اکتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اکتیسواں سبق
[1]: زکوٰۃ اور سود کا تقابل
﴿وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيدُوْنَ وَجْهَ اللهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ﴾
(الروم: 39)
ترجمہ: اوریہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں شریک ہو کر بڑھ جا ئے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو تو (غور سے سن لو ) یہی لوگ ہیں جو در حقیقت(اپنے مال کو) بڑھانے والے ہیں۔
[2]: زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر وعید
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ آتَاهُ اللهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكٰوتَهُ مُثِّلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيْبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَيْهِ -يَعْنِيْ شِدْقَيْهِ- ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ" ثُمَّ تَلَا ﴿لَا يَحْسِبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ﴾ الْآيَةَ․
(صحیح البخاری: ج2 ص655 کتاب التفسیر. باب تفسیر سورۃ آل عمران)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کو اللہ نے مال دیا ہو پھر بھی وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کےدن اس کے مال کو گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے۔ وہ اس شخص کے گلے کا طوق بن جائے گا پھر اس کی دونوں باچھوں کو پکڑے گا اورکہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیراخزانہ ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
”وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ الخ“
(ترجمہ آیت: جو لوگ اس مال میں بخل سے کام لیتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے اچھی بات ہے بلکہ یہ ان کے لیے بری بات ہے۔ جس مال میں انہوں نے بخل سے کام لیا ہوگا قیامت کے دن وہی مال ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔
[سورۃ آل عمران: آیت نمبر 180])
[3]: خرو جِ دجال
قیامت کی علامات کبریٰ میں دوسری علامت خروج دجال ہے جو احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔دجال "دجل" سے مشتق ہے جس کے معنی لغت میں بڑے جھوٹ،مکر، فریب اور حق و باطل کو خلط ملط کرنے کے ہیں۔لغوی معنی کے لحاظ سے ہر جھوٹے اور مکا رکو دجال کہہ سکتے ہیں لیکن حدیث شریف میں جس دجال موعود کے خروج کی خبر دی گئی ہے وہ ایک خاص کافر شخص کا نام ہے جو قوم یہود سے ہو گااور مسیح اس کا لقب ہوگا۔ اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ وہ کانا ہو گا اور مسیح کا مطلب ہو ا جس کی آنکھ ہاتھ پھیر کر صاف اور ہموار کردی گئی ہو، ایک آنکھ میں انگور کے دانے کے برابر ناخونہ ہوگا،دونوں آنکھوں کے درمیان" ک۔ ف۔ ر" لکھا ہواہوگا۔
سب سے پہلے اس کا ظہور شام اور عراق کے درمیان ہو گا اور نبوت کا دعویٰ کرے گا۔پھر اصفہان آئے گا۔وہا ں ستر ہزار یہودی اس کے تابع ہو جائیں گے بعدازاں وہ خدائی کا دعوی کرے گا اورزمین میں فساد پھیلاتا پھرے گا۔ حق تعالی بندوں کے امتحان کے لیے اس کے ہاتھ سے قسم قسم کے کرشمے اور شعبدے ظاہر فرمائیں گے۔ لیکن اخیر میں وہ ایک شخص کو قتل کر کے زندہ کرے گا اور پھر اس کو قتل کر نا چاہے گا لیکن اس کے قتل پر ہر گز قادر نہ ہو گا تو اس سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ یہ شخص دعوائے خدائی میں بالکل جھوٹا ہے۔
اول․․․ تو اس کا کانا ہونا ہی اس کے خدا نہ ہونے کی نہایت روشن اور بین دلیل ہوگی۔
دوم․․․ یہ کہ اس کی آنکھوں کے درمیان" ک، ف، ر "لکھا ہوگا۔
سوم․․․․ یہ کہ قتل کرنا ایسا فعل ہے جو بشر کی قدرت میں داخل ہے۔ جب اس میں یہ قدرت باقی نہ رہی کہ وہ دوبارہ قتل کر سکے تو وہ خدا کیونکر ہو سکتاہے؟اور یہ جو چندروزاس کے ہاتھ سے احیائے موتیٰ کا ظہور ہوتا رہا فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کا فعل تھا جو اس کے ہاتھ سے محض استدراج، ابتلاء اور امتحان کے طور پر کرایا گیا۔
خروج دجال کب ہو گا؟
امام مہدی ظاہر ہونے کے بعد نصاریٰ سے جہاد وقتال کریں گے یہاں تک کہ جب قسطنطنیہ کو فتح فرما کر شام واپس ہو ں گے اور شہر دمشق میں مقیم ہوں گے اور مسلمانوں کے انتظام میں مصروف ہوں گے تو اس وقت دجال کا خروج ہوگا۔ دجال مع اپنے لشکر کے زمین میں فسادمچا تا پھرے گا یمن سے ہو کر مکہ مکرمہ کارخ کرے گا مگر مکہ مکرمہ پر فرشتوں کا پہرہ ہو گا اس لیے دجال مدینہ منورہ کا ارادہ کرے گا۔
مدینہ منورہ کے دروازوں پر بھی فر شتوں کا پہرہ ہوگااس لیے دجال مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکے گا۔بالآخر پھر پھرا کر شام واپس آئے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر فجر کی نماز کے وقت دوفرشتوں کے بازؤوں پرہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے نازل ہوں گے اور اس لعین کو قتل کریں گے جیسا کہ آئندہ علامات کے بیان میں آئے گا۔
[4]: زکوٰۃ کے مسائل واحکام
صاحبِ نصاب کی تعریف:
جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا (تقریباً 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی (612.36 گرام) یا نقدی یا تجارت کے سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان چاروں چیزوں کا یا بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے مردو عورت کو ”صاحب نصاب“ کہا جاتا ہے۔
زکوٰۃ کے لیے شرائط:
1: آدمی کا مسلمان ہونا۔
2: زکوٰۃ دینے والے کا آزاد ہونا۔
3: صاحب عقل ہونا۔
4: بالغ ہونا۔
5: نصاب کا مالک ہونا۔
6: مال کا بڑھنے والا ہونا۔
7: اس مال پر ایک سال کا گزر چکا ہونا۔
8: ما ل کا قرضے سے فارغ ہونا۔
[5]: بارش مانگنے کی دعا
أَللّٰهُمَّ أَغِثْنَا
(صحیح مسلم: ج1 ص293 ابواب الجمعۃ. باب الدعاء فی الاستسقاء)
ترجمہ: اے اللہ!ہمیں بارش عطا فرما۔