دعائے خاتمہ بالخیر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دعائے خاتمہ بالخیر
فِرَق باطلہ سے اعلانِ براءت
متن:
[٭]: وَنَسْأَلُ اللهَ تَعَالٰى أَنْ يُثَبِّتَنَا عَلَى الْإِيْمَانِ وَيَخْتِمَ لَنَا بِهٖ وَيَعْصِمَنَا مِنَ الْأَهْوَاءِ الْمُخْتَلِفَةِ وَالْآرَاءِ الْمُتَفَرِّقَةِ وَالْمَذَاهِبِ الرَّدِيَّةِ مِثْلِ الْمُشَبِّهَةِ وَالْمُعْتَزِلَةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَالْجَبْرِيَّةِ وَالْقَدَرِيَّةِ وَغَيْرِهِمْ مِنَ الَّذِيْنَ خَالَفُوا السُّنَّةَ وَالْجَمَاعَةَ وَاتَّبَعَ الْبِدْعَۃَ والضَّلَالَةَ وَنَحْنُ مِنْهُمْ بَرَاءٌ وَهُمْ عِنْدَنَا ضُلَّالٌ وَأَرْدِيَاءُ وَبِاللهِ الْعِصْمَةُ وَالتَّوْفِيْقُ. وَاللہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَإِلَیْہِ الْمَرْجِعُ وَالْمَاٰبُ․
ترجمہ: ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ایمان پر ثابت قدم فرما، ایمان پر ہی ہمارا خاتمہ فرما، ہر قسم کی خواہشات نفسانیہ، جداگانہ آراء اور مشبہہ، معتزلہ، جہمیہ، جبریہ، قدریہ جیسے مردود مذاہب سے ہماری حفاطت فرما اور ان کے علاوہ ان لوگوں سے بھی ہمیں محفوظ فرما جو اھل السنۃ والجماعۃ کے مخالف ہیں اور بدعت وگمراہی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ہم ان سب سے بری ہیں۔ یہ تمام لوگ ہمارے نزدیک گمراہ اور مردود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی حفاطت فرمانے والا اور توفیق دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں اور ہم نے بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔
شرح:
[٭]: امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ صحیح عقائد و نظریات پر کاربند رہنے اور غلط آراء اور فرق ہائے باطلہ سے بچنے کی دعا فرما رہے ہیں۔ جن فرقوں کا نام لے کر تردید فرمائی ہے ان کا مختصر سا تعارف پیش ہے:
مشبہ:
یہ فرقہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو ذات اور صفات میں مخلوق کے مشابہ قرار دیتا ہے۔اس فرقہ کا کہنا ہے کہ جس طرح مخلوق کا جسم، اعضاء، خون، گوشت پوست ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا بھی جسم اور اعضاء ہیں لیکن مخلوق کی طرح نہیں بلکہ اللہ کی اپنی شان کے لائق ہیں۔ اس فرقے کا بانی ”داؤد جواربی“ تھا۔ تشبیہ کا قول سب سے پہلے اسی شخص نے کیا تھا۔ اس کی وفات سن 95ھ اور 110ھ کے درمیان ہوئی۔
معتزلہ:
یہ فرقہ دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوا۔ اس فرقے کا بانی ”واصل بن عطاء الغزال“(ت 131 ھ ) تھا جو حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا شاگرد تھا۔ واصل بن عطاء نے جب یہ موقف اختیار کیا کہ مرتکب کبیرہ (کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا)ایمان سے نکل جاتا ہے، مگر کفر میں داخل نہیں ہوتا، تو امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:”ھٰذَاالرَّجُلُ قَدِ اعْتَزَلَ عَنَّا“ (یہ شخص ہم سے جدا ہوگیا) اب جو شخص اس کی اتباع کرتا وہ خود کو معتزلی کہتا اور معتزلی کا معنی یہ لیتا کہ ہم اہل السنۃ والجماعۃ کے باطل عقائد سے الگ ہیں ۔
اس فرقہ کے ہاں معیار عقل ہے۔ جو بات ان کی عقل ناقص کے مطابق نہ ہو اس میں بے جا تاویلات کرتے ہیں گو وہ نصوص قطعیہ ہی کیوں نہ ہوں اور ظنیات کا تو ویسے ہی انکار کر دیتے ہیں۔جس طرح انسانوں کے افعال میں حسن و قبح ہے اسی طرح یہ لوگ باری تعالیٰ کے افعال پر بھی حسن وقبح کا حکم لگاتے ہیں۔
پانچ اصولوں پر ان کا مذہب مبنی ہے۔ تفصیل یہ ہے:
۱: عدل :
ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نہ ہی خالقِ شر ہے اور نہ ہی شر کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگر خالقِ شر مان لیا جائے تو بندوں کے افعال شر پر پکڑ کرنا ظلم ہو گا حالانکہ اللہ تعالیٰ عدل کرنے والا ہے۔ اس لیے عدل یہی ہے کہ اللہ تعالی کو خالق شر نہ مانا جائے۔
۲: توحید :
قرآن مجید کو مخلوق مانتے ہیں۔ وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر قرآن کو بھی قدیم مانا جائے تو تعدد قدماء لازم آئے گا جبکہ قدیم صرف ایک یعنی ذات باری تعالیٰ ہے۔
۳: انفاذ وعید:
اللہ تعالیٰ نے جن وعیدوں کو بیان کیا اور اپنی نا فرمانی پر جن عذاب کی خبر دی ہے ان سزاؤں کو نافذ کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے اور معاف کرنا جائز نہیں ورنہ اپنے وعدے کی مخالفت کرنا لازم آئے گا کہ جرم پر سزا کو بیان تو کیا لیکن اسے نافذ نہیں کیا۔
۴: منزلۃ بین منزلتین:
گناہِ کبیرہ کا مرتکب ایمان سے خارج تو ہو جاتا ہے لیکن کفر میں داخل نہیں ہوتا۔
۵: امر بالمعروف ونہی عن المنکر
”امر بالمعروف“ یعنی جن کاموں کا انسان مکلف ہے اس کا دوسروں کو حکم دینا اور پابندی کرانا واجب ہے اور ”نہی عن المنکر“ یعنی ظالم ائمہ کے خلاف بغاوت اور
قتال کرنا ضروری ہے۔
جہمیہ:
یہ لوگ ”جہم بن صفوان السمرقندی“ کے متبعین ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کی نفی اور تعطیل کے قائل ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ جنت اور جہنم فناہو جائیں گی۔ جہم بن صفوان سمرقندی نے یہ عقائد جعد بن درہم سے لیے تھے۔ خالد بن عبد اللہ القَسْرِی نے واسط شہر میں عید الاضحیٰ کے دن جعد بن درہم کو ذبح کر کے مارا تھا۔ جہم بن صفوان کی وفات سن 130ھ میں ہوئی۔ بعض روایات کے مطابق اس کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔
جبریہ:
یہ فرقہ انسان کو مجبور محض سمجھتا ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ بندہ کو اپنے افعال پر کوئی اختیار حاصل نہیں بلکہ اس کا ہر عمل محض اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقدیر، علم، ارادے اور قدرت سے ہوتا ہے۔ اس لیے بندوں کے اچھے اعمال کی تعریف اور برے اعمال کی مذمت نہیں کی جا سکتی۔
قدریہ:
یہ ”قدر“ کی طرف منسوب ہے، تقدیر کی نفی کی وجہ سے انہیں قدریہ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان اپنے افعال پر قادر اور ان کا خالق ہے۔ کوئی کام انسان کے ارادہ اور قدرت کے بغیر نہیں ہو سکتابلکہ سارے کام انسان کے چاہنے اور اختیار سے ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو حادثات وواقعات کا علم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔