چونتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
چونتیسواں سبق
[1]: حج کی فرضیت
﴿وَلِلهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ﴾
(آل عمران:97)
ترجمہ: جو لوگ خانہ کعبہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ تعالیٰ کےلیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے اور اگر کوئی انکار کرے (تویاد رکھو) اللہ تعالیٰ دنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے نیاز ہے۔
[2]: حج نہ کرنے پر وعید
عَنْ عَلِيٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلٰى بَيْتِ اللهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوْتَ يَهُوْدِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا وَذٰلِكَ أَنَّ اللهَ يَقُوْلُ فِيْ كِتَابِهٖ: ﴿وَلِلهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا﴾․"
(سنن الترمذی: ج 1 ص 288ابواب الحج․ باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس شخص کےپاس سفر ِ حج کا ضروری سامان موجود ہو اور سواری بھی میسر ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا دے اور یہ شخص پھر بھی حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جو لوگ اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ تعالیٰ کےلیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے “
[3]: خروجِ یا جوج ماجوج کا عقیدہ
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور دجال کی ہلاکت کے کچھ عرصہ بعد امام مہدی انتقال فرماجائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی نمازجنازہ پڑھائیں گے۔ بیت المقدس میں ان کا انتقال ہو گا اور وہیں مدفون ہوں گے۔ امام مہدی کی وفات کے بعد تمام انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہو گا اور زمانہ نہایت سکون اور راحت سے گزر رہا ہوگاکہ یکایک وحی نازل ہوگی کہ اے عیسیٰ! تم میرے بندوں کو کوہ طور کے پاس لے جاؤ!میں اب ایک ایسی قوم کو نکا لنے والا ہوں کہ جس کے ساتھ لڑنے کی کسی کو طاقت نہیں۔ وہ قوم یا جوج ماجوج کی قوم ہے جو یافث بن نوح کی اولا د میں سے ہے۔
شاہ ذوالقرنین نے دو پہاڑوں کے درمیان ایک نہایت مستحکم آہنی دیوار قائم کر کے ان کا راستہ بند کر دیا تھا۔ قیامت کے قریب وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم ٹڈی دل کی طرح ہر طرف سے نکل پڑے گی اور دنیا میں فساد پھیلائے گی (جس کا قصہ قرآن کریم کی سورہ کہف آیت 93تا98 میں مذکور ہے) اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو لے کرکوہِ طور کی طرف چلے جائیں گے۔ با رگا ہ خداوندی میں یا جوج ماجوج کے حق میں طاعون کی ہلاکت کی دعا کریں گے جب کہ باقی لوگ اپنے اپنے طور پر قلعہ بند اور محفوظ مکانوں میں چھپ جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو طاعون کی وباء سے ہلاک کرے گااور اس بلائے آسمانی سے سب مرجائیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالی لمبی گردن والے پرندے بھیجے گا جو بعض کو تو کھا جائیں گے اوربعض کو اٹھا کر سمند رمیں ڈال دیں گے اور پھر بارش ہوگی جس کے سبب ان مرداروں کی بدبو سے نجات ملے گی اور زندگی نہایت راحت اور آرام سے گزرے گی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس یا پینتالیس سال زندہ رہ کر مدینہ منورہ میں انتقال فرمائیں گے اور روضہ اقدس میں دفن ہوں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے بعد ایک قحطانی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر کر جائیں گے جس کا نام’’ جہجاہ‘‘ ہوگا، خوب اچھی طرح عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرے گا مگر ساتھ ہی شراور فسا دپھیلنا شروع ہو جائے گا۔
[3]: حج کے مسائل واحکام
اسلام کا پا نچواں رکن حج ہے۔ حج ہر ایسے مسلمان عاقل بالغ پر زندگی میں ایک بار فرض ہے جو حج پر جانے کے وقت حاجاتِ اصلیہ کے علاوہ اتنے سرمایہ وغیرہ کا مالک ہو جس سے اس کے بیت اللہ تک آنے جانے اور واپس آنے تک اہل وعیال کا خرچ پورا ہو سکے۔
چند مسائل:
1: اگر کسی کے پاس صرف اتنا خرچ ہے کہ مکہ تک سواری پرآنا جانا تو ہو سکتا ہے مگر مدینہ منورہ تک پہنچنے کا خرچ نہیں ہے تو اس پر بھی حج فرض ہو جاتاہے۔
2: حج عمر بھر میں بس ایک مرتبہ فرض ہے۔ اگر کئی حج کیے تو ایک فرض اور باقی سب نفل ہوں گے۔ نفل حج کا بھی ثواب ہے۔
3: لڑکپن میں ماں باپ کے ساتھ اگر کسی نے حج کر لیا ہو تو وہ نفلی حج ہے۔ اگر جوان ہونے کے بعد صاحب استطاعت ہو جائے تو پھر حج کر نا فرض ہو گا۔
4: اگر کسی ایسے شخص نے قر ض لے کر یا مانگ تانگ کر حج کر لیا جو صاحب استطاعت نہ تھا، اس کے بعد اگر مال دار ہو جائے تو دوبارہ حج کر نا فرض نہ ہوگا۔
5: عورت پر حج فرض ہونے کےلیے اپنا اور محرم کا خرچ ضروری ہے۔
6: عورت کے لئے محرم یا شوہر کے بغیر 48 میل (یعنی 77 کلو میٹر) یا اس سے زیادہ کا سفر کرنا شر عاً ممنوع ہے، سفر خواہ ریل سے ہو یا موٹر کا ر سے یا ہوائی جہاز سے اوریہ ممانعت جو ان اور بوڑھی ہر عورت کے لیے ہے۔ بعض عورتیں سمجھتی ہیں کہ چند عورتوں کے ساتھ بغیر محرم کے عورت سفر میں چلی جائے تو یہ جائزہے۔ ان کایہ خیال غلط ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی خصوصیت کے ہر عورت کے حق میں تاکیدی طور پر ممانعت فرمائی ہے۔
حج یا عمرہ کا سفر بھی محرم یا شوہر کے بغیر سخت ممنوع ہے اور گناہ ہے۔ بہت سی عورتیں حج یا عمرہ کے لیے بغیرمحرم اور شوہر کے چل دیتی ہیں جو شریعت کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوتی ہیں اور اپناحج یا عمرہ خراب کرتی ہیں۔ مؤمن بندوں پر لازم ہے کہ شریعت کی پابندی کریں اور اپنی طبیعت کی خواہش پر نہ چلیں۔ دنیا وی سفر میں مزید احتیاط لازم ہے۔ اس لیے 15تا 20 میل کا سفر بھی بغیر محرم کے نہ کریں، اسی میں عفت وعصمت کی حفاظت ہے۔
فائدہ:
عورت کا محرم وہ شخص ہوتا ہے جس سے کبھی بھی نکا ح درست نہ ہو جیسے باپ، بیٹا، پوتا، نواسہ، داماد، سسر، حقیقی چچا، حقیقی ماموں۔ واضح رہے کہ خالہ، ماموں، چچا اور پھوپھی کے لڑکے محرم نہیں ہیں۔ اسی طرح بہنوئی بھی محرم نہیں ہے کیونکہ اگر وہ بہن کو طلاق دے دے یا بہن فوت ہو جائے تو بہنوئی سے نکاح جائز ہو جاتا ہے البتہ اگر ان میں سے کوئی رضاعی (یعنی دودھ شریک ) بھائی ہو جس نے دو سال کی مدت میں کسی ایسی عورت کا دودھ پیا ہے جس کا دودھ اس عورت نے بھی پیا ہو جو اس کے ساتھ حج یا عمرہ کو جانا چاہتی ہو تویہ شخص بھی محرم ہے اور ا س کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے۔ یادرہے کہ محرم ایسا ہو جس سے بے اطمینانی نہ ہو۔ اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ محرم تو ہے لیکن اس کی عفت وعصمت داغ دار ہے یاا س کی طرف سے اطمینان نہیں ہے تو اس کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں؛ خواہ کیسا ہی قریبی محرم ہو۔
بعض عورتیں خواہ مخواہ کسی کو باپ یا بیٹا یا بھائی بنا کر سفر میں ساتھ ہو لیتی ہیں، شرعاً اس کی بالکل اجازت نہیں۔ منہ بولا بیٹا یا بھائی بھی محرم نہیں ہیں، ان کے احکام بھی وہی ہیں جو اجنبی مردوں کے ہیں۔
فرائض حج:
1: احرام یعنی نیت کر نا او رتلبیہ یعنی لبیک کہنا یا اس کی جگہ ایسے کلمات کہنا جن میں اللہ کی بڑائی کا بیان ہو۔
2: وقوف عرفہ (9)ذو الحجہ کے دن زوال کے بعد عرفات کے میدان میں ٹھہرنا۔ تھوڑی دیر ٹھہرنے سے بھی یہ فرض ادا ہو جائے گا۔
3: طواف ِزیارت
واجبات حج:
1: وقوف مزدلفہ یعنی مزدلفہ میں دس ذو الحجہ صبح صادق او رطلوع آفتا ب کے درمیان کچھ وقت ٹھہرنا۔
2: تینوں دن رمی جمرات یعنی شیطان کو کنکریاں مارنا۔
3: قربانی (یہ حکم صرف قارن ومتمتع کے لیے ہے)
4: حلق یا قصر۔
5: صفا مروہ کی سعی۔
6: طواف و داع (یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو مکہ میں مستقل مقیم نہ ہوں)
ممنوعات احرام:
1: مرد کے لیے سلا ہوا کپڑا پہننا البتہ عورت پہن سکتی ہے۔
2: مرد کا دن یا رات میں اپنا سر یا چہرا ڈھانپنا۔ البتہ عورت اپنا سر اور چہرہ نامحرم سے ڈھانپے لیکن نقاب چہرے کو نہ لگے ؛دور رہے۔
3: بدن کے کسی حصے کے بال مونڈنا، کا ٹنا یا توڑنا۔
4: ہاتھ پاؤں کے ناخن کاٹنا۔
5: بدن یا کپڑے پر خوشبو لگانا۔
6: مرد کا ایسا جوتا پہننا جس میں قدم پرا بھری ہوئی بیچ کی ہڈی چھپ جائے البتہ عورت جس طرح کا جوتا چاہے پہن سکتی ہے۔
حج ایک فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص جگہ ”بیت اللہ شریف“ اور اس کے آس پاس چند خاص مقامات کو متعین فرمایاہے۔
حج کی تین اقسام:
1: حج اِفراد
میقات سے گزرتے وقت صرف حج کا احرام باندھا جائے اور 10 ذوالحجہ کو رمی کرنے کے بعد احرام کھول دیا جائے۔ ایسا حج کرنے والے کو ”مُفرِد“ کہتے ہیں۔ اس میں قربانی واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔
2: حج قِران
میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام اکٹھا باندھا جائے۔ پہلے عمرہ کے افعال اداکیے جائیں لیکن حلق یا قصر نہ کروایا جائے بلکہ بدستور اسی احرام میں رہا جائے۔ پھر حج کے دنوں میں اسی احرام کے ساتھ حج کے ار کان ادا کیے جائیں اور 10 ذوالحجہ کو رمی،قربانی اور حلق کرنے کے بعد عمرہ و حج دونوں کا احرام کھول دیا جائے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ”حج قِران“افضل ہے۔ ایسا حج کرنے والے کو ”قارِن“ کہتے ہیں اور اس میں قربانی واجب ہے۔
3: حج تمتع
میقات سے عمرہ کا احرام باندھا جائے اور عمرہ کے افعال ادا کرنے کے بعد احرام کھول دیا جائے۔پھر 8 ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھا جائے اور 10 ذوالحجہ کورمی، قربانی اور حلق کرنے کے بعد احرام کھول دیاجائے۔ ایسا حج کرنے والے کو ”متمتع“ کہتے ہیں اور اس میں بھی قربانی واجب ہے۔
فائدہ:
جو لوگ مکہ مکرمہ میں رہتے ہیں یا جو لوگ عمرہ کر کے اور سرمنڈا کر یا بال کٹوا کر حلال ہو کر بلا احرام مکہ میں مقیم ہیں یہ لوگ آٹھویں ذوالحجہ کو مکہ سے احرام باندھیں گے اور یہ صرف حج کا احرام ہو گا۔ اگر کسی نے شوال یا ذو الحجہ میں کوئی عمرہ کر لیا ہے اور اس کے بعد اپنے گھر نہیں گیا تواس کا وہ عمرہ اور یہ حج مل کر ”حج تمتع“ ہوجائے گااگر چہ یہ شخص اس وقت صرف حج کی نیت کرے گا۔
[5]: نظر بد سے بچنے کے لیے دعا
جب کوئی اچھی لگے تو اسے دیکھ کر یہ دعا پڑھیں:
مَا شَآءَ اللهُ لَا قُوَّة إلَّا بِاللهِ․
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی:ص99 ما یقول اذا راى من نفسہ ومالہ ما یعجبہ)
ترجمہ: جو اللہ تعالیٰ چاہے(وہی ہوگا اور) نیکی کی طاقت اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے ملتی ہے۔