امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات
نام ونسب:
ابوجعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ ا
لاَزْدِی
الحَجْری المصری الطحاوی
اَزْد“
یمن کے ایک مشہور قبیلہ کا نام ہے، اس کی ایک شاخ
”اَزْد شَنُوءَہ“
اور دوسری
”اَزْد حَجْر“
ہے۔ آپ کا نسبی تعلق دوسری شاخ
”اَزْد حَجْر“
سے تھا اس لیے
”الاَزْدِی الحَجْری“
کہلائے۔
">”مصری“

ملک مصر کی طرف نسبت کی وجہ سے ہے اور

”طحاوی“

صحرائے مصر کے ایک گاؤں

”طحا“

کی طرف نسبت کی وجہ سے ہے جہاں آپ کی ولادت ہوئی۔

ولادت وتحصیل علم:
آپ سن 239 ہجری میں پیداہوئے ۔ آپ کے والد ماجد عالم فاضل اور پرہیزگار انسان تھے۔ ادب اور شعر و سخن کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ والدہ ماجدہ نیک سیرت اور خدا ترس خاتون تھیں اور فقہ شافعی کی بڑی فقیہہ اورعالمہ تھیں۔ علامہ جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی الشافعی (ت911 ھ) نے ان کا ذکر مصر کے شافعی فقہاء میں کیاہے۔ آپ کے ماموں امام ابو ابراہیم اسماعیل بن یحییٰ المزنی رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے تلامذہ میں سے تھے۔ یوں آپ کو ایک علمی گھرانہ میں پرورش نصیب ہوئی۔
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے زیادہ استفادہ اپنے ماموں امام مزنی سے کیا اور انہی سے مسند الشافعی بھی روایت کی۔ ان کے علاوہ مصر، یمن، بصرہ، کوفہ، شام، خراسان اوردیگر اسلامی ممالک کے اساتذہ و شیوخ حدیث و فقہ سے بھی استفادہ کیا۔ علامہ زاہد بن الحسن الکوثری (ت1371ھ) لکھتے ہیں:
مَنِ اطَّلَعَ عَلٰى تَرَاجِمِ شُيُوْخِ الطَّحَاوِيِّ عَلِمَ أَنَّ بَيْنَهُمْ مِصْرِيِّيْنَ وَ مَغَارِبَةَ وَ يَمْنِيِّيْنَ وَ بَصْرِيِّيْنَ وَ كُوْفِيِّيْنَ وَ حِجَازِيِّيْنَ وَ شَامِيِّيْنَ وَ خُرَاسَانِيِّيْنَ وَ مِنْ سَائِرِ الْأَقْطَارِ فَتَلَقّٰى مِنْهُمْ مَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْأَخْبَارِ وَ الْآثَارِ، وَ قَدْ تَنَقَّلَ فِي الْبُلْدَانِ الْمِصْرِيَّةِ وَ غَيْرِ الْمِصْرِيَّةِ لِتَحَمَّلَ مَا عِنْدَ شُيُوْخِ الرِّوَايَةِ فِيْهَا مِنَ الْحَدِيْثِ وَ سَائِرِ الْعُلُوْمِ․
(الحاوی فی سیرۃ الطحاوی للکوثری: ص18)
ترجمہ: جو شخص امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ پر نظر ڈالے گا تو اسے بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ ان کے شیوخ مصری، مغربی، یمنی، بصری، کوفی، حجازی، شامی، خراسانی مختلف ممالک کے حضرات ہیں جن سے آپ نے حدیث کو حاصل کیا۔ آپ نے مصر اور دیگر ممالک کے شہروں کا بھی رخ کیا تاکہ وہاں کے شیوخ حدیث سے علم حدیث اور دیگر علوم حاصل کریں۔
آپ کے اساتذہ کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ان میں سے مشہور یہ ہیں:
1: امام اسماعیل بن یحیی المزنی شافعی (ت 264 ھ)
2: امام يونس بن عبد الاعلىٰ (ت264ھ)
3: قاضی الکبیر ابوبکر بکار بن قتیبہ البصری(ت270ھ)
4: امام ابراہیم بن ابی داؤد سلیمان بن داؤد الاسدی (ت270ھ)
5: امام ربیع بن سلیمان المرادی (ت270ھ)
6: امام قاضی احمد بن ابی عمران البغدادی (ت280ھ)
7: امام ابو خازم عبد الحمید بن عبد العزیز القاضی(ت292ھ)
8: امام احمد بن شعیب بن علی النسائی صاحب السنن (ت303ھ)
9: امام ابو بشر احمد بن محمد بن حماد الدولابی (ت310ھ)
10: امام ابوبکر بن ابی داؤد السجستانی (ت316ھ)
اسی طرح بہت سے حضرات نے آپ سے استفادہ بھی کیا جن میں سے چند یہ ہیں:
1: قاضی مصر امام احمد بن ابراہیم بن حماد (ت329ھ)
2: امام ابوالقاسم عبد الله بن محمد بن احمد المعروف ابن ابی العوام (ت335 ھ)
3: مؤرخ ابو سعید عبد الرحمٰن بن احمد بن يونس المصری (ت 347ھ)
4: محدث مَسْلَمہ بن القاسم القرطبی (ت353ھ)
5: اما م حافظ ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی (ت360ھ)
6: امام ابو الفرج احمد بن قاسم بن الخَشَّاب (ت364ھ)
7: امام ابو احمد عبداللہ بن عدی بن عبد اللہ الجرجانی (ت365)
8: امام ابو سلیمان محمد بن زبر الدمشقی (ت379ھ)
9: امام محمد بن المظفر البغدادی(ت379ھ)
10: امام ابوبکر بن المقری (ت381)
فقہی مسلک:
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے چونکہ سب سے پہلے اور زیادہ استفادہ اپنے ماموں امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اس لیے طبعی طور پر فقہ شافعی کی طرف مائل تھے لیکن بعد میں آپ نے شافعی مسلک چھوڑ دیا اور فقہ حنفی سے منسلک ہو گئے ۔
اس تبدیلی کی کیا وجہ بنی؟ اس بارے میں علامہ زاہد الکوثری نے دو روایتیں پیش کی ہیں:
(1): ابو سلیمان بن زبر خود امام طحاوی کا قول نقل کرتے ہیں، فرماتے ہیں:
قَالَ لِيْ أَبُوْ جَعْفَرِ نِ الطَّحَاوِيُّ: أَوَّلُ مَنْ كَتَبْتُ عَنْهُ الْحَدِيْثَ الْمُزَنِيُّ وَ أَخَذْتُ بِقَوْلِ الشَّافِعِيِّ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ سِنِيْنَ قَدِمَ أَحْمَدُ بْنُ أَبِيْ عِمْرَانَ قَاضِيًا عَلٰى مِصْرَ فَصَحِبْتُهٗ وَ أَخَذْتُ بِقَوْلِهٖ وَ كَانَ يَتَفَقَّهُ لِلْكُوْفِيِّيْنَ.
(الحاوی فی سیرۃ الطحاوی للکوثری: ص15، 16)
ترجمہ: مجھے امام طحاوی نے فرمایا کہ میں نے سب سے پہلے حدیث اپنے ماموں امام مزنی سے حاصل کی اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر تھا۔ چند سال بعد جب احمد بن ابی عمران مصر میں قاضی بن تشریف لائے تو میں ان کی مجلس میں جانے لگا۔ چونکہ وہ فقہ حنفی کے فقیہ تھے اس لیے (ان کی صحبت اور دلائل کی قوت کی بناء پر) میں نے بھی فقہ حنفی کو اپنا لیا۔
(2): محمد بن احمد شروطی کہتے ہیں کہ میں نے امام طحاوی سے پوچھا:
لِمَ خَالَفْتَ مَذْهَبَ خَالِكَ؟ وَاخْتَرْتَ مَذْهَبَ أَبِيْ حَنِيْفَةَ فَقَالَ: لِأَنِّيْ كُنْتُ أَرَىٰ خَالِيْ يُدِيْمُ النَّظْرَ فِيْ كُتُبِ أَبِيْ حَنِيْفَةَ فَلِذٰلِكَ انْتَقَلْتُ إِلَيْهِ․
(الحاوی فی سیرۃ الطحاوی للکوثری: ص16)
ترجمہ: آپ نے اپنے ماموں کا مذہب چھوڑ کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب کیوں اپنایا؟ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ میں اپنے ماموں امام مزنی کو دیکھتا تھا کہ وہ ہر وقت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کا مطالعہ کرتے تھے (تو میں نے بھی ان کتب کا مطالعہ کیا) اس لیے حنفیہ کی طرف مائل ہوا۔
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر علماء:
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت شان اور عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ آپ اس دور کے عالم ہیں جس میں مشہور ومعروف اساطین علم کثرت سے موجود تھے۔ چند ایک حضرات کی تاریخ ولادت اور وفات ملاحظہ فرمائیں۔ نیز یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ان کی وفات کے وقت امام طحاوی رحمہ اللہ کی عمر کتنی تھی؟!
اسماء ائمہ مع سن ولادت و وفات
عمر امام طحاوی
محمد بن اسماعیل البخاری (و194ھ، ت 256ھ)
مسلم بن حجاج القشیری (و 204ھ،ت 261ھ)
ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجۃ (و 209ھ، ت 273ھ)
ابو داؤد سلیمان بن الاشعث (و 202ھ، ت 275ھ)
ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ الترمذی (و 209ھ،ت 279ھ)
ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب النسائی (و215ھ، ت303ھ)
17 سال
22 سال
34 سال
36 سال
40 سال
60 سال
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ؛ امام مسلم، امام ابو داؤد، امام نسائی، امام ابن ماجہ وغیرہ کے ساتھ بعض اساتذہ میں بھی شریک ہیں۔ چنانچہ آپ کے شیخ امام ہارون بن سعید الایلی سے امام مسلم، امام ابو داؤد، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت لی ہے۔ اسی طرح آپ کے شیخ امام ربیع بن سلیمان الجیزی سے امام ابو داؤد اور امام نسائی نے روایت لی ہے۔
(الحاوی فی سیرۃ الطحاوی للکوثری: ص5، 6)
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام :
علامہ محمد امین بن عمر ابن عابدین شامی حنفی (ت1252ھ)نے لکھا ہے کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ مجتہد فی المسائل تھے جیسے امام ابو بکر احمد بن عمرو بن مہران خصاف (ت261ھ)، ابو الحسن عبید اللہ بن الحسین الکرخی (ت340ھ)، شمس الائمہ عبد العزیز بن احمد بن نصر بن صالح البخاری الحلوانی (ت456ھ)، فخر الاسلام علی بن محمد بن الحسین بن عبد الکریم البزدوی (ت482ھ)، شمس الائمہ امام محمد بن احمد بن ابی سہل السرخسی (ت483 ھ) ، امام فخر الدین حسن بن منصور الاوزجندی المعروف قاضی خان (ت592ھ) ہیں، یعنی یہ حضرات اصول وفروع میں اپنے امام کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ اپنے امام کے اصول وقواعد کو سامنے رکھ کر ان مسائل کے احکام کا استنباط کرتے ہیں جن کے بارے میں صاحبِ مذہب سے روایت نہ ہو۔
(رد المحتار لابن عابدین: ج 1 ص 181 مطلب فی طبقات الفقہاء)
آپ کے بارے میں اہلِ علم کی آراء:
1: علامہ ابو سعید عبد الرحمٰن بن احمد بن يونس المصری (ت 347ھ) فرماتے ہیں:
وَكَانَ ثِقَةً ثَبْتًا فَقِيْهًا عَاقِلًا لَمْ يُخَلِّفْ مِثْلَهٗ․
(تاریخ ابن یونس المصری: ص22)
ترجمہ: آپ ثقہ،قابل اعتماد اور صاحب عقل و دانش فقیہ تھے۔آپ کے بعد آپ کی مثل کوئی نہیں ہوا۔
2: علامہ ابو الفرج محمد بن اسحاق النديم (ت438ھ)لکھتے ہیں :
وَكَانَ أَوْحَدَ زَمَانِهٖ عِلْمًا وَزُهْدًا.
(الفہرست لابن ندیم: ص 260)
ترجمہ: آپ اپنے زمانے میں علم اور عبادت میں یکتا تھے۔
3 : امام ابو عمر یوسف بن عبد الله ابن عبد البر القرطبی المالكی (ت463ھ) فرماتے ہیں :
كَانَ الطَّحَاوِيُّ كُوْفِيَّ الْمَذْهَبِ وَكَانَ عَالِمًا بِجَمِيْعِ مَذَاهِبِ الْفُقَهَاءِ
(الجواہر المضیۃ لعبد القادر القرشی: ص72)
ترجمہ: امام طحاوی مذہب کوفہ (فقہ حنفی) پر عمل پیرا تھےاور تمام فقہاءکے مذاہب کوجاننے والے ہیں۔
4: علامہ شمس الدین ابو عبد لله محمد بن احمد بن عثمان ذہبی (ت748ھ) فرماتے ہیں :
اَلْحَافِظُ الْكَبِيْرُ مُحَدِّثُ الدِّيَارِ الْمِصْرِيَّةِ وَفَقِيْهُهَا... مَنْ نَظَرَ فِيْ تَوَالِيْفِ هٰذَا الْإِمَامِ عَلِمَ مَحِلَّهٗ مِنَ الْعِلْمِ وَسَعَةَ مَعَارِفِهٖ.
(سیر اعلام النبلاء للذھبی: ج15 ص27)
ترجمہ: آپ بڑے حافظ اور مصر کے شہروں کے محدث اور فقیہ تھے ۔ جو شخص آپ کی کتابوں کو پڑھے دیکھے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ آپ کا علمی مقام بہت بلند اور معلومات کی وسعت بہت زیادہ تھی۔
5: حافظ ابو الفداء اسماعیل بن خطیب ابن کثیر دمشقی شافعی (ت774ھ)فرماتے ہیں :
اَلْفَقِيْهُ الْحَنَفِيُّ صَاحِبُ الْمُصَنَّفَاتِ الْمُفِيْدَةِ وَالْفَوَائِدِ الْغَزِيْرَةِ وَهُوَ أَحَدُ الثِّقَاتِ الْأَثْبَاتِ وَالْحُفَاظِ الْجَهَابِذَةِ.
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: ج11 ص186)
ترجمہ: آپ حنفی فقیہ تھے، کئی ایک مفید اور نافع کتب تصنیف فرمائیں۔ ثقہ اور قابل اعتماد آدمی تھے اور ماہر ین حفاظ میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔
تصانیف :
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے کئی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1: احکام القرآن․․․․ یہ کتاب تفسیر میں آپ کی علمی مہارت کی دلیل ہے۔ 2 جلدوں میں چھپی ہے لیکن نامکمل چھپی ہے۔ اس کا ایک مخطوطہ ترکی کے مکتبہ وزیر کبریٰ میں رقم 814 کے تحت موجود ہے۔
2:شرح معانی الآثار ․․․․یہ آپ کی پہلی تصنیف ہے۔ اسے آپ نے فقہی ابواب کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے ۔ اس میں اختلافی مسائل کو جمع کیا ہے۔ اس میں آپ کا طرز یہ ہے کہ پہلے مذہب حنفی اور دوسرے مذاہب کے دلائل ذکر کرتے ہیں، پھر مذہب حنفی کے دلائل کی وجوہِ ترجیح بیان فرماتے ہیں اور دوسرے مذہب کے دلائل کے جوابات بھی دیتے ہیں۔
3: شرح مشکل الآثار․․․․اس میں آپ نے متعارض احادیث میں پائے جانے والے ظاہری تضاد کو ختم کیا ہے۔نیز احادیث سے استخراجِ احکام کا کام بھی کیا ہے ۔
4: مسند الشافعی ․․․․ آپ نے اس کتاب میں ان روایا ت کو جمع فرمایا جو اپنے ماموں امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ سے سنی تھیں۔
5:
العقیدۃالطحاویۃ ․․․․
اس میں اھل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کو جمع کیا ہے ۔
6:
”اَلتَّسْوِیَۃُ بَیْنَ حَدَّثَنَا وَ أَخْبَرَنَا“․․․․
یہ چھوٹا سا رسالہ ہے جس میں علم حدیث کی ایک اصطلاح
”حَدَّثَنَا“
اور
”أَخْبَرَنَا“
کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔
7:
اختلاف العلماء فی الفقہ․․․․
یہ بہت بڑی کتاب ہے۔ امام طحاوی کے بعض سوانح نگاروں نے کے بقول یہ کتاب تقریباً 130جلدوں میں ہے۔ اس کتاب کا اختصار حافظ ابوبکر الجصاص الرازی نے ”مختصر اختلاف العلماء“ کے نام سے کیاہے۔ یہ اختصار دار الکتب العلمیہ بیروت سے 4 جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔
وفات:
آپ کی وفات 321 ھ بروز جمعرات مصر میں ہوئی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
[٭]: ھٰذَا مَا رَوَاہُ الْإِمَامُ أَبوْ جَعْفَرِ نِ الطَّحَاوِيُّ -رَحِمَهُ اللهُ- فِیْ ذِكْرِ بَيَانِ اعْتِقَادِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ عَلٰى مَذْهَبِ فُقَهَاءِ الْمِلَّةِ: أَبِيْ حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ بْنِ ثَابِتٍ الْكُوْفِيِّ وَأبِيْ يُوْسُفَ يَعْقُوْبَ بْنِ إِبْرَاهِيْمَ الْأَنْصَارِيِّ وَأبِيْ عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الشَّيْبَانِيِّ رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ أجْمَعِيْنَ وَمَا يَعْتَقِدُوْنَ مِنْ أُصُوْلِ الدِّيْنِ وَيَدِيْنُوْنَ بِهٖ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.
قَالَ الْإِمَامُ وَبِہٖ قَالَ الْإِمَامَانِ الْمَذْکُوْرَانِ: نَقُوْلُ فِيْ تَوحِيْدِ اللهِ مُعْتَقِدِيْنَ بِتَوفِيْقِ اللهِ :
ترجمہ: یہ اھل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کا بیان ہے جسے امام ابو جعفر الطحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فقہائے ملت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی، امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری اور امام ابو عبد اللہ محمد بن الحسن الشیبانی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریق پر ذکر کیا ہے، اور یہی وہ باتیں ہیں جن کا یہ فقہائے ملت دین کے اصول کے طور پر اعتقاد رکھتے تھے اور رب العالمین کے بارے میں یہی ان کا دین (و ایمان) تھا۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرات صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہا اللہ ) فرماتے ہیں: ہم توحید باری تعالیٰ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
[٭]: جن عقائد کا بیان آگے آ رہا ہے وہ اھل السنۃ والجماعۃ کے عقائد ہیں جو فقہاء ملت یعنی ائمہ ثلاثہ سے منقول ہیں اور انہی کے طریق پر پیش کیے جا رہے ہیں۔