سورۃ الطور

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ الطور
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ وَ الطُّوۡرِ ۙ﴿۱﴾ وَ کِتٰبٍ مَّسۡطُوۡرٍ ۙ﴿۲﴾ فِیۡ رَقٍّ مَّنۡشُوۡرٍ ۙ﴿۳﴾ ﴾
”طور“
اصل میں اس پہاڑ کو کہتےہیں جس پر سبزہ اگا ہو اور یہاں اس سے مراد ”طور سینا“ ہے۔ اللہ نے قسمیں کھائی ہیں۔ فرمایا:
”وَ الطُّوۡرِۙ﴿۱﴾“
قسم ہےطور کی۔
”وَ کِتٰبٍ مَّسۡطُوۡرٍ ۙ﴿۲﴾ فِیۡ رَقٍّ مَّنۡشُوۡرٍ ۙ﴿۳﴾“
رَقّ کہتےہیں اس باریک چیز کو جو کاغذ کی طرح ہواور عموماً اس کو کاغذ کے لیے استعمال کرتےہیں۔ فرمایا: اور قسم ہے کتاب کی جو کھلے ہوئے کاغذ میں لکھی ہوئی ہے۔ مراد اس سے یا تو لوحِ محفوظ ہے یا اعمال نامہ ہے یا قرآن کریم ہے۔
بیت معمور کیا ہے؟
﴿وَّ الۡبَیۡتِ الۡمَعۡمُوۡرِ ۙ﴿۴﴾﴾
اور قسم ہے بیت معمور کی۔
کعبہ کے بالکل محاذات میں ساتویں آسمان پر ملائکہ کا قبلہ ہے، وہ اس کا وہاں طواف کرتے ہیں۔ ہر روز ستر ہزار فرشتے طواف کرتےہیں۔ جو ایک بار آئے وہ دوبارہ نہیں آتا۔ معراج کی رات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام اسی بیت معمور سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ صلہ کیوں دیا؟اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں کعبہ شروع میں بنا پھر ختم ہو گیا، ابھی جو کعبہ کی بِناء ہے اس کے بانی ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ تو اللہ نے اس کے بدلے میں بیت معمور سے تکیہ لگانے کی نعمت ان کو عطا کی ہے۔
﴿وَ السَّقۡفِ الۡمَرۡفُوۡعِ ۙ﴿۵﴾ وَ الۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِ ۙ﴿۶﴾﴾
اور قسم ہے بلند چھت کی۔ مراد اس سے آسمان ہے۔ اور قسم ہے اس دریا کی جو پانی سے بھرا ہوا ہے یا معنی یہ ہے کہ قسم ہے اس دریاکی جو بھڑکتا ہے۔
یہ جو سمندر اور دریا ہیں یہ آگ بن جائے گی اور امت کو حشر تک دھکیل کر لے جائیں گےاور یہ ساری آگ پھر جہنم کا ایندھن ہو گی۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
اللہ کا عذاب آ کر رہتا ہے:
﴿اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ ۙ﴿۷﴾ مَّا لَہٗ مِنۡ دَافِعٍ ۙ﴿۸﴾﴾
قسم کھا کر بتایا کہ اللہ کے عذاب نے آ کر رہنا ہے، اس عذاب کوکوئی روک نہیں سکتا۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسلمان ہونے سے پہلے میں ایک مرتبہ مدینہ منورہ پہنچا تاکہ جنگ بدر کے جو قیدی تھے ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کروں۔ میں جب پہنچا تو اس وقت فجر کی نماز میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سورت طور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز اتنی بلند تھی کہ مسجدنبوی کے صحن میں بھی جا رہی تھی۔ میں نے اس سورت کی یہ آیت سنی
﴿اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ ۙ﴿۷﴾ مَّا لَہٗ مِنۡ دَافِعٍ ۙ﴿۸﴾﴾
تو میں بالکل گھبرا گیا۔ مجھ پر خوف طاری ہو گیا۔ میں قیدیوں کی بات کرنے کے لیے آیا تھا اور کلمہ پڑھ کر خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیدی بن گیا یعنی مسلمان ہو گیا۔
قرآن پر عمل ہی اصل مقصد ہے:
یہاں یہ بات بہت اچھی طرح یاد رکھیں کہ قرآن کریم کی تفاسیر بیان کرتے ہوئے ہم تفسیری نکات پر بہت توجہ دیتے ہیں اور عمل پر توجہ نہیں دیتے۔ نکات پر نکات، نکات پر نکات بیان ہوں گے تو اس سے کیا ہو گا؟ اصل تو یہ ہے کہ آدمی قرآن پڑھے، قرآن پڑھائے، قرآن سمجھے اور سمجھائے اور اس کو عمل کی توفیق ملے، تفسیری نکات کو بیان کرنا کمال نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کو پڑھ کر عمل پر آ جانا یہ کمال ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی بطور خاص آپ زندگیاں پڑھ لیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرآن کریم کے نکات کتنے ملتے ہیں، بہت کم ملیں گے لیکن ان کی عملی زندگی آپ پڑھ لیں کہ وہ کیسے قرآن کریم پر عمل کرتے تھے۔
میں اس لیے گزارش کرتا ہوں کہ آپ دیکھ لیں کہ پچھلی سورت میں قیامت کا ذکر تھا،اس سورت میں بھی قیامت کا ذکر ہے، ہر سورت میں قیامت کا ذکر بار بار آ رہا ہے۔ یہ قیامت کا ذکر اس لیے نہیں کہ بندہ نکات بیان کرے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ بندہ قیامت کا ذکر سنے اور ڈر جائے، اللہ کے خوف سے کانپ جائے، گناہوں سے توبہ کر لے، اپنی آخرت کی تیاری کر لے۔ قیامت کا ذکر اس لیے ہے۔ اللہ ہمیں آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
قیامت کی ہولناکی اور مجرمین کا انجام:
﴿یَّوۡمَ تَمُوۡرُ السَّمَآءُ مَوۡرًا ۙ﴿۹﴾ وَّ تَسِیۡرُ الۡجِبَالُ سَیۡرًا ﴿ؕ۱۰﴾﴾
جب آسمان کانپنا شروع ہو جائے گا اور پہاڑ چل پڑیں گے یعنی اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔
﴿اِصۡلَوۡہَا فَاصۡبِرُوۡۤا اَوۡ لَا تَصۡبِرُوۡا ۚ سَوَآءٌ عَلَیۡکُمۡ ؕ اِنَّمَا تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۶﴾﴾
دنیا میں آدمی کو تکلیف آتی ہے تو گڑ گڑا پڑتا ہے تو تکلیف دینے والے کو ترس آ جاتا ہے تو کبھی چھوڑ دیتا ہے لیکن آخرت کا معاملہ یوں نہیں ہے، فرمایا: اس جہنم میں داخل ہو جاؤ، اب تم برداشت کرو یا تم برداشت نہ کرو تمہارے لیے برابر ہے، اب تمہارے اعمال کا بدلہ مل کے رہے گا۔ نہ تمہارے رونے سے ہم تمہیں چھوڑیں گے اور نہ تمہارے چپ رہنے سے تمہیں چھوڑیں گے۔ اب چپ رہو یا روتے رہو، اب تم نے رہنا یہیں پر ہے۔ بتاؤ! کتنی خطرناک بات ہے؟ ! اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
متقین کا انعام:
﴿اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ نَعِیۡمٍ ﴿ۙ۱۷﴾ فٰکِہِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمۡ رَبُّہُمۡ ۚ وَ وَقٰہُمۡ رَبُّہُمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۸﴾ ﴾
اس کے مقابلے میں نیک لوگوں کا ذکر کیا ہے کہ متقین باغات میں ہوں گے، اللہ کی نعمتوں میں ہوں گے، خوش ہوں گے ان انعامات میں جو خدانے انہیں دیے ہوں گے۔ ان کا رب ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے گا۔
﴿کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا ہَنِیۡٓـًٔۢا بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿ۙ۱۹﴾﴾
حکم ہو گا کہ مزے سے اب کھاؤ اور پیو، یہ تمہارے اعمال کے بدلے میں تمہیں دیا جا رہا ہے۔
﴿مُتَّکِئِیۡنَ عَلٰی سُرُرٍ مَّصۡفُوۡفَۃٍ ۚ وَ زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ ﴿۲۰﴾﴾
جنتی لوگ نشستوں پر ٹیک لگا کر بیٹھے ہوں گے اور یہ نشستیں ترتیب سے بچھی ہوں گی۔ بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ہم ان کا نکاح فرمائیں گے۔ دعا کریں اللہ ہم سب کو عطا فرمائے۔ (آمین)۔
یہ جو
﴿زَوَّجۡنٰہُمۡ﴾
ہے اس کے بارے میں مفسرین کی دونوں رائے ہیں؛ بعض کہتے ہیں کہ اہلِ جنت کا جنت میں حوروں سے نکاح ہوگا اور یہ نکاح ہونا محض ان کا اعزاز ہو گا، اعزاز کے طور پر یہ اس کی بیوی ہو گی۔
اور بعض کہتے ہیں کہ نکاح نہیں ہو گا بغیر نکاح کے اللہ ان کو دیں گےلیکن
﴿زَوَّجۡنٰہُمۡ﴾
سے مراد ہے جوڑا، یعنی ہم حور دے کر اس کا جوڑا بنا دیں گے۔
دونوں تفسیریں ٹھیک ہیں۔
والدین کی وجہ سے اولاد کے مقام کی بلندی:
﴿وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ مَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ کُلُّ امۡرِیًٔۢ بِمَا کَسَبَ رَہِیۡنٌ ﴿۲۱﴾﴾
والدین جنت میں ہوں گے اور اولاد ان کی ایمان والی ہو گی لیکن اولاد کے اعمال میں کوتاہی ہوگی۔ تو جنت میں والدین کہیں گے کہ اللہ! ہماری اولاد تو نچلے درجے میں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد کو بھی ہمارے والا رتبہ ملے! ان کے اعمال تو والدین کے اعمال کی طرح نہیں تھےلیکن ان کی خواہش کو دیکھ کر اللہ ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کو بھی وہی مرتبہ عطا فرمائیں گے لیکن ایمان شرط ہے۔
اسی طرح حدیث پاک میں ہے کہ بسا اوقات اولاد اوپر والے مقاما ت پر ہو گی اور اولاد کہے گی کہ یا اللہ! میرے ابوجان! میری امی جان ! اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ان میں ایمان تو تھا لیکن تمہاری طرح اعمال نہیں تھے، لیکن اولاد کی خوشی کے لیے اللہ ان کے والدین کو وہاں پہنچادیں گے۔
توسل بالذات کی دلیل:
اب یہاں ایک بات سمجھیں؛ یہ جو ہے
﴿وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا﴾
وہ لوگ جو مؤمن ہیں تو اس سے مراد ذات ہے، کیونکہ
”الَّذِیۡنَ“
ذات ہوتی ہے، آگے
﴿وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ﴾
اور ان کی اولاد نے ان کی اتباع کی ہے ایمان مین یعنی اولاد بھی مؤمن تھے، آگے
﴿اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ﴾
ہم ان والدین کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی ملا دیں گے،
﴿وَ مَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ﴾
اور والدین کے عمل میں کوئی کمی نہیں کریں گے یعنی یہ نہیں کہ ان کو نیچے لے آئیں بلکہ ان کو اسی مقام پر رکھیں گے جس پر وہ تھے اور اولاد کو بھی ان کے مقام پر لے جائیں گے۔
اب دیکھیں! یہ جو اولاد نیک اعمال میں والدین سے کم ہے تو والدین کے ساتھ پہنچ جائیں گے والدین کی وجہ سے، والدین کی برکت سے، والدین کے توسل سے تو یہ ذات کا توسل نہیں ہے تو اور کیا ہے؟! یہ جو اولاد کے اعمال کم ہیں اور اپنے والدین کے پاس پہنچ جائیں گے تو یہ کس وجہ سے پہنچیں گے؟ اپنے اعمال کی وجہ سے یا والدین کی ذات کی وجہ سے؟ (والدین کی ذات کی وجہ سے۔ سامعین) اسی کو تو ذات کا وسیلہ کہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں ذات کا وسیلہ نہیں ہے۔
اب اگر کوئی بندہ کہے کہ یہ ذات نہیں بلکہ والدین کے نیک اعمال تھے تو ان اعمال کی وجہ سے اولاد ان کے مقام پر پہنچی ہے۔ ہم کہتے ہیں: بھائی! ہم جو توسل کرتے ہیں اسی کا کرتےہیں جو نیک ہو، اس کا تو نہیں کرتے جو بد ہو، بحث تو ذات کی ہے لیکن کون سی ذات؟ نیک ذات ! نیک ذات کی وجہ سے ہم توسل کرتے ہیں، بد ذات کی وجہ سے تھوڑی کرتے ہیں! میں اس لیے کہتا ہوں کہ یہ آیت توسل بالذوات پر مستقل دلیل ہے۔ اس کو نوٹ فرما لیں۔
پھر میں ساتھ ساتھ اس خلجان کو بھی دور کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ توسل بالذات پر یہ آپ نے دلیل دی ہے، آپ سے پہلے بھی کسی نے یہ دلیل دی ہے؟ میں کہا کرتا ہوں کہ بھائی! اگر کسی نے نہ دی ہو اور دلیل موجود ہو تو اس میں حرج کی بات کیا ہے؟ ایک مسئلہ پر ہم سے پہلے والے حضرات پانچ دلائل پیش کریں اور ہم چھ پیش کر دیں تو ہم نے کوئی مسئلہ تبدیل کیا ہے کیا؟وہی مسئلہ ہے البتہ دلیل کا اضافہ کیاہے تو اس میں حرج کیا ہے؟
پھل اور گوشت جنت کی خوراک:
﴿وَ اَمۡدَدۡنٰہُمۡ بِفَاکِہَۃٍ وَّ لَحۡمٍ مِّمَّا یَشۡتَہُوۡنَ ﴿۲۲﴾﴾
ہم انہیں پھل بھی دیں گے اور گوشت بھی دیں گے، جو بھی ان کا دل چاہے ا ہم انہیں عطا کریں گے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پھل اور گوشت جنت کی خوراک ہے۔ میں ایک جگہ دستر خوان پر تھا تو تین چار نوجوان لڑکے ساتھ تھے اور ایک بزرگ بھی تھے۔ اب وہ لڑکے ایسے تھے جو پھل نہیں کھا رہے تھے۔ بزرگ پھل شوق سے کھا رہے تھے۔اب عام طور پر ہمارے آج کے جو بچے ہیں یہ پھل شوق سے نہیں کھاتے، چپس کھائیں گے، سلانٹی کھائیں گے، برگرکھائیں گے، سموسے کھائیں گے، پیزے کھائیں گے، شوارمے کھائیں گے لیکن پھل کی طرف ان کی رغبت نہیں ہے، ان کا یہ مزاج بن گیا ہے۔ تو وہ بزرگ ان لڑکوں سے کہنے لگے کہ بیٹا! تم پھل نہیں کھاتے تو جنت میں کیا کرو گے؟ اب یہ بزرگ ان کو دلیل دے رہے تھے کہ جنت میں بھی پھل ہوں گے، لہذا پھل کھانے چاہییں تاکہ پھل کھانے کا مزاج بنے۔
یہ بات یاد رکھنا کہ جنت میں جانے پر اہلِ جنت کا مزاج خود بخود جنت والا ہو جائے گا۔
ملائیشیا میں دیکھ لیں۔ طلبہ صبح بھی چاول کھاتےہیں، دوپہر میں بھی چاول کھاتےہیں اور رات میں بھی چاول کھاتےہیں اور چاول بھی سفید رنگ کے جو پھیکے ہوتے ہیں اورساتھ اس کے عموماً مچھلی ہوتی ہے۔ آپ لوگ نہیں کھا سکتے لیکن وہ کھاتے ہیں۔ تو اس دفعہ جو میرا ملائیشاء کا سفر تھا۔ تو وہاں یہ بات چل پڑی کہ بھائی ہمارے ہاں کھانا یہ ہوتا ہے اور ملائیشاء میں کھانا یہ ہوتا ہے۔ وہاں ہمارے شاگرد ہیں مولانا طاہر صاحب، یہاں مرکز میں انہوں نے تخصص کیا ہے وہاں میرے میزبان وہی ہوتے ہیں؛ انہوں نے مجھے کہا کہ استاد جی ! اصل بات یہ ہے کہ جیسی زمین ہوتی ہے، جیسا موسم ہوتاہے وہاں کے لوگوں کا اللہ تعالیٰ اسی طرح کا پیٹ بناتے ہیں، اس لیے پاکستان کا جیسا موسم ہے وہاں اسی طرح کی خوراک ہوتی ہے اور ہمارا جیسا موسم ہے اسی طرح کا ہمارا پیٹ ہے اور ایسی ہی ہماری خوراک ہے۔
تو وہاں کی جو خوراک ہے اگر وہی خوراک یہاں پنجاب پاکستان والے کھائیں تو ان کے پیٹ برداشت نہیں کریں گے۔ادھر کا موسم ہی ایساہے تو موسم کے مطابق اللہ خوراک دیتے ہیں۔ جب آدمی جنت میں جائے گا تو اللہ پاک اس کا مزاج بھی یوں بنا دے گا۔ اللہ ہم سب کو عطا فرما دیں۔ (آمین)
جنت میں دوستانہ چھینا جھپٹی:
﴿یَتَنَازَعُوۡنَ فِیۡہَا کَاۡسًا لَّا لَغۡوٌ فِیۡہَا وَ لَا تَاۡثِیۡمٌ ﴿۲۳﴾﴾
اہل جنت جنت میں شراب پر ایک دوسرے سے چھینا چھپٹی بھی کریں گے، یہ محبت کی باتیں ہوتی ہیں کہ ایک دوسرے سے جام کھینچیں گے۔ لیکن وہاں نہ تو بیہودگی ہو گی اور نہ ہی کوئی گناہ ہو گا۔ یعنی ایک ہوتا ہے کہ آدمی فضول بک بک کرے وہاں یہ نہیں ہو گا اور سچ مچ گناہ کی باتیں کرے وہاں یہ بھی نہیں ہو گا۔
﴿وَ یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ غِلۡمَانٌ لَّہُمۡ کَاَنَّہُمۡ لُؤۡلُؤٌ مَّکۡنُوۡنٌ ﴿۲۴﴾﴾
اللہ رب العزت جنت میں حوریں بھی عطا فرمائیں گے اور جنت میں خدمت کے لیے بچے بھی عطا فرمائیں گے اور وہ بچے ایسے ہوں گے جیسے چھپے ہوئے موتی ہوتے ہیں یا تو اپنی اولاد ہو گی یا جنتی ہو گی جیسے حوریں ہوں گی اللہ ایسے ہی وہاں کی ایک مخلوق پیدا فرما دیں گے۔
﴿وَ اَقۡبَلَ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ یَّتَسَآءَلُوۡنَ ﴿۲۵﴾ قَالُوۡۤا اِنَّا کُنَّا قَبۡلُ فِیۡۤ اَہۡلِنَا مُشۡفِقِیۡنَ ﴿۲۶﴾ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوۡمِ ﴿۲۷﴾ ﴾
وہاں جنتی ایک دوسرے سے باتیں کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ جب ہم دنیا میں تھے تو بہت ڈر لگتا تھا کہ پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا ہو گا؟! اللہ نے ہم پر کتنا احسان کیا ہے اور ہمیں جھلسانے والی آگ سے بچا لیا ہے۔ اب سمجھ آگئی ہے۔
﴿فَذَکِّرۡ فَمَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَتِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَّ لَا مَجۡنُوۡنٍ ﴿ؕ۲۹﴾﴾
میرے پیغمبر! آپ ان کو نصیحت کریں، اللہ کا کرم ہے کہ آپ کاہن بھی نہیں ہیں اور مجنون بھی نہیں ہیں۔
کاہن ایسے ہوتے ہیں جس طرح ہمارے ہاں نجومی ہوتے ہیں جو ستاروں کو دیکھ کر بتاتے ہیں، آپ اللہ کے فضل وکرم سے ایسے نہیں ہیں۔
شعر کا معنی؛ لغوی اور اصطلاحی
﴿اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیۡبَ الۡمَنُوۡنِ ﴿۳۰﴾﴾
یہ کہتےہیں کہ شاعر ہیں اور ہم ان پر موت کے حادثے کا انتظار کر رہے ہیں کہ یہ کب ختم ہوتے ہیں۔
یہ بات میں پہلےکہہ چکا ہوں کہ ایک ہوتا ہے شعر ِلغوی اورایک ہوتا ہے شعرِ اصطلاحی اور عرفی۔ لغتِ عرب میں شعر کا معنی یہ نہیں ہے کہ مقفّٰی اور مسجّع کلام ہو۔ شعر کا معنی مقفیٰ اور مسجیٰ کلام کرنا یہ عرفی معنی ہے، یہ لغوی نہیں ہے۔ یہ جو لوگ کہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شاعر ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو شعر نہیں پڑھتے تھے تو پھر وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر کیسے کہتے تھے؟ پھر شاعر ہونے کا الزام کیسےلگاتے تھے؟
اصل بات یہ ہے کہ شعر کا معنی ہوتا ہے خیالی باتیں کرنا، جس کا خارج میں وجود نہ ہو،جس طرح منطق میں فرضی قضایاکو کہتے ہیں کہ یہ دلائل شعریہ ہیں۔ تو شعر کہتے ہیں خیالی بات کو جس کا خارج میں وجود نہ ہو۔ تو وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ فرضی باتیں کرتے ہیں کہ مر جائیں گے، پھر اٹھیں گے، پھر حساب کتاب ہو گا، پھر جنت ہو گی یا جہنم ہو گی․․․ یہ سب خیالی باتیں ہیں، یہ شاعرہیں۔ تو وہ لوگ حضور علیہ السلام کو شاعر لغوی معنی کے اعتبار سے کہتے تھے ورنہ جو عرفی شعر ہوتا ہے وہ تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے بھی نہیں تھے، اس کا انہوں نے کیا الزام لگانا ہے؟ اس کے بارے میں تو قرآن نے صاف فرما دیا ہے:
﴿وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ﴾
یٰسین 36: 69
کہ ہم نے حضور علیہ السلام کو شعر کی تعلیم نہیں دی مطلب کہ ہم نے آپ کو عرفی شعر کا فن نہیں دیا اور یہ آپ کی شان کے مناسب بھی نہیں ہے۔
﴿قُلۡ تَرَبَّصُوۡا فَاِنِّیۡ مَعَکُمۡ مِّنَ الۡمُتَرَبِّصِیۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾﴾
آپ فرمائیں کہ تم بھی انتظارکرو اور میں بھی انتظار کرتا ہوں۔ دیکھیں گے کہ انجام کس کا کیا ہوتا ہے؟
”قرآن گھڑا ہوا کلام ہے“ کا تحقیقی اور الزامی جواب
﴿اَمۡ تَاۡمُرُہُمۡ اَحۡلَامُہُمۡ بِہٰذَاۤ اَمۡ ہُمۡ قَوۡمٌ طَاغُوۡنَ ﴿ۚ۳۲﴾ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ تَقَوَّلَہٗ ۚ بَلۡ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۚ۳۳﴾ فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖۤ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾ ﴾
یہ اپنے آپ کو بہت عقلمند سمجھتےہیں تو اللہ نے فرمایا : کیا ان کی عقلمندی ان کو یہی بات کہتی ہے کہ یہ لوگ ایسا کام کریں؟ یا یہ لوگ سچ مچ ہیں ہی سرکش کہ بلا وجہ ایسی باتیں بکتے ہیں۔ یا یہ کہتے ہیں کہ اس نے یہ کلام خود گھڑ لیا ہے؟! بلکہ یہ لوگ تصدیق نہیں کرتے۔ اگر یہ لوگ اپنے اس دعویٰ میں سچے ہیں تو اس قرآن جیسا کوئی کلام تو بنا کر لائیں!
اللہ نے ان کی بات کے دو جواب دیے ہیں؛ایک جواب تحقیقی ہے اور دوسرا جواب الزامی ہے۔ تحقیقی اور الزامی جواب دینا یہ قرآن کریم کا طرز ہے۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بیان القرآن میں لکھاہے کہ یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کو خود گھڑ لیا ہے تو اس کا تحقیقی جواب تو یہ ہے کہ ایسی بات نہیں بلکہ یہ لوگ یہ بات صرف اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ”لَا یُؤۡمِنُوۡنَ“ کہ یہ لوگ عناد کی وجہ سے قرآن کی تصدیق نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ آدمی جس چیز کی تصدیق نہ کرتا ہوں وہ چیز ہزار حق اور صحیح ہو لیکن عنادی بندہ ہمیشہ اس کی نفی ہی کرے گا۔ تو تحقیقی جواب تو یہ ہے۔
اور الزامی جواب یہ ہے کہ اچھا! اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ قرآن انہوں نے خود گھڑ لیا ہے تو
﴿فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖ﴾
اسی طرح کا کلام تم بھی بنا کر لے آؤ ! تم نہیں بنا سکتے تو اس پر کیوں الزام لگاتے ہو کہ اس نے بنا لیا ہے۔
﴿اَمۡ خُلِقُوۡا مِنۡ غَیۡرِ شَیۡءٍ اَمۡ ہُمُ الۡخٰلِقُوۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾ اَمۡ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ بَلۡ لَّا یُوۡقِنُوۡنَ ﴿ؕ۳۶﴾ ﴾
کیا یہ لوگ خود بخود پیدا ہو گئے؟ یا انہوں نے اپنے آپ کو خود پیدا کر لیا ہے؟ یا آسمان اور زمین کو انہوں نے پیدا کیا ہے؟ اور کچھ بھی نہیں ہے اصل بات یہی ہے کہ بس یہ لوگ اللہ کو مانتے نہیں ہیں۔
نبوت وہبی ہے:
﴿اَمۡ عِنۡدَہُمۡ خَزَآئِنُ رَبِّکَ اَمۡ ہُمُ الۡمُصَۜیۡطِرُوۡنَ ﴿ؕ۳۷﴾﴾
یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ طائف والے کہتے تھے کہ اللہ نے نبی بنانا تھا تو ہم میں سے کسی عزت والے بڑے آدمی کو بناتے! یہ کیسے نبی بن گیا؟ اللہ فرماتے ہیں کہ کیا اللہ کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں کہ جس کو چاہیں نبی بنائیں اور جس کو چاہیں نبی نہ بنائیں؟! یا یہ لوگ حاکم بنے ہوئے ہیں کہ ان کے قبضہ میں تو خزانے نہ ہوں لیکن جس کے قبضہ میں خزانے ہیں ان سے کہہ کر یہ لوگ کسی کو نبوت دلواتے ہوں۔ تو اللہ نے دونوں احتمالات کی نفی فرما دی۔
﴿اَمۡ لَہُمۡ سُلَّمٌ یَّسۡتَمِعُوۡنَ فِیۡہِ ۚ فَلۡیَاۡتِ مُسۡتَمِعُہُمۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ؕ۳۸﴾﴾
کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اوپر چڑھتے ہیں اور جا کر آسمان کی خبریں سن لیتے ہیں؟ اگر کوئی ایسی سیڑھی ہے تو ان میں سے کوئی جائے اور اوپر کی باتیں سن کر آئے اور کوئی واضح دلیل لے کر آئے!
اپنے لیے بیٹے اور خدا کے لیے بیٹیاں!
﴿اَمۡ لَہُ الۡبَنٰتُ وَ لَکُمُ الۡبَنُوۡنَ ﴿ؕ۳۹﴾﴾
اور یہ لوگ بھی کتنے عجیب ہیں! کہتے ہیں کہ ہمیں تو بیٹے پسند ہیں اور اللہ کے لیے فرشتے بیٹیاں ہیں۔ جو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ تم اللہ کے لیے کیوں پسند کرتے ہو؟
اور عجیب بات یہ ہے کہ جب اللہ رب العزت نے یہ بات فرمائی ہے ان کے بارے میں کہ یہ لوگ اپنے لیے بیٹیاں پسند نہیں کرتے اور اللہ کے لیے بیٹیاں پسند کرتے ہیں تو وہاں پر بیٹیوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے کتنی عجیب بات فرمائی ہے۔ ارشاد فرمایا:
﴿وَ یَجۡعَلُوۡنَ لِلہِ الۡبَنٰتِ سُبۡحٰنَہٗ ۙ وَ لَہُمۡ مَّا یَشۡتَہُوۡنَ ﴿۵۷﴾﴾
ان لوگوں نے خداکے لیے بیٹیاں بنا رکھی ہیں، سبحان اللہ! اور اپنے لیے بیٹے جو ان کو پسند ہیں!
﴿وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ۵۸﴾﴾
اور جب ان سے کہا جائے کہ تمہارے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے تو ان کے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں اور وہ گھٹ گھٹ کر مرنے لگتے ہیں،
﴿یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ﴾
(سورۃ النحل) اور یہ آدمی جس کو بیٹی کی خوشخبری دی گئی وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اسے بری خبر ملی ہے۔
آگے ایک بات اور فرمائی وہ اس سے بھی عجیب ہے۔ بیٹیوں کی جو صفتیں بیان فرمائی ہیں ان میں یہ ہے کہ
﴿اَوَ مَنۡ یُّنَشَّؤُا فِی الۡحِلۡیَۃِ وَ ہُوَ فِی الۡخِصَامِ غَیۡرُ مُبِیۡنٍ ﴿۱۸﴾﴾
الزخرف 43: 18
یہ عورتوں کی صفت ہے کہ وہ بات کھل کر سمجھا نہیں سکتیں اور زیوروں میں پیدا ہوتی ہیں، اس کا معنی کہ زیور عورت کی فطرت میں شامل ہے۔
تو جس چیز کو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ خدا کے لیے کیسے تجویز کر لیتے ہو؟! کیسی تمہاری تقسیم ہے!
اجرت علی تعلیم الدین جائز ہے ․․․ دلیل:
﴿اَمۡ تَسۡـَٔلُہُمۡ اَجۡرًا فَہُمۡ مِّنۡ مَّغۡرَمٍ مُّثۡقَلُوۡنَ ﴿ؕ۴۰﴾﴾
اے پیغمبر! آپ ان سے پیسے تو نہیں مانگتے کہ آپ ان پر بوجھ ہو!
بعض لوگ ایسی آیات پیش کرتے ہیں کہ اجرت علی تعلیم الدین درست نہیں ہے کیونکہ اللہ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ تم ان سے پیسے تھوڑی لیتے ہو! اس پر تفصیل سے بات ہو چکی ہے۔ خلاصہ ہرجگہ پر میں عرض کرتا ہوں کہ ایک ہوتا ہے مخالف اور ایک ہوتا ہے موافق۔ یہ کفار؛ نبوت کے مخالف تھے اور مخالف کو دین سمجھائیں تو پیسے نہیں لیتے،
﴿اَمۡ تَسۡـَٔلُہُمۡ اَجۡرًا﴾
کا تعلق مخالف سے ہے اور موافق کو دین بیان کریں اور اس سے پیسے لے لیں تو یہ اس آیت کےخلاف نہیں ہے۔ مخالف اور ہوتاہے اور موافق اور ہوتاہے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی لیتے تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہدایا دیتے تھے۔ اور اس پر میں جو ایک دلیل پیش کرتا ہوں آپ اس کو سمجھیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تجارت شروع کی، پچیس سال میں آپ کا نکاح ہوا، جب چالیس سال کی عمر ہو گئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت چھوڑ دی۔ اب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوی ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شوہر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا خرچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا برداشت کرتی ہیں اعلانِ نبوت کے بعد۔ حالانکہ خرچ برداشت کرنا تو شوہر کے ذمے ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ﴾
النساء4: 34
شوہرکی بیوی پر فضیلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ نفقہ شوہر کے ذمے ہے۔ تو قرآن سے ثابت ہے اور اعلانِ نبوت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خرچہ آپ کی بیوی برداشت کر رہی ہے۔ اب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر مال خرچ کرتی ہیں تو وہ بیوی ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ حضور کی امتی ہونےکی حیثیت سے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوی بھی ہیں اور امتی بھی ہیں۔ جب تک بیوی تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے اور جب نسبت بدل گئی کہ بیوی بھی ہیں اور امتی بھی ہیں تو اب خرچ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فرما رہی ہیں۔
اب دیکھو! یہ جو مال خرچ ہو رہا تھا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہونے کی حیثیت سے خرچ ہو رہا تھا کہ حضور! آپ دین کا کام کریں، جو میرا مال ہے وہ آپ کے لیے حاضر ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو تجارت نہیں فرما رہے تو حضور پر خرچ آپ کے صحابہ فرما رہے ہیں، آپ کی صحابیات فرما رہی ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی عالم؛ دین کا کام کرے گا اور ساتھ تجارت بھی شروع کر دے تو دین کا کام نہیں کر سکے گا اور جب خود کو دین کے کام کے لیے فارغ کرے گا تو خرچ اس پر کون کریں گے؟ اس کے معتقدین، اس کے متبعین، اس کے موافقین، اس کے تلامذہ، اس کے مریدین، اس کے مقتدی۔
تو یہ لوگ دلیل کیا پیش کر رہے ہیں کہ پیغمبر کافروں سے مال نہیں لیتے تھے۔ کافروں سے تو ہم بھی نہیں لیتے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ جو دین کے منکر ہیں کیا کبھی ہم نے ان سے مانگا ہے جو تم ہمارے خلاف یہ آیتیں پیش کر رہے ہو! جب ہم ان سے مانگیں تو پھر تم ہما رے خلاف یہ آیتیں پیش کرنا۔ اللہ رب العزت سمجھ عطا فرمائے۔ (آمین)
غیب کی تعریف:
﴿اَمۡ عِنۡدَہُمُ الۡغَیۡبُ فَہُمۡ یَکۡتُبُوۡنَ ﴿ؕ۴۱﴾﴾
یا ان کےپاس غیب کا علم ہے کہ جس کو یہ لکھ لیتے ہیں، پھر محفوظ کرتے ہیں، پھر باتیں کرتےہیں۔ کوئی غیب ان کےپاس موجود نہیں اس لیے ایسی باتیں مت کریں۔
مطلق غیب کہتے ہیں:
”إِنَّ الْغَيْبَ الْمُطْلَقَ فِي الْإِطْلَاقَاتِ الشَّرْعِيَّةِ مَا لَمْ يَقُمْ عَلَيْهِ دَلِيْلٌ وَّ لَا إِلٰى دَرْکِهٖ وَ سِيْلَةٌ وَّ سَبِيْلٌ“
المہند علی المفند: ص88
یہ تعریف المہند علی المفند میں ہے۔یعنی اصطلاحِ شریعت میں مطلق غیب وہی ہوتا ہے جس پہ کوئی دلیل نہ ہو اور وہ بغیر کسی واسطہ و وسیلہ کے حاصل ہو۔
سرکشوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں!
﴿اَمۡ یُرِیۡدُوۡنَ کَیۡدًا ؕ فَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہُمُ الۡمَکِیۡدُوۡنَ ﴿ؕ۴۲﴾﴾
کیا یہ تمہارے خلاف تدبیریں اختیار کرتےہیں؟ جو لوگ کافر ہیں اور تدیریں کر رہے ہیں تو یہ اپنے جال میں خود آئیں گے۔
﴿فَذَرۡہُمۡ حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ فِیۡہِ یُصۡعَقُوۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾﴾
اے پیغمبر! آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں حتی کہ وہ دن آ جائے کہ جس دن لوگ بے ہوشی کے عالم میں پڑے ہوں گے۔
﴿یَوۡمَ لَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ کَیۡدُہُمۡ شَیۡئًا وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿ؕ۴۶﴾﴾
وہ دن ایسا ہو گا کہ جس دن کوئی تدبیر ان کے کام نہ آئےگی اور ان کی مدد بھی کوئی نہیں کرےگا۔
﴿وَ اِنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا عَذَابًا دُوۡنَ ذٰلِکَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴۷﴾﴾
ان کے لیے ایک عذب تو قیامت کے دن ہو گا، ایک عذاب اس سے بھی پہلے ہے لیکن اکثر لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے۔
مصیبتوں پر صبر کیجیے!
﴿وَ اصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ حِیۡنَ تَقُوۡمُ﴿ۙ۴۸﴾ وَ مِنَ الَّیۡلِ فَسَبِّحۡہُ وَ اِدۡبَارَ النُّجُوۡمِ ﴿٪۴۹﴾ ﴾
اب اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ آپ صبر کریں، آپ ہماری حفاظت میں ہیں، یہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ اور یہ جو آپ کو پریشانی ہے کہ یہ لوگ بات نہیں مانتے تو آپ خود کو مشغول کر لیں اللہ کی تسبیح میں ”حِیۡنَ تَقُوۡمُ “ جب آپ مجلس سے اٹھیں یا جب آپ سو کر اٹھیں تو آپ اس کا خیال کیا کریں۔ اور رات کو بھی تسبیح کیا کریں اور جب ستارے نکل آئیں تب بھی آپ اللہ کی تسبیح کیا کریں۔
مجلس سے اٹھنے کی دعا:
اس آیت کے تحت بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب بھی کوئی مجلس ہو، مجلس کے برخاست ہو نے پرآدمی یہ دعا پڑھ لے :
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إِلَيْكَ.
سنن الترمذی، رقم: 3433
[یا اللہ! تیری ذات ہر عیب سے پاک ہے، میں تیری تعریف کرتا ہو ں، میں گواہی دیتا ہو ں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہو ں اور تیرے حضور تو بہ کرتا ہو ں] تو اس مجلس میں ہونے والے تمام گناہوں کو اللہ پاک اپنے فضل سے معاف فرما دیتے ہیں۔ اللہ ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․