اکتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اکتیسواں سبق
[1]: مصیبت؛ گناہ کا وبال ہے
﴿مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللهِ ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ۭ وَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَكَفٰى بِاللهِ شَهِيْدًا﴾
(النساء:79)
ترجمہ: تمہیں جو بھی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف ہوتی ہے اور جو بھی برائی پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے اور (اے پیغمبر!) ہم نے آپ کو لوگوں کے پاس رسول بناکر بھیجاہے اور اللہ گواہی دینے کے لئے کافی ہے۔
فا ئدہ: انسان کو چاہیے کہ نیکی کو حق تعالی کا فضل او راحسان سمجھے اور سختی اور برائی کو اپنے اعمال کی شامت جانے۔
[2]: جس سے محبت اسی کے ساتھ انجام
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: "أَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ".
(صحیح البخاری:ج2 ص911 کتاب الادب. باب علامۃ الحب فی اللہ عزوجل)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی۔
[3]: قیامت کی علاماتِ کبریٰ
وہ نشانیاں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ وہ قیامت کے قریب ظاہر ہوں گی جیسے امام مہدی کا ظہور، دجال کا خروج، حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا آسمان سے نزول، یا جوج ماجوج، دآبۃ الارض کا خر وج وغیرہ۔
ظہور مہدی:
قیامت کی علامات کبریٰ میں پہلی علامت امام مہدی کا ظہور ہے۔ ’’مہدی‘‘ لغت میں ہر ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں۔ لغوی معنی کے لحاظ سے ہر اس عالم کو جس کا علم صحیح ہو ”مہدی“ کہا جا سکتاہے بلکہ ہر سچے اور پکے مسلمان کو مہدی کہا جا سکتا ہے لیکن جس ”مہدی موعود“ کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیر زمانہ میں اس کے ظہور کی خبر دی ہے اس سے مراد ایک خاص شخص ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہوں گے، ان کا نام محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا، سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، مدینہ کے رہنے والے ہوں گے، مکہ میں ان کا ظہور ہوگا، شام اورعراق کے اولیاء اور ابدال ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ جو خزانہ خانہ کعبہ میں مدفون ہے حضرت مہدی اسے نکال کر مسلمانوں میں تقسیم فرمائیں گے۔ پہلے ان کی حکومت عرب میں ہوگی پھر ساری دنیا میں پھیل جائے گی، دنیا کو عدل اور انصاف سے بھر دیں گے جبکہ اس سے بیشتر دنیا ظلم وستم سے بھری ہوگی، شریعت محمدیہ کے مطابق آپ کا عمل ہو گا۔ امام مہدی کے زمانہ میں دجال نکلے گااور انہی کے زمانہ بادشاہت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے جامع مسجد دمشق کے مشرقی منارہ پر فجر کی نماز کے قریب نازل ہوں گے اور امام مہدی کے پیچھے نماز ادا فرمائیں گے۔ امام مہدی؛ نصاریٰ سے جہاد کریں گے اور قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔
[4]: زکوٰۃ کے بقیہ احکام
زکوٰۃ کے مصارف:
1: فقراء ․․․․ ”فقیر“ اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو۔
2: مساکین․․․ ”مسکین“ اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ ہو لیکن ضرورت سے کم ہو۔
3: عاملین زکوۃ․․․ اسلامی حکومت کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر اہل کار
4: مؤلفۃ القلوب․․․ نو مسلم جن کی دل جوئی کے لیے انہیں زکوٰۃ دی جاتی تھی لیکن اب یہ مصرف باقی نہیں رہا۔
5: غارمین ․․․ ایسے مقروض لوگ جن کے تمام اثاثے ان کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہوں، یا اگر یہ لوگ اپنے اثاثوں سے قرض ادا کریں تو نصاب کے بقدر ان کے پاس مال باقی نہ رہے۔
6: فک رقاب․․․ غلاموں کو آزادی دلانے کے لیے۔
7: فی سبیل اللہ․․․ جہاد پر جانے والوں کے سازو سامان کی تیاری میں۔
8: ابن سبیل․․․مسافر کے لیے یعنی وہ شخص جس کے پاس اگرچہ اپنے وطن میں نصاب کے بقدر مال تو موجود ہے لیکن سفر میں اس کے پاس اتنی رقم نہ ہو جس سے وہ سفر کی ضروریات پوری کر کے وطن واپس جا سکے۔
زکوۃ کی ادائیگی کی شرائط:
1: فقیرکو مالک بنانا
2: زکوۃ مستحق کو دینا۔
3: زکوۃ دیتے وقت زکوۃکی نیت کرنا۔
جن کو زکوۃ دینا جائز نہیں:
1- زکوۃ کی رقم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لیے حلال نہیں۔ آپ کے خاندان سے مراد ہیں: آل علی، آل عقیل، آل جعفر، آل عباس اور آل حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم۔ جو شخص مذکورہ پانچ بزرگوں کی نسل سے ہو اسے زکوۃ نہیں دے سکتے، ان کی مدد کسی اور ذریعے سے کرنی چاہئیے۔
2- کافر کو زکوۃ دینا جائز نہیں۔
3- ایسی NGO’s اور ادارے جو شرعی حدود کا لحاظ نہیں کرتے، انہیں زکوۃ دینا جائز نہیں۔
4- شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے۔
5- اپنے آباء و اجداد یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اور اپنی آل اولاد یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسہ نواسی وغیرہ کو زکٰوة دینا جائز نہیں۔ ان کے علاوہ باقی مستحق رشتہ داروں کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔
6- مسجد میں زکوۃ کی رقم نہیں دے سکتے۔
[5]: در دسے نجات کے لیے دعا
درد والی جگہ پر ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ بسم اللہ پڑھیں اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھیں۔
اَعُوْذُ بِاللہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّمَا اَجِدُ وَأُحَاذِرُ․
(صحیح مسلم: ج2 ص224 کتاب السلام باب استحباب وضع یدہ علی موضع الالم مع الدعاء)
ترجمہ: میں اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت کی پناہ میں آتی ہوں اس درد کے شر سے جو مجھے محسوس ہو رہا ہے اور جس سے میں ڈرتی ہوں۔