سورۃ الطلاق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الطلاق
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَ اَحۡصُوا الۡعِدَّۃَ ۚ وَ اتَّقُوا اللہَ رَبَّکُمۡ ۚ﴾
سورۃ الطلاق کو بعض روایات میں سورۃ النساء الصغریٰ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں تمام تر احکام عورتوں کے متعلق ہیں۔
” یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ “ اور ” یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوْلُ “ کہنے میں فرق:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ﴾....
قرآن کریم میں اللہ رب العزت کبھی
”یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ“
فرماتے ہیں اور کبھی
”يٰٓاَ يُّهَا الرَّسُوْلُ“
فرماتے ہیں۔ جب
”يٰٓاَ يُّهَا الرَّسُوْلُ“
فرمائیں تو اس وقت خاص نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرنا ہوتا ہے اور جب
”یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ“
فرمائیں تو خطاب نبی کو ہوتا ہے لیکن احکام امت کو سنانے مقصود ہوتے ہیں۔
طلاق کے متعلق چند احکام:
﴿اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ﴾ ....
یہاں سوال یہ ہے کہ جب
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ﴾
فرمایا تو بظاہر یہ تھا
”اِذَا طَلَّقْتَ“
یعنی واحد کا صیغہ ہونا چاہیے تھا لیکن یہاں واحد نہیں بلکہ جمع کا صیغہ
”طَلَّقۡتُمُ“
لائے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا ایک جواب تو میں نے ویسے ہی ذکر کیا کہ چونکہ مقصود امت کو احکام بتانے تھے اس لیے
”اِذَا طَلَّقۡتُمُ“
جمع کا صیغہ فرمایا۔
اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہاں لفظ
”قُلۡ “
محذوف ہے، عبارت یوں ہوگی
:”یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ (قُلۡ) اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ“
کہ آپ ایمان والو کو بتائیں کہ جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دو۔
﴿النِّسَآءَ﴾....
یہا ں نساء سے مراد وہ عورت ہے جس کے ساتھ خلوت صحیحہ ہو چکی ہو اور اگر خلوت صحیحہ نہ ہو تو اس کے لیے عدت ہےہی نہیں۔ عورت کو طلاق ہو جائے اور خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو تو اس عورت کی عدت نہیں ہوتی۔ خاوند جب طلاق دے تو فوراً فارغ ہو جاتی ہے۔ خلوت صحیحہ کا معنی ہوتا ہے کہ ایسی بند جگہ ہو جہاں اگر شوہر اپنی بیوی سے ہمبستری کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ تو اس خلوت صحیحہ کو مباشرت کے قائم مقام قرار دے دیا جاتا ہے۔
﴿فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَ اَحۡصُوا الۡعِدَّۃَ ۚ﴾....
ان عورتوں کو ایسے وقت طلاق دو کہ عدت گزارنا ان کے لیے آسان ہو یعنی حالتِ طہر میں طلاق دو۔ جب ان کو طلاق دے دو اور عدت شروع ہو جائے تو عدت کو شمار بھی کیا کرو! عدت کا خیال عورت کو بھی کرنا چاہیے اور مرد کو بھی کرنا چاہیے لیکن خطاب مردوں کو فرمایا ہے کہ مرد اس کا اہتمام کریں ۔
عورت عدت کہاں گزارے؟
﴿لَا تُخۡرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخۡرُجۡنَ ﴾
جب عورت کو طلاق ہو جائے تو عورت عدت کے دوران مرد کے گھر رہنے کی پابند ہے،اس کا سکنیٰ مرد کے ذمے ہے، نفقہ مرد کے ذمےہے، کھانا پینا اور رہائش بھی مرد کے ذمے ہے۔ یہ حقِ شوہر نہیں ہے بلکہ یہ حقِ شرع ہے۔ کیا مطلب ؟ کہ ایک تو مرد اس کو گھر سے نکالے مت۔ دوسرا اگر مرد راضی بھی ہو کہ عورت کہے میں جانا چاہتی ہوں پھر بھی جانا جائز نہیں ہے۔ یہ شرع کا حق ہے، مرد کا حق نہیں ہے ۔ اس لیے بلا وجہ عورتوں کے لیے ان کے گھرو ں سے خود بھی نکلنا جائز نہیں ہے اور مردوں کے لیے نکالنا بھی جائز نہیں ہے ۔ دونوں حکم آ گئے۔
﴿بُیُوۡتِہِنَّ﴾....
یہاں ”بیوت“ کی نسبت عورت کی طرف کی ہے حالانکہ”بیوت“ کا مالک مرد ہے عورت نہیں ہے، اس میں عورت کا اعزاز بیان کیا ہے کہ جو تم نے عورت کو رہنے کے لیے گھر دیا ہے اس گھر سے عورت کو مت نکالو اور قرآن کریم میں تمام مقامات میں”بیت“ کی نسبت عورت کی طرف کی ہے۔ ایک مقام پہ فرمایا:
﴿وَ اذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ ﴾
الاحزاب33: 34
یہاں بھی بیت کی نسبت عورت کی طرف ہے ۔
ہاں ایک مقام ایسا ہے کہ جہاں عورت گناہ کرتی ہے تو گھر کی نسبت عورت کی طرف نہیں رہتی۔ سورۃ النساء میں ہے:
﴿وَ الّٰتِیۡ یَاۡتِیۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ فَاسۡتَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِنَّ اَرۡبَعَۃً مِّنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَاَمۡسِکُوۡ ہُنَّ فِی الۡبُیُوۡتِ﴾
النساء4: 15
اب یہاں یہ نہیں فرمایا کہ
” فَاَمۡسِکُوۡ ہُنَّ فِیْ بُیُوۡتِہِنَّ “
کیو نکہ جب عورت نے گناہ کر لیا اور گناہ پر گواہ مکمل ہو گئے تو اب اس کا گھر ختم ہو گیا۔ اب اس نے سزا کے لیے گھر سے باہر نکلنا ہے ۔ اس کا تذکرہ آگے آرہاہے:
ان صورتوں میں خاوند کے گھر سے نکل سکتی ہے:
﴿وَ لَا یَخۡرُجۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ؕ﴾
نہ تم ان کو گھروں سے نکالو اور نہ یہ عورتیں خود نکلیں۔ یہ نہیں کہ شوہر راضی ہے تو چلی جائے ۔ شوہر اگر جانے کے لیے راضی ہے پھر بھی ان کے لیے جانا جائز نہیں ہے بغیر کسی عذر شرعی کے۔ ہاں البتہ کچھ صورتوں میں عورت گھر سے نکل سکتی ہے، تم اس کو نکال سکتے ہو جب یہ عورت کسی فاحشہ مبینہ کا ارتکاب کرے۔
• فاحشہ مبینہ سے مراد کہ زنا کر لے اور گواہی سے ثابت بھی ہو جائے تو اب حد لگانے کے لیے اس کو گھر سے نکالو!
• ایک صورت فاحشہ مبینہ کی یہ بھی ہے کہ عورت زبان دراز بہت ہے ، اس کے ساتھ رہنا بس میں نہیں ہے تو بھی نکال سکتے ہو۔
• اور تیسری صورت فاحشہ مبینہ کی یہ ہے کہ عورت خود گھر سے بھاگ کر نکل جائے۔ اب جانے دو اس کو۔
﴿وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللہِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللہِ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ ؕ﴾
یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو شریعت کا نقصان نہیں بلکہ یہ اپنا نقصان کرے گا۔
﴿لَا تَدۡرِیۡ لَعَلَّ اللہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا ﴿۱﴾﴾
جب تم شریعت کا خیال کرو گے، حدود اللہ کا خیال کرو گے تو ہو سکتا ہے کہ اللہ اس کے بعد کوئی بہترین صورت پیدا فرما دیں۔
﴿فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ وَّ اَشۡہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الشَّہَادَۃَ لِلہِ ؕ ذٰلِکُمۡ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ یُؤۡمِنُ بِاللہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۬ؕ﴾
جب یہ عورتیں عدت کے قریب ہو جائیں اب چاہو تو ان کو چھوڑ دو یعنی رجوع نہ کرو اور چاہو تو روک لو یعنی رجوع کر لو۔ دونو ں صورتیں ٹھیک ہیں۔ اس پر تمہیں دو گواہ بنا لینے چاہییں اور شہادت کا بہت زیادہ خیال کرو۔ اللہ اس کے ذریعے نصیحت کرتے ہیں اس آدمی کو جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتا ہے۔
گواہ بنانامستحب ہے، واجب نہیں۔ گواہ کیو ں بنانے چاہییں؟ ہو سکتا ہے کہ شوہر رجوع نہ کرے اور عورت کہہ دے کہ اس نے رجوع کیا تھا، اسی طرح اگر مرد نے رجوع نہ کیا ہو اور عدت پوری ہو جائے ، اب عورت اس کے ساتھ دوبارہ نکاح نہیں کرنا چاہتی جبکہ شوہر کہتا ہے کہ نکاح کی تو ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں نے تو رجوع کیا تھا... تو دونوں طرف سے خدشہ ہے، اس لیے یہا ں پر گوا ہ بنا لینے چاہییں۔
تقویٰ پر ملنے والے انعامات:
﴿وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا ۙ﴿۲﴾﴾
اس سور ت میں اللہ رب العزت نے تقویٰ پر پانچ انعامات کا ذکر فرمایا ہے:
[1]:
”وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا“
جو شخص اللہ سے ڈرتاہے اللہ اس کے مصائب سے نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں۔
[2]:
”وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ“
اللہ اس کو بے گمان روزی عطا فرما دیتے ہیں۔
[3]:
”وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا“
اللہ ان کے لیے تمام امور میں آسانیا ں پیدا فرما دیتے ہیں۔
[4]:
”وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللہَ یُکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ“
اور جو تقویٰ اختیار کرے اللہ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
[5]:
”وَ یُعۡظِمۡ لَہٗۤ اَجۡرًا“
اللہ اس کو اجر عطا فرما دیتے ہیں۔
اور دوسرے مقام پر سورت انفال میں فرمایا:
﴿اِنۡ تَتَّقُوا اللہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا﴾
الانفال8: 29
جب تم تقویٰ اختیار کرو گے تو اللہ حق اور باطل کے درمیان امتیاز عطا فرما دیتے ہیں کہ حق اور باطل میں فرق کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
یہ عجیب اللہ کی نعمت ہے کہ حق کا حق اور باطل کا باطل ہونا معلوم ہو جائے اور باطل کے وار سمجھ میں آ جائیں۔ یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ باطل ایسا وار کرتا ہے کہ بندہ اس کا وار سمجھتا نہیں ہے کہ باطل چاہتا کیا ہے! لیکن تقویٰ ایسی بڑی نعمت ہے کہ اللہ اس کے ذریعے حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا سمجھا دیتا ہے اور یہ بات گناہو ں کی آلودگی میں سمجھ نہیں آتی۔ اللہ ہم سب کو یہ نعمت عطا فرمائے۔
﴿وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗؕ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمۡرِہٖ ؕ قَدۡ جَعَلَ اللہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدۡرًا ﴿۳﴾﴾
جو اللہ پر توکل کرے تو اللہ اس کے لیے کافی ہے اور اللہ جو کام کرنا چاہتے ہیں وہ کر کے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علم کے مطابق متعین کر رکھا ہے۔
”توکل“ اور چیز ہے اور ”تعطل“ اور چیز ہے۔ اسباب اختیار کیے بغیر اللہ پر بھروسہ کرنا یہ تعطل ہے اور اسباب اختیار کر کے اللہ پر بھروسہ کرنا یہ توکل ہے۔ ہم تعطل کے پابند نہیں ہیں بلکہ ہم توکل کے پابند ہیں۔
جن کو حیض نہیں آتا ان کی عدت:
﴿وَ الِّٰٓیۡٔ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الِّٰٓیۡٔ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ ﴾
یہاں ان عورتو ں کی عدت بتائی ہے کہ جن کو حیض نہیں آتا بڑھاپے کی وجہ سے یا بچپن کی وجہ سے تو ان کی عدت تین مہینے ہے ۔ ا س میں حیض اور طہر کا کوئی دخل نہیں ہے۔
حاملہ کی عدت:
﴿وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ ﴾
اور وہ عورت جو حاملہ ہے اس کی عدت وضعِ حمل ہے۔ جب بچہ پیدا ہو جائے تو عدت ختم۔ کسی عورت کو خاوند نے طلاق دی اور بچے کی پیدائش میں آدھا گھنٹا باقی تھا۔ آدھے گھنٹے بعد بچہ پیدا ہوا تو اس عورت کی عدت فوراً ختم ہو جائے گی۔
﴿اَسۡکِنُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ سَکَنۡتُمۡ مِّنۡ وُّجۡدِکُمۡ﴾
اپنی حیثیت کے مطابق سکنیٰ دو! عورت اگر مالدار ہو اور شوہر غریب ہو تو شوہر کے ذمے مالداروں والا سکنیٰ اور رہائش نہیں ہے بلکہ اس کے ذمہ غریبو ں والی رہائش ہے اور اگر عورت غریب ہو اور شوہر مالدار ہو تو پھر شوہر کی حیثیت کے مطابق امیروں والاسکنیٰ اور امیر و ں والانفقہ دینا ضروری ہے۔ اب شوہر کی حیثیت کا خیال کیا ہے۔
﴿وَ لَا تُضَآرُّوۡہُنَّ لِتُضَیِّقُوۡا عَلَیۡہِنَّ ؕ﴾
عورتوں کو تنگ نہ کرو تکلیف دینے کے لیے کہ تم ان کو طلاق دو حیض میں اس وجہ سے ان کی عدت لمبی ہوجائے گی، ایسا نہ کرو! تین طلاق اکٹھی بھی نہ دو! تم نے اس کو طلاق دے دی ہے اور جب آخری حیض آتا ہے تو پھر رجوع کر لیتے ہو، اس کے بعد پھر طلاق دیتے ہو ، ایسا نہ کیا کرو!
﴿وَ اِنۡ کُنَّ اُولَاتِ حَمۡلٍ فَاَنۡفِقُوۡا عَلَیۡہِنَّ حَتّٰی یَضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ۚ ﴾
یعنی وہ عورت جس کو طلاق بائنہ ہو، طلاق مغلظہ ہو، طلاق رجعی ہو... کسی قسم کی طلاق ہو، کسی بھی قسم کی عدت ہو، اس کا نفقہ اور سکنٰی شوہر کے ذمے ہے۔
بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ:
﴿فَاِنۡ اَرۡضَعۡنَ لَکُمۡ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ ۚ﴾
اگر عورت حاملہ ہو اور بچہ پیدا ہو جائے تو عورت کی عدت تو ختم ہو گئی لیکن یاد رکھنا اگر عورت کو طلاق ہو اور عورت عدت میں ہو تو اس صورت میں شوہر کے بچے کو دودھ پلانا اس عورت کے ذمہ ہے، اس دودھ پلانے پر شوہر سے پیسے لینا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ جب تک عورت عدت میں ہے اس کا نفقہ اور سکنی شوہر کے ذمہ ہے، اب پیسے کس بات کے لے گی؟! لیکن جب عورت کی عدت پوری ہو جائے تو اب دودھ پر پیسے لینا چاہے تو لے سکتی ہے ۔ اب شوہر کتنے پیسے دے گا؟ تو جتنے عام معمول کے مطابق چلتے ہیں اتنے دے گا۔ یہ بھی درست نہیں کہ عورت پیسے زیادہ مانگے کیوں کہ مرد کی مجبوری ہے، اس نے دودھ تو مجھ سے پلوانا ہے.... اور شوہر کے لیے بھی یہ درست نہیں کہ وہ پیسے کم دے کیونکہ ماں ہے، اس نے دودھ تو پلانا ہی پلانا ہے۔ تو دونوں یو ں نہ کریں بلکہ جتنے اس دور میں پیسے بنتے ہیں اس کا خیال کریں۔ یہ اس ساری بات کا خلاصہ ہے۔
﴿فَاِنۡ اَرۡضَعۡنَ لَکُمۡ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّۚ وَ اۡتَمِرُوۡا بَیۡنَکُمۡ بِمَعۡرُوۡفٍ ۚ ﴾
وہ تمہارے لیے بچوں کو دودھ پلائیں تو ان کا خرچہ دو! کیونکہ اب تو عدت پوری ہو گئی ہے ۔ اور باہمی مشورہ کرو کہ ماہانہ دودھ پلانے کے کتنے پیسے ہونے چاہییں ۔
﴿وَ اِنۡ تَعَاسَرۡتُمۡ فَسَتُرۡضِعُ لَہٗۤ اُخۡرٰی ؕ﴿۶﴾﴾
اگر شوہر اور بیوی میں بحث چل پڑے ، تکرار ہو جائے اور کسی نتیجے پر نہ پہنچیں تو پھر کسی اور عورت سے دودھ پلوا دو۔
﴿لِیُنۡفِقۡ ذُوۡ سَعَۃٍ مِّنۡ سَعَتِہٖ ؕ وَ مَنۡ قُدِرَ عَلَیۡہِ رِزۡقُہٗ فَلۡیُنۡفِقۡ مِمَّاۤ اٰتٰىہُ اللہُ ؕ﴾
ہر صاحبِ وسعت اپنی وسعت کے مطابق نفقہ دے اور جس شخص کا رزق تنگ ہو تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے!
﴿لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفۡسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىہَا ؕ سَیَجۡعَلُ اللہُ بَعۡدَ عُسۡرٍ یُّسۡرًا٪﴿۷﴾﴾
یعنی اگر پیسے کم ہیں تو پھر بھی خرچہ دو، اپنی تنگی کا بہانا نہ کرو کہ میرے پاس تو ہیں ہی نہیں، جو ہیں وہ بھی خرچ ہو جائیں گے تو اللہ اس کے بعد اور عطا فرما دے گا۔
﴿وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ عَتَتۡ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہَا وَ رُسُلِہٖ فَحَاسَبۡنٰہَا حِسَابًا شَدِیۡدًا ۙ وَّ عَذَّبۡنٰہَا عَذَابًا نُّکۡرًا ﴿۸﴾﴾
کتنی بستیاں ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے ان سے سخت حساب لیا اور انہیں سخت عذاب دیا۔ اس سے مراد اگر دنیا ہے تو پھر
”فَحَاسَبۡنٰہَا“
ماضی کا صیغہ ہے، اس حساب سے اعمال کا وہ حساب مراد نہیں ہے جو حشر میں ہو گا۔ یہا ں حساب سے مراد یہ ہے کہ ہم نے ان کو دنیا میں سزا دی ہے اور اگر اس سے مراد آخرت کا حساب ہے تو پھر
”فَحَاسَبۡنٰہَا“
اور
”عَذَّبۡنٰہَا“
یہ ماضی کا صیغہ تحقق کے لیے ہے کہ جہا ں کسی کام کے کرنے کا یقین ہو وہاں پر ماضی کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔
حقیقی عقلمند کون؟
﴿فَاتَّقُوا اللہَ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ ۬ۚ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ۟قَدۡ اَنۡزَلَ اللہُ اِلَیۡکُمۡ ذِکۡرًا ﴿ۙ۱۰﴾﴾
یہاں عقل مند ایمان والوں کو بتا یا گیا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو! اللہ نے تمہارے پاس ذکر بھیجا ہے۔ ذکر یعنی نصیحت کا پیغام۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص ایمان والا ہے وہ حقیقی عقل مند ہے اور جو ایمان قبول نہیں کرتا وہ جتنابھی سمجھدار ہو وہ عقل مند نہیں ہے۔ عمرو بن ہشام کو ابو الحکم کہا جاتا تھا یعنی حکمتو ں والا لیکن جب ایمان قبول نہیں کیا تو ابو الحکم کے بجائے ابو جہل کہا جانے لگا کہ اس کےپاس کوئی حکمت کی چیز نہیں ۔ سب سے بڑی نعمت اللہ کی طرف سے ایمان ہے ۔ ایمان قبول کیا تو عقلمند ہے اور اگر قبول نہ کیا تو بے وقوف ہو گا۔ حدیث مبارک میں ہے:
”اَلْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ“
عقل مند وہ شخص ہے جو موت کی تیاری کرے،
”وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهٗ هَوَاهَا وَتَمَنّٰى عَلَى اللّهِ
“اور بے و قوف شخص وہ ہے کہ جو نیک عمل نہ کرے بس اسی خواہش پر رہے کہ اللہ بخش دیں گے۔ ایسے ہی بلا وجہ امیدو ں پر کھڑا رہے، فرمایا کہ یہ بہت بڑا بے قوف آدمی ہے ۔
سنن الترمذی، رقم: 2459
سات آسمان اور سات زمینیں:
﴿اَللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ ؕ﴾
اللہ رب العزت کی ذات وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا فرمائے اور انہی کی طرح سات زمینیں بھی پیدا فرمائیں۔
﴿مِثۡلَہُنَّ﴾....
مِثل کی دو قسمیں ہوتی ہیں؛ مثل بالکم اور مثل بالکیف۔ کیا مطلب کہ ایک چیز دوسری کی طرح ہو مقدار میں تو یہ مثل بالکم ہے اور اگر ایک چیز دوسری کی طرح ہو کیفیت میں تو یہ مثل بالکیفیت ہے۔
میں ایک بات کہہ چکا ہوں کہ اشکال ہوتا ہے کہ
﴿فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اہۡتَدَوۡا﴾
البقرۃ2: 137
میں اللہ نے فرمایا کہ اگر صحابہ جیسا ایمان ہو گا تو تمہیں نجات ملے گی، صحابہ جیسا ایمان نہیں ہو گا تو تمہیں نجات نہیں ملے گی۔ اس پر سوال یہ تھا کہ صحابہ جیسا ایمان تو امت کے بس میں نہیں ہے، جو ایمان صحبتِ نبوت سے ملتا ہے وہ صحبتِ نبوت کے بغیر کیسے مل سکتا ہے؟ صحبتِ نبوت کی وجہ سے آدمی کا ایمان کمال تک پہنچ جاتا ہے، اس کے لیے اعمال کی حاجت بھی نہیں ہوتی! تو اس کا کیا معنی کہ صحابہ جیسا ایمان ہو گا تو تمہیں نجات ملے گی۔ یہ تو بظاہر تکلیف ما لا یطاق ہے کہ ایسے کام کا مکلّف بنانا ہے کہ جو بندے کے بس میں نہیں ہے۔ میں نے جواب دیا تھا کہ یہاں مثل فی الکم مرا د ہے، کیفیت مراد نہیں ہے ۔
یعنی یہ مراد نہیں کہ تمہارے ایمان کی کیفیت وہ ہو جو صحابہ کے ایمان کی کیفیت تھی، یہ تو ممکن ہی نہیں ہے بلکہ یہاں مراد یہ ہے کہ جن جن چیزو ں پر صحابہ رضی اللہ عنہم ایمان لاتے تھے ان ان چیزو ں پر تم ایمان لاؤ گے تو کامیاب ہو جاؤ گے، ان میں سے ایک چیز بھی چھوڑ دو گے تو تم نا کام ہو جاؤ گے۔ صحابہ پانچ نمازیں مانتے تھے اب تم نے بھی پانچ ماننی ہیں، تم چار مانو گے تو نا کام ہو جاؤ گے لیکن جس کیفیت سے وہ پڑھتے تھے ویسے تم پڑھو یہ مطلوب نہیں ہے ۔ اشکال اس لیے پیدا ہوا کہ ہمارے ذہن میں کیفیت ہے کہ جو صحابہ کے ایمان کی کیفیت ہے تمہارے ایمان کی بھی وہی کیفیت ہونی چاہیے، یہ مراد نہیں ہے بلکہ یہاں کمیت مراد ہے کہ جتنی چیزو ں پر صحابہ ایمان لائے اتنی پر تم بھی ایمان لاؤ۔
اور یہاں
﴿مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ﴾
میں جو مثل ہے تو اس سے مراد مثل فی الکم ہے، کیفیت نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ آسمان بھی سات ہیں تو ان کی مثل زمینیں بھی سات ہیں اور مثل سے مراد کیفیت نہیں ہے، مثل سے مراد کمیت ہے یعنی سات آسمان اور سات زمینیں کیفیت میں ایک جیسی نہیں ہیں۔ زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے، اسی طرح ہر دو آسمانوں کے درمیان بہت طویل فاصلہ ہے تو کیا ہر دو زمینوں کے درمیان بھی اتنا طویل فاصلہ ہے؟ یہ ہمارے علم میں نہیں ہے اور نہ یہ ضروری ہے۔ ہر دو آسمانوں کے درمیان ملائکہ کی ایک بہت بڑی تعداد ہے تو کیا ہر دو زمینوں کے درمیان بھی اسی طرح کی مخلوق ہو گی، یہ ضروری نہیں ہے کیونکہ یہاں پر مثل سے مراد کمیت ہے، کیفیت نہیں ہے۔
اثرِ ابن عباس کی توجیہہ (از حضرت نانوتوی)
اگرچہ بعض روایات میں ساتوں زمینوں پر مخلوقات کا ہونا بھی منقول ہے۔ جس طرح حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نوَّر اللہُ مَرقدَہ کی کتاب ہے ”تحذیر الناس عن انکار اثر ابن عباس“ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک اثر ہے کہ جس طرح سات آسمان ہیں اسی طرح اللہ نے سات زمینیں پیدا فرمائی ہیں اور ہر زمین میں
”نَبِيٌّ كَنَبِيِّكُمْ وَاٰدَمُ كَاٰدَمَ، وَنُوْحٌ كَنُوْحٍ، وَإِبْرَاهِيْمُ كَإِبْرَاهِيْمَ، وَعِيْسٰى كَعِيسٰى“
المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج3ص315 رقم الحدیث 3875
کہ ان میں نبی ہیں جیسے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آدم ہیں آدم جیسے، نوح ہیں نوح جیسے، ابراہیم ہیں ابراہیم جیسے اور عیسیٰ ہیں عیسیٰ جیسے علیہم السلام، اور اسی پر اشکال ہے کہ اگر سات زمینوں میں سے ہر زمین پر محمد ہیں تو خاتم الانبیاء کون سے محمد ہوں گے ؟ -صلی اللہ علیہ وسلم- بعض لوگوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کا انکار کر دو۔ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انکار نہ کرو بلکہ صحابی کے قول کا معنی ایسا بیان کرو کہ جس پر کوئی اشکال باقی نہ رہے۔ تو ”تحذیر الناس“ اصل میں اس اعتراض کا جواب ہے اور یہ بڑی بہترین پڑھنے والی مدلل کتاب ہے۔ اللہ ہم سب کو پڑھنے کی اور پھر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سات زمینیں ہیں اوپر نیچے ، تو جو دنیا کا ضابطہ ہے کہ سا ت منزلہ مکان ہو تو ساتویں منزل کو آخری کہتے ہیں، پہلی منزل کو آخری نہیں کہتے۔ اسی طرح ساتویں زمین کو آخری کہتے ہیں، پہلی کو آخری نہیں کہتے۔ تو جب ہماری زمین آخری ہے تو ہماری زمین کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آخری ہوں گے۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چھ زمینیں نہ ماننا اور صرف ایک زمین میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ماننا یہ اتنا باعثِ کمال نہیں ہے جتنا چھ زمینوں میں محمد مان کر اس ہماری زمین کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے افضل ماننا یہ کمال ہے۔ عجیب توجیہ فرمائی ہے۔ فرمایا کوئی بادشاہ ایک ملک کا بادشاہ ہو اور دوسرا بادشا ہ ایک ملک کا نہیں ہے بلکہ چھ ملک اور بھی ہیں، ان چھ ممالک کے چھ بادشاہ ہوں اور یہ ساتویں ملک کا بادشاہ ان چھ ملکو ں کے بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہو اور اپنے ملک کا بھی بادشاہ ہوتو اب بتاؤ! زیادہ فضیلت کس میں ہے؟ چھ ملکو ں کے بادشاہ مان کر ان کو ان چھے کے اوپر بادشاہ مانا جائے اس میں فضیلت زیادہ ہے یا چھ اور ملکوں کے بادشاہ ہی نہ مانے جائیں؟
ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں فضیلت زیادہ ہے جب چھے ملکوں کے بادشاہ مان کر ان کے اوپر بادشاہ مانا جائے۔ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ عجیب بات فرماتے ہیں، حضرت نانوتوی فرماتے ہیں کہ یہ توجیہ اگر مجھ سے پہلے کسی کے ذہن میں نہیں آئی تو اس سے میرا بڑا ہونا تھوڑا لازم آتا ہے، ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ چھوٹوں کے ذہن میں ایسی بات آئی جو بڑو ں کے ذہن میں نہیں آئی۔ عجیب تواضع ہے حضرت رحمہ اللہ کی۔
میں اس لیے کہتا ہو ں کہ توجیہ آپ بدلتے رہیں لیکن موقف نہ تبدیل ہو۔ یہ بڑی اہم چیز ہے۔ ایک یہ ہے کہ آپ ایسی توجیہ بیان کریں کہ موقف ہی تبدیل ہو جائے، یہ تو بہت بڑا ظلم ہے ۔
ناقل بنو محقق نہیں:
ہمارے ہاں ہر ماہ فیصل آباد میں جمعرات کے دن طلبہ اور بطورِ خاص علماء میں جو پروگرام ہوتا ہے اس میں ایک بات میں نے انہیں بھی عرض کی تھی اور میں آپ سے بھی عرض کرتا ہوں کہ تمام طلبہ یہ ذہن بنا لو کہ ہم نے مسلک اھل السنۃ والجماعۃ احناف دیوبند کا ناقل بننا ہے محقق نہیں بننا! حدیث پاک میں علاماتِ قیامت میں سے ایک علامت یہ ہے کہ
”وَلَعَنَ آخِرُ هٰذِهِ الْأُمّةِ أَوّلَهَا“
سنن الترمذی، رقم: 2211
کہ بعد والے پہلے والوں پر لعنت کریں گے۔ اگر بعد والے ناقل ہوں گے تو پھر لعنت نہیں کریں گے اور جب بعد والو ں میں سے ہربندہ محقق بنے گا تو پھر لعنت کی نوبت آئے گی ۔
ایک مسئلے پر چودہ سو سال سے تحقیق ہو چکی ہے، اب میں ان کے مقابلےمیں نئی تحقیق پیش کرتا ہوں اور ان کو ٹھیک نہیں کہتا تو میں تو شاید اعتدال کر لوں لیکن میرے ماننے والے ان کو برا کہیں گے، مجھے اچھا کہیں گے اور اب لعنت شروع ہو جائے گی، اور اگر چودہ سو سال کی جو تحقیق ہے میں اسی کو آگے لے کر چلوں، اسی کوسمجھاؤ ں، اس پر ہونے والے اشکال کا جواب دوں تو اب بعد والے لعنت نہیں کریں گے۔
اس کو میں دوسرے لفظوں میں یو ں سمجھاتا ہوں کہ آج ہر بندہ کہتا ہے کہ امت کو جوڑنا چاہیے۔ اب اس کے دو مفہوم ہیں؛ ایک یہ کہ بعد والی امت کو پہلی امت سے جوڑو تاکہ تسلسل باقی رہے اور ایک یہ ہے کہ بعد والوں کو تو پہلوں سے کاٹ دو لیکن موجودہ مختلف طبقات کو جوڑو! تو لوگوں کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ امت کے جو موجودہ طبقات ہیں ان کو جوڑو۔ ہم کہتے ہیں کہ نہیں، ان کو جوڑو نہ جوڑو یہ بعد کا مسئلہ ہے لیکن بعد والوں کو پہلوں سے جوڑو تاکہ امت کا تسلسل برقرار رہے اور اکابرینِ امت پر اعتماد بحال رہے۔
ایسی تحقیق پیش کرنا جو پہلوں کے خلاف ہو اس سے آدمی کو بچنا چاہیے۔ اگر آپ کی تحقیقات پہلو ں کے خلاف ہیں اور آپ دلائل کی بنیاد پر تحقیق کے قائل ہوئے ہیں تو پھر بھی آپ کا ذہن تو ہے نا ں کہ آپ نبی نہیں ہیں، امتی ہیں، نبی کا اجتہاد ہو تو اس میں بھی بعض مرتبہ خطا ہو جاتی ہے تو ہمارے اجتہاد میں خطا کیسے نہیں ہو گی۔ ایک اجتہاد پہلے والو ں کا ہے اور ایک اجتہاد آج کا ہے، ہم اپنے اجتہاد کو قربان کر دیں پہلے والے اجتہاد پر ، ایک وقت آئے گا کہ اللہ کریم دلیل بھی عطا فرما دے گا۔
اچھی طرح بات ذہن نشین فرما لیں اور اس کا ذہن بھی بنا لیں کہ اگر آپ کی تحقیق اکابرین والی ہو گی اور اسی کو لے کر چلیں گے تو جو مدد اکابرین کے ساتھ تھی وہی مدد آپ کےساتھ ہو گی، جو محبوبیت لوگوں میں ان کی تھی وہی آپ کی ہو گی، جو مقبولیت اللہ کے ہاں ان کو حاصل تھی وہی آپ کو ہو گی اور قیامت کے دن جو مقام ان کا ہو گا اللہ اس مقام پر آپ کو بھی لے کر جائے گا۔
﴿یَتَنَزَّلُ الۡاَمۡرُ بَیۡنَہُنَّ لِتَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴾
تو بات چل رہی تھی کہ سات آسمان اور سات ہی زمینیں ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں کہ آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کے فیصلے اترتے ہیں تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ کے حکم کی دوقسمیں ہیں؛ ایک ہے حکمِ تشریعی اور دوسرا ہے حکمِ تکوینی۔ اگر یہاں ”امر“ سے مراد وہ احکام ہوں جو اللہ رب العزت فرشتوں کے ذریعے اپنے نبی کو اور نبی کے واسطے سے انسانوں اور جنات کو دیتے ہیں تو اس کو حکمِ تشریعی کہتے ہیں کہ یہ کرو گے تو ثواب ملے گا، نہیں کرو گے تو گناہ ہو گا۔یہ حکمِ تشریعی ہے ۔ اگر اس زمین کے نیچے والی زمینوں پر بھی مخلوق ہو اور ”الۡاَمۡرُ “ سے مراد حکمِ تشریعی ہو تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے، اور اگر ”الۡاَمۡرُ “سے مراد حکمِ تکوینی ہو تو پھر ساتوں زمینوں پر جن وانس کا ہونا کوئی ضروری نہیں، حکم تکوینی جس طرح انسانوں اورجنات پر لاگو ہوتے ہیں اسی طرح حکمِ تکوینی دیگر مخلوقات پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ پھر اشکال ہی کوئی نہیں رہتا۔
معیتِ ذاتیہ:
﴿وَّ اَنَّ اللہَ قَدۡ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ﴿٪۱۲﴾﴾
اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔
اس سے کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ یہاں
”عِلۡمًا “
کی بات کی ہے، یہاں
” ذَاتًا“
کی بات تو نہیں کی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احاطہ علمی تو ہے احاطہ ذاتی نہیں ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ جس طرح قرآن کریم میں
﴿وَّ اَنَّ اللہَ قَدۡ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ﴾
ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں
﴿وَ کَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ مُّحِیۡطًا﴾
النساء4: 126
بھی ہے۔ دونوں آیتیں موجود ہیں، احاطہ علمی بھی ہے اور احاطہ ذاتی بھی ہے اور جب علمِ الہی؛ ذاتِ الہی سے جدا نہیں ہے تو حضرت گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں علم ہو گا وہاں ذات ہو گی، پھر تو احاطہ علمی سے احاطہ ذاتی خود بخود مراد ہو گا۔
مکاتیب رشیدیہ: ص42
حضرت تھانوی رحمہ اللہ بہت پیاری بات فرماتے ہیں کہ ہمارے جن مشائخ نے معیتِ ذاتیہ کا انکار کیا ہے بظاہر لگتا ہےکہ وہ تجسیم کی نفی کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ معیتِ ذاتی کو تجسیم نہ سمجھ لیں، اس لیے یہ حضرات معیتِ ذاتیہ کی نفی کر لیتے ہیں اور معیتِ وصفی کے قائل ہو جاتے ہیں۔
اللہ ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․