سوال 3-4 : انبیاء علیہم السلام اور نیک ہستیوں کا وسیلہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سوال 3-4 : انبیاء علیہم السلام اور نیک ہستیوں کا وسیلہ

اَلسُّؤَالُ الثَّالِثُ وَ الرَّابِعُ:
هَلْ لِلرَّجُلِ أَنْ يَّتَوَسَّلَ فِيْ دَعْوَاتِهٖ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ بَعْدَ الْوَفَاةِ أَمْ لَا؟
أَ يَجُوْزُ التَّوَسُّلُ عِنْدَکُمْ بِالسَّلَفِ الصَّالِحِيْنَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَ الشُهَدَاءِ وَ أَوْلِيَاءِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ أَمْ لَا؟
تیسرا اور چوتھا سوال:
کیا وفات کے بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے یا نہیں؟
کیا آپ کے نزدیک گزشتہ نیک صالح ہستیوں یعنی حضرات انبیاء کرام علیہم السلام، صدیقین،شہداء اور اولیاء اللہ کا وسیلہ بھی جائز ہے یا نہیں؟
الجواب:
عِنْدَنَا وَعِنْدَ مَشَايِخِنَا يَجُوْزُ التَوَسُّلُ فِي الدَّعْوَاتِ بِالْأَنْبِيَاءِ وَ الصَّالِحِيْنَ مِنَ الْأَوْلِيَاءِ وَ الشُّهَدَاءِ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ فِيْ حَيَاتِهِمْ وَ بَعْدَ وَفَاتِهِمْ بِأَنْ یَقُوْلَ فِيْ دُعَائِهٖ: "اَللّهُمَّ إِنِّي أَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِفُلَانٍ أَنْ تُجِيْبَ دَعْوَتِيْ وَ تَقْضِيَ حَاجَتِيْ " إِلٰى غَيْرِ ذٰلِكَ، کَمَا صَرَّحَ بِهٖ شَيْخُنَا وَ مَوْلَانَا الشَّاهْ مُحَمَّدْ إِسْحَاقْ الدِّهْلَوِيُّ ثُمَّ الْمُهَاجِرُ الْمَكِّيُّ، ثُمَّ بَيَّنَهُ فِيْ فَتَاوَاهُ شَيْخُنَا وَ مَوْلَانَا رَشِيْدْ أَحْمَدْ الْكَنْكُوْهِيُّ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِمَا وَ هِيَ فِيْ هٰذَا الزَّمَانِ شَائِعَةٌ مُسْتَفِيْضَةٌ بِأَيْدِي النَّاسِ وَ هٰذِهِ الْمَسْأَلَةُ مَذْکُوْرَةٌ عَلٰى صَفْحَةِ 93 مِنَ الْمُجَلَّدِ الْأَوَّلِ مِنْهَا فَلْيُرَاجِعْ إِلَيْهَا مَنْ شَآءَ .
جواب:
ہمارے اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام، صلحاء، اولیاء، شہداء اورصدیقین رحمھم اللہ کا توسل ان کی حیات میں اور وفات کے بعد دونوں صورتوں میں جائز ہے۔ مثلاً دعا کرنے والا یوں کہے: ”اے اللہ! فلاں بزرگ کے وسیلے سے میری دعا کو قبول فرما اور میری حاجت وضرورت کو پورا فرما!“دعا کرنے والا اس جیسے اور کلمات بھی کہہ سکتا ہے۔ چنانچہ اس کی صراحت ہمارے شیخ مولانا شاہ محمد اسحٰق دہلوی ثم المہاجر المکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے۔ پھر اسی مسئلہ کو ہمارے شیخ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاویٰ میں بیان فرمایا ہے جو کہ چھپا ہوا ہے اور عوام کے ہاں معروف ہے۔ یہ مسئلہ اس کی پہلی جلد کے صفحہ 93 پر موجود ہے۔ جو اس کا مطالعہ کرنا چاہے تو اسے دیکھ لے۔