عقیدہ نبوت: حقیقت نبوت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حقیقت نبوت:
"نبی" سیسے انسان کو کہتے ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث ہو معصوم عن الخطاء اور اس کی اتباع اور پیروی فرض ہو ، یعنی وہ انسان اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث ہو ، صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہو اور اس کی تابعداری کرنا فرض ہے ، ان صفات کو انبیاء کے علاوہ کسی انسان کے لیے ثابت کرنا اگرچہ اس کے لیے نبی کا لفظ استعمال نہ کیا جائے ، کفر ہے ۔
نوٹ:
نبی ہمیشہ مرد ہوتا ہے عورت نبی نہیں بن سکتی اور جنات کے لیے بھی انسان ہی نبی ہوتا ہے ، نبوت وہبی چیز ہوتی ہے جو اللہ تعالی کے عطاء کرنے سے عطا ہوتی ہے ، اپنی محنت سے عبادت کر کے کوئی شخص نہ نبی بن سکتا ہے اور نہ ہی نبی کے مرتبہ اور مقام کو پہنچ سکتا ہے ۔
صداقت نبوت:
حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد ﷺ تک جتنے نبی اور سول آئے سارے برحق ہیں اور سچے ہیں ۔
دوام نبوت:
انبیاء کرام علیہم السلام وفات کے بعد بھی اپنی مبارک قبروں میں اسی طرح حقیقتا نبی اور رسول ہیں جس طرح وفات سے پہلے ظاہری حیاۃ مبارکہ میں نبی او ررسول تھے البتہ اب باقی تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعت منسوخ ہو چکی ہے اور قیامت تک کے لیے نجات کا مدار آنحضرت ﷺ کی شریعت پر ہے ۔
ختم نبوت:
آنحضرت ﷺ اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں آپ ﷺ کے بعد عاکٓلم دنیا میں کسی بھی قسم کی جدید نبوت کے جاری رہنے کا عقیدہ رکھنا کفر ہے ۔
عظمت انبیاء علیہم السلام :
کائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے اعلی مرتبہ اور مقام حضرات انبیاء کا ہے اور انبیاء میں سے بعض بعض سے افضل ہیں اور حضور اکرم ﷺ تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور اعلی اور تمام انبیاء علیہم السلام کے سردار ہیں ۔
توہین رسالت:
انبیاء علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کی شان میں کسی بھی طرح کی گستاخی و بے ادبی کرنا یا گستاخی اور بے ادبی کا جائز سمجھنا کفر ہے ، مثلا ً آپ ﷺ کے لیے صرف اتنی سی فضیلت کا قائل ہونا جتنی بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر ہے ، کفر اور بے دینی ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کی نیند :
نیند کی حالت میں انبیاء علیہم السلام کی آنکھیں تو سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا اس لیے ان مبارک ہستیوں کا خواب بھی وحی کے حکم میں ہے اور نیند کے باوجود انبیاء علیہم السلام کا وضو باقی رہتا ہے ۔
حیات انبیاء علیہم السلام :
تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنی مبارک قبروں میں اپنے دنیاوی جسموں کے ساتھ بتعلق روح بغیر مکلف ہونے اور بغیر لوازم دنیا کے زندہ ہیں اور مختلف جہتوں کے اعتبار سے اس حیات کے مختلف نام ہیں جیسے حیات دنیوی، حیوت جسمانی، حیات حسی ، حیات برزخی ، حیات روحانی۔
ذکر رسول ﷺ :
وہ تمام حالات و واقعات جن کا آنحضرت ﷺ سے ذرا بھی تعلق ہے ان کا ذکر کرنا نہایت پسندیدہ اور مستحب ہے ۔
فضیلت و زیارت روضہ اطہر :
زمین کا وہ حصہ جو آنحضرت ﷺ کے جسم مبارک کے ساتھ ملا ہوا ہے کائنات کے سب مقامت حتی کہ کعبہ ، عرش اور کرسی سے بھی افضل ہے ۔
فائدہ:
روضہ اطہر کی زیارت کے وقت آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا روضہ رسول ﷺ کے آداب میں سے ہے اور اسی حالت میں دعا مانگنا بہتر اور مستحب ہے ۔
سفر مدینہ منورہ:
سفر مندینہ منورہ کے وقت روضہ مبارک مسجد نبوی اور مقامات مقدسی کی زیارت کی نیت کرنا افضل اور باعث اجرو ثواب ہے البتہ خالص روضہ پاک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں آپ ﷺ کی تعظیم زیادہ ہے ۔
صلوۃ و سلام :
آنحضرت ﷺپر صلوۃ و سلام پڑھنا آپ ﷺ کا حق اور نہایت اجر و ثواب کا باعث ہے کثرت کے ساتھ صلوۃ و سلام پڑھنا حضور ﷺ کے قرب اور شفاعت کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور افضل درود شریف وہ ہے جس کے لفظ بھی آپ ﷺ سے منقول ہوں ، سب سے افضل درود ، دورد ابراہیمی ہے ۔
فائدہ:
زندگی میں ایک مرتبہ صلوۃ و سلام پڑھنا فرض ہے اور جب مجلس میں آپ ﷺ کا ذکر مبارک آئے تو ایک دفعہ صلوۃ و سلام پڑھنا واجب ہے اور ہر ہر بار پڑھنا مستحب ہے ۔
عرض اعمال :
حضور ﷺ پر روضہ مبارک میں امت کے اچھے اور برے اعمال اجمالی طور پر پیش ہوتے ہیں ۔
مسئلہ استشفاع:
آنحضرت ﷺ کی قبر کے پاس حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کرنا اور یہ کہنا کہ حضرت ! آپ میری مغفرت کی سفارش فرمائیں جائز ہے ۔
حقیقت معجزہ:
معجزہ چونکہ اللہ تعالی کا فعل ہے جو نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے اور اس میں نبی کے اختیار کو دخل نہیں ہوتا اس لیے معجزے کو شرک کہہ کر معجزے کا انکار کرنا یا معجزے سے دھوکہ کھا کر انبیاء علیہم السلام کے لیے مختار کل اور قادر مطلق ہونے کا عقیدہ رکھنا دونوں غلط ہیں ۔
معجزات انبیاء علیہم السلام :
انبیاء علیہم السلام کے معجزات ( مثلا موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن جانا ، حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا اور آنحضرت ﷺ کا حالت نماز میں پشت کی جانب سے سامنے کی طرف دیکھنا وغیرہ) برحق ہیں ۔
عظمت علوم نبوت:
ہر نبی اپنے زمانے میں شریعت مطہرہ کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے ، اور ہر نبی کو لوازم نبوت علوم سارے کے سارے عطا ہوتے ہیں اور حضور ﷺ چونکہ اولین و آخرین کے نبی ہیں اس لیے حضور اکرم ﷺ کو اولین و آخرین کے اور تمام مخلوقات سے زیادہ علوم عطا کیے گئے ۔
توہین علم نبوت:
اس بات کا قائل ہونا کہ فلاں شخص کا علم حضور ﷺ کے علم سے زیادہ ہے، یا علوم نبوت یعنی علم دین کو باقی علوم و فنون کے مقابلے میں گھٹیا سمجھنا ، یا علمائے دین کی بوجہ علم دین تحقیر کرنا کفر ہے ۔
ملائکہ :
اللہ تعالی نے ان کو نور سے پیدا فرمایا یہ ہماری نظروں سے غائب ہیں نہ مرد اور نہ ہی عورت ہیں جن کاموں پر اللہ نے ان کو مقرر کیا ہے ان کو سرانجام دیتے رہتے ہیں اور اس میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے ان کی تعداد اللہ تعالی کو ہی معلوم ہے البتہ ان میں حضرت جبرائیل ، میکائیل ، اسرافیل ، اور عزائیل علیہم السلام مقرب اور مشہور ہیں ۔
فائدہ:
رسل بشر ، رسل ملائکہ سے افضل ہیں اور رسل ملائکہ باقی تمام فرشتوں اور انسانوں سے افضل ہیں اور عام فرشتے عام انسانوں سے افضل ہیں ۔
کتب سماویہ :
جس زمانے میں جس نبی پر جو کتاب اللہ تعالی نے نازل فرمائی ہے وہ برحق اور سچی تھی ، جیسے حضرت موسی علیہ السلام پر توارات ، حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور ، حضرت عیسی علیہ السلام پر انجیل ، اور آنحضرت ﷺ پر قرآن مجید نازل فرمایا ۔ البتہ باقی کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں اور اب قیامت تک کے لیے کتب سماویہ میں سے واجب الاتباع اور نجات کا مدار صرف قرآن کریم ہی ہے۔
صداقت قرآن:
سورۃ فاتحہ سے لیکر "والناس " تک قرآن کریم کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے اس میں ایک بھی لفظ بلکہ حرف کے انکار یا تحریف کا عقیدہ رکھنا کفر ہے ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین :
صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس کو حالت ایمان میں نبی ﷺ کی صحبت حاصل ہوئی ہو اور اسی حالت پر اس کا خاتمہ ہوا ہو صحابہ کرام نعیار حق و صداقت ہیں یعنی وہی عقائد اور اعمال مقبول ہوں گے جو صحابہ کے عقائد و اعمال کے مطابق ہوں گے صحابہ کرام ہر قسم کی تنقید سے بالاتر ہیں قبر اور آخرت کے ہر قسم کے عذاب سے محفوظ ہیں وہ معصوم نہیں البتہ محفوظ ضرور ہیں یعنی ان کی ہر قسم کی خطاء بخش دی گئی ہے اور وہ یقینی طور پر جنتی ہیں انبیاء معصوم عن الخطاء ہیں اور صحابہ محفوظ عن الخطاء ہیں معصوم عن الخطاء کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے نبی سے گناہ ہونے نہیں دیتا اور محفوظ عن الخطاء کا مطلب یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالی ان کے نامہ اعمال میں گناہ باقی رہنے نہیں دیتے ۔
حب صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین:
صحابہ کرام اور اہلبیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ محبت ،رسول اللہ ﷺکے ساتھ محبت کی علامت ہے اور صحابہ کرام اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین دونوں سے بغض یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ محبت اور دوسرے کے ساتھ بغض ، رسول اللہ ﷺ سے بغض کی علامت اور گمراہی ہے ۔
معیارحق و صداقت:
پوری امت کے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعینمعیار حق و صداقت ہیں ، یعنی جو عقائد اور مسائل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عقائد اور مسائل کے مطابق ہوں وہ حق ہیں اور جو ان کے مطابق نہ ہوں وہ باطل اور گمراہی ہیں۔
عفت امہات المؤمنین:
حضور ﷺ کے اہل بیت ، جن کا اولین مصداق امہات المؤمنین ہیں ، کو پاکدامن اور صاحب ایمان ماننا ضروری ہے ۔
مقام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین:
انبیاء کے بعد انسانوں میں سب سے اعلی ترین درجہ بترتیب ذیل :
1: خلفائے راشدین علی الترتیب الخلافہ 2: عشرہ مبشرہ 3: اصحاب بدر
4: اصحاب بیعت رضوان 5: شرکاء فتح مکہ
6: وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے اور قرآن کریم میں اہل اسلام کی جس قدر صفات کمال کا ذکر آیا ہے ان کا اولین اور اعلی ترین مصداق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں ۔
خلافت راشدہ موعودہ:
حضور ﷺ کے بعد اس امت کے خلیفہ اول بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں دوسرے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں تیسرے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں چوتھے حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ان چاروں کو خلفائے راشدین اور ان کے زمانہ خلافت کو خلافت راشدہ کا دور کہتے ہیں ۔ آیت استخلاف میں جس خلافت کا وعدہ ہے وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے شروع ہو کر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ پر ختم ہو گئی لہذا دور خلافت راشدہ سے مراد خلفائے اربعہ (چاروں خلفاء رضوان اللہ علیہم اجمعین)کا دور ہے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت ، خلافت عادلہ ہے ۔
مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین:
مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب تھا اور ان کے مخالف خطاء پر تھے لیکن یہ خطاء ، خطاء عنادی نہ تھی بلکہ خطاء اجتہادی تھی اور خطاء اجتہادی پر طعن اور ملامت جائز نہیں بلکہ سکوت واجب ہے اور اس پر ایک اجر کا حدیث پاک میں وعدہ ہے ۔
حق حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ :
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے باہمی اختلاف میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور یزید کی حکومت نہ خلافت راشدہ تھی اور نہ خلافت عادلہ اور یزید کے اپنے عملی فسق سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بری ہیں ۔
اولیاء اللہ :
ولی اللہ : اس شخص کو کہتے ہیں وہ گناہوں سے بچے ، ولی کی بنیادی پہچان اتباع سنت ہے جو جنتا متبع سنت ہو گا اتنا بڑا ولی اللہ ہو گا ولی سے کرامت اور کشف کا ظہور برحق ہے ۔
ولایت:
کسبی چیز ہے ، کوئی بھی انسان عبادت کر کے اللہ تعالی کا ولی بن سکتا ہے اور ولایت کا مدار کشف و الہام پر نہیں بلکہ تقویٰ اور اتباع سنت پر ہے۔
کرامات اولیاء :
اولیاء اللہ کی کرامات برحق ہیں اور کرامت چونکہ اللہ تعالی کا فعل ہے جو ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے ، اور اس میں ولی کے اپنے اختیار کو دخل نہیں ہوتا ، اس لیے کرامت کو شرک کہہ کر اس کا انکار کرنا یا کرامت سے دھوکہ کھا کر اولیاء اللہ کے اختیارات کا عقیدہ رکھنا دونوں غلط ہیں ۔ غیر متقی سے خرق عادت کام کا صدور استدراج ہے نہ کہ کرامت ، کرمات اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے استدراج شیطان کی طرف سے ۔
تصوف :
روحانی بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کا نام تصوف ہے جس کو قرآن کریم میں "تزکیہ نفس" اور حدیث میں لفظ"احسان" سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
بیعت:
عقائد و اعمال کی اصلاح فرض ہے جس کے لیے صحیح العقیدہ سنت کا پابند دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے طالب ، مُجاز بیعت ، شیخ طریقت سے بیعت ہونا مستحب ہے بلکہ واجب کے قریب ہے ۔
وسیلہ جائز ہے :
دعا میں انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ کا وسیلہ ان کی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد (مثلاًیوں کہنا کہ ائے اللہ !فلاں نبی یا فلاں بزرگ کے وسیلے سے میری دعا قبول فرما ) جائز ہے کیونکہ ذوات صالحہ کے ساتھ توسل درحقیقت ان کے نیک اعما ل کے ساتھ وسیلہ ہے اور اعمال صالحہ کے ساتھ وسیلہ بالاتفاق جائز ہے ۔
جنات:
اللہ تعالی نے ایک مخلوق کو آگ سے پیدا کیا جن کو "جنات " کہتے ہیں ۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی اور جنات بھی انسانوں کی طرح احکام شریعت کے مکلف ہیں اور مرنے کے بعد انسانوں کی طرح ان کو بھی عذاب و ثواب ہو گا اور جنات میں کوئی نبی نہیں ہے ۔ ان میں س سے زیادہ مشہور ابلیس لعین ہے یہ فرشتے اور جنات اگرچہ ہمیں نظر نہیں آتے مگر ہم ان کے وجود کو ایمان بالغیب کے طور پر مانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور آپ ﷺ نے اپنی احادیث میں ان کا ذکر فرمایا ہے ۔
اجتہاد تقلید :
اکمال دین کی عملی صورت مجتہد کے اجتہاد پر عمل یعنی تقلید ہے پس مطلق اجتہاد اور مطلق تقلید ضروریات دین میں سے ہے جس کا انکار کفر ہے البتہ متعین چار ائمہ ( امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ )کی فقہ اور تقلید کا انکار کرنا گمراہی ہے ۔
چونکہ حق اہل السنت والجماعت کے مذاہب اربعہ (حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ) میں بند ہے اس لیے نفس پرستی اور خواہش پرستی کے اس زمانے میں چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے ۔
نوٹ:
ہم اور ہمارے سارے مشائخ تمام اصول و فروع میں امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہیں ۔
اعتقادی و اجتہادی اختلاف:
اعتقادی اختلاف امت کے لیے زحمت ہے جب کہ مجتہدین کا اجتہادی اختلاف امت کےلیے رحمت ہے اور مقلدین و مجتہدین دونوں کےلیے باعث اجروثواب ہے مگر درست اجتہاد پر دو اجر ہیں اور غلط اجتہاد پر ایک اجر ہے بشرطیکہ اجتہاد کنندہ میں اجتہاد کرنے کی اہلیت ہو ۔
اصول اربعہ:
دین اسلام کے اعمال و احکام اور جامعیت کےلیے اصول اربعہ یعنی چار اصول (1) کتاب اللہ (2) سنت رسول اللہ ﷺ(3)اجماع امت (4) قیاس شرعی کا ماننا ضروری ہے اور ان اصول اربعہ سے ثابت شدہ مسائل کا نام فقہ ہے ، جس کا انکار حدیث کے انکار کی طرح دین میں تحریف کا بہت بڑا سبب ہے ۔
جہاد فی سبیل اللہ :
دین اسلام کی سربلندی کےلیے دشمنان اسلام سے مسلح جنگ کرنا اور اس میں خوب جان و مال خرچ کرنا "جہاد فی سبیل اللہ" کہلاتا ہے ۔ دین اسلام کی سربلندی ، دین کا تحفظ ، دین کا نفاذ ، دین کی بقا ، مسلمانوں کی عزت و عظمت ، شان و شوکت اور جان و مال کا واحد ذریعہ " جہاد فی سبیل اللہ" ہے ۔
اللہ تعالی قرآن کریم کی سورۃ توبہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ
(التوبہ: 111)
ترجمہ:
بے شک اللہ نے ایمان والوں کی جان اور مال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے وہ لڑتے ہیں اللہ کے راستے میں (مجرموں کو) قتل کرتے ہیں اور قتل ہو جاتے ہیں ۔
اللہ تعالی قرآن کریم کی سورت صف میں فرماتے ہیں :
اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۝۴
(سورۃ صف :4)
ترجمہ :
بے شک اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ کے راستے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر لڑتے ہیں ۔
حضور ﷺ کا ارشاد ہے :
"من قاتل فی سبیل اللہ فواق ناقۃ وجبت لہ الجنۃ "
ترجمہ:
جو شخص تھوڑی دیر کے لیے اللہ کے راستے میں قتال کرتا ہے جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے ۔حضور ﷺ نے 27 مرتبہ خود جہاد کا سفر کیا اور اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے شہید ہونے کی تمنا فرمائی ۔
جہاد کی اقسام:
جہاد کی دو قسمیں ہیں
1: اقدامی جہاد 2: دفاعی جہاد
اقدامی جہاد :
کافروں کے ملک میں جا کر کافروں سے لڑنا اقدامی جہاد کہلاتا ہے اقدامی جہاد میں سب سے پہلے کافروں کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو ان سے جزئیہ طلب کیا جاتا ہے اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کر دیں تو پھر ان سے قتال کیا جاتا ہے عام حالات میں جہاد اقدامی فرض کفایہ ہے اور اگر امیر المؤمنین نفیر عام ( یعنی سب کو نکلنے ) کا حکم دے تو اقدامی جہاد بھی فرض عین ہو جاتا ہے ۔
دفاعی جہاد :
اگر کافر مسلمانوں کے ملک پر حملہ کردیں تو ان مسلمانوں کا کافروں کے حملے کو روکنا جہاد کہلاتا ہے اگر وہ مسلمان ان کے روکنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور اگر طاقت رکھتے ہوں مگر سستی کرتے ہوں تو ہمسایہ ملک کے مسلمان ان کے حملے کو روکیں ۔
جہاد دفاعی فرض عین ہے :
جہاد کرنے سے پہلے جہاد کی تربیت کرنا بھی ضروری ہے جہاد کی تربیت کرنا حضور اکرم ﷺ کی سنت ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سورۃ انفال میں ارشاد فرمایا ہے :
وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ
(الانفال :60)
ترجمہ:
اور کافروں کے ساتھ لڑنے کےلیے جتنہ قوت حاصل کر سکتے ہو ، کرو ۔
اللہ تعالی ہم سب کو جہاد کی توفیق عطاء فرمائے اور لڑتے ہوئے میدان جہاد میں شہادت کی موت عطاء فرمائے ۔ (آمین)
موت اور موت کے بعد عقیدہ:
جب انسان مر جاتا ہے تو اس کو جس جگہ دفن کیا جاتا ہے اس کو "قبر" کہتے ہیں اور اگر کوئی مردہ جل کر راکھ ہو جائے یا کوئی انسان پانی میں غرق ہو جائے یا کسی انسان کو کوئی جانور کھا جائے تو جہاں جہاں اس کے ذرے ہوں گے ان کے ساتھ روح کا تعلق قائم کر کے اسی جگہ کو انسان کے لیے قبر بنا دیا جاتا ہے مردے سے قبر میں سوالات کےلیے دو فرشتے " منکر" اور "نکیر" آتے ہیں وہ تین سوال کرتے ہیں :
1:
من ربک ؟
تیرا رب کون ہے ؟
2:
من نبیک ؟
تیرا نبی کون ہے ؟
3:
ما دینک ؟
تیرا دین کیا ہے ؟
جو انسان ان تین سوالات کے جوابات دیتا ہے اس کو قبر میں سکون و آرام ملتا ہے اس کے لیے جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے اس کی قبر کو جنت کا باغ بنا دیا جات اہے اور جو ان تین سوالوں کے جواب نہیں دیتا اس کی قبر کو اس کے لیے تنگ کر دیا جاتا ہے اور قبر کو جہنم کا گڑھا بنا دیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے "قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔"