سورۃ الملک فضائل واحکام ، ترجمہ اور خلاصہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
سورۃ الملک فضائل واحکام ، ترجمہ اور خلاصہ
اللہ تعالیٰ نےانسانیت کی ہدایت کے لیےقرآن کریم نازل فرمایا۔ اس میں بعض آیات اور سورتیں ایسی ہیں جن کے احادیث مبارکہ میں بہت فضائل ذکر کیے گئے ہیں ۔ انہی میں ایک سورۃ الملک بھی ہے جو 29ویں پارہ کی ابتداء میں موجود ہے ۔ یہ مکی سورۃ ہے اس کے دو رکوع اور تیس آیات ہیں۔ جو شخص روزانہ رات کو سونے سے پہلے اس کی تلاوت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عذابِ قبر سے نجات عطا فرماتے ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و اہلبیت کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ وہ رات کو سونے سے پہلے اس کی تلاوت فرمایا کرتے تھے بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دلی آرزو تھی کہ میرے ہر امتی کے سینے میں یہ سورۃ موجود ہونی چاہیے یعنی اسے زبانی یاد ہونی چاہیے ۔
الحمد للہ !ملک پاکستان اور بیرون ممالک مجھ سے وابستہ تمام خانقاہوں میں نماز عشاء کے بعد اس کے پڑھنے کا معمول ہے ۔ میری خواہش ہے جن لوگوں تک میری یہ بات جس طریقے سے بھی پہنچ سکتی ہے وہ اس سورۃ کو زبانی یاد کریں ، روزانہ نماز عشاء کے بعد اس کی تلاوت کا معمول بنائیں۔ اپنے گھر والوں اور بچوں کو سکھلائیں، اس کا ترجمہ اور خلاصہ سمجھائیں ،انہیں زبانی یاد کرائیں اور روزانہ رات کے وقت اپنی نگرانی میں ان سے یہ سورۃ مبارکہ پڑھوائیں۔
بخشش کی سفارش :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ سُورَةً مِنَ القُرْآنِ ثَلَاثُونَ آيَةً شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتَّى غُفِرَ لَهُ وَهِيَ سُورَةُ ﴿تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ﴾
جامع الترمذی، رقم الحدیث:2891
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کریم میں 30 آیات پر مشتمل ایک سورۃ ہے جو اپنے پڑھنے والے کی اللہ کے حضور بخشش کی سفارش کرے گی اس کی سفارش کو قبول کرکے پڑھنے والے کی مغفرت کر دی جائے گی اور وہ سورۃ ﴿ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ﴾ ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا معمول مبارک:
عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَنَامُ حَتَّى يَقْرَأَ الم تَنْزِيلُ﴿ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ﴾
جامع الترمذی، رقم الحدیث:2892
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک رات کو نیند نہیں فرماتے تھے جب تک سورۃ الم تنزیل (سورۃ السجدۃ( اور سورۃ الملک کی تلاوت نہ فرما لیتے ۔
رسول اللہ ﷺ کی دلی آرزو :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّهُ قَالَ لِرَجُلٍ: أَلَا أُتْحِفُكَ بِحَدِيثٍ تَفْرَحُ بِهِ؟ قَالَ: بَلٰى قَالَ: اقْرَأْ ﴿ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ﴾ وَعَلِّمْهَا أَهْلَكَ وَجَمِيعَ وَلَدِكَ وَصِبْيَانَ بَيْتِكَ وَجِيرَانَكَ فَإِنَّهَا الْمُنْجِيَةُ وَالْمُجَادِلَةُ تُجَادِلُ أَوْ تُخَاصِمُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّهَا لِقَارِئِهَا وَتَطْلُبُ لَهُ أَنْ يُنْجِيَهُ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَيُنْجِي بِهَا صَاحِبَهَا مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوَدِدْتُ أَنَّهَا فِي قَلْبِ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْ أمتي۔
تفسیر ابن کثیر، تحت سورۃ الملک
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص سے فرمایا میں تمہیں ایک ایسی حدیث کا تحفہ دوں جو تمہیں خوش کر دے گی۔ اس شخص نے عرض کی کہ ضرور ارشاد فرمائیں!آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: سورۃ الملک کو پڑھو ، اپنے اہل و عیال، آل اولاد اور اپنے پڑوسیوں کو سکھاؤ اس لیے کہ یہ سورۃ عذاب سے نجات دلانے والی ہے اور قیامت والے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے رب کے حضور اس کی بخشش کرانےوالی ہے اور اپنے پڑھنے والے کے لیے جہنم کے عذاب سے نجات مانگنے والی ہے اور اپنی تلاوت کرنے والے کو قبر کے عذاب سے نجات دلانے والی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کے بارے میں فرمایا کہ میری دلی خواہش ہے کہ یہ میری امت کے ہرشخص کو یاد ہونی چاہیے۔
ہر رات کا وظیفہ:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: مَنْ قَرَأَ ﴿ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ﴾ كُلَّ لَيْلَةٍ مَنَعَهُ اللَّهُ بِهَا مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَكُنَّا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُسَمِّيهَا الْمَانِعَةَ۔
السنن الکبریٰ للنسائی، رقم الحدیث: 10479
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص )اپنا معمول بنالےکہ (ہر رات سورۃ ملک کی تلاوت کرے تو اللہ تعالیٰ اسے قبر کے عذاب سےبچا لیتے ہیں ۔ اور ہم )صحابہ کرام رضی اللہ عنہم(اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں اس سورۃ کا نام ”المانعۃ“ یعنی عذاب سے دور کرنے والی رکھا کرتے تھے۔
قبر کا عذاب اور سورۃ الملک کا آمنا سامنا:
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: يُؤْتَى الرَّجُلُ فِي قَبْرِهِ فَتُؤْتَى رِجْلَاهُ فَتَقُولُ رِجْلَاهُ: لَيْسَ لَكُمْ عَلَى مَا قِبَلِي سَبِيلٌ كَانَ يَقُومُ يَقْرَأُ بِي سُورَةَ الْمُلْكِ ثُمَّ يُؤْتَى مِنْ قِبَلِ صَدْرِهِ أَوْ قَالَ بَطْنِهِ فَيَقُولُ: لَيْسَ لَكُمْ عَلَى مَا قِبَلِي سَبِيلٌ كَانَ يَقْرَأُ بِي سُورَةَ الْمُلْكِ ثُمَّ يُؤْتَى رَأْسُهُ فَيَقُولُ: لَيْسَ لَكُمْ عَلَى مَا قِبَلِي سَبِيلٌ كَانَ يَقْرَأُ بِي سُورَةَ الْمُلْكِ قَالَ: فَهِيَ الْمَانِعَةُ تَمْنَعُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْر۔
المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث:3839
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میت جب قبر میں رکھ دی جاتی ہے تو اس میت کے پاس اگر عذاب پاؤں کی جانب سے آنا چاہے گا تو یہ سورۃ )الملک(اس عذاب کے سامنے رکاوٹ بن جائے گی کیونکہ یہ شخص)دونوں پاؤں پر( کھڑے ہو کر اس کی تلاوت کیا کرتا تھا اسی طرح سینے یا پیٹ کی جانب سے عذاب آنا چاہے گا تو یہ اس کے سامنے رکاوٹ بن جائے گی اسی طرح سر کی جانب سے عذاب آنا چاہے گا تو یہ اس کے سامنے رکاوٹ بن جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ سورۃ عذاب قبر سے دور کرنے والی ہے۔
عذابِ قبر سے نجات :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: ضَرَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِبَاءَهُ عَلَى قَبْرٍ وَهُوَ لَا يَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ فَإِذَا فِيهِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سُورَةَ ﴿ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ﴾ حَتَّى خَتَمَهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي ضَرَبْتُ خِبَائِي عَلَى قَبْرٍ وَأَنَا لَا أَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ فَإِذَا فِيهِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ المُلْكِ حَتَّى خَتَمَهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ المَانِعَةُ هِيَ المُنْجِيَةُتُنْجِيهِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ۔
جامع الترمذی، رقم الحدیث:2890
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی نے ایک صحابی نے) لاعلمی میں( کسی کی قبر پر خیمہ لگایا اس صحابی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جس جگہ وہ خیمہ گاڑ رہے ہیں وہاں کسی کی قبر بھی موجود ہے ۔ خیر یہ اپنے خیمے میں تشریف فرما تھے کہ انہوں نے سنا کہ ایک شخص سورۃ الملک کی تلاوت کر رہا ہے اس نےسورۃ الملک کے اختتام تک تلاوت جاری رکھی ۔ انہوں نے آکر یہ واقعہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے) لاعلمی میں( ایک قبر پر خیمہ گاڑا مجھے اس وقت معلوم نہیں تھا کہ یہاں قبر موجود ہے ۔ میں نے وہاں سے ایک شخص کو سورۃ الملک کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (سورۃ الملک (بندے سے عذاب کو روکنے والی ہے ، عذاب سے نجات دینے والی ہے اور عذاب قبر سے بچانی والی ہے۔
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ترجمہ: شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بہت بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُۨ ۙ﴿۱﴾
ترجمہ: وہ ذات بہت ہی برکت والی ہےجس کے قبضےمیں)ساری کائنات کی( بادشاہت ہےاور) وہ ذات(ہر چیز پر مکمل طور پر اختیار رکھتی ہے۔
الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ۙ﴿۲﴾
ترجمہ: )اس ذات نے )موت اور زندگی کو پیدا فرمایا،تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون سب سے اچھا عمل کرتاہے، (اوروہی ذات) سب پر غالب ہے اور وہی بخشنے والی)ذات( ہے۔
الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ ﴿۳﴾
ترجمہ: (اس ذات نے)اوپر نیچےترتیب کے ساتھ سات آسمانوں کو پیدافرمایا، تم خدائے رحمٰن کی (اس)تخلیق میں کوئی فرق نہیں دیکھو گےتم پھر نگاہ دوڑاؤکیا تمہیں اس میں کوئی کمی و بیشی نظر آتی ہے؟(نہیں، ہرگزنہیں)
ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَکَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ ﴿۴﴾
ترجمہ: (صرف ایک دو بار نہیں بلکہ)تم بار بار (اس کی طرف)نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہیں )اس میں نقص تلاش نہیں کرسکتیں بلکہ)تھک ہار اور ناکام ہو کرواپس تمہاری طرف لوٹ آئیں گی۔
وَ لَقَدۡ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ وَ جَعَلۡنٰہَا رُجُوۡمًا لِّلشَّیٰطِیۡنِ وَ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابَ السَّعِیۡرِ ﴿۵﴾
ترجمہ: (اللہ تعالیٰ خود اپنی قدرتِ کاملہ کی دلیل دیتے ہیں کہ)بلاشبہ ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں کے ساتھ زینت بخشی اور ہم نے ان )ستاروں( کو شیطانوں کے مار بھگانے کا ذریعہ بنایا اور (مزید)ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکھاہے۔
وَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ عَذَابُ جَہَنَّمَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۶﴾
ترجمہ: اور جن لوگوں نے ربِ کائنات(کی ذات،صفات اور احکام )کا انکار کیا ان کےلیےجہنم(کی آگ)کاعذاب ہےاور (جہنم رہنے کی اعتبار سے )بہت ہی بری جگہ ہے۔
اِذَاۤ اُلۡقُوۡا فِیۡہَا سَمِعُوۡا لَہَا شَہِیۡقًا وَّ ہِیَ تَفُوۡرُ ۙ﴿۷﴾
ترجمہ: جب ان لوگوں کو اس(جہنم) میں ڈالاجائے گاتو وہ اس میں سخت شور کی آوازیں سنیں گے،اور جہنم کی آگ خوب بھڑک رہی ہوگی۔
تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ کُلَّمَاۤ اُلۡقِیَ فِیۡہَا فَوۡجٌ سَاَلَہُمۡ خَزَنَتُہَاۤ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَذِیۡرٌ ﴿۸﴾
ترجمہ: (ایسا محسوس ہوگا کہ)وہ شدتِ غضب کی وجہ سےپھٹ پڑےگی،جب اس میں (منکرینِ اسلام )کا کوئی گروہ ڈالاجائے گاتو دوزخ کے نگران فرشتے ان سے پوچھیں گے کیاتمہارےپاس (اس عذاب سے )ڈرانے والاکوئی نہیں آیا تھا ؟
قَالُوۡا بَلٰی قَدۡ جَآءَنَا نَذِیۡرٌ ۬ۙ فَکَذَّبۡنَا وَ قُلۡنَا مَا نَزَّلَ اللہُ مِنۡ شَیۡءٍ ۚۖ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ کَبِیۡرٍ ﴿۹﴾
ترجمہ: وہ (جواب دیتے ہوئے ) کہیں گے ڈرانے والا ہمارے پاس آیا تو ضرور تھا ، مگر (ہماری بدقسمتی کہ)ہم نے اسے جھٹلایااورہم نے ان سے کہاتھاکہ اللہ نے کچھ نازل نہیں فرمایا (بلکہ تم جھوٹ بولتے ہواور ہم نےان سے مزید یہ بھی کہا کہ( تم کھلم کھلا گمراہی میں ہو۔
وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۰﴾
ترجمہ: اور وہ (کافر لوگ فرشتوں سے (کہیں گےاے کاش !ہم(دین کے ماہر )مجتہد( کی بات کوتوجہ سے)سنتے یا(پھر ہم ازخوداتنے )سمجھ دار ہوتے تو )آج( ہم جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں نہ جلتے۔
فَاعۡتَرَفُوۡا بِذَنۡۢبِہِمۡ ۚ فَسُحۡقًا لِّاَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۱﴾
ترجمہ: وہ اپنے گناہوں کا خوداعتراف کریں گے (تو)ان دوزخیوں پرپھٹکار ڈالی جائے گی۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ ﴿۱۲﴾
ترجمہ: (اس کے برعکس)وہ لوگ جو اپنے رب کو دیکھے بغیر(ایمان لاتے ہیں اور اس سے) ڈرتے ہیں ایسے لوگوں کےلیے بخشش(کا فیصلہ)ہے اور بہت بڑے اجر (کا وعدہ)ہے۔
وَ اَسِرُّوۡا قَوۡلَکُمۡ اَوِ اجۡہَرُوۡا بِہٖ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۱۳﴾
ترجمہ: اور تم(خواہ)آہستہ آواز سے بات کرویا اونچی آواز سے(اللہ کو سب معلوم ہےکیونکہ)وہ دلوں کےمخفی ارادوں تک کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔
اَلَا یَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ ؕ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿٪۱۴﴾
ترجمہ: کیا)بھلا( وہ بھی نہیں جانے گاجس نے خود پیدا فرمایا، حالانکہ وہ (ذات) انتہائی باریک بین اور بہت زیادہ خبر رکھنے والی ہے۔
ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا فَامۡشُوۡا فِیۡ مَنَاکِبِہَا وَ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِہٖ ؕ وَ اِلَیۡہِ النُّشُوۡرُ ﴿۱۵﴾
ترجمہ: وہ (اللہ ایسی انعام فرمانے والی ) ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو مسخر )قابلِ استعمال( بنایا، اس کے رستوں میں تم چلو پھرو اور اس (اللہ)کے دیےہوئے رزق میں سےکھاؤ پیو (لیکن اس بات کو کبھی نہ بھولو کہ)آخر کار تم نے دوبارہ زندہ ہوکراسی کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔
ءَاَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمُ الۡاَرۡضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوۡرُ ﴿ۙ۱۶﴾
ترجمہ: کیا تم اس ذات کہ جس کی بادشاہت )زمین کی طرح (آسمانوں میں بھی )مکمل طور پر (پائی جاتی ہے اس سے بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ تم کو زمین میں دھنسا دےگاپھر یکایک وہ(زمین)بری طرح کانپتے ہوئے ہچکولے لینے لگے۔
اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ؕ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ کَیۡفَ نَذِیۡرِ ﴿۱۷﴾
ترجمہ: اور کیاتم اس ذات کہ جس کی بادشاہت)زمین کی طرح( آسمانوں میں بھی )مکمل طور پر (پائی جاتی ہے اس سے بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ تمہارے اوپر پتھر برسانے والی تیز ہواچلادےپھر تمہیں )مرتے ہی( معلوم ہوجائے گا کہ میرا )عذاب سے( ڈرانا کیسا)صحیح( تھا؟
وَ لَقَدۡ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَکَیۡفَ کَانَ نَکِیۡرِ ﴿۱۸﴾
ترجمہ: اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی(حق کو)جھٹلایا(پھر ان کو ان کے جرم کی سزادی گئی)دیکھو میرا عذاب کیسا تھا؟
اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اِلَی الطَّیۡرِ فَوۡقَہُمۡ صٰٓفّٰتٍ وَّ یَقۡبِضۡنَ ؔمَایُمۡسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحۡمٰنُ ؕ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیۡءٍۭ بَصِیۡرٌ ﴿۱۹﴾
ترجمہ: کیا انہوں نے )اڑنے والے( پرندوں کو نہیں دیکھاجو کبھی پروں کو پھیلاتے ہیں اور کبھی سکیڑ لیتے ہیں، خدائے رحمٰن کے علاوہ انہیں اور کون ) فضا میں( تھام سکتا ہے؟بے شک وہ ذات ہر چیز کو اچھی طرح دیکھنےوالی ہے۔
اَمَّنۡ ہٰذَا الَّذِیۡ ہُوَجُنۡدٌ لَّکُمۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ الرَّحۡمٰنِ ؕ اِنِ الۡکٰفِرُوۡنَ اِلَّا فِیۡ غُرُوۡرٍ ﴿ۚ۲۰﴾
ترجمہ: (انہیں یہ بات بھی سمجھائیے کہ)بھلا کوئی ہے جوخدائے رحمٰن کے مقابلے میں لشکر بن کر تمہاری مدد کرے؟)یہ بات اچھی طرح یاد رکھو کہ (کافر دھوکے میں مبتلا ہیں۔
اَمَّنۡ ہٰذَا الَّذِیۡ یَرۡزُقُکُمۡ اِنۡ اَمۡسَکَ رِزۡقَہٗ ۚ بَلۡ لَّجُّوۡا فِیۡ عُتُوٍّ وَّ نُفُوۡرٍ ﴿۲۱﴾
ترجمہ: اگر وہ )اللہ (رزق روزی دیناروک لےتو بھلا(اللہ تعالیٰ کےعلاوہ)اور کون ہو سکتا ہےجوتمہیں رزق دے،مگریہ لوگ (اس ذات کی) سرکشی اور خدا بیزاری پر ڈٹےہوئے ہیں۔
اَفَمَنۡ یَّمۡشِیۡ مُکِبًّا عَلٰی وَجۡہِہٖۤ اَہۡدٰۤی اَمَّنۡ یَّمۡشِیۡ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۲۲﴾
ترجمہ: کیا وہ شخص زیادہ راہِ راست پر ہے جوجھک کر اوندھےمنہ چل رہاہو یا وہ جو سیدھے راستےپرسراٹھا کر چل رہاہو؟
قُلۡ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَکُمۡ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۲۳﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر!آپ ان سے)کہہ دیجیےکہ (اللہ)وہی ذات ہے جس نے تمہیں پیدا فرمایااور تمہیں کان،آنکھ اور دل عطا کیے(اس کے باوجود بھی)تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔
قُلۡ ہُوَ الَّذِیۡ ذَرَاَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۲۴﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر!آپ ان سے)کہہ دیجیےکہ (اللہ)وہی ذات ہےجس نےتمہیں زمین پر پھیلایااور)بہت جلد ( تم اس کےسامنے )دوبارہ (اکھٹے کیے جاؤگے۔
وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾
ترجمہ: اور وہ )آپ سے (پوچھتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو)بتلاؤ( آپ کا یہ وعدہ کب پورا ہو گا ؟
قُلۡ اِنَّمَا الۡعِلۡمُ عِنۡدَ اللہِ ۪ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۲۶﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر!آپ ان سے) فرمادیجیے کہ اس کا )حتمی (علم تو اللہ ہی کو ہےاور میں تو (حق کو) کھول کر بیان کرکے (بُرےانجام سے)ڈرانے والا ہوں۔
فَلَمَّا رَاَوۡہُ زُلۡفَۃً سِیۡٓـَٔتۡ وُجُوۡہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ قِیۡلَ ہٰذَا الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تَدَّعُوۡنَ ﴿۲۷﴾
ترجمہ: جس وقت وہ اس(عذاب)کواپنے قریب آتادیکھیں گے تو ان (کافروں)کے چہرے بگڑ جائیں گے)تو اس وقت( انہیں کہا جائے گا کہ یہی وہ )عذاب( ہے جس کا تم)دنیا میں ( بار بار مطالبہ کرتے تھے۔
قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَہۡلَکَنِیَ اللہُ وَ مَنۡ مَّعِیَ اَوۡ رَحِمَنَا ۙ فَمَنۡ یُّجِیۡرُ الۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۲۸﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر!آپ ان سے) فرمادیجیےکہ تمہاراکیا خیال ہےکہ اگراللہ مجھےاور میرےساتھیوں کوہلاک کردے یا ہم سب پر رحم فرمائے(تمہارا اس سے کیا؟تم اپنی سوچوکہ) کافروں کو درد ناک عذاب سے کون بچائے گا؟
قُلۡ ہُوَ الرَّحۡمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡنَا فَسَتَعۡلَمُوۡنَ مَنۡ ہُوَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۲۹﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر!آپ ان سے)فرمادیجیے کہ وہ (اللہ)بہت ہی زیادہ رحم کرنے والا ہے ہم اسی پر ایمان لائےاور اسی پر ہی مکمل بھروسہ کرتے ہیں،بہت جلدتم سب کو معلوم ہو جائے گاکہ کون کھلی ہوئی گمراہی کا شکار تھا؟
قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ ﴿٪۳۰﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر!آپ ان سے) فرمادیجیےکہ بھلا یہ تو بتلاؤکہ اگر تمہارا سارا پانی زمین کے )بہت( نیچے اتر جائے تو پھر اس(اللہ کی(ذات کے علاوہ اور کون ہے جو تمہارے لیے صاف پانی کا انتظام کرسکے؟
خلاصہ سورۃ الملک
اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ میں سب سے پہلے اپنی ذات بابرکات کی بادشاہت اور قدرت کاملہ کا تذکرہ فرمایا تاکہ بندوں میں احساس عبدیت ، جذبۂِ اطاعت اور یقین علی اللہ پیدا ہو اس کے بعد موت و حیات کے فلسفے کو حسنِ عمل کے تناظر میں ذکر فرمایا تاکہ اعمال میں اتباعِ سنت ، اخلاص ، للہیت اور رضائے الہٰی کی اہمیت واضح ہو ،مزید یہ کہ اس میں کمی کوتاہی ہوجانے پر غلبہ رحمت کے پیش نظر معافی کی تسلی دی ۔
پھر اپنی قدرت کاملہ کے دلائل ذکر فرمائے کہ دیکھو بغیر کسی قسم کے نقص کے سات آسمانوں کو ترتیب کے ساتھ اوپر نیچے پیدا فرمایا اتنے بڑے کام میں تمہیں کوئی عیب نظر نہیں آئے گا ، دعوتِ فکر دیتے ہوئے فرمایا کہ اس میں اگر تمہاری نگاہیں عیب ونقص کو تلاش کرنا چاہیں بھی تو ناکام و نامراد ہی رہیں گی ۔
آسمان کے تذکرے کے بعد اس پر جھلملانے والے ستاروں کے مقاصدِ تخلیق کو ذکر کیا کہ ہم نے انہی سے آسمان کو زینت بخشی اور شیاطین کو ماربھگانے کا کام بھی انہی سے لیتے ہیں ۔ شیاطین کے برے انجام کو ذکر کرنے کے بعد شیطان کے پیروکاروں کو خبردار کیا کہ شیطان کی بات ماننا چھوڑ دو ورنہ اس کی طرح تمہارا بھی برا ٹھکانہ ہوگا، جس کا نام جہنم ہے ۔ اس کے بعد والی آیات میں جہنم میں جلنے والی آگ اور اس کی شدت کو بیان کیا پھر اس میں رہنے والوں کی حالتِ زار کو بیان فرمایا اور اس حالت کا ذمہ دار خود ان کے کفریہ عقائد اور برے اعمال کو قرار دیا اس پر دلیل کے طور پر دوزخ کے نگران فرشتوں سے ہونے والی گفتگو پیش کی ۔ ان کی اس بری حالت کی سب سے بڑی وجہ سچے رسولوں کی تکذیب اور توہین کو قرار دیا اور بری حالت سے نجات کا طریقہ یہ ذکر فرمایا کہ ماہرین شریعت )انبیاء ، خلفاء ، فقہاء اور علماء(کی بات سننا ، ماننا اور اس پر عمل کرنا یا پھر از خود دین کے مسائل کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا اور شریعت پر عمل کرنا ہے۔ ان دونوں میں سے پہلا طریقہ چونکہ آسان ہے اس لیے اسے پہلے ذکر فرمایا ۔ اس کے بعد مجرمین کا اعترافِ جرم اور ان پر سزا کے طورپر پڑنے والی پھٹکار کا تذکرہ ہے۔ نہ ماننے والوں کی بری حالت، برا انجام اور ان پر ہونے والے عذاب کے تذکرے کے بعد اہل ایمان جو دل میں خوفِ خدا رکھتے ہوں ان کے اچھے انجام اور ان پر ہونے والے انعامات کا تذکرہ ، اللہ کی طرف سے مغفرت اور اسی کی طرف سے ملنے والے بڑے اجر کی صورت میں کیا ۔
اس کے بعد بندوں کی توجہ اس طرف کرائی کہ تم جو کچھ بھی کرو آہستہ سے یا زور سے ، چھپ کر یا اعلانیہ ۔ میں وہ سب کچھ جانتا ہوں یہاں تک کہ تمہارے دلوں کے مخفی راز بھی مجھ سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے بعد بہت خوبصورت انداز میں سمجھایا کہ میں نے ہی تمہیں پیدا کیا مجھے ہی معلوم نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ حالانکہ باریک بین ہونا اور ہر بات کی پوری خبر رکھنا میری صفتیں ہیں ۔ ان باتوں کا احساس دلانے کے بعد اللہ کریم نے اپنی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا کہ دیکھو!میں نے تمہارے لیے زمین کو قابلِ استعمال بنایا ، اتنی نرم نہیں کہ تم اور تمہارے مکانات وغیرہ اس پر تعمیر نہ ہو سکیں اور دھنس جائیں اور اتنی سخت بھی نہیں کہ تم اس کو کھود کر پانی ،معدنیات اور دیگر ضروریات کی چیزیں حاصل نہ کر سکو اور قابلِ زراعت نہ ہو ۔ اس میں چلنے پھرنے کے رستے موجود ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور ہاں رزق کی فکر نہ کرو وہ میں نے تمہیں دینا ہے ، لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رکھو کہ میری نعمتیں استعمال کر کے مجھے ہی نہ بھول جانا کیونکہ ایک دن تم نے دوبارہ زندہ ہو کر میرے سامنے پیش ہونا ہے۔ زمین کے تذکرے کے بعد اہل زمین کو آسمان والے نےخبردار کرتے ہوئے فرمایا میں تمہیں زمین میں دھنسا بھی سکتا ہوں اور تم پر پتھروں والی تیز ہوا بھی چلا سکتا ہوں جیسا کہ تم سے پہلی بعض نافرمان قوموں کو میں نے انہی عذابوں سے نیست و نابود کر ڈالا ۔ لہٰذا بدعقیدگی اور بداعمالی سے بچو ۔ اس کے بعد پھر اپنی قدرت کاملہ کےدلائل ذکر فرمائے کہ پرندوں کو دیکھو فضا میں اڑتے پھرتے ہیں کبھی پروں کو پھیلاتے اور کبھی سکیڑ لیتے ہیں، جسمانی اعضاء کے وزن کے باوجود میں انہیں زمین پر گرنے نہیں دیتا بلکہ فضا ہی میں تھام لیتا ہوں ، میرے لیے کوئی کام مشکل نہیں۔ کافر لوگ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں کیونکہ میرے مقابلے میں ایک دو شخص تو کجا کوئی بڑے سے بڑا لشکر بھی ان کی مدد نہیں کر سکتا۔میرا رزق کھا کر میرا انکار کرتے ہیں اگر میں رزق دینا روک لوں تو یہ کیا کر سکتے ہیں ؟ انہیں چاہیے تھا کہ نافرمانی سے توبہ کرتے لیکن یہ اسی پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد اپنے چند انعامات کا تذکرہ فرمایا کہ میں نے آنکھ ، کان اور دل عطا کیے اس کا حقیقی شکر تو یہ ہے کہ تمام اعضاء کو میرے احکامات کے مطابق استعمال کرو لیکن تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو ۔جیسے میں نے تمہیں اس زمین پر پھیلایا ہے کل کو اسی طرح جمع بھی کروں گا لہٰذا آخرت کی بھرپور تیاری کرو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کافروں کے استہزاء آمیز رویے کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ مذاق اڑاتے ہوئے آپ سے پوچھتے ہیں کہ عذاب والا وعدہ کب پورا ہو گا ؟ آپ ان سے کہیں کہ اس کا اصل اور حتمی وقت تو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں لیکن اتنی بات ضرور ہے جب یہ عذاب کو اپنے قریب آتا دیکھیں گے تو ان کے چہرے بگڑ جائیں گے تب ان سے کہا جائے گا کہ یہی وہ عذاب ہے جس کا تم بار بار مطالبہ کرتے تھے، لو اب اسے بھگتو!اے میرے پیغمبر !ان کو سمجھاؤ کہ کافروں کو اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا ، اے میرے پیغمبر !ان کو واضح طور پر پیغام دو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور مکمل بھروسہ بھی اسی اللہ پر کیا، اب رہی یہ بات کہ ہم اپنے ایمان کی وجہ سے گمراہ ہیں یا تم اپنے کفر کی وجہ سےگمراہ ہو؟ اس کا بہت جلد تمہیں پتہ چل جائے گا۔
اے میرے پیغمبر !ان سے کہو کہ زندگی کی اساس پانی پر ہے اگر وہ ذات پانی کو زمین سے غائب کر دے تو تم کیا کر سکتے ہو ؟ اس لیے اس کی قدرت ، بادشاہت ، رحمت ، مغفرت ، انعام اور عذاب کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگیوں کو اسلامی عقائد اور احکامات کے مطابق گزارو۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں ہر پریشانی سے عافیت عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
پیر ،28ستمبر ، 2020ء