تیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تیسواں سبق
[1]: مصیبت؛ گناہ کا وبال ہے
﴿مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللهِ ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ۭ وَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَكَفٰى بِاللهِ شَهِيْدًا﴾
(النساء:79)
ترجمہ: تمہیں جو بھی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف ہوتی ہے اور جو بھی برائی پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے اور (اے پیغمبر!) ہم نے آپ کو لوگوں کے پاس رسول بناکر بھیجاہے اور اللہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔
فا ئدہ: انسان کو چاہیے کہ نیکی کو حق تعالیٰ کا فضل او راحسان سمجھے اور سختی اور برائی کو اپنے اعمال کی شامت جانے۔
[2]: جس سے محبت اسی کے ساتھ انجام
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: "أَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ".
(صحیح البخاری:ج2 ص911 کتاب الادب. باب علامۃ الحب فی اللہ عزوجل)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی۔
[3]: قیامت کی علاماتِ کبریٰ
وہ نشانیاں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ وہ قیامت کے قریب ظاہر ہوں گی جیسے امام مہدی کا ظہور، دجال کا خروج، حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا آسمان سے نزول، یا جوج ماجوج، دآبۃ الارض کا خر وج وغیرہ۔
ظہور مہدی:
قیامت کی علامات کبریٰ میں پہلی علامت امام مہدی کا ظہور ہے۔ ’’مہدی‘‘ لغت میں ہر ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں۔ لغوی معنی کے لحاظ سے ہر اس عالم کو جس کا علم صحیح ہو ”مہدی“ کہا جا سکتاہے بلکہ ہر سچے اور پکے مسلمان کو مہدی کہا جا سکتا ہے لیکن جس ”مہدی موعود“ کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیر زمانہ میں اس کے ظہور کی خبر دی ہے اس سے مراد ایک خاص شخص ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہوں گے، ان کا نام محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا، سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، مدینہ کے رہنے والے ہوں گے، مکہ میں ان کا ظہور ہوگا، شام اورعراق کے اولیاء اور ابدال ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ جو خزانہ خانہ کعبہ میں مدفون ہے حضرت مہدی اسے نکال کر مسلمانوں میں تقسیم فرمائیں گے۔ پہلے ان کی حکومت عرب میں ہوگی پھر ساری دنیا میں پھیل جائے گی، دنیا کو عدل اور انصاف سے بھر دیں گے جبکہ اس سے بیشتر دنیا ظلم وستم سے بھری ہوگی، شریعت محمدیہ کے مطابق آپ کا عمل ہو گا۔ امام مہدی کے زمانہ میں دجال نکلے گااور انہی کے زمانہ بادشاہت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے جامع مسجد دمشق کے مشرقی منارہ پر فجر کی نماز کے قریب نازل ہوں گے اور امام مہدی کے پیچھے نماز ادا فرمائیں گے۔ امام مہدی؛ نصاریٰ سے جہاد کریں گے اور قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔
[4]: نفل نمازیں
نماز پنجگانہ کے علاوہ کچھ خاص اوقات میں یا خاص مقاصد کے لیے نفل نمازوں کی فضیلت بھی احادیث مبارکہ میں آئی ہے جن میں سے معروف یہ ہیں:
نماز تہجد:
اس کابہترین وقت صبح سے تھوڑاپہلے رات کا آخری حصہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول آٹھ رکعات کا تھا۔ یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فرض تھی البتہ امت کے لیے نفل اورانتہائی با فضیلت نماز ہے۔
اشراق:
اس نماز کاوقت سورج طلوع ہوکر کچھ بلند ہوجانے سے لے کر تقریباً اڑھائی گھنٹے تک ہے۔ اس کی چار یا دورکعتیں ہیں۔
چاشت:
اشراق کاوقت ختم ہونے پر اس کاوقت شروع ہوتاہے اوردوپہر سے پہلے تک باقی رہتاہے۔ اس کی چار یا آٹھ رکعتیں ہیں۔
اوابین:
مغرب کے فرض اورسنتوں کے بعد چار سے لے کر بیس رکعات تک نوافل کی ادائیگی نماز اوابین کہلاتی ہے۔
نمازتوبہ:
عمومی گناہوں پر یا کسی خاص گناہ پر اپنی توبہ کو مؤثر بنانے کے لیے دو،چار رکعات نماز توبہ پڑھ کر خوب گڑ گڑاکرمعافی مانگی جائے۔ اس کا کوئی و قت مقرر نہیں۔
نمازحاجت:
کوئی ضرورت پھنسی ہو، کوئی مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو یا کوئی مشکل در پیش ہوتو دورکعات پڑھ کرخاص اس حاجت کے لیے اللہ سے مانگاجائے۔
نمازاستخارہ:
کسی مسئلے میں بات ایک طرف نہ لگ رہی ہو،رائے میں استحکام نہ آرہا ہو،نفع نقصان واضح نہ ہورہا ہوتو دوشقوں میں سے ایک کی تعیین میں اللہ سے مدد مانگنے کے لیے یہ نماز ہے۔ اس میں دورکعت یکسوئی کے وقت مثلاً سوتے وقت پڑھی جاتی ہے اور اس کے بعد مسنون دعائے استخارہ پڑھی جاتی ہے۔ دعائے استخارہ یہ ہے:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ․اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ، فَاقْدِرْہُ لِیْ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ․وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ․
(بخاری،کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الاستخارۃ)
دعاکرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچیں (جس کے نیچے لکیر لگی ہوئی ہے) تو اگر عربی جانتے ہیں تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کریں یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لیں، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع“کہیں، اور اگر عربی نہیں جانتے تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچیں جس کے لیے استخارہ کررہے ہیں۔
استخارہ کی دعا کا مطلب ومفہوم
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں اور آپ سے آپ کا بڑا فضل مانگتا ہوں۔ آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں، آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا اور آپ غیب جاننے والے ہیں۔
یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہے ہیں) میرے حق میں بہتر ہے، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادیجیے۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہے ہیں) میرے حق میں برا ہے، میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے۔
صلاۃ التسبیح:
یہ پسندیدہ نفل نماز ہے جس کی تاکید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کی تھی۔ اس نماز پرہرقسم کے صغیرہ گناہوں کی معافی کی فضیلت بتائی گئی ہے۔
طریقہ صلوٰۃ التسبیح:
تیسرے کلمہ کا پہلاحصہ
”سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ“
چار رکعت نفل میں تین سو مرتبہ پڑھنا ہے اس طرح کہ ہر رکعت میں 75 مرتبہ ہوجائے۔ اس کے دوطریقے روایات میں آتے ہیں جو درج ذیل نقشے سے واضح ہیں :
ارکان
تسبیح کب پڑھنی ہے
پہلا طریقہ
دوسراطریقہ
قیام
”سبحانک اللھم“ کے بعد قرأت سے پہلے

X

15مرتبہ
قیام
قرأت کے بعد رکوع سے پہلے
15مرتبہ
10مرتبہ
رکوع
”سبحان ربی العظیم“ (3مرتبہ)کے بعد
10مرتبہ
10مرتبہ
قومہ
”ربنا لک الحمد“ کے بعد کھڑے ہوکر
10مرتبہ
10مرتبہ
پہلا سجدہ
”سبحان ربی الاعلٰی“ (3مرتبہ)کے بعد
10مرتبہ
10مرتبہ
جلسہ
دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے
10مرتبہ
10مرتبہ
دوسراسجدہ
”سبحان ربی الاعلٰی“ (3مرتبہ)کے بعد
10مرتبہ
10مرتبہ
قعدہ اولیٰ
قعدہ ثانیہ
دوسرے سجدہ کے بعد بیٹھ کر (دوسری،چوتھی رکعت میں تشہد سے پہلے)
10مرتبہ

X

کل تعداد ایک رکعت میں
75مرتبہ
75مرتبہ
کل تعداد چار رکعات میں
300مرتبہ
300مرتبہ
[5]: نماز جنازہ میں نابالغ بچی کے لیے دعا
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرَطاً وَاجْعَلْھَا لَنَا اَجْرًا وَذُخْرًا وَاجْعَلْھَا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً․
ترجمہ: اے اللہ!اس بچی کو ہماری پیش رو بنا، اسے ہمارے لیے باعث اجر بنا، اسے ہمارے لیے سفارش کرنے والا بنا اور اس کی سفارش قبول فرما۔