سوال 1-2روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سوال 1-2روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
أَيُّهَا الْعُلَمَاءُ الْكِرَامُ وَ الْجَهَابِذَةُ الْعِظَامُ! قَدْ نَسَبَ إِلٰى سَاحَتِكُمُ الْكَرِيْمَةِ أُنَاسٌ عَقَائِدَ الْوَهَابِيَّةِ وَ أَتَوْا بِأَوْرَاقٍ وَّ رَسَائِلَ لَا نَعْرِفُ مَعَانِيَهَا لِاخْتِلَافِ اللِّسَانِ نَرْجُوْ أَنْ تُخْبِرُوْنَا بِحَقِيْقَةِ الْحَالِ وَ مُرَادَاتِ الْمَقَالِ وَ نَحْنُ نَسْأَلُكُمْ عَنْ أُمُوْرِ نِ اشْتُهِرَ فِيْهَا خِلَافُ الْوَهَابِيَّة ِعَنْ أَهْلِ السُنَّةِ وَ الْجَمَاعَةِ.
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہیں اور اس کے رسول کریم صلی ا للہ علیہ و سلم پر درود بھیجتے ہیں۔
اے علماء کرام اور سرداران عظام! چند لوگوں نے آپ کی طرف وہابی عقائد کی نسبت کی ہے اور کچھ اوراق اور رسالے ایسے لائے جن کا مطلب ہم غیر زبان ہونے کی وجہ سے نہ سمجھ سکے۔ اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ہمیں صحیح صورت حال اور عبارات کے صحیح مفہوم سے آگاہ کریں گے۔ ہم آپ سے ایسی چند چیزیں پوچھتے ہیں جن میں وہابیہ کا اہل السنۃ و الجماعۃ سے اختلاف مشہور ہے۔
اَلسُّؤَالُ الْاَوَّلُ وَ الثَّانِيْ:
مَا قَوْلُكُمْ فِيْ شَدِّ الرِّحَالِ إِلٰى زِيَارَةِ سَيِّدِ الْكَائِنَاتِ عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلَوَاتِ وَ التَّحِيَّاتِ وَ عَلٰى آلِهٖ وَ صَحْبِهٖ أَيُّ الْأَمْرَيْنِ أَحَبُّ إِلَيْكُمْ وَ أَفْضَلُ لَدَىٰ اَکَابِرِکُمْ لِلزَّائِرِ هَلْ يَنْوِيْ وَقَتَ الْاِرْتِحَالِ لِلزِّيَارَةِ زِيَارَتَهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَوْ يَنْوِي الْمَسْجِدَ أَيْضًا وَقَدْ قَالَ الْوَهَابِيَّةُ: إِنَّ الْمُسَافِرَ إِلَى الْمَدِيْنَةِ لَا يَنْوِيْ إِلَّا الْمَسْجِدَالنَبَوِيَّ.
پہلا اور دوسرا سوال:
سید الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے سفر کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
آپ اور آپ کے اکابرین کے نزدیک زیارت کرنے والے کے لیے ان دو باتوں میں سے کون سی بات زیادہ پسندیدہ اور باعثِ فضیلت ہے کہ زیارت کرنے والا سفر کرتے وقت صرف آپ علیہ السلام کی زیارت کی نیت کرے یا مسجد نبوی کی زیارت کی نیت بھی کرے؟ حالانکہ وہابیہ تو یہ کہتے ہیں کہ شہرِمدینہ کی طرف سفر کرنے والا شخص صرف مسجد نبوی کی نیت سے سفر کرے۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ مِنْهُ نَسْتَمِدُّ الْعَوْنَ وَ التَّوْفِيْقَ وَ بِيَدِهِ أَزِمَّةُ التَّحْقِيْقِ.
حَامِدًا وَّ مُصَلِّيًّا وَّ مُسَلِّمًا
لِيُعْلَمَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ نَشْرَعَ فِي الْجَوَابِ اَنَّا- بِحَمْدِ اللهِ- وَ مَشَايِخَنَا رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِيْنَ وَ جَمِيْعَ طَائِفَتِنَا وَ جَمَاعَتِنَا مُقَلِّدُوْنَ لِقُدْوَةِ الْأَنَامِ وَ ذِرْوَةِ الْإِسْلَامِ الْإِمَامِ الْهُمَامِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ أَبِیْ حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي الْفِرُوْعِ وَ مُتَّبِعُوْنَ لِلْإِمَامِ الْهُمَامِ أَبِي الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيِّ 1 وَ الْإِمَامِ الهُمَامِ أَبِيْ مَنْصُوْرِ نِ الْمَاتُرِيْدِيِّ 2 رَضِيَ اللهُ تَعَالٰى عَنْهُمَا فِي الْاِعْتِقَادِ وَ الْأُصُوْلِ 3وَ مُنْتَسِبُوْنَ مِنْ طُرُقِ الصُّوْفِيَّةِ إِلَى الطَّرِيْقَةِ الْعُلْيَةِ الْمَنْسُوْبَةِ إِلَى السَّادَةِ النَّقْشَبَنْدِيَّةِ وَالطَّرِيْقَةِ الزَّکِيَّةِ الْمَنْسُوْبَةِ إِلَى السَّادَةِ الْجِشْتِيَّةِ وَ الطَّرِيْقَةِ الْبَهِيَّةِ الْمَنْسُوْبَةِ إِلَى السَّادَةِ الْقَادِرِيَّةِ وَ الطَّرِيْقَةِ الْمَرْضِيَّةِ الْمَنْسُوْبَةِ إِلَى الْسُهُرْوَرْدِيَّةِ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰى عَنْهُمْ أَجْمَعِيْنَ
جواب
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
ہم اسی سے مدد اور توفیق کے طلبگار ہیں اور تحقیق کی باگ ڈور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔
حمد اور صلوٰۃ وسلام کے بعد عرض ہے کہ
ہمارے جواب شروع کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ بحمد اللہ ہم، ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت فروعات میں پیشوائے امت، اسلام کی شان، امامِ عالی ہمت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مقلد ہیں، اصول و اعتقادیات میں امام ابوالحسن الاشعری اور امام ابو منصور ماتریدی رضی اللہ عنہما کے پیروکار ہیں اور طرق ہائے صوفیہ میں ہماری نسبت (سلاسلِ اربعہ یعنی) سلسلہ عالیہ حضرات نقشبندیہ، طریقہ زکیہ مشائخ چشت، سلسلہ بہیہ حضرات قادریہ اور طریقہ مرضیہ مشائخ سہروردیہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہے۔
ثُمَّ ثَانِیًا اِنَّا لَا نَتَکَلَّمُ بِکَلَامٍ وَّلَا نَقُوْلُ قَوْلًا فِی الدِّیْنِ اِلَّا وَ عَلَیْہِ عِنْدَنَا دَلِیْلٌ مِّنَ الْکِتَابِ اَوِ السُّنَّۃِ أَوْ إِجْمَاعِ الْأُمَّةِ أَوْ قَوْلٍ مِّنْ أَئِمَّةِ الْمَذْهَبِ وَ مَعَ ذٰلِكَ لَا نَدَّعِيْ أَنَّا مُبَرَّؤُوْنَ مِنَ الْخَطَأِ وَ النِّسْيَانِ فِي ضِلَّةِ الْقَلَمِ وَ زِلَّةِ اللِّسَانِ، فَإِنْ ظَهَرَ لَنَا أَنَّا أَخْطَأْنَا فِيْ قَوْلٍ، سَوَاءٌ کَانَ مِنَ الْأُصُوْلِ أَوِالْفُرُوْعِ، فَمَا يَمْنَعُنَا الْحَيَاءُ أنْ نَرْجِعَ عَنْهُ وَ نُعْلِنَ بِالرُّجُوْعِ کَيْفَ لَا وَ قَدْ رَجَعَ أَئِمَّتُنَا رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ فِي کَثِيْرٍ مِّنْ أَقْوَالِهِمْ حَتّٰى أَنَّ إِمَامَ حَرَمِ اللهِ تَعَالٰى الْمُحْتَرَمِ إِمَامَنَا الشَّافِعِيَّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ لَمْ یَبْقَ مَسْئَلَۃٌ اِلَّا وَلَہٗ فِیْھَا قَوْلٌ جَدِیْدٌ وَالصَّحَابَۃُ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ رَجَعُوْا فِيْ مَسَائِلَ إِلٰى أَقْوَالِ بَعْضِهِمْ کَمَا لَا يَخْفَىٰ عَلٰى مُتَّبِعِ الْحَدِيْثِ فَلَوِ ادَّعٰى أَحَدٌ مِّنَ الْعُلَمَاءِ أَنَّا غَلَطْنَا فِيْ حُكْمٍ، فَإِنْ کَانَ مِنَ الْاِعْتِقَادِيَّاتِ فَعَلَيْهِ أَنْ يُّثْبِتَ دَعْوَاهُ بِنَصٍّ مِّنْ أَئِمَّةِالْكَلَامِ وَ إِنْ کَانَ مِنَ الْفَرْعِيَّاتِ فَيَلْزَمُ أَنْ يَبْنٰي بُنْيَانَهُ عَلَى الْقَوْلِ الرَّاجِحِ مِنْ أَئِمَّةِ الْمَذْهَبِ فَإِذَا فَعَلَ ذٰلِكَ فَلَا يَكُوْنُ مِنَّا- إِنْ شَآءَ اللهُ تَعَالٰى- إِلَّا الْحُسْنَى الْقُبُوْلُ بِالْقَلْبِ وَ اللِّسَانِ وَ زِيَادَةُ الشُّكْرِ بِالْجِنَانِ وَ الْأَرْکَانِ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم دین کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کہتے جس پر ہمارے پاس قرآن مجید، سنت مطہرہ، اجماع امت یا ائمہ مذہب میں سے کسی امام کا قول بطورِ دلیل نہ ہو لیکن اس کے باوجود ہم قلم کی غلطی اور زبان کی لغزش میں خطا و نسیان سے براءت کا دعویٰ نہیں کرتے۔ اگر ہمیں اس بات کا علم ہوجائے کہ اصول یا فروع کے کسی قول میں ہم سے غلطی ہوئی ہے تو اپنی اس غلطی سے رجوع کرنے میں ہم جھجک سے کام نہیں لیتے بلکہ ہم رجوع کا اعلا ن کردیتے ہیں اور ہم اپنی غلطی سے رجوع کیوں نہ کریں جبکہ ہمارے ائمہ کرام رضوان اللہ علیہم سے بھی اپنے بہت سارے اقوال میں رجوع ثابت ہے حتیٰ کہ امامِ حرم محترم امام شافعی رضی اللہ عنہ کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں بچتا ؟جس میں آپ کا قول جدید نہ ہو۔ نیز حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی کئی مسائل میں دوسروں کے اقوال کی طرف رجوع فرمایا جیسا کہ یہ بات حدیث کے تلاش کرنے والے پر مخفی نہیں۔ اس لیے اگر کوئی عالم ہمارے متعلق اس بات کا دعویٰ کرے کہ ہم نے کسی ایسے حکم شرعی میں غلطی کی ہے جس کا تعلق اعتقاد سے ہے تو اس عالم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ائمہ کلام کی تصریح سے اپنا دعویٰ ثابت کرے، اور اگر مسئلہ فرعی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ائمہ مذہب رحمہم اللہ تعالیٰ کے راجح قول سے اپنے دعویٰ کو ثابت کرے۔ جب وہ ایسا کرے گا تو ان شاءاللہ ہماری طرف سے یہ خوبی ظاہر ہوگی کہ ہم دل و زبان سے قبول کریں گے اور قلب و جان سے اس کا شکریہ بھی ادا کریں گے۔
وَ ثَاِلثًا أَنَّ فِيْ أَصْلِ اصْطِلَاحِ بِلَادِ الْهِنْدِ کَانَ إِطْلَاقُ "الْوَهَابِيِّ" عَلٰى مَنْ تَرَكَ تَقْلِيْدَ الْأَئِمَّةِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ ثُمَّ اتُّسِعَ فِيْهِ وَ غَلَبَ اسْتِعْمَالُهٗ عَلٰى مَنْ عَمِلَ بِالسُّنَّةِ السَّنِيَّةِ وَ تَرَكَ الْأُمُوْرَ الْمُسْتَحْدَثَةَ الشَّنِيْعَةَ وَ الرُّسُوْمَ الْقَبِيْحَةَ حَتّٰى شَاعَ فِيْ بَمْبَئِیْ وَ نَوَاحِيْهَا أَنَّ مَنْ مَّنَعَ عَنْ سَجْدَةِ قُبُوْرِ الْأَوْلِيَاءِ وَ طَوَافِهَا فَهُوَ وَهَابِيٌّ بَلْ وَ مَنْ أَظْهَرَ حُرْمَةَ الرِّبَا فَهُوَ وَهَابِيٌّ وَ إِنْ کَانَ مِنْ أَکَابِرِ أَهْلِ الْإِسْلَامِ وَ عُظَمَائِهِمْ ثُمَّ اتُّسِعَ فِيْهِ حَتّٰى صَارَ سَبًّا، فَعَلٰى هٰذَا لَوْ قَالَ رَجُلٌ مِّنْ أَهْلِ الْهِنْدِ لِرَجُلٍ أَنَّهُ وَهَابيٌّ فَهُوَ لَا يَدُلُّ عَلٰى أَنَّهٗ فَاسِدُ الْعَقِيْدَةِ بَلْ يَدُلُّ عَلٰى أَنَّهٗ سُنِّيٌّ حَنَفِيٌّ عَامِلٌ بِالسُّنَّةِ مُجْتَنِبٌ عَنِ الْبِدْعَةِ خَائِفٌ مِّنَ اللهِ تَعَالٰى فِي ارْتِكَابِ الْمَعْصِيَّةِ.
تیسری بات یہ ہے کہ ہندوستان میں لفظ ”وہابی“ اس شخص کے لیے بولا جاتا تھا جو ائمہ کی تقلید چھوڑ بیٹھے۔ پھر اس لفظ میں اتنی وسعت ہوئی کہ جو لوگ سنت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام پر عمل کریں، بدعات سیئہ اور غلط رسوم و رواج کو چھوڑ دیں ان کے لیے یہ لفظ بولا جانے لگا یہاں تک کہ ممبئی شہر اور اس کے گرد و نواح میں یہ بات مشہور ہوئی کہ جو شخص بھی اولیاء کرام کی قبروں کو سجدہ اور طواف کرنے سے منع کرے وہ وہابی ہے بلکہ جو سود کی حرمت کا فتویٰ دے وہ بھی وہابی ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور بلند مرتبہ مسلمان کیوں نہ ہو۔ پھر اس میں مزید وسعت پیدا ہوئی یہاں تک کہ یہ لفظ ایک گالی بن کر رہ گیا۔ لہذا اگر کوئی ہندوستانی شخص کسی کو وھابی کہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا عقیدہ خراب ہے بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ سنی حنفی ہے، سنت پر عمل کرنے والا،بدعت سے بچنے والا اور گناہ کے ارتکاب میں اللہ سے ڈرنے والا ہے۔
وَلَمَّا کَانَ مَشَايِخُنَا رَضِيَ اللهُ تَعَالٰى عَنْهُمْ يَسْعَوْنَ فِيْ إِحْيَاءِ السُّنَّةِ وَ يَشْمَرُوْنَ فِيْ اِخْمَادِ نِيْرَانِ الْبِدْعَةِ غَضَبَ جُنْدُ إِبْلِيْسَ عَلَيْهِمْ وَ حَرَّفُوْا کَلَامَهُمْ وَ بَهَتُوْهُمْ وَ افْتَرَوْا عَلَيْهِمُ الْاِفْتِرَاءَاتِ وَ رَمَوْهُمْ بِالْوَهَابِيَّةِ وَ حَاشَاهُمْ عَنْ ذٰلِكَ بَلْ وَ تِلْكَ سُنَّةُ اللهِ الَّتِيْ سَنَّهَا فِيْ خَوَاصِّ أَوْلِيَائِهٖ کَمَا قَالَ اللهُ تَعَالٰى فِيْ کِتَابِهٖ: ﴿وَکَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيْنَ الْإِنْسِ وَ الْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ إِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا يَفْتَرُوْنَ﴾4
چونکہ ہمارے مشائخ رضی اللہ عنہم احیاءِ سنت میں کوشاں رہتے اور بدعت کی آگ بجھانے کے لیے ہر وقت تیار ہوتے تھے اس لیے شیطانی لشکر کو ان پر غصہ آیا اور انہوں نے ان مشائخ کے کلام میں تحریف کر ڈالی، ان پر بہتان باندھے، ان کے خلاف من گھڑت باتیں بنائیں اور ان کو ”وہابی“ کہہ کر تہمت لگائی حالانکہ اللہ کی قسم وہ ایسے نہ تھے بلکہ بات یہ ہے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایک طریقہ چلا آرہا ہے جو خواص اولیاء میں ہمیشہ جاری رہا ہے (کہ لوگ ان سے عداوت کرتے ہیں) اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور(جس طرح یہ لوگ نبی سے دشمنی کررہے ہیں ) اسی طرح ہم نے ہر (پچھلے) نبی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا یعنی انسانوں اور جنّات میں سے شیطان قسم کے لوگ جو دھوکہ دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ لہذا اِن کو اپنی افتراء پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔“
فَلَمَّا کَانَ ذٰلِكَ فِي الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ وَ سَلَامُهُ وَجَبَ أَنْ يَكُوْنَ فِيْ خُلَفَائِهِمْ وَ مَنْ يَّقُوْمُ مَقَامَهُمْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ:"نَحْنُ مَعَاشِرُ الْأَنْبِيَاءِ اَشَدُّ النَّاسِ بَلَآءً ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ5
جب انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا رہا تو لازم بات ہے کہ ان کے جانشینوں اور نائبین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ چنانچہ آپ علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے: ”ہم انبیاء (علیہم السلام) کی جماعت پر سب سے زیادہ تکالیف آتی ہیں، پھر ان پر جو ان کے قریب ہیں، پھر ان پر جو ان کے قریب ہیں۔“
لِيَتَوَفَّرَ حَظُّهُمْ وَ يُكْمَلُ لَهُمْ أَجْرُهُمْ فَالَّذِيْنَ ابْتَدَعُوا الْبِدْعَاتِ وَ مَالُوْا إِلَى الشَّهَوَاتِ وَ اتَّخَذُوْا إِلٰهَهُمُ الْهَوٰى وَ أَلْقَوْا أَنْفُسَهُمْ فِيْ هَاوِيَةِ الرَّدِىْ يَفْتَرُوْنَ عَلَيْنَا الْأَکَاذِيْبَ وَ الْأَبَاطِيْلَ وَ يَنْسِبُوْنَ إِلَيْنَا الْأَضَالِيْلَ فَإِذَا نُسِبَ إِلَيْنَا فِيْ حَضْرَتِكُمْ قَوْلٌ يُّخَالِفُ الْمَذْهَبَ فَلَا تَلْتَفِتُوْا إِلَيْهِ وَ لَا تَظُنُّوْا بِنَا إِلَّا خَيْرًا وَ إِنِ اخْتُلِجَ فِيْ صُدُوْرِکُمْ فَاکْتُبُوْا إِلَيْنَا فَإِنَّا نُخْبِرُکُمْ بِحَقِيْقَةِ الْحَالِ وَ الْحَقِّ مِنَ الْمَقَالِ فَإِنَّكُمْ عِنْدَنَا قُطُبُ دَائِرَةِ الْإِسْلَامِ.
(یہ تکالیف اس لیے آتی ہیں) تاکہ (دین کے لیے قربانی کے سلسلہ میں) ان کا حصہ زیادہ ہو اور ان کو پورا اجر ملے۔ پس اہلِ بدعت جو ہر وقت بدعات کو ایجاد کرنے میں مصروف اور شہوات کی طرف مائل ہیں، جنہوں نے خواہشات نفس کو اپنا معبود بنایا ہوا ہے اور اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا ہے انہوں نے ہم پر جھوٹے بہتان باندھے ہیں اور ہمیں گمراہ کہا ہے۔ اس لیے اگر ہماری طرف کوئی ایسی بات منسوب کی جائے جو مذہب کے مخالف ہو تو آپ اس پر اعتماد نہ کریں اور ہمارے بارے میں حسنِ ظن سے کام لیں اور اگر (ہمارے حوالے سے) آپ کے دل میں کوئی خلجان پیدا ہو تو آپ ہمیں لکھ بھیجا کریں ہم ضرور آپ کو حقیقتِ حال سے مطلع کریں گے اور صحیح بات بتائیں گے، اس لیے کہ آپ حضرات تو ہمارے ہاں دائرہ اسلام کے مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تَوْضِيْحُ الْجَوَابِ:
عِنْدَنَا وَ عِنْدَ مَشَايِخِنَا زِيَارَةُ قَبْرِ سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ (رُوْحِيْ فِداہُ) مِنْ أَعْظَمِ الْقُرُبَاتِ وَأَهَمِّ الْمَثُوْبَاتِ وَأَنْجَحَ لِنَيْلِ الدَّرَجَاتِ بَلْ قَرِيْبَةٌ مِّنَ الْوَاجِبَاتِ وَ إِنْ کَانَ حُصُوْلُهُ بِشَدِّ الرِّحَالِ وَ بَذْلِ الْمُهَجِ وَ الْأَمْوَالِ، وَ يَنْوِيْ وَقْتَ الْاِرْتِحَالِ زِيَارَتَهٗ عَلَيْهِ اَلْفُ اَلْفِ تَحِيَّةٍ وَّ سَلَامٍ وَّ يَنْوِيْ مَعَهَا زِيَارَةَ مَسْجِدِهٖ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ وَ غَيْرِهٖ مِنَ الْبِقَاعِ وَ الْمُشَاهَدَاتِ الشَّرِيْفَةِ، بَلِ الْأَوْلٰى مَا قَالَ الْعَلَّامَةُ الْهُمَامُ ابْنُ الْهُمَامِ6
جواب کی وضاحت:
ہمارے اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت سید المرسلین (میری جان آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قربان ہو) کی قبر مبارک کی زیارت اعلیٰ درجہ کی قربت، نہایت ثواب اور بلند درجات کے حصول کا سبب بلکہ واجب کے قریب ہے گو یہ زیارت سفر کرنے اور جان و مال خرچ کرنے سے ہی نصیب ہو۔ نیز آدمی سفر کے وقت آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی نیت کرے اور ساتھ ہی مسجد نبوی اور دیگر متبرک مقامات اور زیارت گاہوں کی بھی نیت کرے بلکہ بہتر صورت تو وہ ہے جو علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے بیان فرمائی ہے:
أَنْ يُجَرِّدَ النِيَّةَ لِزِيَارَةِ قَبْرِهٖ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَ السَّلَامُ ثُمَّ يَحْصُلُ لَهٗ إِذَا قَدِمَ زَيَارَةَ الْمَسْجِدِ لِأَنَّ فِيْ ذٰلِكَ زِيَادَةَ تَعْظِيْمِهٖ وَ إِجْلَالِهٖ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ، وَ يُوَافِقُهٗ قَوْلُهٗ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ: "مَنْ جَآءَنِيْ زَائِرًا لَّا تَحْمِلُهٗ حَاجَةٌ إِلَّا زِيَارَتِيْ کَانَ حَقًّا عَلَيَّ أَنْ أَکُوْنَ شَفِيْعًا لَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ 7 وَ کَذَا نُقِلَ عَنِ الْعَارِفِ السَّامِيِّ الْمُلَّا جَامِي 8 أَ نَّهُ أَفْرَدَ الزِّيَارَةَ عَنِ الْحَجِّ وَ هُوَ أَقْرَبُ إِلٰى مَذْهَبِ الْمُحِبِّيْنَ
کہ مدینہ منورہ جانے والا شخص خالص قبر رسول علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی نیت کرے، پھر جب وہاں حاضری ہوگی تو مسجد نبوی کی بھی زیارت حاصل ہوجائے گی اس لیے کہ اس صورت میں آپ علیہ السلام کی تعظیم و تکریم زیادہ ہے۔ اس بات کی تائید خود جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان مبارک سے ہورہی ہے کہ:
”ایسا شخص جو میری زیارت کی نیت سے آیا ہو اس کے علاوہ اس کی اور کوئی حاجت نہ ہو تو قیامت کے دن اس کی شفاعت کرنا میرے ذمہ ہے۔“
ایسی ہی بات عارف عالی مقام ملاجامی رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے حج کے سفر میں زیارت (روضہ رسول علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام) کی مستقل نیت کی۔ اور یہی طرز مذہب عشاق سے زیادہ قریب ہے (کہ براہ راست قبر مبارک کی نیت کی جائے۔)
وَ أَمَّا مَا قَالَتِ الْوَهَابِيَّةُ مِنْ أَنَّ الْمُسَافِرَ إِلَی الْمَدِيْنَةِ الْمُنَوَّرَةِ عَلٰى سَاکِنِهَا اَلْفُ اَلْفِ تَحِيَّةٍ لَّا يَنْوِيْ إِلَّا الْمَسْجِدَ الشَّرِيْفَ اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهٖ عَلَيْه ِالصَّلَاةُ وَ السَّلَامُ:
" لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلٰى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ" 9 فَمَرْدُوْدٌ لِّأَنَّ الْحَدِيْثَ لَا يَدُلُّ عَلَى الْمَنْعِ أَصْلًا بَلْ لَوْ تَأَمَّلَ ذُوْ فَهْمٍ ثَاقِبٍ لَعَلِمَ أَنَّهُ بِدَلَالَةِ النَّصِّ يَدُلُّ عَلَى الْجَوَازِ، فَإِنَّ الْعِلَّةَ الَّتِيْ اسْتُثْنِيَ بِهَا الْمَسَاجِدُ الثَّلَاثَةُ مِنْ عُمُوْمِ الْمَسَاجِدِ أَوِ الْبِقَاعِ هُوَ فَضْلُهَا الْمُخْتَصُّ بِهَا وَ هُوَ مَعَ الزِّيَادَةِ مَوْجَوْدٌ فِي الْبُقْعَةِ الشَّرِيْفَةِ،
اب رہا وہابی لوگوں کا یہ کہنا کہ مدینہ منورہ کی طرف سفر کرنے والے کو صرف مسجد نبوی کے سفر کی نیت کرنی چاہیے اور اس موقف پر بطور دلیل یہ حدیث پیش کرنا کہ ”تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور جگہ کے لیے سفر نہ کیا جائے“تو ان کا یہ موقف انتہائی غلط ہے۔ اس لیے کہ اس حدیث سے کسی طرح بھی ممانعت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اگر سمجھ دار آدمی غور کرے تو اسی حدیث سے بدلالتہ النص یہی بات (روضہ رسول علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا) ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان تین مساجد کو دیگر مساجد و مقامات سے مستثنیٰ کرنے کی وجہ ان تین مساجد کی مخصوص فضیلت ہی تو ہے اور یہی فضیلت روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں بدرجہ اولیٰ موجود ہے۔
فَإِنَّ الْبُقْعَةَ الشَّرِيْفَةَ وَ الرُّحْبَةَ الْمُنِيْفَةَ الَّتِيْ ضَمَّ أَعْضَائَهٗ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ أَفْضَلُ مُطْلَقًا حَتّٰى مِنَ الْكَعْبَةِ وَ مِنَ الْعَرْشِ وَ الْكُرْسِيِّ کَمَا صَرَّحَ بِهِ فُقَهَائُنَا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ، وَ لَمَّا اسْتُثْنِيَ الْمَسَاجِدُ لِذٰلِكَ الْفَضْلِ الْخَاصِّ فَأَوْلٰى ثُمَّ أَوْلٰى أَنْ يُّسْتَثْنَي الْبُقْعَةُ الْمُبَارَکَةُ لِذٰلِكَ الْفَضْلِ الْعَامِّ وَ قَدْ صَرَّحَ بِالْمَسْأَلَةِ کَمَا ذَکَرْنَا بَلْ بِأَبْسَطَ مِنْهَا شَيْخُنَا الْعَلَّامَةُ شَمْسُ الْعُلَمَاءِ الْعَامِلِيْنَ مَوْلَانَا رَشِيْدْ أَحْمَدْ الْکَنْكُوْهِيُّ قَدَّسَ اللهُ سِرَّهُ الْعَزِيْزَ فِيْ رِسَالَتِهٖ "زُبْدَةُ الْمَنَاسِكِ" فِيْ فَصْلِ زِيَارَةِ الْمَدِيْنَةِ الْمُنَوَّرَةِ وَ قَدْ طُبِعَتْ مِرَارًا وَ أَيْضًا فِيْ هٰذَا الْمَبْحَثِ الشَّرِيْفِ رِسَالَةٌ لِشَيْخِ مَشَايِخِنَا مَوْلَانَا الْمُفْتِيْ صَدْرِ الدِّيْنِ الدِّهْلِوِيِّ قَدَّسَ اللهُ سِرَّهُ الْعَزِيْزَأَقَامَ فِيْهَا الطَّامَّةَ الْكُبْرٰى عَلَى الْوَهَابِيَّةِ وَ مَنْ وَّافَقَهُمْ وَ أَتٰى بِبَرَاهِيْنَ قَاطِعَةٍ وَ حُجَجٍ سَاطِعَةٍ سَمَّاهَا "أَحْسَنَ الْمَقَالِ فِيْ شَرْحِ حَدِيْثِ لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ" طُبِعَتْ وَ اشْتُهِرَتْ فَلْيُرَاجِعْ إِلَيْهَا وَ اللهُ تَعَالٰى أَعْلَمُ.
اس لیے کہ زمین کا وہ متبرک و معظم حصہ جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعضاء مبارکہ کے ساتھ لگاہوا ہے علی الاطلاق کعبہ، عرش اور کرسی سے بھی افضل ہے جیسا کہ ہمارے فقہاء کرام رضی اللہ عنہم نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے۔ تو جب یہ تین مساجد اس خاص فضیلت کی وجہ سے مستثنیٰ ہوگئیں تو روضہ مبارک بدرجہ اولیٰ اس عام فضیلت کی وجہ سے مستثنیٰ ہوگا۔ جو مسئلہ ہم نے بیان کیا ہے اس سے بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت ہمارے شیخ شمس العلماء العاملین مولانا رشید احمد گنگوہی قدس اللہ سرہ نے اپنے رسالہ ”زبدۃ المناسک“ کی فصل زیارت مدینہ منورہ میں فرمائی ہے۔ یہ رسالہ کئی بار طبع ہوچکا ہے۔ نیز اس مسئلہ پر ہمارے شیخ المشائخ مولانا مفتی صدر الدین دہلوی قدس اللہ سرہ کا ایک رسالہ بھی ہے جس میں مولانا نے وہابیہ اور ان کے موافقین پر قیامت برپا کر دی ہے۔ موصوف نے اس رسالہ میں عمدہ و بیخ کن دلائل و براہین ذکر فرمائے ہیں اور اس رسالہ کا نام ”أَحْسَنُ الْمَقَالِ فِيْ شَرْحِ حَدِيْثِ لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ“ رکھا ہے۔ یہ رسالہ چھپ کر دادِ شہرت پا چکا ہے، اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مزید اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔
----
حاشیہ:
1: پورا نام امام ابو الحسن علی بن اسماعیل الا شعری الحنبلی ہے۔ 260 ہجری میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں والد کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں ان کی والدہ کا نکاح مشہور معتزلی ابو علی جُبَّائی م303ھ سے ہو گیا۔ آپ نے فن مناظرہ اور علم الکلام ابو علی جُبَّائی کی تربیت میں رہ کر حاصل کیا لیکن نہایت سلیم الطبع اور سلیم الفطرت ہونے کی وجہ سے معتزلہ کی رکیک اور بعید از عقل تاویلات کی وجہ سے مسلک اہل السنت والجماعت کو قبول کیا اور تاحیات عقائد اہل السنت والجماعت کے اثبات اور معتزلہ کی تردید میں دلائل دیتے رہے۔ فروع میں امام احمد بن محمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ م241ھ کے مقلد تھے۔ تین سو (300) کے قریب کتب تصنیف فرمائیں۔ آپ رحمہ اللہ نے 324 ہجری میں انتقال فرمایا۔
2: پورا نام امام ابو منصور محمد بن محمد بن محمود ماتریدی الحنفی ہے۔ آپ ماوراء النہر سمر قند کے ایک گاؤں ’’ماترید‘‘ میں پیدا ہوئے۔ معتزلہ کا شدت کے ساتھ رد کرنے کی وجہ سے ابو الحسن اشعری کے بعض وہ افکار جن کا دفاع کرنا ادلہ شرعیہ کی روشنی میں مشکل تھا،کی اصلاح فرمائی اور معتزلہ کی تردید اور اہل السنۃ والجماعۃ کے افکار کی تائید میں راہِ اعتدال اختیار فرمائی۔فروع میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد تھے۔ ’’تاویلات اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کے نام سے قرآن پاک کی ایک تفسیر بھی تحریر فرمائی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد کتب تصنیف فرمائیں۔ آپ رحمہ اللہ؛ محدثِ زمانہ امام طحاوی رحمہ اللہ کے ہم عصر تھے۔ آپ نے 333 ہجری میں وفات پائی۔
3: ہم اصول و فروع میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں-امام ابوالحسن اشعری اورامام ابومنصورماتریدی کی طرف نسبت کی وجہ یہ ہے کہ ان کےدور میں فرقہ معتزلہ وغیرہ نے عقائد کی ایسی تعبیرات و تشریحات کی تھیں جو اہل السنت والجماعت کے اعتقادات کے خلاف تھیں تو ان دو حضرات نے معتزلہ وغیرہ کا رد کر کے اہل السنت والجماعت کے عقائد کی صحیح ترجمانی کی -اس لئے ہم ان کی طرف نسبت کرتے ہیں – خلاصہ یہ کہ اشعری اور ماتریدی نسبت معتزلہ ک مقابلے میں ہے نہ کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے مقابلے میں-
4: سورۃ الانعام: 112
5: احیاء العلوم للغزالی: ج2 ص1586، مسند احمد: ج2 ص 228 رقم الحدیث 1481
6: پورا نام کمال الدین محمد بن عبد الواحد بن عبدا لحمید سکندری الحنفی المعروف ابن الہمام ہے۔ آپ 788ھ میں سکندریہ میں پیدا ہوئے۔ محقق، مدقق، اصولی، محدث، مفسر، فقیہ اور منطقی تھے۔ اصول میں آپ کی کتاب التحریراور عقائد میں المسایرۃ فی العقائد المنجیۃ فی الآخرۃکے نام سے کتاب لکھی جس کی شرح آپ کے شاگرد علامہ محمد بن محمد ابن شریف المقدسی الشافعی م 905ھ نے المسامرۃ کے نام سے تحریر کی ہے۔ فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ کی بے نظیر شرح فتح القدیر کے نام سے تحریر فرمائی جس میں تعصب سے اجتناب کرتے ہوئے فقہ حنفی کو دلائل منصفانہ سے ثابت کیا ہے۔ سن861ھ میں قاہرہ میں وفات پائی۔
7: فتح القدیر شرح الھدایۃ: ج3 ص 168 کتاب الحج. مسائل منثورۃ
8: عبد الرحمٰن بن احمد بن محمد المعروف نور الدین جامی۔ شہر ”جام“ میں 817 ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نسب امام محمد سے ملتا ہے۔ آپ نے تھوڑی سی مدت میں بہت تصانیف کیں جن میں سے بعض یہ ہیں: نفحات الانس، الفوائد الضیائیۃ علی متن الکافیۃ المعروف شرح ملا جامی، شواہد النبوۃ، شرح فصوص الحکم، شرح ابیات خسرو دہلوی، مناقب مولانا روم، رسالہ در باب مناسک حج۔ 898 ہجری میں انتقال فرمایا۔
9: صحیح البخاری: ج1 ص158 ابواب التطوع. باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ، صحیح مسلم: ج1 ص447 کتاب ا لحج. باب فضل المساجد الثلاثۃ