مقامِ صحابیت حصہ دوم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مقامِ صحابیت )حصہ دوم(
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے یاروں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو مقام و مرتبہ دیا ہے اس بارے ہمیں کیا نظریات رکھنے چاہییں؟ چند ایک کا گزشتہ قسط میں تذکرہ ہو چکا اب مزید چند نظریات کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔
6: صحابہ کرام امت کا افضل ترین طبقہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا طبقہ امت کا سب سے بہترین اور افضل ترین طبقہ ہے۔ ان جیسے باکمال اور بے مثال لوگ نہ ان سے پہلے کبھی پیدا ہوئے نہ ہی ان کے بعد قیامت تک پیدا ہوں گے۔ ان کے فضل و کمال کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلا جائے۔
قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ: مَنْ كَانَ مُسْتَنًّا فَلْيَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ فَإِنَّ الْحَيَّ لَا تُؤْمَنُ عَلَيْهِ الْفِتْنَةُ أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوْا أَفْضَلُ هٰذِهِ الْأُمَّةِ أَبَرَّهَا قُلُوبًا وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًاقَوْمٌ اخْتَارَهُمُ اللهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِإِقَامَةِ دِينِهِ فَاعْرِفُوا لَهُمْ فَضْلَهُمْ وَاتَّبِعُوهُمْ عَلٰى آثَارِهِمْ وَتَمَسَّكُوا بِمَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ أَخْلَاقِهِمْ وَسِيَرِهِمْ فَإِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ.
تفسیر البغوی، تحت سورۃ یوسف ، رقم الآیۃ:110
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے )انہوں نے تابعین کرام رحمہم اللہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ تم میں سے ( ہر وہ شخص جو کسی کے طریقے کو اپنانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان لوگوں کے طریقے کو اپنائے جو دنیا سے جا چکے ہوں)یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین( کیونکہ جو لوگ زندہ ہیں) یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد والے لوگ( ان کے بارے میں قطعی وثوق کےساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ آزمائش وابتلاء کا شکار نہیں ہوں گے۔
ہاں !جو لوگ یہ دنیا چھوڑ کر جا چکے ہیں وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جو اس امت کے افضل ترین لوگ ہیں، ان کے دل نیکیوں )ہرطرح کی خیر وبرکت( سے مالا مال ہیں،)دین کےمبارک ( علم کی گہرائیوں میں اتر کر امت کی رہنمائی کرنے والے ہیں، تکلفات کے بجائے سادگی کے خوگر ہیں۔
ایسی عظیم قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیت اور دین اسلام کی اقامت )اشاعت،حفاظت اور غلبہ ) کےلیے از خود منتخب کیا ہے۔ اس لیے ان کی قدر اور فضیلت کوخوب اچھی طرح پہچانو! ان کے نقش قدم پر چلو!اور ان جیسے اخلاق و کردار اپنانے کی پوری کوشش کرو! یقیناً وہ لوگ سیدھے)جنت جانے والے (راستے پر گامزن تھے۔
صحابہ کرام سے برابری ناممکن ہے:
ثُمَّ قَالَ:لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ۔
سنن ابی داؤد، رقم الحدیث :4650
ترجمہ: حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قسم بخدا!صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جو صحابی رضی اللہ عنہ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی غزوہ میں شریک ہوئے جہاں کی گرد وغبار ان کے کپڑوں اور جسم پر پڑی ہو ، اس صحابی رضی اللہ عنہ کا یہ عمل تمہارے )یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ لوگ مراد ہیں ( زندگی بھر کے تمام اعمالِ حسنہ سے بہتر ہےاگرچہ تم میں سے کسی کو عمرِ نوح )1000 سال(بھی دے دی گئی ہو )اور وہ ایک ہزار سال تک نیک اعمال کرتا رہے تب بھی صحابی رضی اللہ عنہ کے برابر اجر و ثواب حاصل نہیں کر سکتا (
وجہ فضیلت شرفِ صحابیت ہے:
امام فخر الدین محمد بن عمر الرازی رحمہ اللہ)م: 606ھ( فرماتے ہیں:
وَإِنَّمَا كَانَ السَّبْقُ مُوجِبًا لِلْفَضِيلَةِ لِأَنَّ إِقْدَامَهُمْ عَلَى هَذِهِ الْأَفْعَالِ يُوجِبُ اقْتِدَاءَ غَيْرِهِمْ بِهِمْ
تفسیر مفاتیح الغیب المعروف بہ تفسیرالرازی، سورۃ الانفال، تحت آیات 72 تا 75
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا )شرف صحابیت پاکر( پوری امت میں سے سب سے پہلے تمام افعال خیر کرنا ان کی فضیلت کو ثابت کرتا ہے اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اولین طور پر عمل کرنے والے تھے اوران کے بعد میں آنے والے لوگ انہی کی اقتداء اور پیروی ہی میں وہ نیک کام کریں گے۔ )بعد میں آنے والے لوگوں میں سے جو بھی عمل خیر کرے گا تو اس کا ثواب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ضرور ملے گا جنہوں نے اوّلاً وہ کام کیےتھے(
امام محی الدین یحیی بن شرف النووی رحمہ اللہ )م: 676ھ( فرماتے ہیں :
وَأَنَّ مَنْ صَحِبَ النَّبِيّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَآهُ مَرَّةً مِنْ عُمُرِهٖ وَحَصَلَتْ لَهُ مَزِيَّةُ الصُّحْبَةِ أَفْضَلُ مِنْ كُلِّ مَنْ يَّأْتِي بَعْده فَإِنَّ فَضِيلَةَ الصُّحْبَةِ لَا يَعْدِلهَا عَمَلٌ۔قَالُوا: وَذَلِكَ فَضْل اللَّه يُؤْتِيه مَنْ يَشَاء ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنْفَقَ أَحَدكُمْ مِثْل أُحُد ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدهمْ وَلَا نَصِيفه۔
شرح النووی علی صحیح مسلم، باب استحباب اطالۃ الغرۃ والتعجیل فی الوضوء
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں ایک مرتبہ )ایمان کی حالت میں (حاضری کی سعادت پائی ہو اور شرفِ صحابیت نصیب ہوا ہو وہ بعد میں آنے والے پوری امت کے افراد سے افضل ہیں اس لیے کہ ) بعد میں آنے والے لوگوں کا(کوئی بھی نیک عمل ان کے شرفِ صحابیت کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے عطا کرتا ہے (یعنی مقامِ صحابیت وہبی ہے،کسبی نہیں(اور دلیل کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ )صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد میں آنے والے( لوگوں میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کی مقدار کے برابر سونا )بھی( اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو اس کو وہ ثواب نہیں مل سکتا جو میرے کسی صحابی کو تین پاؤ جَو کی مقدار یا اس کی بھی آدھی مقدار خرچ کرنے پر اللہ تعالیٰ عطا فرماتے ہیں۔
معاویہ بن ابوسفیان افضل ہیں:
حضرت امام ربانی شیخ احمد سرہندی بن شیخ عبدالاحد فاروقی المعروف مجدد الف ثانی رحمہ اللہ )م: 1034ھ (فرماتے ہیں:
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ گرد وغبار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں پڑی ہے وہ خاک بھی حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے کئی گنا بہتر اور افضل ہے۔ تو پھر سوچنا چاہئے کہ جس گروہ کی ابتداء میں اوروں کی انتہا درج ہو اس گروہ کی انتہا کہاں تک ہوگی۔
مکتوباتِ امامِ ربانی، مکتوب نمبر58 ، ج1ص235
7:صحابہ کرام معیارِ حق ہیں :
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معیارِ حق ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس شخص کا ایمان اور عمل قبول ہوتا ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ایمان اور عمل کے عین مطابق ہو ۔ اور اگر کسی کا ایمان اور عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ایمان و عمل کے مطابق نہیں ہوگا تو وہ اللہ کے ہاں قبول بھی نہیں ہو گا۔ نہ تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ”مومن“ کہلائے جانے کا مستحق ہے اور نہ ”نیک“ کہلائے جانے کا مستحق ۔
ایمان میں معیار حق:
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کو معیار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ
سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:137
ترجمہ: اگر باقی لوگ بھی ایسے ایمان لائیں جیسے تم )صحابہ (ایمان لائے ہو(یعنی جتنی باتیں تمہارے ایمانیات میں شامل ہیں وہ بھی ان تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں( تو پھر وہ کامیاب ہوں گے یعنی ان کا ایمان قبول ہوگا ۔)وگرنہ ایمان قبول نہیں ہوگا (
اعمال میں معیارِ حق:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلٰى بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ تَفَرَّقَتْ عَلٰى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً۔ قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث:2641
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت پر وہ حالات آئیں گے جو حالات بنی اسرائیل کو پیش آئے تھے ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ میری امت بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دے گی حتی کہ ان بنی اسرائیلیوں میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میرا امتی بھی ویسے ہی کرے گا یعنی یہ بھی اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ طور پر منہ کالا کرے گا ۔
بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئی جبکہ میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ان میں سے ایک )نجات پانے والے فرقہ( کے سوا سب جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم ۔ وہ ایک خوش نصیب فرقہ کون سا ہوگا جو جہنم سے بچ جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو صحابہ سے سمجھ کر میرے دین پر عمل کرے گا ۔
سنتِ صحابہ کی اقتداء :
امام ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ )م: 241ھ(فرماتے ہیں:
أُصُولُ السُّنَّةِ عِنْدَنَا: اَلتَّمَسُّكُ بِمَا كَانَ عَلَيْهِ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالِاقْتِدَاءُ بِهِم۔
شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ لھبۃ اللہ الرازی)م:418ھ(،رقم الحدیث :317
ترجمہ: ہم )اھل السنۃ والجماعۃ(کے ہاں سنت کا اصول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے طریقوں کو تھامنا اور اپنانا ہے ۔
امام ابراہیم بن موسیٰ المالکی الشاطبی رحمہ اللہ )م:790ھ( فرماتے ہیں :
سُنَّۃُ الصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ سُنَّۃٌ یُعْمَلُ عَلَیْھَا وَیُرْجَعُ اِلَیْھَا۔
الموافقات للشاطبی، الدلیل الثانی ، السنۃ تحت المسالۃ التاسعۃ
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہی وہ طریقہ ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے اور اسے مرجع و مآخذ کی حیثیت حاصل ہے۔
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے ساتھ ساتھ دین کی سمجھ اور اعمال میں معیار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں جو شخص ان کے نقش قدم پر چلے گا اسی کا عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نا صرف یہ کہ خود ہدایت یافتہ ہیں بلکہ ایسے ہدایت یافتہ ہیں کہ قیامت کی صبح تک انہی کے نقش قدم پر چلنے میں ہدایت رکھ دی گئی ہے۔ نا صرف یہ کہ خود کامیاب و کامران ہیں بلکہ کامیابی و کامرانی انہی کے نقش قدم پر چلنے میں رکھ دی گئی ہے ۔
8:صحابہ کرام سب کے سب جنتی ہیں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب جنتی ہیں۔ ایک لمحےکےلیے بھی جہنم میں نہیں جائیں گے۔ ان تک جہنم کی آگ تو کجا دھواں بھی نہیں پہنچ سکتا، قیامت والے دن سیدھے جنت میں جائیں گے ۔
وَمَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلِلہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَا یَسۡتَوِیۡ مِنۡکُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَ قٰتَلَ اُولٰٓئِکَ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَ قٰتَلُوۡاوَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الۡحُسۡنٰیؕ وَاللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿٪۱۰﴾
سورۃ الحدید، رقم الآیۃ:10
ترجمہ: اور تمہارے لیے آخر کون سی معقول وجہ ہے کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمینوں کا اخیر میں وہی اکیلا وارث رہ جائے گا ۔ تم میں سے جنہوں نے مکہ مکرمہ کی فتح سے پہلے اللہ کے راہ میں مال خرچ کیا اور قتال فی سبیل اللہ کیا وہ بعد والوں کے برابر نہیں ہو سکتےکیونکہ وہ درجات اور مراتب میں ان سے بڑھے ہوئے ہیں جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے اور قتال فی سبیل اللہ کیا۔ ) لیکن فرق مراتب کے باوجود( اللہ تعالیٰ نے بہترین ثواب (جنت( کا وعدہ سب سے فرما رکھا ہے اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ کی ذات اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔
امام فخر الدین محمد بن عمر الرازی رحمہ اللہ)م: 606ھ( فرماتے ہیں:
أَيْ وَكُلَّ وَاحِدٍ مِّنَ الْفَرِيْقَيْنِ﴿وَعَدَ اللہُ الۡحُسۡنٰی﴾أَيِ الْمَثُوبَةَ الْحُسْنٰى وَهِيَ الْجَنَّةُ مَعَ تَفَاوُتِ الدَّرَجَاتِ
تفسیر مفاتیح الغیب المعروف بہ تفسیرالرازی، سورۃ الحدید ، رقم الآیۃ: 10
ترجمہ: قرآن کریم کی آیت میں لفظ
﴿کُلًّا﴾
ہےجس کا معنی یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خواہ وہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے ہوں یا فتح مکہ کے بعد ایمان لانے ہوں دونوں ہی مراد ہیں دونوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہترین ثواب یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ فرقِ مراتب کے اعتبار سے ان کے درجات مختلف ہوں گے۔
صحابہ کرام جہنم نہیں جائیں گے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث:3858
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: جہنم کی آگ )شرفِ صحابیت پانے والے( مسلمان کو نہیں چھو سکتی اور ان کو بھی جنہوں نے ان صحابہ کی ) مکمل اتباع والی( زیارت کی ہو ۔
9: صحابہ کرام کا اجماع معصوم ہے:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اگرچہ فردا فردا گناہوں سےمحفوظ ہیں لیکن جب کسی بات پر متفق ہو جائیں یعنی ان کا اجماع ہو جائے تو وہ اجماع ؛ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی طرح معصوم ہوتا ہے۔ان کی مثال چاند ستاروں جیسی ہیں یعنی جب تک ستارے اپنی اپنی جگہ پر ہوں تو چمک دار ہوتے ہیں لیکن جب سب ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں تو چاند کی طرح روشن ہو جاتے ہیں ۔
سب سے قوی ترین اجماع:
امام محمد بن احمدالسرخسی رحمہ اللہ (م: 483ھ) فرماتے ہیں:
أَنَّ مَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ فَهُوَ بِمَنْزِلَة الثَّابِتِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ فِي كَوْنِه مَقْطُوعًا بِهِ حَتّٰى يُكَفَّرَ جَاحِدُه وَهَذٰا أَقْوٰى مَا يَكُوْنُ مِنَ الْإِجْمَاعِ۔
اصول السرخسی،فصل الحکم، ج 1،ص:318
ترجمہ: جس مسئلہ پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہو جائے وہ یقینی اور قطعی ہونے میں کتاب اللہ اور سنت نبوی علی صاحبہا الف الف تحیۃ و سلام سے ثابت ہونے والے مسئلہ کی طرح ہےحتیٰ کہ اس اجماع کے منکر کو شرعاً کافر قرار دیا جائے گا اور یہ اجماع کی سب سے قوی ترین قسم ہے ۔
امام محی الدین یحیی بن شرف النووی رحمہ اللہ )م: 676ھ( فرماتے ہیں :
لِأَنَّهُ إِجْمَاع عَلَى الْخَطَأ وَهُمْ مَعْصُومُونَ مِنْ ذٰلِكَ
شرح النووی علی صحیح مسلم، باب طلاق الثلاث، رقم الحدیث : 2689
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کسی غلطی پر اجماع نہیں ہو سکتا اس لیے وہ )سب مل کر اس بارے میں( معصوم ہیں۔
10:صحابہ کرام باعثِ امن ہیں:
عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ صَلَّيْنَا الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ …فَقَالَ النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتْ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ۔
صحیح مسلم، رقم الحدیث:4596
ترجمہ: حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ہم نے ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز مغرب ادا کی … اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ستارےآسمان کےلیے امن کا باعث ہیں کیونکہ جب ستارے جھڑ جائیں گے تو آسمان پر وعدہ فنا پورا ہو جائے گا ۔ اور میں اپنے اصحاب )رضی اللہ عنہم )کے لیے امن کا باعث ہوں اور جب میں اس دنیا سے کوچ کر جاؤں گا تو میرے اصحاب پر مشکلات و آزمائش کا وعدہ پورا کیا جائے گا اسی طرح میرے صحابہ )رضی اللہ عنہم (میری امت کےلیے باعث امن ہیں جب میرے صحابہ )رضی اللہ عنہم( بھی یہ دنیا چھوڑ جائیں گے تو میری امت پر اختلافات و مصائب کا وعدہ پورا کیا جائے گا۔
فائدہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ذات امت کےلیے امن کا باعث ہے۔ جس طرح ان کی تعلیمات، ہدایات، طرز زندگی اور ان سے عقیدت و احترام کا رشتہ بھی امن کا باعث ہےجب تک یہ چیزیں باقی رہیں گی اس وقت تک امت بدامنی سے محفوظ رہے گی ۔
11:صحابہ کرام کے مشاجرات:
مشاجرات کا لغوی معنی ہوتا ہے ایک ہی درخت کی ٹہنیوں کا آپس میں ہوا کی وجہ سے ٹکرانا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشاجرات کا معنی یہ ہے کہ یہ سب کے سب ایک ہی (ایمان والے(درخت کی شاخیں ہیں۔)آزمائشوں اورخارجی سازشوں جیسی ناموافق( ہواؤں کی وجہ سے آپس میں ٹہنیوں کی طرح ٹکرا بھی گئےبلکہ بعض جنگی حالات پیش آئے ہیں۔ جنگِ جمل اور جنگِ صفین ۔
اھل السنۃ والجماعۃ کا معتدل موقف:
ان جنگوں اور مشاجرات کی وجہ سے دونوں فریقوں کا احترام، مقام و منصب اور جلالتِ شان کو ذہن میں رکھتے ہوئے صواب اور اس کے مقابلے میں خطا کا معتدل نظریہ اپنانے میں کوئی حرج اور ان کے مقام پر حرف نہیں آتا۔ اھل السنۃ والجماعۃ کا موقف یہ ہے کہ ان معاملات میں خلیفہ راشد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ حق)درست اجتہاد) پر تھے اور ان کے مقابلے میں جو لوگ آئے وہ خطا پر تھےان کی ”اجتہادی خطا“ تھی جسے کسی صورت ”باطل“ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ان واقعات کی وجہ سے دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کی بھی فضیلت میں کچھ کمی نہیں ہوئی، کسی ایک کا مقام کم نہیں ہوا ، کوئی ایک بھی ایمان سے خالی نہیں ہوا، ان میں کسی ایک کو حق اور اس کے مقابلے میں دوسرے کو باطل قرار نہیں دیا جائے گا۔ بلکہ حدیث مبارک کی رو سے دونوں کو اللہ کی طرف سے اجر کا مستحق سمجھا جائے گا ۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ۔
صحیح البخاری، رقم الحدیث:7352
ترجمہ: حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب حاکم)یا مجتہد( کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اگر وہ فیصلہ درست ہو اس کے لیے دہرا اجر ہے اور اگر فیصلہ میں خطا ہو جائے تو بھی اسے ایک اجر ضرور دیا جائے گا ۔
امام علی بن محمد المعروف ملاعلی قاری رحمہ اللہ )م: 1014ھ(فرماتے ہیں:
قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَہُ اللہُ: تِلْكَ دِمَاءٌ طَهَّرَ اللهُ أَيْدِينَا مِنْهَا فَلَا نُلَوِّثُ أَلْسِنَتَنَا بِهَا۔
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، کتاب الفتن، رقم الحدیث : 5401
ترجمہ: حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ )صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے مشاجرات کے بارے میں ( فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےتمام فریقوں کےخون سے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھا اب ہم اپنی زبانوں کو ان کے بارے میں بدزبانی اور طعنہ زنی کرنے میں ملوث نہیں کرتے ۔
صحابہ کرام پر سب و شتم حرام ہے:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نامناسب الفاظ سے یاد کرنا، برا بھلا کہنا ، سَبّ و شتم کرنا ، گالم گلوچ کرنا اور لعن طعن کرنا حرام ہے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کاباعث ہےبلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے کیونکہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی تعریف و توصیف اور مدح اور خوبیاں بیان فرمائیں، انہیں اعزازات ، کمالات اور انعامات سے نوازیں ۔
جبکہ ان پر سب و شتم کرنے والا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملنے والے اعزازات ، کمالات اور انعامات کو تسلیم نہیں کرتا۔ معلوم ہوا کہ جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سَبّ و شتم یا طعن کرتا ہے وہ درحقیقت خدائی اور مصطفائی انتخاب پر اعتراض کرتا ہے۔
امام محی الدین یحیی بن شرف النووی رحمہ اللہ )م: 676ھ( فرماتے ہیں :
وَاعْلَمْ أَنَّ سَبَّ الصَّحَابَةِ رَضِيَ الله عَنْهُمْ حَرَامٌ مِّنْ فَوَاحِشِ الْمُحَرَّمَاتِ سَوَاءٌ مَّنْ لَابَسَ الْفِتَنَ مِنْهُمْ وَغَيْرُه لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ فِي تِلْكَ الْحُرُوْبِ۔
شرح مسلم للنووی ، تحت رقم الحدیث: 4610
ترجمہ: یہ بات خوب اچھی طرح جان لی جائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے نامناسب باتیں کرنا حرام ہے کبیرہ گناہوں میں سے ہے خواہ وہ بات ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے کی جائے جو مشاجرات کا شکار ہوئے یا ان کے بارے میں کی جائے جو مشاجرات کا شکار نہیں ہوئے )دونوں کے بارے میں کرنا شرعاً جرم ہے( اس لیے کہ وہ سب کے سب ان جنگوں اور مشاجرات سے متعلقہ معاملات میں اس درجہ پر فائز تھے جہاں خطا پر بھی اجر ملتا ہے یعنی وہ سب )اس بارے میں (مجتہد تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سچی محبت، اطاعت اور عقیدت عطا فرمائے ، ان کے نقش قدم پر چلائے اور قیامت والے دن ہمارا حشر انہی مقدس شخصیات کے ساتھ فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم ۔
والسلام
محمدالیاس گھمن
پیر ،21ستمبر ، 2020ء