اکیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اکیسواں سبق
[1]: شان اہل بیت رضی اللہ عنہم
﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾
(الاحزاب:33)
ترجمہ: اے نبی کے اہل بیت! اللہ یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور رکھے اور تمہیں خوب پاکیزگی عطا فرمائے۔
فائدہ: اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ نبی علیہ السلام کے گھر والوں کو ان احکام پر عمل کرا کر خوب پاک و صاف کردے (جو اس آیت سے پہلے والی آیات میں بیان ہوئے ہیں ) اور ان کے مرتبہ کے موافق ایسی قلبی صفائی اور اخلاق کی ستھرائی عطا فرمائے جو دوسروں سے ممتاز اور فائق ہو۔ یہاں تطہیرسے مراد تہذیب ‘ تصفیہ قلب اور تزکیہ باطن کاوہ اعلیٰ مرتبہ ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حاصل ہوتا ہے اور جس کے حصول کے بعد وہ انبیاء کی طرح معصوم تو نہیں مگر محفوظ کہلواتے ہیں۔
نوٹ: یہاں ”اہل بیت“ سے ازواجِ مطہرات ہی مرادہیں کیونکہ اس آیت سے پہلے تمام ترخطابات ازواجِ مطہرات ہی سے ہوئے ہیں۔
[2]: مسنون تراویح
عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَمَرَہٗ اَنْ یُّصَلِّیَ بِاللَّیْلِ فِیْ رَمَضَانَ، فَقَالَ: اِنَّ النَّاسَ یَصُوْمُوْنَ النَّھَارَ وَلَا یُحْسِنُوْنَ اَن یَّقْرَءُوْا، فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَیْھِمْ بِاللَّیْلِ! فَقَالَ: یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! ہٰذَا شَیْیٌٔ لَمْ یَکُنْ․ فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتُ وَلٰکِنَّہٗ اَحْسَنُ فَصَلّٰی بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکَعَۃً.
(اتحاف الخیرۃ المھرۃ للبوصیری:ج2 ص424 باب فی قیام رمضان وما روی فی عدد ركعاتہ)
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو رات کے وقت نماز(تراویح) پڑھایا کریں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں اس لیے قرآن مجید اچھی طرح نہیں پڑھ سکتے۔ اگر آپ رات کے وقت ان کو قرآن سنائیں (تو بہت اچھا ہے)۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اے امیر المومنین! یہ ایک ایسی چیز ہے جو پہلے نہیں ہوئی۔ فرمایا: مجھے معلوم ہے لیکن یہ بہت اچھی چیز ہے۔ چنانچہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعتیں (تراویح) پڑھائیں۔
[3]: صحابہ رضی اللہ عنہ کے متعلق چند عقائد
حب ِصحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم:
صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی علامت ہے اور صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم دونوں سے بغض یا ان دونوں میں سے کسی ایک سے محبت اور دوسرے کے ساتھ بغض، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی علامت وگمراہی ہے۔
عفت امہات المومنین:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت جن کا اولین مصداق امہات المومنین رضی اللہ عنہن ہیں، ان کو پاک دامن اور صاحب ایمان ماننا ضروری ہے۔
فائدہ: امہات المؤمنین کے نام یہ ہیں:
(1)حضرت خدیجہ بنت خویلد(2)حضرت سودہ بنت زمعہ (3)حضرت عائشہ بنت صدیق اکبر(4)حضرت حفصہ بنت فاروق اعظم (5)حضرت زینب بنت خزیمہ (6)حضرت ام سلمہ بنت ابی امیہ(7)حضرت زینب بنت جحش(8)حضرت جویریہ بنت الحارث(9)حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان (10)حضرت صفیہ بنت حیی (11)حضرت میمونہ بنت الحارث رضی اللہ تعالی عنہن۔
مشاجرات ِصحابہ رضی اللہ عنہم:
مشاجرات ِصحابہ رضی اللہ عنہم میں حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب تھا اور ان کے مخالف خطاپر تھے، لیکن یہ خطاء ؛خطاء عنادی نہ تھی بلکہ خطاء اجتہادی تھی اور خطا ء اجتہادی پر طعن اور ملامت جائز نہیں بلکہ سکوت و اجب ہے اور حدیث پاک میں اس پر ایک اجر کا وعدہ ہے۔
حق حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے باہمی اختلاف میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور یزید کی حکو مت نہ خلافت راشدہ تھی اور نہ خلافت عادلہ اور یزید کے اپنے عملی فسق سے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بَری ہیں۔
[4]: مرد وعورت کی نماز میں فرق
مرد و عورت کے درج ذیل احکام ایک دوسرے سے مختلف ہیں:
[1]: مرد نمازشروع کرتے وقت اپنے ہاتھ کانوں کے برابر اٹھائے جب کہ عورت ہاتھوں کوسینے کے برابر اٹھائے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی: ج9ص144رقم17497)
[2]: مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج3 ص321 ص322، مسند زید بن علی: ص219)
جبکہ عورت اپنے سینہ پر ہاتھ باندھے۔
(مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص153، السعایۃ ج 2ص156)
[3]: مرد رکوع میں اپنی انگلیوں کو کشادہ کرتے ہوئے گھٹنوں کو پکڑے گا، اپنی کہنیوں کو پہلو سے جدا رکھے گا، پشت کو سیدھا رکھے گا اور سر کو نہ اونچا کرے گا نہ نیچا۔
(سنن ابی داؤد: ج1ص125، 126، المعجم الاوسط للطبرانی ج 4ص281، صحیح مسلم: ج1 ص194)
جبکہ عورت رکوع میں مرد کی بنسبت کم جھکے گی، اپنے ہاتھ بغیر کشاد کیے ہوئے گھٹنوں پر رکھے گی اور کہنیوں کو پہلو سے ملا کر رکھے گی۔
(مصنف عبدالرزاق ج3ص50رقم5983، فتاویٰ عالمگیری: ج1ص74)
[4]: مرد سجدہ میں اپنا پیٹ رانوں سے دور رکھیں گے، اپنی کہنیوں کو زمین سے بلند رکھتے ہوئے پہلو سے جدا رکھیں گے اور سرین کو اونچا کریں گے۔
(صحیح البخاری: باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم، باب لایفترش ذراعیہ فی السجود، سنن ابی داؤد: ج1ص130)
جبکہ عورت ان سب اعضاء کو ملا کراور سمٹا کر رکھے۔
(مراسیل ابی داؤد: ص103، الکامل لابن عدی ج 2ص501 السنن الکبریٰ للبیہقی: ج 2ص222)
[5]: قعدہ میں مرد اپنا پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھے۔
(صحیح البخاری: ج1ص114،صحیح مسلم: ج1ص194 ص195)
جبکہ عورت بائیں کولہے پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف نکال دے اور دائیں پنڈلی کو بائیں پنڈلی پررکھے۔
(مسند ابی حنیفۃ روایۃ الحصكفی: رقم الحديث 114،الکامل لابن عدی ج 2ص501، السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2ص223)
[6]: مرد کا سر اگر نماز میں ننگا ہو تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن اس کے لیے پگڑی اور ٹوپی افضل ہے۔
(صحیح البخاری: ج1ص56، وغیرہ)
جبکہ عورت کی نماز بغیر دوپٹہ کے نہیں ہوتی۔
(سنن ابی داؤد: ج1 ص94، سنن الترمذی: ج1 ص56، سنن ابن ماجۃ: ص48)
[7]: مردوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ فرض نماز باجماعت ادا کریں۔ اس کے ترک پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔
(سنن ابی داؤد: ج1 ص80 تا 82، سنن النسائی: ج1 ص134 تا 136)
جبکہ عورت کے لیے اپنے گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔
(سنن ابی داؤد: ج1 ص84، الترغیب والترھیب للمنذری ج1 ص225)
[8]: عورت؛ مردوں کی امامت نہیں کراسکتی جبکہ مرد عورتوں کی امامت کرا سکتا ہے۔
(محلی ابن حزم: ج3 ص135، 136)
[9]: عورتوں کی جماعت مکروہ ہے۔
(مسند احمد،طبرانی بحوالہ اعلاء السنن: ج4ص214)
لیکن اگر وہ جماعت کروانا ہی چاہیں [مثلاً رمضان میں حافظہ عورت تراویح پڑھائے] تو ان کی امام صف کے درمیان میں کھڑی ہو گی۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج3ص131، مصنف عبدالرزاق: ج3ص131)
جبکہ مردوں کا امام سب سے اگلی صف میں اکیلا کھڑا ہوگا۔
(سنن الترمذی: ج1 ص54، صحیح مسلم: ج2 ص417)
[10]: مردوں کے لیے اذان اور اقامت سنت موکدہ ہے جبکہ عورتوں کے لیے نہ اذان مسنون ہے اور نہ اقامت۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج1 ص408)
نوٹ: مرد و عورت کی نماز میں فرق کے تفصیلی دلائل کے لیے بندہ کی مرتب کردہ فائل ”مرد و عورت کی نماز میں فرق“ ملاحظہ فرمائیں۔
[5]: دودھ پینے کی دعا
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَ زِدْنَا مِنْہُ.
(سنن ابی داؤد: ج2 ص168کتاب الاشربۃ باب ما یقول اذا شرب اللبن)
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے لیے اس میں برکت ڈالیے اور ہم کو مزید دیجیے۔