سُوْرَۃُ الْکٰفِرُوْن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سُوْرَۃُ الْکٰفِرُوْن
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾﴾
شانِ نزول:
عاص بن وائل، اسود بن عبد المطلب، ولید بن مغیرہ اور امیہ بن خلف یہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک وفد لے کر آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم معاہدہ کر لیتے ہیں کہ آپ ایک سال تک ہمارے خداؤ ں کی عبادت کریں اور ایک سال تک ہم آپ کے خدا کی عبادت کریں۔ اس سے باہمی لڑائی اور جھگڑا ختم ہو جائے گا۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔
﴿قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ۚ﴿۳﴾ وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدۡتُّمۡ ۙ﴿۴﴾ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ؕ﴿۵﴾﴾
کہہ دیجیے! اے کافرو! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو، اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور میں آئندہ بھی ان کی عبادت نہیں کرنے والا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم ان کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔
دو جملوں کے تکرار کی وجہ:
﴿لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ۚ﴿۳﴾ وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدۡتُّمۡ ۙ﴿۴﴾ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ؕ﴿۵﴾﴾
یہا ں یہ جملے تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ اس لیے مفسرین حضرات نے اس کی مختلف تفسیریں بیان کی ہے:
[۱]: ایک تو اس کی تفسیر یہ ہے کہ پہلے جملے
﴿لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ۚ﴿۳﴾﴾
کا معنی یہ ہے کہ میں فی الحال ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو اور تم بھی فی الحال اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی عبادت میں کرتا ہوں․․․ اور دوسرے جملے
﴿وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدۡتُّمۡ ۙ﴿۴﴾ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ؕ﴿۵﴾﴾
کا معنی یہ ہے میں آئندہ بھی ان کی عبادت نہیں کروں گا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ ہی آئندہ تم اس کی عبادت کرو گے جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اس تفسیر کے مطابق ایک جملے کا تعلق حال سے ہے اور دوسرے کا تعلق مستقبل سے ہے۔
مطلب یہ ہے کہ موحد ہوتے ہوئے بندہ مشرک نہیں ہو سکتا اور مشرک ہوتے ہوئے موحد نہیں ہو سکتا۔ یہ میں اس لیے وضاحت کر رہا ہوں کہ شاید کسی کے ذہن میں آئے کہ یہ جو فرمایا کہ ”میں نے عبادت کی ہے نہ کروں گا تمہارے معبودوں کی“ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے اور یہ جو فرمایا کہ ”تم نہ میرے رب کی عبادت کرتے ہو نہ کرو گے“ تو یہ کیسے فرما دیا؟ کیونکہ ان میں سے کتنے مشرک تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے! اس کا جواب یہ ہے کہ تم جب تک مشرک ہو اور مشرک ہو کر میرے رب کی عبادت کرو تو اس عبادت کا کوئی فائدہ نہیں ہے، موحد؛ موحد ہوتے ہوئے مشرک نہیں ہو سکتا اور مشرک؛ مشرک ہوتے ہوئے موحد نہیں ہو سکتا۔
[۲]: اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ ”مَا“ کبھی موصولہ ہوتا ہے جو بمعنی ”اَلَّذِیْ“ کے ہوتا ہے اور کبھی ”مَا“ مصدریہ ہوتا ہے کہ جس فعل پر داخل ہو اسے مصدر کے معنی میں کر دیتا ہے۔ یہاں جو پہلا جملہ ہے
﴿لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ۚ﴿۳﴾﴾
اس میں ”مَا“موصولہ ہے، اس صورت میں معنی یہ بنتا ہے کہ میں نہیں عبادت کرتا ان کی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور تم نہیں عبادت کرتے اس خدا کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں، اور دوسرے جملے
﴿وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدۡتُّمۡ ۙ﴿۴﴾ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ؕ﴿۵﴾﴾
میں
”مَا“
مصدریہ ہے۔
معنی ہو گا کہ میری عبادت کا طریقہ وہ نہیں ہے جو تمہاری عبادت کا طریقہ ہے اور تمہاری عبادت کا طریقہ وہ نہیں ہے جو میری عبادت کا طریقہ ہے۔ تو پہلے سے مراد معبودوں کا ختلاف ہے کہ میرا معبود الگ ہے اور تمہارا معبود الگ ہے․․․ اور دوسرے سے مراد طریقہ عبادت کا اختلاف ہے کہ تمہارا طریقہ عبادت الگ ہے اور میرا طریقہ عبادت الگ ہے، اور کلمہ
” لَا اِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ“
اس کی عملی تفسیر بنتا ہے۔ عبادت کے لیے بھی دو چیزیں ہوتی ہیں؛ ایک حکمِ خدا اور دوسرا طریقہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ معبود اور طریقہ عبادت دونوں الگ الگ ہیں۔
[۳]: اور تیسری تفسیر یہ ہے کہ اس میں تاکید مقصود ہے۔ مطلب یہ ہو گا کہ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں․․․ میں پھر کہتا ہوں کہ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ تو یہاں تکرار؛ تاکید کے لیے ہے۔
اہلِ باطل سے براءت کا اعلان:
﴿لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ ٪﴿۶﴾﴾
تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔ یہاں دین سے مراد یا تو ”جزا“ ہے کہ تمہارے عقیدے اور عمل کی جزا تمہیں ملے گی اور میرے عقائد اور اعمال کی جزا مجھے ملے گی․․․ یا دین کا معنی عقیدہ اور نظریہ ہے کہ تم اپنے دین پر ہو اور میں اپنے دین پر ہوں، میری وجہ سے اگر تم اپنا دین نہیں بدلتے تو تمہاری وجہ سے میں اپنا دین بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
دین اور مذہب میں فرق:
یہاں یہ بات سمجھ لیں کہ اصل میں دین اور مذہب میں فرق ہوتا ہے۔ دین کہتے ہیں منصوصات کو اور مذہب کہتے ہیں اجتہادیات کو۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں؛ مذاہب اربعہ، مذہب ابی حنیفہ․․․ ادیانِ اربعہ نہیں کہتےاور دینِ ابی حنیفہ بھی نہیں کہتے۔ جب یہ بات سمجھ آئے گی تو یہ اشکال ختم ہو جائے گا کہ جی انہوں نے دین کے چار ٹکڑے کر دیے ہیں؛ ایک دین ابو حنیفہ کا ہے، ایک دین شافعی کا ہے، ایک دین مالک کا ہے اور ایک دین امام احمد بن حنبل کا ہے -رحمہم اللہ- جبکہ قرآن کہتا ہے:
﴿اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللہِ الۡاِسۡلَامُ﴾
آل عمران 3: 19
کہ دین ایک ہی ہے اور انہوں نے دین کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ہم نے کہا کہ دین چار نہیں ہیں، دین ایک ہی ہے البتہ مذاہب چار ہیں۔ دین کہتے ہیں منزل کو مذہب کہتے ہیں راستے کو۔ منزل ایک ہوتی ہے اور منزل تک پہنچنے کے لیے راستے کئی ہو سکتے ہیں۔ تو دین؛ منصوصات کا نام ہے اور مذہب؛ اجتہادیات کا نام ہے۔
یہ بات میں نے اس لیے کی ہے کیونکہ بعض مفسرین یہاں کہتے ہیں کہ دین سے مراد دینِ اسلام ہے۔ تو جہاں یہ لکھا ہو کہ یہاں دین سے مراد مذہب ہے تو وہاں مذہب کا لفظ دین کے لیے استعمال ہوا ہوتا ہے ورنہ معنی دونوں کا بالکل الگ الگ ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے ایمان کا معنی الگ ہے اور اسلام کا معنی الگ ہے لیکن ایمان کا لفظ اسلام پر بولا جاتا ہے کیوں کہ ایمان سے مقصود اسلام ہے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں ہے۔ اس لیے ایسا اطلاق کبھی کبھی ہو جاتا ہے۔
سورۃ الکافرون اورسورۃ الاخلاص فجر اور مغرب کی سنتوں میں پڑھنا مستحب اور محبوب ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے اور آپ اس کا تذکرہ بھی فرمایا کرتے تھے۔
خطاب کرنے اور نقل کرنے میں فرق:
لفظ ”قل“ پر بات اچھی طرح سمجھو۔ میں کئی بیانات میں بات عرض کیا کرتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ تکلم فرماتے ہیں تو معنی الگ ہوتا ہے اور جب ہم تکلم کرتے ہیں تو معنی الگ ہوتا ہے۔ ہم اھل السنۃ والجماعۃ ہیں۔ ہم اذان سے پہلے
”اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ“
نہیں پڑھتے۔ کوئی بندہ پوچھے کہ تم کیوں نہیں پڑھتے؟ تو ہم کہتے ہیں کہ ہم اس لیے نہیں پڑھتے کہ ہم عاشقِ پیغمبر ہیں صلی اللہ علیہ وسلم۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر پیغمبر کے عاشق ہوتے پھر توپڑھتے، صلوٰۃ نہ پڑھنا یہ کون سا عشق پیغمبر ہے؟ ہم نے کہا: بھائی دیکھو! ہم یہاں زندہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں زندہ، اور یہاں سے مدینہ منورہ کا فاصلہ ہزاروں کلو میٹر کا ہے اور جس کو بڑا سمجھیں اس کو دور سے پکارنا ادب کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے ہم دور سے یا رسول اللہ نہیں کہتے کہ یہ ادب کے خلاف ہے۔
میں سمجھانے کے لیے پھر مثالیں دیتا ہوں اور طلبہ سے بھی کہتا ہوں کہ اپنے بیان میں مثال ضرور دیا کرو اس سے بات کھلتی ہے۔ ایک آدمی سکول میں جاتا ہے اور ہیڈ ماسٹر صاحب سے پوچھتا ہے کہ میں نے ماسٹر غلام رسول صاحب سے ملنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماسٹر صاحب تو ابھی چلے گئے۔ ایک بچے کو ہیڈ ماسٹر صاحب دوڑاتے ہیں کہ جاؤ اور ماسٹر صاحب کو بلا کر لاؤ۔ وہ بچہ ان کے پیچھے دوڑ رہا ہوتا ہے۔ کوئی دور سے اس بچے کو آتا ہوا دیکھتا ہے تو ماسٹر صاحب سے کہتا ہے کہ استاذ جی لگتا ہے کہ وہ بچہ آپ کو بلانے کے لیے دوڑا آ رہا ہے۔ ماسٹر صاحب پیچھے دیکھتے ہیں تو رک جاتے ہیں۔بچہ قریب آتا ہے تو پوچھتے ہیں کہ تم مجھے بلانے آئے ہو؟ وہ کہتا ہے: جی ہاں، آپ کو ہیڈ ماسٹر صاحب بلا رہے ہیں۔ بیٹا! آپ مجھے آواز دے دیتے! تو وہ بچہ کہتا ہے کہ سر! میں آپ کو آواز کیسے دیتا؟
اب دیکھو یہ ماسٹر غلام رسول ہے تو ہم اتنا ادب کرتے ہیں کہ غلام ر سول ہو اور استاذ ہو تو اس کو بھی دور سے نہیں پکارتے۔ تو خود رسول کو دور سے کیسے پکاریں گے؟! -صلی اللہ علیہ وسلم – اب دیکھو! کس طرح عوام کے ذہن میں مثال بیٹھتی ہے۔
تشہد کے صیغہ خطاب سے استدلال کا استدلال کا جواب:
اب اس پر وہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب آپ نماز پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں
”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ“
اب تو آپ نے بھی دور سے پکار لیا۔ تو اب آپ بھی بے ادب بن گئے۔ ہم نے کہا کہ نہیں! اذان سے پہلے
”اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ“
اور تشہدمیں
”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ“
کہنے میں فرق ہے۔ جواب بہت اچھی طرح سمجھنا! یہ مسئلہ بار بار آپ کو پیش آئے گا۔
اب فرق کیا ہے! جب اللہ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
• ﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾﴾
اے نبی! اٹھیں اور تہجد پڑھیں۔
• ﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾﴾
اے نبی! اٹھیں اور تبلیغ کریں۔
• ﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ﴾
اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور ایمان والی عورتوں سے فرمائیں کہ پردہ کریں۔
• ﴿قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾﴾
آپ فرمائیں کہ اے کافرو!
ان آیات میں اللہ رب العزت اپنے نبی کو حکم دیتے ہیں! اور جب ہم قرآن پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ﴾
تو ہم نبی کو حکم نہیں دیتے، جب ہم پڑھتے ہیں
﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ﴾
تو ہم حضور کو حکم نہیں دیتے، جب ہم پڑھتے ہیں
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ﴾
تو ہم حکم نہیں دیتے۔ فرق یہ ہے کہ جب اللہ
”یَا“
فرما دیں تو پیغمبر کو حکم دیتے ہیں اور جب ہم
”یَا“
کہیں تو حکم نہیں دیتے بلکہ اللہ کے خطاب کو نقل کرتے ہیں۔
جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر تشریف لے گئے ہیں معراج کے موقع پر؛ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:
”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ“
اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا تھا اور جب ہم نماز میں کہتے ہیں:
”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ“
تو ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب نہیں کرتے بلکہ ہم اللہ کے خطاب کو نقل کرتے ہیں۔ خطاب کرنا اور ہوتا ہے اور خطاب کو نقل کرنا اور ہوتا ہے۔ ہم خطاب نہیں کرتے بلکہ خطاب کو نقل کرتے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عرش سے فرش پر واپس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد میں پڑھا:
”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ“
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی نبی کو خطاب نہیں کیا بلکہ اللہ کے عرش والے خطاب کو نقل فرمایا۔ اسی طرح جب ہم پڑھتے ہیں تو ہم بھی پیغمبر کو خطاب نہیں کرتے بلکہ اللہ کے خطاب کو نقل کرتے ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․