سورۃ الضحیٰ
سورۃ الضحیٰ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الضُّحٰی ۙ﴿۱﴾ وَ الَّیۡلِ اِذَا سَجٰی ۙ﴿۲﴾ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی ؕ﴿۳﴾﴾
شانِ نزول:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے ایک دو راتیں تہجد کے لیے نہیں اٹھ سکے تو ابولہب کی بیوی ام جمیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جملے کسے کہ ان کے خدانے ان کو چھوڑ دیا ہے تو اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ دنوں کے لیے وحی نہیں آئی تو ابو لہب کی اس بیوی نے کہا کہ ان کو ان کے ساتھی نے چھوڑ دیا ہے تو اس وقت یہ سورت نازل ہوئی۔
Read more ...
سورۃ الیل
سورۃ الیل
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الَّیۡلِ اِذَا یَغۡشٰی ۙ﴿۱﴾ وَ النَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی ۙ﴿۲﴾ وَ مَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰۤی ۙ﴿۳﴾﴾
قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے اور دن کی جب وہ روشن ہو جائے اور قسم ہے اس اللہ کی جس نے مرد کو پیدا کیا ااور عورت کو پیدا کیا۔
انسانی کوشش کا تنوع:
﴿اِنَّ سَعۡیَکُمۡ لَشَتّٰی ؕ﴿۴﴾ فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰی وَ اتَّقٰی ۙ﴿۵﴾ وَ صَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۶﴾ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ﴿۷﴾﴾
Read more ...
سورۃ الشمس
سورۃ الشمس
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الشَّمۡسِ وَ ضُحٰہَا ۪ۙ﴿۱﴾ وَ الۡقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا ۪ۙ﴿۲﴾ وَ النَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا ۪ۙ﴿۳﴾ ﴾
گیارہ قسمیں:
یہاں اللہ رب العزت نے گیارہ قسمیں کھا کر یہ مضمون سمجھایا ہے اور قرآن کریم میں اس سے زیادہ کسی اور مضمون کو سمجھانے کے لیے اتنی قسمیں نہیں اٹھائی گئیں۔
﴿وَ الشَّمۡسِ وَ ضُحٰہَا ۪ۙ﴿۱﴾ ﴾
Read more ...
سورۃ البلد
سورۃ البلد
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۱﴾ وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۲﴾ وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ۙ﴿۳﴾﴾
قسم کے شروع میں ”لَا“ لانے کا مقصد:
﴿لَاۤ اُقۡسِمُ ﴾
کے شروع میں جو
”لَا“
ہے یہ کلامِ عرب میں معروف ہے کہ جب بھی ان کے ہاں قسم کھائی جاتی ہے تو قسم کے شروع میں
”لَا“
لگاتے ہیں۔ شروع میں
”لَا“
لانے کا مقصد مخاطب کے خیال کی تردید کرنا ہے کہ تمہارے ذہن میں جو بات ہے یہ غلط ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری بات ٹھیک ہے ۔﴿لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۱﴾﴾
Read more ...
سورۃ الفجر
سورۃ الفجر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَ الۡفَجۡرِ ۙ﴿۱﴾ وَ لَیَالٍ عَشۡرٍ ۙ﴿۲﴾ وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ ۙ﴿۳﴾ وَ الَّیۡلِ اِذَا یَسۡرِ ۚ﴿۴﴾﴾
فجر، دس راتوں، جفت اور طاق سے مراد :
﴿وَ الۡفَجۡرِ﴾․․․․
قسم ہے فجر کی۔ اس فجر سے مراد ہر روز کی فجر ہے۔ جب ہر روز صبح صادق ہوتی ہے تو اللہ کی نئی شان کا ظہور ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ”الفجر“ سے مراد خاص یوم النحر کی فجر ہے یعنی دس ذو الحجہ کی فجر۔ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ ہر دن کی رات ہوتی ہے صرف یوم النحر ایک ایسا دن ہے جس کی کوئی رات نہیں ہے، یوم النحر ہوتا ہے دس ذو الحجہ کو اور یوم عرفہ ہے نو ذو الحجہ کو کہ جب عرفات کے میدان میں حاجی وقوف کرتا ہے،