چالیسواں سبق

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
چالیسواں سبق
[1]: شرعی حلالہ کا ثبوت
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ شَيْئًا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللهِ ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭتِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ؁ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ؁﴾
(البقرہ:229، 230)
ترجمہ: طلاق رجعی دوبار تک ہے اس کے بعد دستو رکے موافق رکھ لینا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑدیناہے۔پھر اگر وہ اس کو (تیسری بار)طلاق دے دے تواب وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سواء دوسرے خاوند سے نکاح نہ کر لے۔ پھر اگر دوسرا خاوند بھی اسے طلاق دیدے تو ان دونوں کو میل جول کر لینے میں کوئی گناہ نہیں بشر طیکہ ان کو علم ہو کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے۔ یہ اللہ کی حد ودہیں جنہیں وہ جاننے والے لوگوں کے لئے بیان فرمارہا ہے۔ [2] : تین طلاقوں کے بعد حلالہ شرعی کاحکم
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ: "لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ"․
(صحیح البخاری: ج2ص791 کتاب الطلاق․ باب من اجاز طلاق الثلاث)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں،اُس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ دوسرے شخص نے بھی اس کو طلاق دے دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیاکہ کیا یہ عورت پہلے شخص کے لیے حلال ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں!جب تک پہلے شوہر کی طرح دوسرا شخص بھی اس کا ذائقہ نہ چکھ لے (یعنی ہمبستری نہ کر لے)‘‘
اس حدیث میں
”طَلَّقَ اِمْرَأَتَہٗ ثَلاَثاً“
کا جملہ ہے جس کا ظاہری تقاضا یہی ہے کہ اس عورت کو خاوند نے یہ تین طلا قیں اکٹھی دی تھیں۔
حافظ ابو الفضل شہاب الدین احمد بن علی ابن حجر عسقلانی الشافعی (متوفیٰ852ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
فَالتَّمَسُّكُ بِظَاهِرِ قَوْلِهٖ "طَلَّقَهَا ثَلَاثًا" فَإِنَّهٗ ظَاهِرٌ فِيْ كَوْنِهَا مَجْمُوْعَةً․
(فتح الباری لا بن حجر :ج9ص455باب من جوز الطلاق الثلاث)
تر جمہ: (امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا تین طلاق کے تین ہونے پر) استدلال اس روا یت کے الفا ظ ”طَلَّقَهَا ثَلَاثًا“ سے ہے کیو ں کہ یہ الفاظ اس بارے میں بالکل ظاہر ہیں کہ اس شخص نے تین طلا قیں اکٹھی دی تھیں۔
اور اس حدیث کا یہی مطلب اس کا حافظ بدر الدین محمود بن احمد بن موسیٰ العینی الحنفی (متوفیٰ855ھ) بھی بیان کرتے ہیں۔
(عمدۃ القاری: ج20 ص336 باب من جوز الطلاق الثلاث)
[3]: اعتبار خاتمہ کا ہے
عقیدہ: عمر بھر کوئی کیسا ہی بھلا ہو مگر جس حالت پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اسی کے موافق اس کا اچھا برابدلہ ملتا ہے۔
عقیدہ: آدمی عمر بھر میں جب کبھی توبہ کرے یا مسلمان ہو اللہ کے یہاں مقبول ہے البتہ مرتے دم جب سانس ٹوٹنے لگے اور عذاب کے فرشتے دکھائی دینے لگیں تو اس وقت نہ توبہ قبول ہوتی ہے اور نہ ایمان۔
[4]: خانگی زندگی کے بقیہ مسائل واحکام
اکٹھی تین طلاق دے کراپنا گھر برباد نہ کیجئے:
بغیر کسی شرعی عذر اور وجہ کے طلاق نہ دینی چاہیے۔ طلاق اللہ کو انتہائی ناپسند ہے۔ طلاق سے اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں اورشیطان خوش ہوتا ہے۔
(صحیح مسلم:ج 2 ص 376 کتاب صفۃ القیامۃ․ باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایاه لفتنۃ الناس)
بلا وجہ طلاق دینے سے عرش الٰہی لرزتا ہے۔جوعورت بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
(مشکوۃ المصابیح: ص 283 کتاب الطلاق)
حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔
(مشکوۃ المصابیح:ص 283 کتاب الطلاق)
لہٰذا بلا وجہ طلاق دینا سخت گناہ ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔
باہمی اختلاف میں قرآنی ہدایات:
نکاح اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں کو اس نعمت عظیم کی قدرکرنی چاہیے۔ خوشگوار زندگی اور نکاح کے مقاصد کے حصول کے لئے شوہر وبیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کے حقوق معلوم کرنا اوران حقوق کو ادا کرنابہت ضروری ہے۔ اسی سے ازدواجی زندگی میں سکون اوراطمینان پیدا ہو سکتا ہے۔ قرآن و حدیث میں ان حقوق کو بیان کیاگیا ہے۔
اگر خدا نخواستہ شوہر اوربیوی میں اختلاف رونما ہوا، اگر شوہر کا قصور ہو تو بلا تا خیر اسے اپنی اصلاح کرلینی چاہیے اور بیوی کے حقوق اداکرنے چاہییں اوراگر قصور بیوی کا ہو تو اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ نرمی محبت اور پوری ہمدردی او ر دل سوزی سے بیوی کو سمجھائے، شوہر کی اطاعت پر جو وعدے ہیں وہ بتائے اور نافرمانی پر جو وعید یں ہیں وہ سنائے، معصوم بچوں کا انجا م سمجھائے۔
یہ اصلاح کا پہلا درجہ ہے۔ اگر اس کوشش سے معاملہ سدھر جائے تو بہت خوب ورنہ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اپنا بستر اس سے علیحدہ کرلے ممکن ہے کہ یہ ظاہری دوری تعلق کے پختہ ہونے کاسبب بن جائے اور عورت اس کی وجہ سے اپنی بد خلقی اور نافرمانی سے بازآجائے لیکن یہ ترک صرف بستر کی حد تک ہو مکان کی جدائی نہ ہو۔ عورت کو مکا ن میں تنہا نہ چھوڑے۔ اگر عورت اس شریفانہ سزا وتنبیہ سے بھی متاثر نہ ہو تو تیسرا درجہ یہ ہے کہ اسے معمولی طور پر مارنے کی اجازت ہے جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے اور زخم وغیرہ نہ آئے۔ چہرے پر ہر گز نہ مارے۔ اس سز ا کی گنجائش توہے مگر شریف مرداسے اختیار نہیں کرتے جیسا کہ حدیث ہے:’’ اچھے مرد مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے۔ ‘‘ چنانچہ انبیاء علیہم السلام سے کہیں ایسا عمل منقول نہیں۔
اگر ان تین تدبیروں سے بھی کام نہ چلے اور آپس کا اختلاف ختم نہ ہو تو اب قرآنی ہدایت یہ ہے کہ مرد وعورت کے خاندان میں سے ایک ایک بندہ مقرر ہو اور وہ دونوں حَکَم ]ثالث[ میاں بیوی میں اصلاح اور بھلائی کی نیت سے اخلاص کے ساتھ طرف دار ی کے جذبہ سے خالی ہو کر صلح کرانے کی کوشش کریں۔ جس کی غلطی ثابت ہو اس کو اپنی غلطی کے اعتراف اور اس کے اصلاح کی تاکید کریں۔ بہت ممکن ہے کہ اصلاح کی شکل نکل آئے اور دونوں کا گھر آباد ہو جائے۔
اگر یہ حَکَم ]ثالث[ کوشش کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچیں کہ دونوں کا نباہ مشکل ہے، دونوں میں رنجش اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ حقوق زوجین پامال ہو رہے ہیں اورنبھاؤکی کوئی شکل نظر نہ آتی ہو توایسی صورت حال کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ 1176ھ) فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بہ جبر واکراہ(زبر دستی)دونوں کو نکا ح پر برقرار رکھنا بلا ء عظیم ہے (ایسی نازک حالت میں طلاق دے دینا ہی مناسب ہے)۔
(حجۃاللہ البالغۃ:ج2 ص398)
یہ ہدایات قرآن مجید سورۃ النساء (آیت نمبر 34 اور 35) میں مذکور ہیں۔
طلاق دینے کا صحیح طریقہ:
جب شوہر طلا ق دینے کا ارادہ کرے توطلاق کا احسن (سب سے بہتر) طریقہ یہ ہے کہ شوہر ایسے طہر میں جس میں صحبت نہ کی ہو صرف ایک طلاق دے، عدت گزر جانے پر عورت شوہر سے بالکل جدا ہو جائے گی او رجہاں چاہے نکاح کر سکے گی۔ یہ طریقہ سب سے بہتر ہے۔ ایک طریقہ ”طلا ق حسن“ کا بھی ہے کہ ہر ایسے طہر میں جس میں صحبت نہ کی ہو ایک ایک طلا ق دیتا رہے۔
آج کل مسلمانوں میں اکٹھی تین طلاق دے دینے کا برارواج چل پڑا ہے۔ بلکہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تین طلاق کے بغیر طلاق ہی نہیں ہوتی۔ یہ بالکل غلط ہے بلکہ ایک طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے اور عدت پوری ہونے کے بعد عورت بائنہ ہوجاتی ہے اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔
تنبیہ:
آج کل لوگ جوش اور غصہ میں آکر یا غلط فہمی کی وجہ سے تین طلاق دے دیتے ہیں جب جوش اور غصہ ختم ہو جاتا ہے یا صحیح طریقہ معلو م ہو تا ہے تو پچھتاتے ہیں اورپریشان ہو تے ہیں۔ اگر صر ف ایک طلاق دی ہو توایسی پر یشانی نہ ہوگی۔ ایک طلاق دینے کے بعدشو ہر؛ بیوی کو اپنے سا تھ رکھنا چاہے توبہت آسان ہے کہ اگر عدت پوری نہ ہوئی ہو تو شوہر کا صرف رجو ع کرلینا کافی ہے، رجوع کر لینے سے عورت اس کے نکاح میں حسب سابق قائم رہے گی اور عدت پوری ہوگئی ہو اور دونوں ساتھ رہنے پر رضا مند ہوں تو دونوں کی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کرنا کافی ہو گا، حلالہ شرعی کی ضرورت نہ ہو گی۔ البتہ ان دونوں صورتوں میں اب شوہر کو صرف دو طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔آئندہ کبھی ایک طلاق اور دے گا تو پھر صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا اور اگر کبھی ایک اور طلاق دے گا تو عورت مطلقہ مغلظہ ہو کر حرام ہوجائے گی اور شرعی حلالہ کے بغیر حلال نہ ہو گی۔ اگر شوہر نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو شوہر گنہگار بھی ہوگااور تین طلاق کے بعد دونوں اپنی رضا مندی سے اپنا گھر دوبا رہ آباد کرنا چاہیں تو شرعی حلالہ ضروری ہو گا۔ شرعی حلالہ کے بغیر یہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہ ہو گی۔ قرآن وسنت سے یہی ثابت ہے۔ صحیح البخاری میں روایت ہے:
”حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسو ل اللہ! رفاعہ نے مجھے طلاق بتہ دے دی (یعنی تین طلاق دے دی ہیں اور صحیح مسلم کی روایت میں صراحۃً تین طلاق دینے کا تذکرہ ہے) اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زَبِیر القرظی سے نکاح کیا اور ان کی حالت کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے( یعنی جماع پر قدرت نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شاید تم دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو (تو سن لو کہ) ابھی تم ان کے پاس نہیں جاسکتی(یعنی نکا ح نہیں کر سکتی) یہاں تک کہ وہ (دوسرے شوہر)تمہارامزہ چکھیں اور تم ان کا مزہ چکھو۔ ‘‘ (مطلب یہ کہ وہ جماع کریں، اس کے بعد طلاق دے دیں تو عدت پوری ہونے کے بعد تم پہلے شوہر رفاعہ سے نکاح کرسکتی ہو۔)
(صحیح البخاری: ج2 ص791 باب من اجاز الطلاق الثلاث، صحیح مسلم: ج1 ص463)
اس کے خلاف کرنے یا بیان کرنے والوں کے دھوکہ میں نہ آئیں اور زندگی حرام کاری میں گزار کر اپنی آخرت برباد نہ کریں۔ لہذا مسلمانوں کو اکٹھی تین طلاق دینے کا طریقہ بالکل چھوڑ دینا چاہیے۔ خاص کرغصہ کی حالت میں طلاق نہ دیں۔ غصہ میں شیطان انسان پر مسلط ہوتا ہے اس وقت سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور جب طلاق دینے پرآتا ہے توتین سے کم پر ٹھہرتاہی نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ غصہ کو قابو میں رکھے۔ حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَيْسَ الشَّدِيْدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيْدُ الَّذِيْ يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ"․
(صحیح البخاری: ج2 ص903 کتاب الادب باب الحذر من الغضب)
ترجمہ: پہلو ان وہ شخص نہیں جو لوگوں پچھاڑدے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔
اسی طرح مسلمانوں میں آج کل شراب نوشی کی عا دت چل پڑی ہے اور شراب پینے کے بعد اکثر طلاق کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور نشہ کی حالت میں اکثر تین طلاق دے دی جاتی ہیں جو واقع ہو جاتی ہیں اوراس کے بعد پریشانی ہوتی ہے۔ شریعت میں شراب پینا حرام ہے، شراب پینا پیشاب پینے کے برابر ہے۔قرآن وسنت میں شراب کی بے حد مذمت بیان کی گئی ہے۔ شراب پینے کے بعد انسان ماں بہن میں فرق نہیں کر پاتا، عقل جیسی نعمت زائل ہو جاتی ہے۔ اس لیے معاشرہ میں شراب نوشی کی عادت کو بھی ختم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ با اثر لوگوں کو اس سلسلہ میں عملی قدم اٹھانا چاہیے اور اس گناہ کبیرہ اور بری عادت سے مسلمانوں کو روکنے کی ہرممکن تدبیر کرنی چاہیے۔
مشورہ:
اگر طلاق دیے بغیر چارہ نہ ہو تو مناسب یہ ہے کہ طلاق دینے سے قبل کسی مستند تجربہ کار عالم یا مفتی سے مشورہ کر لیں۔ ان کے مشورہ پر عمل کریں ان شاء اللہ پشیمانی نہ ہوگی۔ بسااوقات لوگ طلاق کا معاملہ وکیل کے پاس لے جاتے ہیں۔ وکیل بھی طلاق نامہ لکھنے میں عموماً تین طلاق لکھتے ہیں۔ ان کو بھی اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ بہت ہی شدید ضرورت ہو تو صرف ایک طلاق لکھنے پر اکتفا ء کریں۔ عورت یا اس کے گھر والوں کا اصرار ہو تو ایک طلاق بائن لکھیں۔ یہ مضمون اچھی طرح سمجھ لیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔
[5]: حسن خاتمہ کے لیے دعا
أَللّٰهُمَّ أَحْيِنَا مُسْلِمِيْنَ وَأَمِتْنَا مُسْلِمِيْنَ وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِيْنَ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا مُبْدِّلِيْنِ․
(تفسیر ابن کثیر:ج3ص339 تحت تفسیر سورۃ الشعراء رقم الآیۃ 83)
ترجمہ: اے اللہ! ہم کو فرمان برداری کے حالت میں زندہ رکھ اور فرمانبرداری کی حالت میں موت دے اور ہمارا انجام نیک لوگوں کے ساتھ فرما اس حال میں کہ نہ ہم رسوا ہوں اور نہ اپنے اعتقاد کوبدلنے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ساری زندگی اپنے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین․