حضرت عثمان, حضرت علی المرتضیٰ, حضرت حسین بن علی سے تعدادِ رکعاتِ تراویح

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

حضرت عثمان سے تعدادِ رکعاتِ تراویح

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں بھی تراویح بیس رکعت ہی پڑھی جاتی تھی،جیساکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دورمیں تھی۔ قراء حضرات دو دو سوآیات والی سورتیں پڑھتے تھے اورمقتدی شدت قیام کی وجہ سے تھک جاتے اورلاٹھیوں کاسہارالیتے۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينِ ، وَكَانُوا يَتَوَكَّؤنَ عَلَى عُصِيِّهِمْ فِى عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ.

(السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ)

ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ(اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ)کے زمانہ میں(صحابہ کرام باجماعت)بیس رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے اورقاری صاحب سو سوآیات والی سورتیں پڑھتے تھے اورلوگ لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورمیں لاٹھیوں کاسہارالیتے۔

فائدہ: اس روایت کی سند بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

 اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں بیس رکعت تراویح پرعمل ثا بت ہوتاہے نیز حضرات خلفاء خودبھی لوگوں کے ساتھ شریک ہوکر تراویح اداکرتے ۔چنانچہ فقہ مالکی کی مشہورکتاب المدونۃ الکبریٰ میں تصریح ہے:ان عمروعثمان کانایقومان فی رمضان مع الناس فی المسجد۔                             (ج1ص194)

ترجمہ: حضرت عمر اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما رمضان المبارک میں لوگوں کے ساتھ ہی باجماعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔

حضرت علی المرتضیٰ سے تعدادِ رکعاتِ تراویح

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں بھی تراویح بیس رکعت ہی پڑھی جاتی تھی۔ اس تراویح کو روایت کرنے والے تین حضرات ہیں۔ ان کی مرویات پیشِ خدمت ہیں:

1: حضرت حسین بن علی

رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ زَیْدُ بْنُ عَلِیِّ الْہَاشْمِیُّ فِیْ مُسْنَدِہٖ کَمَا حَدَّثَنِیْ زَیْدُ بْنُ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ اَنَّہٗ اَمَرَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الْقِیَامِ فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ اَنْ یُّصَلِیَّ بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً یُّسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَیُرَاوِحَ مَابَیْنَ کُلِّ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ۔ (مسند الامام زیدص158،159)

ترجمہ: امام زید اپنے والد امام زین العابدین رحمہ اللہ سے وہ اپنے والد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس امام کورمضان میں تراویح پڑھانے کاحکم دیا اسے فرمایاکہ وہ لوگوں کوبیس رکعات پڑھائے، ہر دورکعت پر سلام پھیرے، ہرچاررکعت کے بعد آرام کا اتنا وقفہ دے کہ حاجت والافارغ ہوکر وضوکرلے اور (یہ بھی حکم دیا کہ قاری)  آخر میں وتر پڑھائے۔

فائدہ: اس روایت کی سارے راوی اہل بیت کے ہیں اورثقہ ہیں۔

2: حضرت ابو عبد الرحمن السلمی:

عَنْ أَبِى عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِىِّ عَنْ عَلِىٍّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : دَعَا الْقُرَّاءَ فِى رَمَضَانَ ، فَأَمَرَ مِنْهُمْ رَجُلاً يُصَلِّى بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً. قَالَ : وَكَانَ عَلِىٌّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ يُوتِرُ بِهِمْ. ۔ (السنن الکبری للبیھقی ج2ص496)

ترجمہ: ابوعبدالرحمن سلمی سے روایت ہے کہ حضرت علی نے رمضان میں قاریوں کوبلایا پھر ایک شخص کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کوبیس رکعت پڑھایاکرے اورحضرت علی خود انہیں وتر پڑھاتے تھے۔

شبہ نمبر1:

 غیر مقلدین کہتے ہیں کہ اس میں ایک راوی حماد بن شعیب ضعیف ہے ۔

جواب :

اولاً:۔۔۔۔اگرچہ حماد بن شعیب کی بعض ائمہ نے تضعیف کی ہے لیکن دیگر ائمہ نے اس کی تو ثیق بھی کی ہے  مثلاً:

1:  امام ابن عدی فر ما تے ہیں : یکتب حدیثہ مع ضعفہ۔(لسا ن المیزان: ج2 ص348)

یعنی اس کی  حدیث اس کے ضعف کے باوجود لکھی جا سکتی ہے ۔

اور ارشاد الحق اثری غیر مقلد کے نزدیک ’’یکتب حدیث‘‘کا جملہ الفا ظ تعدیل میں شما ر ہو تا ہے۔ (تو ضیح الکلام ج1ص547)

2: امام ابن حبا ن نے انہیں ثقات میں شما ر کیا ہے (تہذیب الکمال: ج8 ص378)

3: علامہ ابن تیمیہ نے اسی حماد بن شعیب والی روایت سے استدلال کیا ہے۔ (منہا ج السنہ ج2ص224)

4: امام بیہقی نے اس اثر علی کو اثر شتیر بن شکل کی قوت کے لیے روایت کیا ہے  جو دلیل ہے کہ یہ  امام بیہقی کے نزدیک قوی ہے ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2ص996)

5: علامہ ذہبی جیسے نا قد فن نے اس پر المنتقیٰ ص542پر سکوت فر ما یا ہے۔ (تجلیا ت صفدر ج3ص323)

6: امام تر مذی حضرت علی سے مروی اس بیس رکعت والی روایت کو صحیح ما نتے ہیں جب ہی تو استدلال کرتے ہیں، چنانچہ فر ما تے ہیں :

واکثر اہل العلم علی ما روی عن علی وعمر وغیرہما من اصحاب النبی  صلی اللہ علیہ وسلم عشرین  رکعۃ۔ (سنن الترمذی ج1ص166)

ترجمہ: اکثر اہل علم کاموقف بیس رکعت ہی ہے جیساکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت عمررضی اللہ عنہ اوردیگر بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

اصولی طور پر حماد بن شعیب حسن الحدیث درجہ کا راوی ہے اور حدیث مقبول ہے ۔

ثانیاً:۔۔۔۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور کی تراویح کے راوی حضرت حسین اور ابو الحسنا ء بھی ہیں ۔ لہذا اس سند میں اگر ضعف ہو ( جبکہ یہ حسن درجہ کی روایت ہے ) تو  ان مویدات کی وجہ سے ختم ہو جا ئے گا ۔

شبہ  نمبر2:

ایک غیر مقلد نے لکھا:”عطا ء بن السائب“مختلط  راوی  ہے ، حماد بن شعیب ان  لوگو ں میں سے نہیں  جنہوں نے اس سے قبل الاختلاط سنا ہے۔ (آٹھ رکعت نماز ترا ویح ص13)

جواب :

اولاً:۔۔۔۔ عطا ء بن السائب اگر آخر عمر میں مختلط ہو گئے  تھے لیکن اتنے بھی نہیں کہ ان کی احا دیث ضعیف قرار دی جا ئیں بلکہ باجو د اختلاط کے محدثین کے ہا ں ان کی احادیث  کم ازکم ”حسن “ درجہ کی ضرور ہیں ۔مثلاً:

1: امام ہیثمی ایک روا یت کے تحت لکھتے ہیں:”وفیہ عطا ء بن السائب وفیہ کلام  وھو حسن الحدیث“ (مجمع الزوائد ج3 ص142 ، باب التکبیر علی الجنازۃ)

ترجمہ : اس روایت میں عطا ء بن السائب ہے، اس میں کلام ہے لیکن ان کی حد یث حسن درجہ  کی ہے ۔

2: علامہ ذہبی فرماتے ہیں: تابعی مشہور حسن الحدیث۔ (المغنی فی الضعفا ء:  ج2 ص59، رقم الترجمۃ 4121)

ترجمہ: یہ مشہور تابعی ہیں اور ان کی حدیث حسن درجہ کی ہوتی ہے۔

3: امام حاکم عطا ء بن السائب کی ایک روایت جسے جریر بن عبد الحمید نے روایت کیا ہے ، کو نقل کر نے کے بعد فر ما تے ہیں: صحیح الاسنا د ۔ (المستدرک للحاکم:  ج5 ص350،  كتاب التوبة و الإنابة)

حالانکہ جریرکا سما ع بعد الاختلاط کا ہے ۔ (الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح: ج2 ص750)

معلوم ہو ا آپ اختلاط  کے با وجود ’’حسن الحدیث‘‘ ہیں ۔

4: حا فظ ابن حجرلکھتے ہیں: وکان اختلط بآخرہ ولم یفحش حتی یستحق ان یعتدل بہ عن مسلک العدول ۔ (تہذیب التہذیب ج4 ص493)

تر جمہ : عطا ء بن السائب آخر ی عمر میں اختلاط کا شکا ر ہو گئے تھے لیکن اتنے فاحش اور زیادہ مختلط بھی نہیں ہو ئے  کہ وہ اختلاط کی وجہ سے عادل  (وثقہ ) ہیں راویوں کی راہ سے تجاوز  کر جا ئیں۔

5: امام مسلم:  انہوں نے عطا ء بن السائب  کو مقدمہ مسلم میں قابل اعتماد اور طبقہ ثا نیہ کا راوی شما ر کیا ہے  جن سے صحیح مسلم میں روایت لی ہے ۔ ( مقدمہ مسلم ص:3)

لہذا یہ حسن الحدیث راوی ہےاور روایت حسن  درجہ کی ہے ۔

ثا نیاً :۔۔۔اس روا یت کی مؤید دیگر روایات بھی ہیں جن میں حضرت حسین اور حضرت ابو الحسنا ء کے طریق ہیں ۔ پس یہ روایت مؤیدات کی وجہ سے حجت وقابل اعتماد ہے ۔ 

3:حضرت ابو الحسناء:

عَنِ أَبِي الْحَسْنَاءِ : أَنَّ عَلِيًّا أَمَرَ رَجُلاً يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً. (مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285، السنن الکبری ج2ص497)

ترجمہ: ابوالحسناء سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کورمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھائے۔

فائدہ: اس روایت کی سند حسن درجہ کی ہے۔ اس روایت میں  حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ’’حکم‘‘ دینے کا ذکر ہے۔

شبہ :

غیر مقلدین کہتے ہیں:ابو الحسنا ء مجہو ل العین ہے، لہٰذا روا یت ضعیف ہے۔

جواب :

اولاً:۔۔۔۔ عند الاحناف خیر القرو ن کی جہا لت ، تدلیس اور ارسال جرح ہی نہیں اور شوافع کے ہا ں متا بعت سے یہ جرح ختم ہو گئی کیو نکہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت ترا ویح روا یت کر نے میں ابو الحسنا ء اکیلے نہیں  بلکہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور امام ابو عبد الرحمن سلمی بھی یہی روایت کرتے  ہیں۔ (تجلیا ت صفدر ج3ص328)

ثانیاً:۔۔۔۔ ابو الحسنا ء سے دوراوی یہ روایت نقل کر رہے ہیں :

1: عمرو بن قیس ۔ (مصنف ابن  ابی شیبہ ج2ص285)

2: ابو سعید البقال ۔ (السنن الکبر یٰ للبیہقی  ج2ص497)

اور یہ دونوں با لترتیب ثقہ اور صدوق ہیں۔ (تقریب التہذیب ص456،ص299)

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ؛ من روی عنہ اکثر من واحد ولم یوثق الیہ الاشارۃ بلفظ  مستو ر او مجہول الحال ۔ (تقریب التہذیب: ص111)

ترجمہ: جس راوی سے ایک سے زائد راوی روا یت کریں اور اس کی تو ثیق  کی گئی ہو  تو اس کی طرف لفظ مستو ریا مجہول الحال سے اشار ہ کیا جا تا ہے ۔

یہاں ابو الحسناء سے بھی دو راوی یہ روایت کر رہے ہیں۔ لہذا اصولی طور پر یہ مجہو ل نہیں بلکہ مستور راوی بنتا ہے ۔غیر مقلدین کا اسے مجہول العین کہہ کر روایت رد کرنا شرمناک ہے ۔

الحاصل ابو الحسنا ء مستور راوی ٹھہرتا ہے اور محدثین کے ہا ں  قاعدہ ہے کہ مستور کی متا بعت کوئی دوسرا راوی کرے جو مرتبہ میں اس سے بہتر یا برابر ہو تو اس کی روایت حسن ہو جا تی ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :

’’ومتى تُوبعَ السيءُ الحفظ بمُعْتَبَرٍ: كأَنْ يكونَ فَوْقَهُ، أو مِثلَهُ، لا دونه، وكذا المختلِط الذي لم يتميز، والمستور، والإسناد المرسل، وكذا المدلَّس إذا لم يُعْرف المحذوف منه صار حديثُهم حسناً، لا لذاته، بل وصْفُهُ بذلك باعتبارِ المجموع ‘‘ ( نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر:ص234)

ترجمہ : جب سئی الحفظ راوی کی متا بعت کسی معتبر راوی سے ہو جا ئے جو مرتبہ میں اس سے بہتر یا برابر ہو کم نہ ہو، اسی طرح مختلط  راوی جس کی روا یت میں تمییز نہ ہو  سکے اور اسی طرح مستور ،مرسل اور مدلس  کوئی تا ئید کر دے تو ان سب کی روا یات  حسن ہو جائیں گی  اپنی ذا ت کی وجہ سے نہیں بلکہ مجمو عی حیثیت کے اعتبا ر سے ۔

ابو الحسنا ء کی متا بعت  ابو عبد الرحمن نے  کی ہے۔ (السنن الکبری للبیھقی ج2ص496)

اور یہ ابو الحسنا ء سے بڑھ کر ثقہ راوی ہے۔ اس لئے ابو الحسناء کی یہ روایت  جمہور کے نزدیک بھی مقبول ہے ۔

خلاصہ روایات:

ان روایات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بیس رکعت تراویح پرہمیشگی کی گئی۔