تینتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تینتیسواں سبق
[1]: رمضان کے روزے کی فرضیت
﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۭوَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۭ يُرِيْدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلٰى مَا هَدٰكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾
(البقرہ:185)
ترجمہ: رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو سیدھی راہ دکھاتی ہیں اور حق وباطل کے درمیان فرق کرتی ہیں۔ اس لیے تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینا پائے تو وہ اس میں ضرور روزہ رکھے اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتاہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا تاکہ تم (روزوں کی) گنتی پوری کر لو اور اللہ نے تمہیں جو طریقہ سکھایا ہے اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔
[2]: روزہ و قرآن کی دربار الہٰی میں سفارش
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ، فيَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ! إِنِّيْ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِيْ فِيْهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِيْ فِيْهِ، فَيُشَفَّعَانِ"․
(شعب الایمان للبیہقی: ج2 ص346 کتاب تعظیم القرآن․ فصل ادمان تلاوۃ القرآن)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:روزہ اور قرآن بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا اے میرے رب! میں نے اسے کھانے اور خواہشات سے دن کو روکے رکھا، میری سفارش اس کے حق میں قبول فرمائیے۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کورات کے سونے سے روکے رکھا، میر ی سفارش اس کے حق میں قبول فرمائیے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔
[3]: خروجِ یا جوج ماجوج کا عقیدہ
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور دجال کی ہلاکت کے کچھ عرصہ بعد امام مہدی انتقال فرماجائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی نمازجنازہ پڑھائیں گے۔ بیت المقدس میں ان کا انتقال ہو گا اور وہیں مدفون ہوں گے۔ امام مہدی کی وفات کے بعد تمام انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہو گا اور زمانہ نہایت سکون اور راحت سے گزر رہا ہوگاکہ یکایک وحی نازل ہوگی کہ اے عیسیٰ! تم میرے بندوں کو کوہ طور کے پاس لے جاؤ!میں اب ایک ایسی قوم کو نکا لنے والا ہوں کہ جس کے ساتھ لڑنے کی کسی کو طاقت نہیں۔ وہ قوم یا جوج ماجوج کی قوم ہے جو یافث بن نوح کی اولا د میں سے ہے۔
شاہ ذوالقرنین نے دو پہاڑوں کے درمیان ایک نہایت مستحکم آہنی دیوار قائم کر کے ان کا راستہ بند کر دیا تھا۔ قیامت کے قریب وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم ٹڈی دل کی طرح ہر طرف سے نکل پڑے گی اور دنیا میں فساد پھیلائے گی (جس کا قصہ قرآن کریم کی سورہ کہف آیت 93تا98 میں مذکور ہے) اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو لے کرکوہِ طور کی طرف چلے جائیں گے۔ با رگا ہ خداوندی میں یا جوج ماجوج کے حق میں طاعون کی ہلاکت کی دعا کریں گے جب کہ باقی لوگ اپنے اپنے طور پر قلعہ بند اور محفوظ مکانوں میں چھپ جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو طاعون کی وباء سے ہلاک کرے گااور اس بلائے آسمانی سے سب مرجائیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالی لمبی گردن والے پرندے بھیجے گا جو بعض کو تو کھا جائیں گے اوربعض کو اٹھا کر سمند رمیں ڈال دیں گے اور پھر بارش ہوگی جس کے سبب ان مرداروں کی بدبو سے نجات ملے گی اور زندگی نہایت راحت اور آرام سے گزرے گی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس یا پینتالیس سال زندہ رہ کر مدینہ منورہ میں انتقال فرمائیں گے اور روضہ اقدس میں دفن ہوں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے بعد ایک قحطانی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر کر جائیں گے جس کا نام’’ جہجاہ‘‘ ہوگا، خوب اچھی طرح عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرے گا مگر ساتھ ہی شراور فسا دپھیلنا شروع ہو جائے گا۔
[4]: روزہ کے مسائل و احکام
روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جنسی تعلق سے رکنے کا نام ”روزہ“ ہے۔
فرض روزہ: ہر عاقل، بالغ مسلمان پر رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں۔
واجب روزہ: نذر مانے ہوئے روزےاورکفارے کے روزے واجب ہیں۔ نفل روزہ شروع کرنے کے بعد اس کی تکمیل واجب ہے۔
مسنون روزہ: یوم عاشورہ یعنی 10 محرم کا روزہ، ایک روزہ مزید 9 یا 11 محرم کا ملا کر رکھنا سنت ہے۔
مستحب روزہ: ہر ماہ تین دن بالخصوص 13، 14، 15 کا روزہ رکھنا۔ شوال میں چھےروزے۔ ہفتہ وار پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنا۔ 9 ذو الحجہ بلکہ یکم تا 9 ذو الحجہ روزہ رکھنا مستحب ہے۔
حرام روزہ: یکم شوال اور 10، 11، 12، 13 ذو الحجہ کو روزہ رکھنا حرام ہے۔
مسئلہ: روزے کے دوران بھول کر کھا پی لینے یاہم بستری کر لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
فائدہ:
روزہ ٹوٹ جانے کی صورت میں اکثر صورتوں میں صرف قضا ء ہوتی ہے۔ بعض صورتوں میں(جبکہ روزہ توڑنے کا جرم انتہائی کامل ہو) قضا ء کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہوتا ہے۔
کفارہ میں مرحلہ وار تین شقیں ہیں:
1: غلام آزاد کرنا لیکن اب غلاموں کا دور نہیں۔
2: غلام آزاد نہ کرسکنے کی صورت میں مسلسل دو ماہ یعنی ساٹھ دن روزے رکھنا (اگر قمری مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع کیے تو چاند کے مطابق یعنی انتیس کا کوئی مہینہ ہوگیا تو روزے 59لازم ہوں گے)
3: اگر دیندار مستند طبیب کی رائے سے یا اپنے سابق تجربہ سے واقعتاً مسلسل دو ماہ روزے نہ رکھ سکتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ایک مسکین کو ساٹھ دن بھی کھلا سکتے ہیں اور تسلسل ضروری نہیں۔ ایک مسکین کے صبح وشام کھانے کی جگہ صدقہ فطر کی مقدار یعنی پونے دو سیر گندم یا اس کا آٹا بھی دے سکتے ہیں۔نیز اتنی ہی مالیت کی رقم یاا تنی ہی رقم کی دیگر اشیا ء مثلاً کپڑے جوتے وغیرہ بھی خرید کر دے سکتے ہیں۔
کفا رے کے روزوں میں تسلسل ضروری ہے لیکن عورت کفار ے کے روزے رکھ رہی ہے اور درمیان میں حیض حائل ہو جائے تواس سے تسلسل ٹوٹنے میں کوئی حرج نہیں۔البتہ نفاس حائل ہونے یا ایام ممنوعہ 10، 11، 12، 13 ذو الحجہ حائل ہونے پر دوبارہ نئے سرے سے روزے رکھنا ہوں گے۔
[5]: بے چینی کے وقت کی دعا
أَللهُ رَبِّىْ لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا․
(سنن ابی داؤد:ج1 ص213کتاب الوتر․ باب فی الاستغفار)
ترجمہ: اللہ ہی میرا رب ہے، میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔