بتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بتیسواں سبق
[1]: رمضان کے روزے کی فرضیت
﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۭوَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۭ يُرِيْدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلٰى مَا هَدٰكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾
(البقرہ:185)
ترجمہ: رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو سیدھی راہ دکھاتی ہیں اور حق وباطل کے درمیان فرق کرتی ہیں۔ اس لئے تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینا پائے تو وہ اس میں ضرور روزہ رکھے اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتاہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا تاکہ تم (روزوں کی) گنتی پوری کر لو اور اللہ نے تمہیں جو طریقہ سکھایا ہے اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔
[2]: روزہ و قرآن کی دربار الہٰی میں سفارش
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ، فيَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ! إِنِّيْ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِيْ فِيْهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِيْ فِيْهِ، فَيُشَفَّعَانِ"․
(شعب الایمان للبیہقی: ج2 ص346 کتاب تعظیم القرآن․ فصل ادمان تلاوۃ القرآن)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:روزہ اور قرآن بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا اے میرے رب! میں نے اسے کھانے اور خواہشات سے دن کو روکے رکھا، میری سفارش اس کے حق میں قبول فرمائیے۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کورات کے سونے سے روکے رکھا، میر ی سفارش اس کے حق میں قبول فرمائیے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔
[3]: خرو جِ دجال
قیامت کی علامات کبریٰ میں دوسری علامت خروج دجال ہے جو احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔دجال "دجل" سے مشتق ہے جس کے معنی لغت میں بڑے جھوٹ،مکر، فریب اور حق و باطل کو خلط ملط کرنے کے ہیں۔لغوی معنی کے لحاظ سے ہر جھوٹے اور مکا رکو دجال کہہ سکتے ہیں لیکن حدیث شریف میں جس دجال موعود کے خروج کی خبر دی گئی ہے وہ ایک خاص کافر شخص کا نام ہے جو قوم یہود سے ہو گااور مسیح اس کا لقب ہوگا۔ اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ وہ کانا ہو گا اور مسیح کا مطلب ہو ا جس کی آنکھ ہاتھ پھیر کر صاف اور ہموار کردی گئی ہو، ایک آنکھ میں انگور کے دانے کے برابر ناخونہ ہوگا،دونوں آنکھوں کے درمیان" ک۔ ف۔ ر" لکھا ہواہوگا۔
سب سے پہلے اس کا ظہور شام اور عراق کے درمیان ہو گا اور نبوت کا دعویٰ کرے گا۔پھر اصفہان آئے گا۔وہا ں ستر ہزار یہودی اس کے تابع ہو جائیں گے بعدازاں وہ خدائی کا دعوی کرے گا اورزمین میں فساد پھیلاتا پھرے گا۔ حق تعالی بندوں کے امتحان کے لیے اس کے ہاتھ سے قسم قسم کے کرشمے اور شعبدے ظاہر فرمائیں گے۔ لیکن اخیر میں وہ ایک شخص کو قتل کر کے زندہ کرے گا اور پھر اس کو قتل کر نا چاہے گا لیکن اس کے قتل پر ہر گز قادر نہ ہو گا تو اس سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ یہ شخص دعوائے خدائی میں بالکل جھوٹا ہے۔
اول․․․ تو اس کا کانا ہونا ہی اس کے خدا نہ ہونے کی نہایت روشن اور بین دلیل ہوگی۔
دوم․․․ یہ کہ اس کی آنکھوں کے درمیان" ک، ف، ر "لکھا ہوگا۔
سوم․․․․ یہ کہ قتل کرنا ایسا فعل ہے جو بشر کی قدرت میں داخل ہے۔ جب اس میں یہ قدرت باقی نہ رہی کہ وہ دوبارہ قتل کر سکے تو وہ خدا کیونکر ہو سکتاہے؟اور یہ جو چندروزاس کے ہاتھ سے احیاء موتیٰ کا ظہور ہوتا رہا فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کا فعل تھا جو اس کے ہاتھ سے محض استدراج، ابتلاء اور امتحان کے طور پر کرایا گیا۔
خروج دجال کب ہو گا؟
امام مہدی ظاہر ہونے کے بعد نصاریٰ سے جہاد وقتال کریں گے یہاں تک کہ جب قسطنطنیہ کو فتح فرما کر شام واپس ہو ں گے اور شہر دمشق میں مقیم ہوں گے اور مسلمانوں کے انتظام میں مصروف ہوں گے تو اس وقت دجال کا خروج ہوگا۔ دجال مع اپنے لشکر کے زمین میں فسادمچا تا پھرے گا یمن سے ہو کر مکہ مکرمہ کارخ کرے گا مگر مکہ مکرمہ پر فرشتوں کا پہرہ ہو گا اس لیے دجال مدینہ منورہ کا ارادہ کرے گا۔
مدینہ منورہ کے دروازوں پر بھی فر شتوں کا پہرہ ہوگااس لیے دجال مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکے گا۔بالآخر پھر پھرا کر شام واپس آئے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر فجر کی نماز کے وقت دوفرشتوں کے بازؤوں پرہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے نازل ہوں گے اور اس لعین کو قتل کریں گے جیسا کہ آئندہ علامات کے بیان میں آئے گا۔
[4]: روزہ کے مسائل و احکام
روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جنسی تعلق سے رکنے کا نام ”روزہ“ ہے۔
فرض روزہ: ہر عاقل، بالغ مسلمان پر رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں۔
واجب روزہ: نذر مانے ہوئے روزےاورکفارے کے روزے واجب ہیں۔ نفل روزہ شروع کرنے کے بعد اس کی تکمیل واجب ہے۔
مسنون روزہ: یوم عاشورہ یعنی 10 محرم کا روزہ، ایک روزہ مزید 9 یا 11 محرم کا ملا کر رکھنا سنت ہے۔
مستحب روزہ: ہر ماہ تین دن بالخصوص 13، 14، 15 کا روزہ رکھنا۔ شوال میں چھےروزے۔ ہفتہ وار پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنا۔ 9 ذو الحجہ بلکہ یکم تا 9 ذو الحجہ روزہ رکھنا مستحب ہے۔
حرام روزہ: یکم شوال اور 10، 11، 12، 13 ذو الحجہ کو روزہ رکھنا حرام ہے۔
مسئلہ: روزے کے دوران بھول کر کھا پی لینے یاہم بستری کر لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
فائدہ:
روزہ ٹوٹ جانے کی صورت میں اکثر صورتوں میں صرف قضا ء ہوتی ہے۔ بعض صورتوں میں(جبکہ روزہ توڑنے کا جرم انتہائی کامل ہو) قضا ء کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہوتا ہے۔
کفارہ میں مرحلہ وار تین شقیں ہیں:
1: غلام آزاد کرنا لیکن اب غلاموں کا دور نہیں۔
2: غلام آزاد نہ کرسکنے کی صورت میں مسلسل دو ماہ یعنی ساٹھ دن روزے رکھنا۔ (اگر قمری مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع کیے تو چاند کے مطابق یعنی انتیس کا کوئی مہینہ ہوگیا تو روزے 59لازم ہوں گے)
3: اگر دیندار مستند طبیب کی رائے سے یا اپنے سابق تجربہ سے واقعتاً مسلسل دو ماہ روزے نہ رکھ سکتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ایک مسکین کو ساٹھ دن بھی کھلا سکتے ہیں اور تسلسل ضروری نہیں۔ ایک مسکین کے صبح وشام کھانے کی جگہ صدقہ فطر کی مقدار یعنی پونے دو سیر گندم یا اس کا آٹا بھی دے سکتے ہیں۔نیز اتنی ہی مالیت کی رقم یاا تنی ہی رقم کی دیگر اشیا ء مثلاً کپڑے جوتے وغیرہ بھی خرید کر دے سکتے ہیں۔
کفا رے کے روزوں میں تسلسل ضروری ہے لیکن عورت کفار ے کے روزے رکھ رہی ہے اور درمیان میں حیض حائل ہو جائے تواس سے تسلسل ٹوٹنے میں کوئی حرج نہیں۔البتہ نفاس حائل ہونے یا ایام ممنوعہ 10، 11، 12، 13 ذو الحجہ حائل ہونے پر دوبارہ نئے سرے سے روزے رکھنا ہوں گے۔
[5]: بے چینی کے وقت کی دعا
أَللهُ رَبِّىْ لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا․
(سنن ابی داؤد:ج1 ص213کتاب الوتر․ باب فی الاستغفار)
ترجمہ: اللہ ہی میرا رب ہے، میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتی۔