عقیدہ 104

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
راہِ اِعْتِدال
عقیدہ 104:
متن:
وَهُوَ بَيْنَ الغُلُوِّ وَالتَّقْصِيْرِ وَبَيْنَ التَّشْبِيْهِ وَالتَّعْطِيْلِ وَبَيْنَ الْجَبْرِ وَالْقَدَرِ وَبَيْنَ الْأَمْنِ وَالْإِيَاسِ.
ترجمہ: دین اسلام افراط و تفریط، تشبیہ و تعطیل، جبر و قدر اور (عذاب سے) بے خوفی و (رحمت سے) ناامیدی کے درمیان راہِ اعتدال کا نام ہے۔
شرح:
دین اسلام راہ اعتدال کا نام ہے جس میں راہ سے گزرنے اور راہ سے اترنے کے بجائے راہ پر چلنے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ دین افراط و تفریط پر مبنی نظریات کے بجائے اعتدال کے حامل نظریات کا نام ہے۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس اعتدال کو چند جملوں میں پیش فرمایا ہے جن کی مختصراً وضاحت یہ ہے:
"وَهُوَ بَيْنَ الغُلُوِّ وَالتَّقْصِيْرِ ". . .
یعنی ہم نہ افراط کرتے ہیں کہ نبی کو خدا کا بیٹا قرار دیں اور نہ ہی تفریط کرتے ہیں کہ نبی کا مقام اور مرتبہ ولی کے برابر یا اس سے بھی کم قرار دیں بلکہ ہم نبی کو اللہ تعالیٰ کا بندہ مان کر اسے امت کے تمام اولیاء سے بلند درجہ مانتے ہیں۔
"وَبَيْنَ التَّشْبِيْهِ وَالتَّعْطِيْلِ ". . .
یعنی ہم نہ تشبیہ کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کے مشابہ قرار دیں اور نہ تعطیل کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بغیر صفات کے مان لیں بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کے قائل ہیں لیکن مخلوق کی مشابہت سے پاک مانتے ہیں۔
"وَبَيْنَ الْجَبْرِ وَالْقَدَرِ ". . .
یعنی ہم نہ جبریہ کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان کو مجبور محض مان لیں اور نہ ہی قدریہ کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان کو اپنے افعال کا خالق قرار دیں بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کو بندوں کے افعال کا خالق مان کر بندوں کو افعال کا کاسب مانتے ہیں۔
"وَبَيْنَ الْأَمْنِ وَالْإِيَاسِ" . . .
یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب اور پکڑ سے بے خوف بھی نہیں ہوتے اور خدا کی رحمت اور معافی سے ناامید بھی نہیں ہوتے بلکہ نیک اعمال بجا لانے کے باوجود خائف رہتے ہیں کہ قبول بھی ہوتے ہیں یا نہیں؟! اور گناہ ہو جانے پر مایوس بھی نہیں ہوتے بلکہ معافی کی امید رکھتے ہیں۔
ہم اللہ تعالیٰ کو بندوں کے افعال کا خالق مان کر بندوں کو افعال کا کاسب مانتے ہیں۔
"وَبَيْنَ الْأَمْنِ وَالْإِيَاسِ" . . .
یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب اور پکڑ سے بے خوف بھی نہیں ہوتے اور خدا کی رحمت اور معافی سے ناامید بھی نہیں ہوتے بلکہ نیک اعمال بجا لانے کے باوجود خائف رہتے ہیں کہ قبول بھی ہوتے ہیں یا نہیں؟! اور گناہ ہو جانے پر مایوس بھی نہیں ہوتے بلکہ معافی کی امید رکھتے ہیں۔