بتیسواںسبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بتیسواںسبق
[1]: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان کی طرف اٹھا یا جانا
﴿وَقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًا ؁ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ اِلَيْهِ ۭ وَكَانَ اللهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا؁﴾
(النساء: 157، 158)
ترجمہ: (یہود اس لیے ملعون ہوئے کہ) انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا تھا حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا تھا اور نہ ہی انہیں صلیب پر لٹکا پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیاہے وہ دراصل شک کا شکار ہیں، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی (یقینی) علم نہیں ہے بلکہ یہ لوگ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں۔ یقیناً انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا اور اللہ غالب، بڑی حکمت والا ہے۔
فائدہ:
یہ بات مسلَّم ہے کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانی دشمن تھے اور انہوں نے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش کو نا کام بنا دیا۔ وہ نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرسکے اور نہ ہی صلیب پر لٹکاسکے۔یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ”صلیب پر لٹکایا گیا ہو لیکن قتل نہ کر پائے ہوں“ کیونکہ اس دور میں صلیب پر ہی لٹکا کر قتل کیا جاتا تھا۔ جب قرآن نے قتل کی نفی کی تو معلوم ہوا کہ صلیب پر قتل نہیں کیے گئے اور جب صلیب کی نفی کی تو معلوم ہو اکہ صلیب پر لٹکائے بھی نہیں گئے۔
[2]: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول
عَنْ أَبِیْ هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: "كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ."
(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی: ج2 ص166 باب قول الله عز وجل "إني متوفيك ")
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری خوشی کا اس وقت کیا عالم ہوگا جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تم میں آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہاراامام تم میں سے ہوگا۔(یعنی امام مہدی کی اقتداء کریں گے)
تنبیہ1: اس حدیث میں لفظ ”مِنَ السَّمَآءِ“ کی صراحت ہے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔
تنبیہ2: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ الرضوان دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔
[3]: نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا عقیدہ
قیامت کی علامات کبریٰ میں سے تیسری علامت قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ہے۔ یہ عقیدہ حق اور سچ ہے اور قرآن کریم، احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اس کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا فرض ہے۔
کانے دجال کا خروج ہو چکا ہوگا اور امام مہدی دمشق کی جامع مسجد میں نماز فجر کے لیے تیاری میں ہوں گے۔ یکایک عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوئے نزول فرمائیں گے اورنماز سے فراغت کے بعد امام مہدی کی معیت میں دجال پر چڑھائی کریں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سانس میں یہ تاثیر ہو گی کہ کافر اس کی تاب نہ لا سکے گا، اس کے پہنچتے ہی مر جائے گا اور دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی ایسا پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کا تعاقب کریں گے اور ’’باب لد ‘‘پر جا کر اس کواپنے نیز ہ سے قتل کریں گے اور اس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔ اس کے بعد لشکر اسلام دجال کے لشکر کا مقابلہ کرے گا۔ جو یہودی ہوں گے ان کو خوب قتل کرے گا اور اس طرح زمین دجال اور یہود کے ناپاک وجود سے پاک ہوجائے گی جن کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو قتل کردیا تھا۔اب وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ تھے اور اب آسمان سے ہمارے قتل کے لیے زمین پر اتر ے ہیں۔
فائدہ:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دو الگ الگ شخصیات ہیں:
ظہور مہدی اور نزول عیسیٰ بن مریم کے بارہ میں جو احادیث آئی ہیں ان سے یہ امر روزروشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دو علیحدہ علیحدہ شخصیتیں ہیں۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے وقت سے لے کر اس وقت تک کوئی اس کا قائل نہیں ہوا کہ نازل ہونے والا مسیح اورظاہر ہونے والا مہدی ایک ہی شخص ہوں گے کیونکہ :
1: حضرت عیسی ابن مریم نبی اور رسو ل ہیں اور امام مہدی امت محمدیہ کے خلیفہ ہو ں گے، نبی نہ ہوں گے۔
2: حضرت مسیح بن مریم حضرت مریم کے بطن سے بغیر باپ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً چھ سو(600) سال پہلے بنی اسرا ئیل میں پیدا ہوئے اور امام مہدی قیامت کے قریب مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے، ان کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔
3: حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام بنی اسرا ئیل میں سے ہیں اور امام مہدی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی اولا د سے ہوں گے۔
شبہ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ
”لَا مَھْدِیَّ اِلَّا عیسی ابن مَرْیَمَ“
کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کے علاوہ کوئی مہدی نہیں۔
اس روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اور حضرت مہدی دونوں ایک ہی شخص ہیں۔
جواب:
اولاً․․․ یہ روایت محدثین کے نزدیک ضعیف اور غیر مستند ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح البخاری (ج 6 ص 385 ) میں اس کی تصریح کی ہے۔
ثانیاً․․․ یہ روایت ان بے شماراحادیث صحیحہ اور متواترہ کے خلاف ہے جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی کا دو شخص ہونا خوب ظاہر ہے اور متواتر کے مقابلہ میں ضعیف اور منکر روایت معتبر نہیں ہوتی۔
[4]: زکوٰۃ کے بقیہ احکام
زکوٰۃ کے مصارف:
1: فقراء ․․․․ ”فقیر“ اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو۔
2: مساکین․․․ ”مسکین“ اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ ہو لیکن ضرورت سے کم ہو۔
3: عاملین زکوۃ․․․ اسلامی حکومت کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر اہل کار
4: مؤلفۃ القلوب․․․ نو مسلم جن کی دل جوئی کے لیے انہیں زکوٰۃ دی جاتی تھی لیکن اب یہ مصرف باقی نہیں رہا۔
5: غارمین ․․․ ایسے مقروض لوگ جن کے تمام اثاثے ان کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہوں، یا اگر یہ لوگ اپنے اثاثوں سے قرض ادا کریں تو نصاب کے بقدر ان کے پاس مال باقی نہ رہے۔
6: فک رقاب․․․ غلاموں کو آزادی دلانے کے لیے۔
7: فی سبیل اللہ․․․ جہاد پر جانے والوں کے سازو سامان کی تیاری میں۔
8: ابن سبیل․․․مسافر کے لیے یعنی وہ شخص جس کے پاس اگرچہ اپنے وطن میں نصاب کے بقدر مال تو موجود ہے لیکن سفر میں اس کے پاس اتنی رقم نہ ہو جس سے وہ سفر کی ضروریات پوری کر کے وطن واپس جا سکے۔
زکوۃ کی ادائیگی کی شرائط:
1: فقیرکو مالک بنانا
2: زکوۃ مستحق کو دینا۔
3: زکوۃ دیتے وقت زکوۃکی نیت کرنا۔
جن کو زکوۃ دینا جائز نہیں:
1- زکوۃ کی رقم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لیے حلال نہیں۔ آپ کے خاندان سے مراد ہیں: آل علی، آل عقیل، آل جعفر، آل عباس اور آل حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم۔ جو شخص مذکورہ پانچ بزرگوں کی نسل سے ہو اسے زکوۃ نہیں دے سکتے، ان کی مدد کسی اور ذریعے سے کرنی چاہئیے۔
2- کافر کو زکوۃ دینا جائز نہیں۔
3- ایسی NGO’s اور ادارے جو شرعی حدود کا لحاظ نہیں کرتے، انہیں زکوۃ دینا جائز نہیں۔
4- شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے۔
5- اپنے آباء و اجداد یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اور اپنی آل اولاد یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسہ نواسی وغیرہ کو زکٰوة دینا جائز نہیں۔ ان کے علاوہ باقی مستحق رشتہ داروں کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔
6- مسجد میں زکوۃ کی رقم نہیں دے سکتے۔
[5]: در دسے نجات کے لیے دعا
درد والی جگہ پر ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ بسم اللہ پڑھیں اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھیں۔
اَعُوْذُ بِاللہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّمَا اَجِدُ وَأُحَاذِرُ․
(صحیح مسلم: ج2 ص224 کتاب السلام باب استحباب وضع یدہ علی موضع الالم مع الدعاء)
ترجمہ: میں اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت کی پناہ میں آتا ہوں اس درد کے شر سے جو مجھے محسوس ہو رہا ہے اور جس سے میں ڈرتا ہوں۔