سورۃ الکوثر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الکوثر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۱﴾ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ ؕ﴿۲﴾ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ٪﴿۳﴾﴾
شانِ نزول:
عاص بن وائل ایک کافر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے صاحبزادے جناب قاسم جب فوت ہوئے تو عاص بن وائل نے طعنہ دیا، کہا کہ محمد کی نرینہ اولاد فوت ہو گئی، اب ان کا مشن چلانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ بس جونہی یہ فوت ہوں گے ان کا کام ختم ہو جائے گا۔ اس پر سورۃ الکوثر نازل ہوئی۔
فرمایا: اے پیغمبر! ہم نے آپ کو کوثر ؛خیر ِکثیر دی ہے۔
”الکوثر“ کا معنی:
”الکوثر“ کے چھبیس معانی ہیں اور سارے معانی اس ”خیر ِکثیر“ پر صادق آتے ہیں۔ اکثر مفسرین اس کا معنی یہ کرتے ہیں کہ ”ہم نے آپ کو حوضِ کوثر عطا کیا۔“ حوضِ کوثر میدانِ حشر میں ایک حوض ہو گا۔ کوثر؛ جنت کی ایک نہر ہے، وہاں سے دو پرنالے اس حوض میں گرتے ہیں۔ اس سے ایمان والوں کو پانی پلایا جائے گا۔ اس کی لمبائی ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہے۔ پانی اس حوض کا دودھ سے زیادہ سفید ہو گا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا۔ پانی پینے کے لیے برتنوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گی کہ ستاروں کی تعداد سے بھی زیادہ اور جو شخص اس سے پانی پی لے گا تو جنت میں داخل ہونے تک اس کو پھر پیاس نہیں لگے گی۔ اللہ ہم سب کو یہ عطا فرما دیں۔ آمین
اور بعض روایات میں ہے کہ کچھ لوگ اس حوض پر آئیں گے تو فرشتے ان کو ہٹا کر پیچھے کر دیں گے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ یہ تو میرے ساتھی ہیں، ان کو آنے دو،
”فَيُقَالُ لِيْ: إِنَّكَ لَا تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَكَ “
مسند احمد: ج 2 ص 518 رقم الحدیث2096
فرشتے کہیں گے:آپ کو نہیں پتا کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے کون سی خرافات کی تھیں! یہ آپ کے ساتھی نہیں ہیں۔
اس کے بارے میں بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بہت سخت وعید ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان اور اعمال کی نفی کرتی ہے․․․ حالانکہ اس سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا معنی یہ نہیں کہ ”یہ میرے صحابہ ہیں “ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ یہ میری امت کے لوگ ہیں، یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ فرشتے کہیں گے کہ نہیں! آپ کو نہیں پتا، یہ بدعتی لوگ ہیں۔ رہی یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے فرمائیں گے کہ یہ میرے ساتھی ہیں؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث پاک میں ہے کہ وضو کرنے والے کے اعضائے وضو روشن ہوتے ہیں۔ تو اعضائے وضو کے روشن ہونے سے معلوم ہو گا کہ یہ آپ کے امتی اور آپ کے ساتھی ہیں لیکن بدعات کی وجہ سے ان کو پیچھے ہٹا دیا جائے گا۔ لہذا اس سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین پر رد نہیں ہوتا۔
اور صحیح بخاری کی جو روایت ہے:
مُرْتَدِّيَنَ عَلٰى أَعْقَابِهِمْ.
صحیح البخاری ، رقم: 3349
کہ یہ لوگ وہ تھے جو مرتد ہو گئے تھے۔
اب یہاں صلہ
”عَلٰی“
ہے،
”عَنْ“
نہیں ہے۔ اگر
”عَنْ“
ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ ایمان لائے تھے پھر ایمان سے پھر گئے تھے۔ لیکن یہاں
”عَلٰی“
ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ ایمان میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو بظاہر ایمان والوں میں شامل تھے، حقیقت میں نہیں۔ تو جیسے آئے تھے ویسے ہی پلٹ گئے تھے۔ اگر ان الفاظ پر غور کریں تو پھر کوئی بھی اشکال نہیں رہتا۔
﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ ؕ﴿۲﴾ ﴾
آپ اس نعمت کے شکر میں اللہ کی نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔
عموماً
”نحر“
کا تعلق ہوتا ہے اونٹ کی قربانی پر۔ عرب چونکہ اونٹ کی قربانی زیادہ کرتے تھے اس لیے
”وَ انْحَرْ“
کا لفظ استعمال کیا ورنہ نحر کا لفظ اونٹ کی قربانی پر بھی استعمال ہوتا ہے اور دوسرے جانوروں کی قربانی پر بھی ہو جاتا ہے۔
” وَ انْحَرْ “
کا ایک معنی حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے یہ کیا ہے کہ آدمی نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے۔
سنن الاثرم بحوالہ التمہید لابن عبد البر: ج8 ص164
﴿اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ٪﴿۳﴾﴾
”شَانِئَكَ“
کا معنی ہوتا ہے عیب لگانے والا، بغض رکھنے والا۔ فرمایا: یہ جو آپ سے بغض رکھتے ہیں نا تو مقطوع النسل یہی ہوں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے اگرچہ آپ کے مخالفین کی جسمانی اولاد بھی ہو لیکن ان کا نام نہیں ہو گا، ان کا تذکرہ نہیں ہو گا، ان کا کام نہیں چلے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد تو فوت ہو گئی لیکن روحانی اولاد تو ہے، قیامت تک جو شخص کلمہ پڑھے گا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا ہے اور آپ کی مذکر جسمانی اولاد نہ بھی ہو تو بیٹی سے تو آپ کی اولاد چلی ہے نا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی رہے گا اور اولاد سے جو مقصود ہوتا ہے وہ مشن بھی آپ کا ان شاء اللہ چلتا رہے گا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․