چوبیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
چوبیسواں سبق
[1]: زنا حرام ہے
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَآءَ سَبِيْلًا﴾
(بنی اسرائیل:32)
ترجمہ: اورزنا کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔
فائدہ: یعنی زنا کرنا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی سخت نافرمانی ہے۔ لہذا اس کے قریب بھی مت جاؤاور”لَاتَقْرَبُوْا“ میں مبادی زنا جیسے بدنظری، گانا وغیرہ سے بچنے کی ہدایت کر دی گئی۔
[2]: فضیلت تعلیم قرآن
عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهٗ".
(صحیح البخاری: ج2 ص752 کتاب فضائل القرآن. باب خیركم من تعلم القرآن وعلمہ)
ترجمہ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم میں سے سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن مجید سیکھے اور سکھائے۔
[3]: تصوف و تزکیہ
تصّوف:
روحانی بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کا نام ”تصوف“ ہے، جس کو قرآن کریم میں ”تزکیہ نفس“ اور حدیث میں لفظ ”احسان“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
بیعت:
عقائد و اعمال کی اصلاح فرض ہے جس کے لیے صحیح العقیدہ، سنت کے پابند، دنیاسے بے رغبت اور آخرت کے طالب، مجاز بیعت، شیخ طریقت سے بیعت ہونا مستحب بلکہ واجب کے قریب ہے۔
عورت اپنے پیر اورشیخ سے پردہ کرے:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: أَوْمَتِ امْرَأَةٌ مِنْ وَرَآءِ سِتْرٍ بِيَدِهَا كِتَابٌ إِلٰى رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَ النَّبِىُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَقَالَ: "مَا أَدْرِىْ أَ يَدُ رَجُلٍ أَمْ يَدُ امْرَأَةٍ؟"، قَالَتْ: بَلِ امْرَأَةٌ! قَالَ: "لَوْ كُنْتِ امْرَأَةً لَغَيَّرْتِ أَظْفَارَكِ" يَعْنِىْ بِالْحِنَّاءِ․
( سنن ابی داؤد:ج2 ص220 کتاب الترجل. باب فی الخضاب للنساء)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت کے ہاتھ میں ایک پرچہ تھا، اس نے پرچہ دینے کے لیے پردہ کے پیچھے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہاتھ بڑھایا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ روک لیا اور فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ مرد کا ہاتھ ہےیا عورت کا؟ اس عورت نے کہا کہ ”یہ عورت کاہاتھ ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اگر توعورت ہوتی تو اپنے ناخنوں کو رنگ لیتی!“ (یعنی مہندی لگا لیتی)
تشریح: اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ صحابیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پردہ کرتی تھیں، اسی لیے توایک عورت نے پردہ کے پیچھے سے پرچہ دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اگر بے پردہ سامنے آتیں توپردہ کی کیا ضرورت تھی؟!
فائدہ: اس حدیث سے ان جاہل پیروں کی گمراہی بھی معلوم ہوئی جواپنی مریدنیوں کے گھروںمیں بے محاباگھس جاتے ہیں اورپردہ کااہتمام نہیں کرتے۔بعض عورتیں کہتی ہیں کہ ان سے کیا پردہ؟پیر میاں ہیں، نیک آدمی ہیں۔بھلا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون نیک، پارسا اور پاکباز ہوگا؟ ؟جب صحابیات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پردہ کیاتو کسی دوسرے کے لیے کیا گنجائش ہوسکتی ہے جو نیکی کے جھوٹے دعوے کر کے بے محابا عورتوں میں چلے جاتے ہیں ایسے لوگ پیرومرشد نہیں بلکہ گمراہ ہیں جوشیطان کی راہ دکھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بیعت وغیرہ ہونا اور ان کو اپنا مرشدبنانا حرام ہے۔مردوں اورعورتوں دونوں کو ایسے پیروں سے بچناضروری ہے۔
[4]: نفل نمازیں
نماز پنجگانہ کے علاوہ کچھ خاص اوقات میں یا خاص مقاصد کے لیے نفل نمازوں کی فضیلت بھی احادیث مبارکہ میں آئی ہے جن میں سے معروف یہ ہیں:
نماز تہجد:
اس کابہترین وقت صبح سے تھوڑاپہلے رات کا آخری حصہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول آٹھ رکعات کا تھا۔ یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فرض تھی البتہ امت کے لیے نفل اورانتہائی با فضیلت نماز ہے۔
اشراق:
اس نماز کاوقت سورج طلوع ہوکر کچھ بلند ہوجانے سے لے کر تقریباً اڑھائی گھنٹے تک ہے۔ اس کی چار یا دورکعتیں ہیں۔
چاشت:
اشراق کاوقت ختم ہونے پر اس کاوقت شروع ہوتاہے اوردوپہر سے پہلے تک باقی رہتاہے ۔ اس کی چار یا آٹھ رکعتیں ہیں۔
اوابین:
مغرب کے فرض اورسنتوں کے بعد چار سے لے کر بیس رکعات تک نوافل کی ادائیگی نماز اوابین کہلاتی ہے۔
نمازتوبہ:
عمومی گناہوں پر یا کسی خاص گناہ پر اپنی توبہ کو مؤثر بنانے کے لیے دو،چار رکعات نماز توبہ پڑھ کر خوب گڑ گڑاکرمعافی مانگی جائے۔ اس کا کوئی و قت مقرر نہیں۔
نمازحاجت:
کوئی ضرورت پھنسی ہو، کوئی مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو یا کوئی مشکل در پیش ہوتو دورکعات پڑھ کرخاص اس حاجت کے لیے اللہ سے مانگاجائے۔
نمازاستخارہ:
کسی مسئلے میں بات ایک طرف نہ لگ رہی ہو،رائے میں استحکام نہ آرہا ہو،نفع نقصان واضح نہ ہورہا ہوتو دوشقوں میں سے ایک کی تعیین میں اللہ سے مدد مانگنے کے لیے یہ نماز ہے۔ اس میں دورکعت یکسوئی کے وقت مثلاً سوتے وقت پڑھی جاتی ہے اور اس کے بعد مسنون دعائے استخارہ پڑھی جاتی ہے۔ دعائے استخارہ یہ ہے:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ․اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ، فَاقْدِرْہُ لِیْ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ․وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ․
(بخاری،کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الاستخارۃ)
دعاکرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچیں (جس کے نیچے لکیر لگی ہوئی ہے) تو اگر عربی جانتے ہیں تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کریں یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لیں، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع“کہیں، اور اگر عربی نہیں جانتے تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچیں جس کے لیے استخارہ کررہے ہیں۔
استخارہ کی دعا کا مطلب ومفہوم
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں اور آپ سے آپ کا بڑا فضل مانگتا ہوں۔ آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں، آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا اور آپ غیب جاننے والے ہیں۔
یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہے ہیں) میرے حق میں بہتر ہے، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادیجیے۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہے ہیں) میرے حق میں برا ہے، میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے۔
صلاۃ التسبیح:
یہ پسندیدہ نفل نماز ہے جس کی تاکید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کی تھی۔ اس نماز پرہرقسم کے صغیرہ گناہوں کی معافی کی فضیلت بتائی گئی ہے۔
طریقہ صلوٰۃ التسبیح:
ارکان
تسبیح کب پڑھنی ہے
پہلا طریقہ
دوسراطریقہ
قیام
”سبحانک اللھم“ کے بعد قرأت سے پہلے

X

15مرتبہ
قیام
قرأت کے بعد رکوع سے پہلے
15مرتبہ
10مرتبہ
رکوع
”سبحان ربی العظیم“ (3مرتبہ)کے بعد
10مرتبہ
10مرتبہ
قومہ
”ربنا لک الحمد“ کے بعد کھڑے ہوکر
10مرتبہ
10مرتبہ
پہلا سجدہ
”سبحان ربی الاعلٰی“ (3مرتبہ)کے بعد
10مرتبہ
10مرتبہ
جلسہ
دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے
10مرتبہ
10مرتبہ
دوسراسجدہ
”سبحان ربی الاعلٰی“ (3مرتبہ)کے بعد
10مرتبہ
10مرتبہ
قعدہ اولیٰ
قعدہ ثانیہ
دوسرے سجدہ کے بعد بیٹھ کر (دوسری،چوتھی رکعت میں تشہد سے پہلے)
10مرتبہ

X

کل تعداد ایک رکعت میں
75مرتبہ
75مرتبہ
کل تعداد چار رکعات میں
300مرتبہ
300مرتبہ
تیسرے کلمہ کا پہلاحصہ
”سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ“
چار رکعت نفل میں تین سو مرتبہ پڑھنا ہے اس طرح کہ ہر رکعت میں 75 مرتبہ ہوجائے۔ اس کے دوطریقے روایات میں آتے ہیں جو درج ذیل نقشے سے واضح ہیں :
[5]: ملاقات کے وقت کی دعا
أَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.
(سنن الترمذی: ج ص98 کتاب الاستئذان باب ما ذکر فی فضل السلام)
ترجمہ: تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔