں پر اور جو عذاب آئے وہ تمہیں تو پتا نہیں وہ اللہ ہی جانتے ہیں کہ کتنے عذابوں نے ان کو ڈھانپ لیا! اے لوگو! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں پر شک کرتے ہو! جھگڑتے ہو! اختلاف کرتےہو!
﴿ہٰذَا نَذِیۡرٌ مِّنَ النُّذُرِ الۡاُوۡلٰی ﴿۵۶﴾ اَزِفَتِ الۡاٰزِفَۃُ ﴿ۚ۵۷﴾ لَیۡسَ لَہَا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ کَاشِفَۃٌ ﴿ؕ۵۸﴾ اَفَمِنۡ ہٰذَا الۡحَدِیۡثِ تَعۡجَبُوۡنَ ﴿ۙ۵۹﴾ وَ تَضۡحَکُوۡنَ وَ لَا تَبۡکُوۡنَ ﴿ۙ۶۰﴾ وَ اَنۡتُمۡ سٰمِدُوۡنَ ﴿۶۱﴾ فَاسۡجُدُوۡا لِلہِ وَ اعۡبُدُوۡا ﴿٪ٛ۶۲﴾ ﴾
یہ قرآن بھی ایسی ڈرانے والی کتاب ہے جیسے پہلے ڈرانے والے صحیفے تھے۔ یا
”نَذِیۡرٌ “
سے مراد پیغمبر بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ پیغمبر ایسے ڈرانے والے ہیں جیسے پہلے پیغمبر ڈرانے والے تھے۔ قیامت آرہی ہے، اللہ کے علاوہ کوئی اس کو ہٹانہیں سکتا -اور اللہ تو ہٹائیں گے نہیں- تم ان باتوں پر تعجب کرتےہو؟پھرہنستےہو؟ تمہیں رونانہیں آتا؟ اور تم کھیل کود میں پڑے ہو! اللہ کو سجدہ کرواور اسی کی عبادت کیا کرو۔
﴿فَاسۡجُدُوۡا لِلہِ وَ اعۡبُدُوۡا ﴿٪ٛ۶۲﴾﴾
اس آیتِ سجدہ پر سجدہ کرنا چاہیے۔
اللہ ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․